دعا میں جارحیت اور زیادتى

 

                       دعا  میں جارحیت  اور زیادتى

آیت: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ( أعراف/55)

ترجمہ:  تم لوگ اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے اور مخفی طور پر دعائیں کرو , واقعى وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے ۔

معانی کلمات:

دعا: پکارنا, رغبت کرنا , مدد طلب کرنا, دعا لہ: دعا کرنا, دعا علیہ: بد دعا کرنا, دعا الیہ : کسی چیز کی طرف بلانا

 تضرع:اس کا اصل مادہ ض ر ع ہے ۔ مصدر ضراعت ہے ۔ اس کا معنى  ذلت , عاجزی, تواضع,  مسکنت ,  اطاعت ,  ذلیل ہونا , چپکے چپکے قریب آنا وغیرہ ہے  ,  تضرع اى أظہر الضراعۃ و الخضوع یعنی اس نے  عاجزی, مسکنت, ذلت , خشوع و تابعداری کا اظہار کیا, تضرع الى اللہ : عاجزی سے دعاء کرنا ( الوسیط للطنطاوی و مصباح اللغات)

خفیہ: یہ خفی کا مصدر ہے , خا پر ضمہ و کسرہ دونوں کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ۔ چھپ جانا, پوشیدہ ہوجانا , اور بلند آواز سے دعا نہ کرنا۔

معتدین: یہ اعتدى سے اسم فاعل ہے ۔ کہا جاتا ہے: اعتدى الحق و عن الحق و فوق الحق : تجاوز کرنا, حد سے گذرنا, اعتدى على فلان کا معنى ہے ظلم کرنا , تکلیف دینا ۔(مصباح اللغات)  

تفسیر: بلا شبہ دعا کی ہمارے دین اسلام میں بہت زیادہ اہمیت و افادیت ہے ۔ بہت ساری آیات و احادیث میں اس کی اہمیت و فضیلت کا ذکر ہے ۔ دعا کو عبادت اور اس کا مغز قرار دیا گیا ہے ۔ دعا انسان اور اللہ کے درمیان تعلق کا ایک مضبوط ذریعہ ہے ۔دعا کے بہت سارے فوائد و منافع ہیں ۔  خود ہمارے نبی کریم, صحابہ کرام اور اسلاف بکثرت دعائیں کرتے تھے۔ لیکن دعا کی قبولیت کے لیے بہت سارے آداب و احکام , شرو ط و ضوابط ہیں جن میں سے چند کا ذکر اس آیت میں کیا  گیا ہے  ۔

  اس آیت میں اللہ تعالى نے اپنے بندوں کو حکم دیا  ہے  کہ وہ اس سے زیادہ سے زیادہ  عاجزی و مسکنت , ذلت و تابعداری , تواضع , راز داری اور پردہ پوشی کے ساتھ   دعائیں مانگیں کیونکہ صرف  وہی ان کی دعاؤں کو سنتا ہے ۔مجبور و مقہور کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے ۔ مصائب و پریشانیوں کو دور کرتا ہے ۔  اور صرف وہی ایسا کرنے پر قادر ہے اور اسی میں  ان کے لیے دنیا و آخرت دونوں کے فوائد و منافع ہیں۔

اور اللہ تعالى نے اپنے بندوں کو عاجزی و مسکنت, ذلت و خواری , تابعداری و خشوع , گریہ زاری و آہستگی  کے ساتھ بکثرت دعائیں کرنے کا حکم اس لیے دیا ہے  کیونکہ دعا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سچے دل کے ساتھ رجوع کیا جائے، اور اخلاص اور یقین کے ساتھ اس سے مدد طلب کی جائے، تاکہ وہ مصیبت و پریشانی کو دور کرے ۔ خیر عطا کرے  اور گردش زمانہ پر مدد کرے ۔ اور س میں کوئی شک نہیں کہ اس حالت میں انسان روحانی سکون اور نفسی پاکیزگی کے اعلیٰ درجے پر ہوتا ہے اور وہ اپنی عاجزی اور کمی کا اور اپنے رب کی قدرت و کمال کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ  واحد کے حضور عبادت اور سر تسلیم خم کرنے کی سب سے باوقار صورتیں بھی انجام دے رہا ہوتا ہے۔ ( الوسیط للطنطاوی)

بعد ازاں اللہ عز و جل نے بذات خود  دعا کے کچھ احکام و آداب بتلائے ہیں  جن میں سے ایک ہے تضرع یعنی  عاجزی, مسکنت, تواضع و ذلت وغیرہ ۔ دوسرا ہے پوشیدہ طور پر, آہستگی سے دعا کرنا , تیسرا ہے : دعا  میں جارحیت اور زیادتی نہ کرنا یعنی  حد سے تجاوز نہ کرنا ۔ یہ تین آداب اس آیت میں مذکور ہیں ۔

ان میں سے دو کے بارے میں تو عام طور سے لوگ واقف ہیں لیکن تیسرے یعنی دعا میں حدسے تجاوز کرنے کے بارے میں بہت سارے لوگ نہیں جانتے ہیں لہذا اس کی بابت گفتگو کچھ تفصیل سے یہاں پر ہوگی۔

تضرع: اس کا معنى و مفہوم بہت ہی وسیع جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا ہے ۔ اس میں عاجزی, ذلت, مسکنت, خشوع و خضوع, تابعداری , اطاعت وغیرہ سب شامل ہے ۔ لہذا دعا کو ان تمام صفات پر مشتمل ہونا چاہئیے ۔ اور اگر دعا تضرع سے خالی ہے تو  اس دعا میں خلل و خرابی ہے  اور اس قسم کی دعا کا نفع بہت کم ہوتا ہے ۔اور جس دعا میں جتنی زیادہ تضرع ہوتی ہے وہ دعا اتنے ہی جلدی بارگاہ الہی میں قبول ہوتی ہے  ۔

آہستگی سے دعا کرنا: دعا کے اہم آداب میں سے  ایک یہ بھی ہے کہ دعا کرنے والا آہستہ سے اپنے رب کو پکارے , اپنی آواز کو پست رکھے ۔ اس کو بلند نہ کرے خصوصا چیخنا و چلانا تو بالکل منع ہے ۔دعا کے منافی ہے ۔ کیونکہ اس سے دعا کا وقار ختم ہوجاتا ہے ۔ قرآن و احادیث میں اس کے بہت سارے دلائل ہیں جن میں سے ایک روایت حضرت ابو موسى اشعری کی ہے قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فكنا إذا أشرفنا على واد هللنا وكبرنا وارتفعت أصواتنا. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أيها الناس،اربعوا على أنفسكم- أى ارفقوا بها- وأقصروا من الصياح- فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا.إنه معكم. إنه سميع قريب. تبارك اسمه وتعالى جده» .

وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ( ایک سفر میں )   نبی کریم کے ساتھ تھے  لہذا جب ہم کسی وادی یعنی پست جگہ  کے قریب و سامنے ہوتے  تو لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر کہتے اور اپنی آوازیں بلند کرتے ۔ اس پر نبی کریم نے فرمایا:  اے لوگو: اپنے نفسوں پر نرمی کرو ۔ اور شور مچانے سے پرہیز کرو۔کیونکہ تم کسی بہرے  اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو ۔ یقینا وہ تمہارے ساتھ ہے ۔ بلا شبہ وہ سننے والا اور قریب ہے ۔ اس کا نام با برکت ہے   اور اس کا جلال و عظمت بڑا و  بلند ہے ۔ (بخاری و مسلم)

لیکن آج کل  بہت سارے مسلمانوں کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ وہ مسجدوں میں دعاؤں میں چیخ و پکار مچاتے ہیں جس سے وہ دو بدعتوں کا ارتکاب کرتے ہیں  ایک تو زور سے دعا کرنا اور دوسرے مسجد میں زور سے پکارنا ۔ لہذا ہر مسلمان کو چائیے کہ وہ دعا کرتے وقت اس کے آداب و اطوار کو ملحوظ رکھے تاکہ اس کی دعا قبول ہو۔( الوسیط للطنطاوی)  

دعا میں جارحیت یعنی حد سے تجاوز کرنا:   یہ آیت میں مذکور تیسرا اہم ادب ہے جس سے اکثریت نا واقف ہے ۔ لہذا اس کے بارے میں بقدرے تفصیل گفتگو کی جاتی ہے ۔

اللہ تعالى نے فرمایا : انہ لا یحب المعتدین  , اعتداء کا مطلب ہے حد سے تجاوز کرنا یعنی  وہ ہر چیز میں حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ، اور دعا میں زیادتی بدرجہ اولى  اس میں شامل ہے ۔ دعا میں جارحیت کا ایک مظہر یہ ہے کہ آدمی ان دو چیزوں کو ترک کردے جو تضرع اور آہستگی سے دعا کرنا ہے  اسی طرح دعا میں جارحیت کا ایک مظہر یہ ہے کہ آدمی اس میں تکلف و تصنع سے کام لے ۔

روى أبو داود في سننه أن سعد بن أبى وقاص سمع ابنا له يدعو ويقول: اللهم إنى أسألك الجنة ونعيمها وإستبرقها ونحوا من هذا، وأعوذ بك من النار وسلاسلها وأغلالها. فقال له يا بنى: إنى سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إنه سيكون قوم يعتدون في الدعاء ثم قرأ سعد هذه الآية ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً وإن بحسبك أن تقول: اللهم إنى أسألك الجنة وما قرب إليها من قول أو عمل، وأعوذ بك من النار وما قرب إليها من قول أو عمل »

ابوداؤد نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے کہ سعد بن ابی وقاص نے اپنے بیٹے کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا: اے اللہ میں تجھ سے جنت، اس کی نعمت، اس کی چمک اور اس جیسی چیزوں کا سوال کرتا ہوں، اور میں جہنم اور اس کی زنجیروں اور طوق سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ .تو آپ  نے اس سے کہا: اے  میرے بیٹے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ایسے لوگ ہوں گے جو دعا میں زیادتی کریں گے۔" پھر سعد رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی۔: "اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے پکارو، اور تمہارے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جو قول و فعل اس سے  قریب کر دے، اور میں تجھ سے جہنم سے پناہ مانگتا ہوں اور ہر  اس قول و عمل سے جو اس سے قریب کردے ۔"    

دعا میں جارحیت و زیادتی کے مظاہر و شکلیں درج ذیل  ہیں:---

1 - بہت زیادہ اونچی آواز میں دعا کرنا  اور چیخنا چلانا ؛ جیسا کہ اوپر درج ہے.

2 -  ایسی چیز کی دعا کرنا جس کو اللہ ہرگز نہیں کرے گا  یا کسی محال و ناممکن چیز کی  دعا کرنا۔ مثال کے طور پر : کوئی شخص نبی کا درجہ پانے کے لیے دعا کرتا ہے  یا یہ سوال کرتا ہے کہ اللہ تعالی اس کو قیامت تک زندگی عطا فرمائے یا یہ دعا مانگتا ہے کہ اللہ تعالى اس سے انسانیت کے لوازمات کو ختم کردے اور اسے  کھانے پینے کی حاجت نہ ہو ۔ یہ یہ دعا کرنا کہ اللہ تعالى اس کو اپنے غیب پر مطلع کردے یا اس کو معصوم بنا دے یا اس کو بنا بیوی کے بچے عطا فرمائے وغیرہ ۔ یہ سب جارحیت ہے جس کو اللہ پسند نہیں کرتا ہے اور نہ اس کے سوال کرنے والے کو پسند کرتا ہے ۔   

3 – ایسی چیز کی دعا کرنا جو جائز نہیں ہے  مثلا حرام چیزوں   کو طلب کرنے کی دعا کرنا  اور ان پر اللہ کی مدد چاہنا  وغیرہ( الوسیط للطنطاوی و الاسلام سؤال و جواب, فتوى نمبر 311432 بتاریخ 26-9-2023ع , عربی )

4-  ایسی دعا کرے  جو قرآن و سنت سے ثابت  نہیں ہے۔ وہ ایسے ناقص الفاظ اور مسجع  الفاظ کا انتخاب کرتا ہے جو اسے نوٹ بکوں میں ملتے ہیں جن کی کوئی اصل  یا بنیاد نہیں ہے، اور نہ اس کے اوپر عمل ہے  اس لیے وہ انہیں اپنا نعرہ بناتا ہے اور اس دعا کو چھوڑ دیتا ہے جس کے ذریعہ رسول نے دعا مانگی تھی ۔ یہ سب دعا کو قبول ہونے سے روکتے ہیں۔ (قرطبی)

یہ ہے دعا میں جارحیت جس سے آج کل کے بہت سارے مسلمان غافل ہیں اور جس کا علم بہت ہی ضروری ہے تاکہ ایک مسلمان شریعت کے مطابق اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا کرے جس کے نتیجہ میں اس کی دعا مقبول ہو ۔

اب آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کو دعا سمیت  شریعت کی بنیادی و ضروری تعلیم  حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے ۔ آمین

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: