برائی کو روکنے کے اصول و ضوابط

 

             برائی کو روکنے کے اصول و ضوابط

حدیث: عن أبی سعید الخدری رضى اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ یقول: من راى منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذلک أضعف الایمان (مسلم)

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے ان کا کہنا ہے کہ میں نبی کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے کسی کی نظر اگر کسی برائی پر پڑتی ہے تو اس کو اپنے ہاتھ سے  مٹا دے ۔ اگر اس کو اس کی قدرت نہیں ہے تو اپنی زبان سے روکے  , اور اگر وہ اس سےبھی  عاجز ہے  تو اپنے دل سے برا جانے  اور یہ سب سے کمزور  ایمان ہے ۔

معانی کلمات:  ید عربی زبان میں کئی معانی کے ےلیے استعمال ہوتا ہے , اس کا ایک معنى ہاتھ ہے جو انسانی جسم کا ایک عضو ہے ۔ایک دوسرا معنى نعمت اور احسان ہے ۔ اسی طرح یہ سلطان, قدرت اور قوت, جاہ کے معنی میں آتا ہے ۔ اس کا ایک معنى جماعت و انصار کا بھی ہے,  ملکیت و قبضہ  کے معنى میں بھی اس کا استعمال  ہوتا ہے بولا جاتا ہے ہو فی یدی: یعنی وہ میری ملکیت میں ہے  ۔ غرضیکہ یہ بہت سارے معانی پر دلالت کرتا ہے ۔ یہاں پر طاقت اور قدرت مراد ہے ۔

منکر : جو بذات خود قبیح ہو اور یہ دو طریقوں : شریعت کی نہی اور عقل کی دلالت سے جانا جاتا ہے لیکن انسان گناہ گار اسی وقت ہوگا جب شریعت نے اس سے روکا ہو ۔ اور اس کا ضد معروف ہوتا ہے ۔اس میں خواہشات کا کوئی دخل نہیں ہے ۔

یغیرہ  ای یزلہ یعنی اس کو مٹادے , ختم کردے ۔

شرح : اللہ تعالى نے اس امت کو  سب سے افضل و بہتر امت بنایا ہے اور اس کو تمام قوموں پر فضیلت عطا کی ہے اور شرف سے نوازا ہے کیونکہ یہ بھلائی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے , خیر کی طرف دعوت دیتی ہے اور آسانی  و نرمی سے نصیحت کرتی  ہے ۔اب اگر یہ خصلتیں حقیقی طور پر کسی معاشرہ میں پائی جاتی ہیں تو وہ ایک فاضل معاشرہ بن جاتا ہے ۔۔(موقع الدرر السنیۃ, الموسوعۃ الاحادیثیۃ, شروح الاحادیث)

یقینا اس امت کی افضلیت اور برتری کا گہرا اور مضبوط تعلق اس کا حق کی  طرف دعوت دینے , دین کی حمایت کرنے اور اس کا باطل سے جنگ کرنے کی وجہ سے ہے ۔ کیونکہ اگر وہ اس واجب کو ادا کرتی ہے تو اس سے اس کو زمین پر سلطنت و طاقت حاصل ہوتی ہے , توحید کا علم بلند ہوتا ہے , اللہ کی شریعت اور اس کا دین کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے ۔ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو اس کو دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہیں اور اس کو وہ مقام و مرتبہ عطا کرتی ہیں  جو اس کے ما سوا کو حاصل نہیں ہیں ۔ اسی وجہ سے اللہ نے اپنی کتاب عزیز میں اس کی تعریف کی ہے : کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنہون عن المنکر و تؤمنون باللہ (آل عمران/110) یعنی تم سب سے بہتر و افضل امت ہو جسے لوگوں کے لیے پیدا کیاگیا  ہے کیونکہ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو, برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (موقع اسلام ویب, المقالات, حدیث: من رای منکم منکرا...)

اس کے علاوہ اس ربانی  فریضہ کو ادا کرکے معاشرہ کی کشتی کو غرق ہونے سے بچا سکتے ہیں , اس کی عمارت کو شگاف سے محفوظ رکھ سکتے ہیں , اس کی شناخت کو مٹنے سے بچا سکتے ہیں , اس کی رفعت و بلندی کو باقی رکھ سکتے ہیں  اور اللہ کے عذاب و اس کی سزا سے نجات پا سکتے ہیں ۔ (موقع اسلام ویب, المقالات, حدیث: من رای منکم منکرا...)

 اس حدیث میں  خطاب عام ہے جو  تمام مسلمانوں : مردوں , عورتوں, بوڑھوں  جوانوں بڑوں و چھوٹوں سب کو شامل ہے ۔ آپ نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے جب  کسی کو بھی کسی برائی کا علم ہو یا اس کو دیکھے  تو اس کو اسے بدلنے اور مٹانے کی کوشش کرنی چائیے کیونکہ برائی کا مٹانا اور بھلائی کو فروغ دینا اسلام کا مشن ہے ۔ اللہ کی رضامندی و اس کی قربت ہے ۔ مسلمانوں کا شیوہ اور ان کا دستور ہے ایک مسلمان اپنے سامنے برائی کو ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ہے خواہ وہ  قولی, فعلی , دینی , سماجی, سیاسی, عقائدی وغیرہ کسی بھی قسم کی برائی ہو۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برائی کو کس طرح مٹایا جائے ؟ اس کے اصول و  ضوابط , قوانین  و قواعد کیا ہیں ؟ کیا ہر شخص کے لیے ہر برائی کو مٹانا ضروری ہے ؟ برائی سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے وغیرہ ؟    انہیں سوالوں کا جواب اس حدیث میں پوشیدہ ہے  ۔

لہذا انہیں اصول و ضوابط کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے اور انہیں قوانین و قواعد کی اس میں وضاحت کی گئی ہے ۔ اور برائی مٹانے کے تعلق سے ہر ایک کی ذمہ داری کا تعین کر دیا گیا ہے  کیونکہ اللہ تعالى انسان کی فطرت سے واقف ہے اور وہ اس کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف ہرگز نہیں بناتا ہے ۔ اسی لیے اس حدیث میں بھی برائی مٹانے والوں کے امکانیات , وسائل , طاقت و قوت کو مد نظر رکھتے ہوئے  برائی مٹانے کے  تین درجات کو واضح طور پر بیان کردیا ہے تاکہ برائی مٹانے والا اور اس سے روکنے والا کسی مصیبت و پریشانی کا شکار نہ ہو ۔اور ہر کوئی اطمینان کے ساتھ اپنی طاقت و قوت کے اعتبار سے یہ فریضہ انجام دے ۔ وہ تین درجات درج ذیل ہیں:۔۔

پہلا درجہ: ہاتھ سے  یعنی بزور طاقت و قوت برائی کے  مٹانے کا ہے ۔ اور جو اس پر قدرت رکھتا ہے اس کے لیے ہاتھ سے برائی کا مٹانا واجب ہے ۔اور یہ حکومت و سلطنت اور اس کے مختلف شعبوں و اداروں  کا کام ہے جن کو اس کا مکلف بنایا جاتا ہے اور جن  کے پاس کافی  پاور ہوتا ہے اور ان کو نقصان کا کوئی ڈر نہیں ہوتا ہے  ۔مثلا پولس, کورٹ اور دیگر ادارے , یا جس کے پاس   حکومت کے علاوہ محدود قدرت ہے بشرطیکہ یہ عمل حکمت کے ساتھ ہو اور اس برائی کے مٹانے پر اسی کے مثل یا اس سے  بڑی برائی مرتب نہ ہو۔ مثلا والد یا سربراہ گھر و قبیلہ کو قدرت ہوتا ہے تو وہ بزور قوت برائی کو مٹا سکتا ہے ۔ مثلا باپ اپنے بیٹے کو زبردستی کسی برائی سے روک سکتا ہے ۔ اس کی پٹائی کر سکتا ہے یا سردار قبیلہ کسی کو سزا دے سکتا ہے اور معلم مدرسہ میں کسی طالب علم کو زبردستی برائی سے روک سکتا ہے  وغیرہ

دوسرا درجہ: زبان سے برائی کو روکنے کا ہے ۔ اور یہ وعظ و نصیحت کے ذریعہ  مناسب اسلوب, نرم لہجہ اور عمدہ طریقہ سے ہوتا ہے  جس سے اشتعال نہ پیدا ہو اور نہ ہی اس سے بڑی برائی اس پر مرتب ہو ۔یا سختی , ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعہ بھی ہوتا ہے ۔ ان میں جو بھی نفع بخش ہو اس کو حالات کے اعتبار سے اختیار کیا جائے  کیونکہ بسا اوقات نرمی و ملائمت سے وہ کام ہوجاتا ہے جو تلوار اور طاقت سے بھی نہیں ہوتا ہے ۔

تیسرا درجہ: برائی کو دل سے برا جاننے کا ہے ۔ یہ ہر شخص پر واجب ہے اور کوئی اس کے چھوڑنے پر معذور نہیں جانا  جائے گا  کیونکہ یہ دل کا معاملہ ہے ۔ اس کے چھوڑنے پر کسی کے  مجبور کیے جانے  یا اس کے کرنے سے بے بسی و عاجزی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ (موقع اسلام ویب, المقالات, حدیث: من رای منکم منکرا...)  اور دل سے برا جاننے کا مطلب ہے  کوئی شخص زبان سے بھی برائی کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکتا ہے ۔ اپنے کو عاجز پاتا ہے کیونکہ برائى کرنے والا بہت طاقت ور ہے یا اس کے پاس پاور ہے اور وہ اس کا غلط استعمال کر سکتا ہے تو ایسی صورت میں وہ برائی مٹانے کا مکلف نہیں ہے بلکہ وہ اسے اپنے دل سے برا جانے  ۔ اس برائی کو نا پسند کرے, اور حسب استطاعت برائی کی جگہ کو چھوڑ دے (موسوعۃ الاحادیث النبویہ/المکتبۃ الشاملۃ, حدیث نمبر: 34, ص 66)  اس کا عزم ہو کہ اگر برائی کے مٹانے پر قادر ہوگا تو اس کو مٹا دے گا  ۔ اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ۔اس کے بعد برائی کو مٹانے کا اور کوئی درجہ نہیں ہے ۔  لہذا مسلم میں حضرت ابن مسعود کی روایت میں ہے : و لیس وراء ذلک من الایمان حبۃ خردل  یعنی اس کے بعد رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہیں ہوتا ہے ۔ اور حضرت على بن ابو طالب کا قول ہے : جہاد کی پہلی قسم جس پر تم مغلوب ہوجاؤگے تمہارا اپنے  ہاتھوں سے جہاد کرنا ہے پھر زبانوں سے جہاد کرنا ہے اور پھر دلوں سے جہاد کرنا ہے ۔ اس لیے جب کسی کا دل معروف نہ جان سکے اور برائی کا انکار نہ کرے تو وہ  پلٹ جاتا ہے ۔

اور  جب  یہ امت مکمل طور سے اس فریضہ کو ضائع کر دیتی ہے اور اس پر عمل کرنا بند کردیتی ہے تو مسلم معاشروں میں برائیاں عام ہوجاتی ہیں اور ان میں فساد و بگاڑ پھیل جاتا ہے ۔ اور ایسی صورت میں اس پر عذاب الہی کے نزول کا خطرہ ہوتا ہے اور وہ اللہ کے غضب و ناراضگی کی حقدار بن جاتی ہے ۔

اور جو بھی گذشتہ قوموں کے حالات پر غور و فکر کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی و بقاء کا دارو مدار اس امانت کی ادائیگی سے مشرو ط تھا ۔ اور قرآن کریم میں بھی ان قوموں کی کچھ اخبار کا ذکر آیا ہے جن میں سب سے نمایاں بنو اسرائیل قوم ہے جن کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: لعن الذین کفروا...(مائدہ/78-79)

بنو اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد اور عیسى بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ نافرمان, سرکش اور زیادتیاں کرنے والے تھے ۔ آپس میں ایک دوسرے کو ان برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے روکتے نہ تھے , جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقینا وہ بہت برا تھا۔  (موقع اسلام ویب, المقالات, حدیث: من رای منکم منکرا...)

اس واجب میں کوتاہی بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ اس سے لوگ برائی سے مانوس ہوجاتے ہیں ۔ اس کو پسند کرنے لگتے ہیں اور ان کے دلوں سے اس کا بغض و نفرت ختم ہوجاتا ہے , پھر وہ ان کے اندر پھیل جاتا ہے اور سرایت کرجاتا ہے جس سے سماج و معاشرہ کی کشتی  ڈوب جاتی ہے اور اس کی عمارت منہدم ہوجاتی ہے ۔اور اس بابت ہمارے رسول نے اس حقیقت کی وضاحت کرنے والی ایک بہت ہی شاندار مثال بیان کی ہے  ۔ چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا::" مثل القائم على حدود الله والواقع فيها، كمثل قوم استهموا على سفينة فاصاب بعضهم اعلاها وبعضهم اسفلها، فكان الذين في اسفلها إذا استقوا من الماء مروا على من فوقهم، فقالوا: لو انا خرقنا في نصيبنا خرقا ولم نؤذ من فوقنا، فإن يتركوهم وما ارادوا هلكوا جميعا، وإن اخذوا على ايديهم نجوا ونجوا جميعا".

 ترجمہ: اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں واقع ہونے والے (یعنی ارتکاب کرنے والے) کی مثال ان  لوگوں کی طرح  ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا حصہ ملا ۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں(دریا سے) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی  والے بھی بچ جائیں گے ۔ (موقع اسلام ویب, المقالات, حدیث: من رای منکم منکرا...)

حدیث کے فوائد:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے واجب ہونے کی دو شرطیں ہیں :---

ایک شرط یہ ہے کہ آدمی کو کام کے خیر و شر ,  بھلا یا برا ہونے کا علم ہو  کیونکہ جاہل کو اس کا علم نہیں ہوتا ہے ۔ دوسری شرط یہ ہے اس کو روکنے کی قدرت ہو کیونکہ آپ نے فرمایا ہے فان لم یستطع ....یعنی اگر اس کو طاقت نہیں ہے ۔ معلوم ہوا کہ غیر طاقت و قدرت والے یا بلفظ دیگر عاجز  پر واجب نہیں ہے بلکہ وہ صرف اپنے دل سے برا جانے گا ۔(موقع الدرر السنیۃ, الموسوعۃ الاحادیثیۃ, شروح الاحادیث)

برائی مٹانے کے کئی درجات ہیں لہذا ہر شخص اپنی طاقت و قوت کے اعتبار سے اس کو مٹائے گا ۔

اگر کوئی شخص برائی کے پائے جانے اور رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود برائی کو نہیں مٹاتا ہے تو وہ اس کے نہ مٹانے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔

دل سے بھی برائی کو برا نہ جاننا کمزوری ایمان کی دلیل ہے ۔

برائی کو تحقیق اور یقین کے بعد مٹایا جائے گا ۔

ہر ممکن وسیلہ سے برائی کا مٹانا واجب ہے خواہ وہ ہاتھ یا زبان یا دل کے ذریعہ ہو ۔  (موسوعۃ الاحادیث النبویہ/المکتبۃ الشاملۃ, حدیث نمبر: 34, ص 66)  

برائی کو بدلنے کے لیے اسباب کو اختیار کیا جائے گا ۔

بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنے  کا اسلام میں بہت اونچا مقام و مرتبہ ہے کیونکہ  یہی معا ملہ کا بنیادی عنصر  ہوتا ہے  اور اسی سے معاملہ بہتر ہوتا ہے ۔

شریعت نے برائی کو مٹانے پر لوگوں کی طاقت و قدرت کے اختلاف کو مد نظر رکھا ہے ۔

فرد اپنے ماتحت لوگوں کی رہنمائی کرے اور حاکم اپنے رعایا کی رہنمائی کرے اور اگر ان سے کسی برائی کا صدور ہو تو اس کو مٹادے ۔

ایمان کے کئی مراتب ہیں اس میں قول و عمل اور نیت بھی ہے اور اس کے کئی درجات ہیں وہ کم اور زیادہ ہوتا ہے ۔ (موسوعۃ الاحادیث النبویہ/المکتبۃ الشاملۃ, حدیث نمبر: 34, ص 66)  

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گستاخ رسول یا تو ہین رسالت کے مرتکب پر حد جاری کرنا کسی فرد یا شخص کا کام نہیں ہے بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ اس کی طاقت سے باہر کی چیز ہے اور اس سے بہت سارے مفاسد و اضرار لازم آتے ہیں جیسا کہ اسی شمارہ کے تدبر قرآن میں بیان کیا گیا ہے (راقم)۔

آخر میں ہر مسلمان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ کسی خاص فرد , گروہ یا جماعت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ہم تمام  کی ذمہ داری ہے  اور اس امت کے  ہر فردسے مطالبہ ہے کہ وہ  اپنی طاقت کے مطابق اس ذمہ داری کو ادا کرے۔ اور بلا شبہ اس امت میں بہت زیادہ خیر ہے لیکن پھر بھی مزید کوشش و محنت کی حاجت ہے  جو امت کے بقاء کی  محافظ ہو اور اس کی عمارت کے ٹوٹنے اور ےاس کے ارکان کے متزلزل ہونے میں رکاوٹ بن سکے ۔ ۔ (موقع اسلام ویب, المقالات, حدیث: من رای منکم منکرا...)

دور حاضر کے مسلمانوں کی حالت : یہ فریضہ اسلام میں جس قدر اہمیت  و عظمت کا حامل ہے اور جس قدر اس کی تاکید کی گئی ہے  اسی قدر مسلمان آج کے دور میں اس سے غفلت کا شکار ہیں ۔اکثر مسلمان حکومتیں اس پر توجہ نہیں دیتی ہیں ۔ ان کے یہاں یہ اہم شعبہ پایا ہی نہیں جاتا ہے ۔ سعودی عرب صرف ایک ملک ہے جہاں یہ شعبہ بہر حال قائم ہے اور کام کر رہا ہے ۔ غیر اسلامی ممالک میں تو حالت نا گفتہ بہ ہے ۔ مسلمان اپنے دین کی اہمیت و عظمت کے ساتھ اپنے دین ہی سے جاہل ہے ۔ اس کے پاس دنیا کا ہر کام کرنے کے لیے وقت ہوتا ہے لیکن دین سیکھنے کے لیے , اس پر عمل کرنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے ۔ آج کے اکثر مسلمان دین بیزار ہیں تو وہ پھر اس  اہم فریضہ پر عمل کیوں کریں گے ۔ جب وہ خود عمل نہیں کرتے ہیں تو وہ دوسروں کو عمل کی دعوت کیوں دیں گے ۔ جب وہ خود ہر قسم کی برائیوں میں ملوث ہیں تو وہ دوسروں کو برائیوں سے کیوں منع کریں گے ۔

اسی وجہ سے آج کے  بہت سارے مسلمان معاشرہ  میں نیکیوں کی قلت ہے , بھلائیوں کی کمی ہے ۔ اخلاص  و احساس کا فقدان ہے۔ فساد و بگاڑ عام ہے ۔ برائیوں کا دور دورہ ہے ۔ حقوق کی پامالی ہے ۔ ظلم و ستم کی بھر مار ہے ۔ قتل و غارتگری اور خونریزی ہے ۔ عدل و انصاف ختم ہوچکا ہے ۔ ظالموں  کی کثرت ہے , مظلوموں کی سسکیاں و آہیں ہیں ۔ عریانیت و بے حیائی عروج پر ہے ۔ وغیرہ

اور یہ سب امر بالمعروف و النہی عن المنکر جیسے اہم و عظیم فریضہ سے غفلت کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے یہ امت بہت ساری مشکلات و پریشانیوں کا شکار ہے ۔ اللہ تعالى ہم سب کو عقل سلیم عطا کرے اور اس اہم فریضہ کو ادا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین  

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: