انسان کا حقیقی مال

 

     انسان کا حقیقی مال  

حدیث: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: يَقُولُ الْعَبْدُ مَالِي مَالِي إِنَّمَا  لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلاَثٌ:  مَا أَكَلَ فَأَفْنَى أَوْ لَبِسَ

 فَأَبْلَى أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ وَتَارِكُهُ لِلنَّاس, رواہ مسلم

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ بندہ میرا مال میرا مال کہتا ہے جبکہ اس کے مال میں سے صرف تین چیزیں اس کے لیے ہیں :جو اس نے کھا کرکے ختم کردیا  یا پہن کرکے پرانا کردیا یا کسی کو دے کرکے آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا , اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے تو وہ اس کو لوگوں کے لیے چھوڑ کے جانے والا ہے۔یہ مسلم کی روایت ہے۔

مختصر شرح: یہ دنیا ہے اور اس دنیا کا ہر شخص اپنی دنیاوی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے فطری طور پر  مال و دولت کا خواہش مند ہوتا ہے, مال و زر  کمانے کے لیے وہ دوڑ و بھاگ کرتا ہے , محنت و کوشش کرتا ہے , خون و پسینہ بہاتا ہے ,  اپنی زندگی کا اکثر حصہ اسی میں لگا دیتا ہے تاکہ وہ اپنی دنیاوی حاجات کو تکمیل تک پہنچا سکے  , اور یہ دین اسلام میں کوئی معیوب بات نہیں ہے اور نہ ہی مذموم ہے بلکہ یہ شرعا مطلوب ہے اور ہر شخص کی دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مال و دولت  کمائے , روزی حاصل کرے کیونکہ اس کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا ممکن نہیں ہے ۔ اور ایک مسلمان پر فرض ہے کہ وہ حلال روزی کمائے ۔

لیکن اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مال و دولت کے بہت زیادہ حریص ہوتے ہیں ۔ دنیا پرست و مادہ پرست ہوتے ہیں ۔ ان کا نصب العین صرف اور صرف مال جمع کرنا اور عیش کرنا ہوتا ہے ۔ نہ ان کو حلال و حرام کی پرواہ  ہوتی ہے اور نہ عبادت و اطاعت الہی کی, اس میں نہ وہ حقوق اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں اور نہ حقوق العباد کو پورا کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں مال و دولت کو فتنہ و دشمن  قرار دیا گیا ہے اور یہ عمل نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ غیر شرعی و قابل عذاب ہے ۔

چنانچہ اس حدیث میں ایک مسلمان کو اس کے ذریعہ جمع کردہ مال کی حقیقت سے آگاہ کیا  گیا ہے , اور اس کو مال کے فتنہ سے آگاہ کرتے ہوئے نیکی و بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے پر ابھارا گیا ہے , اور اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس کا حقیقی مال کیا ہے ۔   

لہذا ایک عقلمند و ہوشیار  مومن وہ ہے جس نے اپنی دنیا سے اپنی آخرت کی تعمیرکی ,  اور اپنی مال و دولت کے ذریعہ اپنی موت کے بعد کی تیاری کی,  اور غافل وہ ہے جس کو اس کے مال و دولت نے دھوکا میں ڈال دیا , اور اس کی محبت اس کے دل میں جاگزیں ہوگئی , اس کی حرص و ہوس اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گئی , اس وجہ سے وہ مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کے رکھتا ہے , اس کا ذخیرہ کرتا ہے لیکن اپنے رب کا شکریہ نہیں ادا کرتا ہے , زکاۃ نہیں نکالتا ہے اور نہ ہی  اپنے مال میں سے اللہ کا فرض کردہ فقراء و مساکین کا حق دیتا ہے۔

مذکورہ بالا حدیث میں نبی کریم نے انسانی نفسیات کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ ایک انسان کہتا ہے کہ میرا مال , میرا مال یعنی میرا مال اتنا ہے , اور اس کو وہ فخر کرتے ہوئے شمار کرتا ہے , اور وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کیونکہ وہ مال کے مقصد اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج سے بے خبر ہے , وہ مال کی ازحد محبت میں گرفتار ہے اور وہ اس کے لیے فتنہ بن چکا ہے ۔پھر آپ نے بیان فرمایا کہ ایک  انسان کے پاس خواہ کتنا ہی مال ہو اس کو اس سے صرف تین محدود و متعین فوائد حاصل ہوتے ہیں , جن میں سے صرف ایک باقی رہنے والا فائدہ ہے , جب کہ دوسرے منافع و فوائد فانی اور ختم ہوجانے والے ہیں , ان میں سے کچھ بھی صاحب مال کے لیے باقی نہیں رہتا ہے , وہ تین فوائد ہیں:---

پہلا فائدہ وہ ہے جو اس نے کھالیا یعنی جو اس نے اپنے مال میں سے  خورد و نوش اور اپنی بدن کی غذائیت پر خرچ کیا , اور کھا پی کر اس کو ختم کردیا ۔

دوسرا فائدہ : وہ ہے جو اس نے اپنے مال و زر سے  کپڑا  خریدا اور اس کو پہن کے پرانا کر ڈالا ۔

تیسرا فائدہ : وہ ہے جو اس نے اپنے مال و زر میں سے صدقہ کردیا اور آخرت کے لیے ذخیرہ کرلیا ۔اور یہ باقی رہنے والا فائدہ ہے ۔

ان مذکورہ بالا تینوں فوائد کے علاوہ انسان کے پاس جو بھی اور جس قدر بھی مال ہے وہ اس کا اپنا نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ اس کو ملنے والا ہے کیونکہ ایک دن موت کے ذریعہ وہ ان تمام مال و اسباب سے جدا ہوجائے گا اور اس کو اپنے وارثین کے لیے چھوڑ کر آخرت کی طرف روانہ ہوجائے گا ۔ اور بلا شبہ قیامت کے دن اس سے اس کے مال کا حساب و کتاب ہوگا اور ممکن ہے کہ اس کو سزا بھی ہو۔

اس حدیث میں اس اٹل حقیقت کی طرف رہنمائی کی گئی ہے کہ ایک انسان کا حقیقی مال وہی ہے جو اس نے اپنی زندگی میں استعمال کر لیا اور اس سے فائدہ اٹھا لیا ۔ خواہ وہ فوری فائدہ ہو مثلا کھانا پینا , لباس وغیرہ یا باعتبار انجام اس کا فائدہ اس کو ملتا ہو جیسے : صدقہ و خیرات کرنا, صلہ رحمی کرنا اور نیکی و بھلائی کے تمام کاموں میں خرچ کرنا ۔اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ اس کے وارثین کا ہے اور اس کو اس سے کچھ ملنے والا نہیں ہے بلکہ اس کی ذمہ داری اس کے اوپر عائد ہوتی ہے ۔اگر حلال مال ہے تو اس سے اس کا حساب لیا جائے گا کہ کہاں سے کمایا اور کس طرح خرچ کیا , اور اگر حرام ہے تو اس کو اس کی سزا ملے گی۔

معلوم ہوا کہ  ایک دانا , ہوشیار اور عقلمند مسلمان وہی ہے جو شریعت کے مطابق مال و دولت کماتا ہے اور اس سے اپنی آخرت بناتا ہے ۔ اور انسان کا حقیقی مال وہی ہے جووہ کھانے , پینے , پہننے اورصدقہ و خیرات کرنے میں استعمال کرتا ہے , انسان کے جمع کردہ مال کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں ہے ۔ لہذا اسے ہمیشہ خبردار رہنا چائیے کیونکہ وقت گذر جانے کے بعد ندامت کا اظہار کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے ۔

دور حاضر کے مسلمان:موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اکثریت مال و دولت کی محبت میں گرفتار ہے , اس کی حرص و ہوس ان کے دل میں پیوست ہوگئی ہے ۔ وہ دنیاداری اور مادہ پرستی میں سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے ہیں,یہی وجہ ہے کہ مال و دولت ان کے لیے فتنہ اور دشمن ہےکیونکہ اس کی وجہ سے وہ طاعت و بندگی سے غافل ہیں , حقوق اللہ و حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں۔مال کمانے کی محبت میں فرائض و عبادات انجام نہیں دیتے ہیں۔ وغیرہ

 لہذا اس حدیث کی روشنی میں موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو اپنا احتساب کرنا چائیے اور ان کو یقینی طور پر جان لینا چائیے کہ ان کا حقیقی مال وہی ہے جس کو انہوں نے حدیث میں مذکور طریقوں کے مطابق استعمال کر لیا ۔ اس کے علاوہ بقیہ سب کچھ دوسروں کا ہے ۔ لہذا ان کو مال کے کمانے میں شرعی حدود و قیود کی رعایت ضرور کرنی چائیے اور دوسروں کے لیے اپنی آخرت کو تباہ و برباد  نہیں کرنی چائیے ۔

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس حدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: