کامل مؤمن کی علامت

 

              کامل مؤمن کی علامت

حدیث: عن أنس بن مالك رضي الله عنه خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم  قاللا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه، رواه البخاري ومسلم (.

ترجمہ: خادم رسول اللہ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: تم میں کا کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جوہ اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے (بخاری و مسلم)

مختصر شرح:

حدیث کا مقام و مرتبہ:

یہ ایک بہت ہی عظیم الشان حدیث ہے ۔اس کا مقام و مرتبہ بہت ہی بلند ہے ۔ اس کے بارے میں امام ابوداؤد سجستانی کا قول ہے کہ یہ ان احادیث میں سے ایک ہے جس پر اسلام کا دارو مدار ہے ۔جب کہ جردانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ حدیث اسلام کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے اور اس کا مقصد مساوات کا حصول ہے جس سے محبت پیدا ہوتی ہے، لوگوں کے درمیان الفت  قائم رہتی ہے اور ان کے حالات درست و منظم ہوتے ہیں۔( عبدالعال سعد الشليّه

:شرح حديث: لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه, شبکہ الالوکہ, تاریخ نشر: 23/1/2016)

حدیث کا مطلب:

 اسلام اپنی تعلیمات اور قوانین کے ذریعہ  لوگوں کے تعلقات کوان کے  رب کریم کے ساتھ منظم کرنے کا خواہاں ہے تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں سعادت حاصل کر سکیں اور ساتھ ہی ان کے لیے وہ قانون بھی تیار کرتا  ہے جو ان کے آپس کے تعلقات کو منظم کرتا ہے۔ تاکہ اسلامی معاشرہ میں الفت اور محبت عام ہوجائے ۔ اور یہ اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا ہر فرد دوسرے کے مفاد کا اسی طرح خواہش مند نہ ہو جیسا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کا خواہاں ہے ۔ اس طرح سے ایک ایسا  اسلامی معاشرہ جنم لے گا  جس کی بنیاد مضبوط ہوگی اور تعلقات قوی ہوں  گے۔

اس مقصد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تکافل (خبر گیری, نگہداشت) اور ایثار کے اصول کو  اپنانے کی  رہنمائی فرمائی اور فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘ چنانچہ آپ  نے واضح کردیا  کہ دل میں ایمان کے استحکام کا ایک اہم ترین عنصر یہ ہے کہ انسان دوسروں کے لیے اس خیر کے حصول کو پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ جیسے نعمتوں کا حصول اور مصائب کا ختم ہونا ۔اس طرح سے  دل میں ایمان کامل و راسخ  ہوجائے گا کیونکہ یہ عمل ایمان کے راسخ و کامل ہونے کی ایک اہم وجہ ہے۔

اور اگر ہم حدیث پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کسی بھی  ذات  میں اس ایمانی کمال و رسوخ  کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے معاملات میں بلند ہو ۔ دوسروں کے ساتھ اخلاق میں بلند ہو،اگر اس کی خواہش ہے کہ  اس کے ساتھ اسی کے مثل  سلوک کیا جائے۔ اور اس کے لیے اس کے اوپر ضروری ہے کہ وہ لوگوں کی تکلیفوں پر صبر کرے , ان کی غلطیوں کو نظر انداز کردے  اور جس نے اس کے ساتھ برا معاملہ کیا اس کو معاف کردے ۔اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اسے اپنے بھائیوں  کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا   چائیے ،  بیمار کی عیادت کرے, محتاج کی غمخواری کرے, یتیم کی کفالت کرے۔ بیوہ کا خرچ برداشت کرے، اور خوش مزاج چہرہ، کشادہ دلی اور سلامت صدر  کے ساتھ دوسروں کے لیے نیکیاں کرنے میں کوئی کسر نہ  چھوڑے ۔

اور جس طرح وہ لوگوں کے لیے  پسند کرتا ہے کہ وہ اپنی دنیاوی زندگی میں خوش رہیں، اسی طرح وہ ان کے لیے یہ بھی پسند کرتا ہے کہ وہ قیامت کے دن خوش رہنے والوں میں شامل ہوں، اسی لیے وہ ہمیشہ اللہ تعالی کے قول " ومن أحسن قولا ممن دعا الى اللہ و عمل صالحا و قال اننی من المسلمین (فصلت: 33) " کو اپنا نصب العین  بنا کے  انسانیت  کی ہدایت کی  کوشش کرتا ہے  اور راہ ہدایت کی طرف ان کی رہنمائی فرماتا ہے   ۔

اس حدیث کے تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان اپنے بھائی کے لیے وہی ناپسند کرے  جو وہ اپنے لیے ناپسند کرتا ہے، جس کے نتیجہ میں  وہ بہت سی قابل مذمت خصلتوں کو چھوڑ دیتا ہے، جیسے کہ حسد، بغض، دوسروں سے نفرت، خود غرضی اور لالچ اور دیگر قابل مذمت خصلتیں۔ ، جسے  وہ خود ناپسند کرتا ہے کہ لوگ ان صفات کے ساتھ اس کا معاملہ کریں ۔

اور حدیث کا مفہوم اس سے بھی کہیں زیادہ  و سیع ہے ۔اسی وجہ سے   اس میں غیر مسلموں کے لیے بھی خیر کا پسند کرنا داخل ہے۔  لہذا ایک مسلمان  پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالی ان پر احسان کرکے ان کو ایمان کی نعمت سے نوازے اور انہیں شرک اور معصیت کے اندھیروں سے بچائے۔اور حدیث کے اس  معنى پر  ترمذی کی  ایک روایت  دلالت کرتی ہے جس میں آپ نے فرمایا:  وأحب للناس ما تحب لنفسك تكن مسلما ۔یعنی جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتے ہو وہی لوگوں کے لیے بھی پسند کرو  تم مسلمان بن جاؤ گے۔( اسلام ویب: حديث : لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه,تاریخ نشر:6/9/2005ع )

چند مثالیں:

دوسروں  کے لیے خیر کو پسند کرنے کےسلسلے  میں ہمارے لیے سب سے بہترین نمونہ نبی کریم ہیں ۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو نصیحت کرنے اور اس چیز کی طرف ان کی رہنمائی کرنے میں جس میں ان کے لیے دین و دنیا کی بھلائی ہے  کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اس کی ایک ادنی  مثال  امام مسلم کی  روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ۔  يا أبا ذر إني أراك ضعيفا ، وإني أحب لك ما أحب لنفسي ، لا تأمرنّ على اثنين ، ولا تولين مال يتيم. یعنی اے ابوذر میری نگاہ میں تم کمزور ہو ، اور میں تمہارے لیے وہی پسند کرتا ہوں جو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں، دو آدمیوں پر کبھی بھی امیر مت بننا  اور یتیم کے  مال کا والی مت بننا ۔

جہاں تک ہمارے صالح اسلاف کا تعلق ہے، اللہ  ان پر رحم کرے، انہوں نے اس پیغمبرانہ نصیحت  کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور اس کو بہترین طریقے سے پورا کرنے میں پوری امانتداری سے کام لیا ۔ ۔مثال کے طور پر یہ عبد اللہ بن عباس ہیں جو کہتے ہیں کہ  جب بھی میرا گذر قرآن کی کسی آیت سے ہوتا ہے  تو  میں یہ چاہتا ہوں کہ سب لوگ اس کے بارے میں  وہ جان لیں جو میں جانتا ہوں۔ ایک اور واقعہ ہے کہ جب " محمد بن واسع  رحمہ اللہ نے اپنا  گدھا بیچنا چاہا، تو  ایک آدمی نے ان سے کہا: "کیا  آپ اسے میرے لیے پسندکرتے ہیں؟‘‘ تو ان کا جواب تھا کہ اگر میں اسے تمھارے لیے پسند نہیں کرتا تو میں تم سے بیچتا ہی نہیں ۔ یہ اور اس طرح کی  دیگر مثالیں اس اعلیٰ ایمان  کی نشانی ہیں جس پر وہ فائز ہوئے ، جس کے نتیجے میں یہ قابل اعزاز رویے  ظاہر ہوئے ۔۔( اسلام ویب: حديث : لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه,تاریخ نشر:6/9/2005ع )

فوائد و نتائج:

اس عظیم  حدیث پر عمل کرنے کے بہت سارے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے  امت میں ایک  فاضل معاشرہ جنم لے گا۔جس کے افراد میں باہمی محبت کے مضبوط تعلقات ہوں گے ۔اور جس  کی کڑیاں آپس میں جڑی ہوں گی یہاں تک کہ وہ بہت ہی  قوی و مضبوط ہوجائے گا۔ایک نہایت مضبوط جسم کی طرح جو کسی حادثہ سے قابو میں نہ آئے اور نہ کسی آفت سے مغلوب ہو۔ اس کے نتیجہ میں  امت کو سعادت حاصل ہوگی  ۔اور یہی وہ مقصد ہے جس کو ہم زمینی سطح پر دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔۔( اسلام ویب: حديث : لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه,تاریخ نشر:6/9/2005ع )

 عصر حاضر کے مسلمان

یہ حدیث دور حاضر کے مسلمانوں کے لیے ایک آئینہ ہے جس میں ان کو اپنا چہرہ ضرور دیکھنا چائیے ۔ کیا ان کے اندر یہ ایمانی جذبہ پایا جاتا ہے یا مفقود ہے ۔ اگر مفقود ہے تو ہر ایک کو اپنا احتساب کرنا چائیے ۔ لیکن جائزہ لینے سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جذبہ عام طور سے مفقود ہے ۔ بہت سارے لوگ اپنے لیے تو خیر کی تمنا رکھتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے نہیں رکھتے ہیں۔

 یہ اپنے ایمان کو بھی جانچنے و پرکھنے کا ایک پیمانہ ہےاور ایک مومن سے محبت و الفت کی کسوٹی بھی ہے  ۔ کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی سے محبت کرے گا اسی کے اندر یہ جذبہ ہوگا اور اس کا ایمان کامل ہوگا۔ اور بلا شبہ ایک مسلمان جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بھی پسند کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مسلمان شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی تنخواہ اچھی ہو۔ اس کا اپنا گھر ہو ۔گاڑی ہو ,  مال و دولت ہو۔ آمدنی ہو, مصائب و باؤں سے محفوظ رہے  وغیرہ  تو وہ اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی یہی چاہتا ہے ۔ یہ نہیں کہ وہ اپنے لیے اچھائی کا تمنا رکھتا ہو لیکن غیروں کے لیے اس کا سینہ نہایت تنگ ہو اور وہ ان کے لیے شر و بلا کی آرزو رکھتا ہے ۔ ایسا شخص حاسد و حاقد ہے اور جس شخص کے سینہ میں حسد ہو وہ کامل مومن کبھی بھی نہیں ہو سکتا ہے ۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالى ہم مسلمانوں کو اس حدیث کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین 

 

 

 

 

 


 

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: