ادائیگی حج میں رکاوٹ

 

                 ادائیگی حج میں رکاوٹ

آیت: و أتموا الحج و العمرۃ للہ, فان احصرتم فما استیسر من الھدی  و لا تحلقوا رؤوسکم حتى یبلغ الہدی محلہ ....(بقرہ/196)

ترجمہ: اور اللہ کے لیے حج و عمرہ کو مکمل کرو,  اور اگر کوئی رکاوٹ پیش آجائے تو جو  ہدى  میسر ہو اس  کو کرو, اور اپنا سر نہ  منڈاؤ یہاں تک کہ قربانی اپنی جگہ پر پہنچ جائے ۔

معانی کلمات:

حج : اس کا لفظی معنى قصد و ارادہ ہے ۔ بولا جاتا ہے : حج فلان الشئی یعنی فلان نے کسی چیز کا قصد کیا ۔ اور اس کی اصطلاحی تعریف ہے : مخصوص وقت میں خاص کیفیت کے ساتھ کچھ مخصوص اعمال کی ادائیگی کے لیے  بیت اللہ کی زیارت کا قصد کرنا  جس کی وضاحت شریعت میں موجود ہے ۔

عمرہ : اس کا لفظی معنى زیارت کرنا  ہے اور یہ عمارہ (آباد کرنا) سے مشتق ہے جو خراب (اجاڑ, ویرانی ) کا ضد ہے ۔ پھر اس کو زیارت پر بولا جانےلگا جس کا مقصد جگہ کو آباد کرنا ہوتا ہے ۔ اس کی اصطلاحی تعریف ہے : اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اس کے گھر کی زیارت کرنا ۔

احصار: رکاوٹ , حاجز , مانع

استیسر:  یہ یسر سے ہے یعنی جو بنا کسی مشقت و پریشانی کےآسانی سے دستیاب ہو  ۔

ھدی: یہ مصدر ہے لیکن مفعول  " مہدى" کے معنى میں ہے اور اس سے مراد  مکہ بھیجے جانے والا وہ جانور  ہے جو اللہ کی قربت کے لیے ذبح کیا جائے ۔یہ دو قسم کا ہوتا ہے : واجب و نفلی , حاجی کے ذریعہ ذبح کیا جانے والا عید قرباں کا جانور بھی ہدى میں داخل ہے ۔عام لوگوں کے ذریعہ ذبح کیا جانے والا  قربانی کا جانور" اضحیہ "کہلاتا ہے ۔

محل : یہ اسم زمان و مکان دونوں ہے ۔ بولا جاتا ہے : بلغ الدین محلہ یعنی قرض  کی ادائیگی  کا وقت آگیا ۔  اسی طرح کہا جاتا ہے: بلغ الشخص محلہ یعنی شخص اپنی جگہ پر پہنچ گیا۔(الوسیط للطنطاوى)

تفسیر: یہ  آیت سورہ بقرہ کی طویل  آیت 196   کا ایک مختصر ٹکڑا  ہے  اور یہ حج و اس کے آداب و احکام سے متعلق  قرآن کی جامع آیتوں میں سے ایک ہے۔راجح روایات کے مطابق حج ۹ھ میں فرض کیا گیا ۔ حج کی فرضیت پر تمام علماء کا اتفاق ہے لیکن عمرہ کے فرض ہونے کے بارے میں اختلاف ہے لیکن اکثر علماء کی رائے یہی ہے کہ عمرہ حج کی طرح فرض نہیں ہے بلکہ وہ سنت ہے ۔  اس میں  اللہ تعالى نے حج و عمرہ کے دو   مندرجہ ذیل اہم  احکام کو بیان کیا ہے :--

1-           پہلا حکم یہ ہے کہ حج و عمرہ کی نیت کرنے کے بعد اس کو  اس کے ارکان و واجبات کے ساتھ پورا کرو خواہ وہ نفلی حج یا عمرہ  ہو,  اور کسی کے لیے بھی ان کی ادائیگی کے بغیر حلال ہونا جائز نہیں ہے  کیونکہ نیت کرنے کے بعداس کا اتمام ضروری ہو جاتا ہے ۔

2-         دوسرا حکم احصار یعنی رکاوٹ سے متعلق ہے یعنی اگر راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ پیش آجائے جس سے مکہ مکرمہ جانا ناممکن ہوجائے تو ایسی صورت میں وہیں پر قربانی کرکے حلال ہوجاؤ۔

مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالى نے حکم دیا ہے  کہ حج و عمرہ صرف اس کے لیے ادا کیا جائے کیونکہ عرب والے زمانہ جاہلیت میں حج  ریاء و نمود,فخر و مباہات, اجتماع و مظاہرہ, ضرورتوں کی تکمیل اور بازاروں سے خرید و فروخت کے لیے کرتے تھے ۔ ان کا اللہ تعالى کی رضامندی اور اس کی قربت کا کوئی قصد نہیں ہوتا تھا ۔ تو اللہ تعالى نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے حج کو ان برے اعمال و افعال سے پاک رکھیں۔ ۔(الوسیط للطنطاوى)

بعد ازاں اللہ تعالى نے فرمایا کہ اگر نیت کرنے کے بعد کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے اور حاجی یا معتمر مکہ پہنچنے سے عاجز ہوجاتا ہے تو وہ وہیں پر قربانی کرکے حلال ہوجائے ۔ اور رکاوٹ کئی قسم کا ہوتا ہے اور یہاں پر بہت سارے علماء کے نزدیک کسی بھی طرح کی  رکاوٹ مراد ہے۔ خواہ وہ ذاتی ہو یا خارجی ۔مثلا:  ۔ بیماری , ڈسنا, زخمی ہونا , زاد راہ کا تلف ہوجانا , ضائع ہوجانا, سواری کا برباد ہوجانا اور ڈر, دشمن کا آڑے آجانا وغیرہ  ۔ اس بنیاد پر اگر حاجی یا معتمر کو کوئی بھی اور کسی قسم کی بھی  رکاوٹ پیش آتی ہے تو وہ  اسی جگہ قربانی کرکے حلال ہوجائے گا ۔ لیکن بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہاں رکاوٹ سے مراد صرف دشمن کی رکاوٹ ہے ۔ لہذا اگر کوئی دوسری  رکاوٹ ہے مثلا بیماری وغیرہ تو وہ حلال نہیں ہوگا بلکہ اس کے ختم ہونے کا انتظار کرے گا پھر مکہ جاکے ارکان و واجبات کو ادا کرے  تب وہ حلال ہوگا ۔۔(الوسیط للطنطاوى)

ظاہر بات ہے کہ  آخر الذکر قول مرجوح ہے اور اس میں حاجی کے لیے مشقت ہے اور مان لیجیے کہ وہ رکاوٹ زائل نہ ہو مثلا بیمار کو شفاء نہ ہو تو وہ کیا کرے گا ۔ یا طویل مدت کے بعد شفاء حاصل ہو اور حج کا زمانہ ختم ہوگیاتو وہ پھر کیا کرے گا ۔ لہذا پہلى رائے ہی راجح ہے اور درستگی کے زیادہ قریب ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم کے ساتھ صلح حدیبیہ ذو القعدۃ 6ھ  میں پیش آیا تھا ۔ آپ مدینہ سے مکہ عمرہ کرنے کے لیے تشریف لائے تھے لیکن اہل مکہ نے آپ کو اجازت نہیں دی اس لیے آپ نے قربانی کی پھر حلق کرایا اور حلال ہوگئے ۔ اور یہی  حکم آپ نے اپنے اصحاب کو بھی دیا ۔

 اور رکاوٹ کی وجہ سے حلال ہونے کے بعد  آئندہ سال اس کی قضاء کرنی ہے جیسا کہ نبی کریم اور آپ کے اصحاب نے کیا تھا(تفسیر احسن البیان) ۔اور اگر کسی کے پاس قربانی کی طاقت نہیں ہے تو وہ دس دن کا روزہ رکھے پھر حلال ہوگا۔(تفسیر سعدی)   

معلوم ہوا کہ  رکاوٹ خواہ کسی بھی قسم کی  ہو , ذاتی , شخصی,  جسمانی, آسمانی, خارجی وغیرہ   بہر صورت حاجی کے لیے حلال ہونا جائز ہے کیونکہ اب وہ معذور ہوگیا۔ 

 بعض علماء لغت نے احصار و حصر میں فرق کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ احصار وہ رکاوٹ ہے جو  شخصی و ذاتی  طور پر ہو مثلا بیماری , زاد راہ کا ختم ہوجانا یا تلف ہوجانا ۔اور حصر وہ ہے جس میں رکاوٹ کسی بیرونی امر کی وجہ سے ہو مثلا : دشمن یا امیر و حاکم کی طرف سے ۔۔(الوسیط للطنطاوى)  

اس کے بعد حکم ہے : ولا تحلقوا .... اس جزء کی تفسیر میں کافی اختلاف ہے ۔بعض نے تحریر کیا ہے کہ اس کا عطف و أتموا الحج پر ہے اور اس کا  تعلق حالت امن سے ہے یعنی امن کی حالت میں اس وقت تک سر نہ منڈاؤ جب تک تمام مناسک حج یا عمرہ پورے نہ کرلو( تفسیر احسن البیان) یعنی اس جزء کا تعلق رکاوٹ سے نہیں ہے ۔  لیکن اکثر علماء و فقہاء   کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ محصر قربانی سے پہلے حلق نہیں کرائے گا ۔ اس کے لیے پہلے اسی رکاوٹ والی جگہ پر  قربانی کرنا ضروری ہے پھر وہ حلق کرائے اور حلال ہوجائے  ۔ جیسا کہ صلح حدیبیہ میں نبی کریم اور آپ کے اصحاب نے کیا تھا ۔ لیکن حج میں ایسا کرنا ضروری نہیں ہے ۔(موقع الامام ابن باز: تفسیر قولہ تعالى: و أتموا الحج و العمرۃ للہ, التفسیر المیسر ) یعنی محصر اسی جگہ پر قربانی کرکے اور بال منڈا کے حلال ہوجائے گا لیکن بعض علماء  کا کہنا ہے کہ محصر اس وقت تک حلال نہیں ہوگا جب تک کہ اس کی قربانی مکہ نہ پہنچ جائے ۔ اور وہاں پر اس کو ذبح کیا جائے  ۔ احناف کی رائے  بھی یہی ہے کیونکہ وہ محل کو اس مکان مانتے ہیں اسم زمان نہیں ۔ ظاہر ہے کہ آخر الذکر رائے اس مسئلہ میں مرجوح ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ مشقت و پریشانی ہے اور ان احادیث کے خلاف ہے جن میں مذکور ہے کہ نبی کریم اور صحابہ کرام نے صلح حدیبیہ میں اپنے جانوروں کو حدیبیہ میں ذبح کیا تھا  ۔اور  عقل و منطق کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس میں آسانی نہیں ہے اور اللہ تعالى نے آسانی کے لیے رکاوٹ کا حکم بیان کیا ہے  ۔

ایسی صورت میں(قربانی کا جانور رکاوٹ والی جگہ پر ذبح کیا جائے گا)  ولا تحلقوا ...کا مطلب ہے کہ یہ عمومی خطاب ہے  جو تمام مکلفین کو شامل ہے اس میں محصر و غیر محصر کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ اور اس جملہ کا مقصد حلال ہونے کی جگہ اور اس کے زمانہ کا عمومى بیان ہے ۔ لیکن رکاوٹ کے وقت ذبح کی جگہ کیا ہوگی اس کو نبی کریم نے حدیبیہ میں اپنی قربانی کو ذبح کرکے بتا دیا ۔ اور حدیبیہ اہل تحقیق کے یہاں  حدود حرم سے خارج ہے ۔۔(الوسیط للطنطاوى)

اور یہاں یہ  ذکر کردینا بہت ہی مناسب ہے کہ راجح قول کے مطابق اگر کسی کو ڈر ہےکہ اس کو راستہ میں کوئی رکاوٹ پیش آسکتی ہے ۔ مثلا کوئی شخص بیمار ہے اور اس کو خدشہ ہے کہ اس کی بیماری میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور وہ شدید بیمار ہو سکتا ہے جس سے وہ حج یا عمرہ نہیں کر سکے گا تو ایسی صورت میں وہ شرط لگا سکتا ہے ۔ لیکن اگر اس کو کسی رکاوٹ کا ڈر نہیں ہے جو اس کومکہ پہنچنے سے  روک دے یا کوئی مانع جو اس کو ارکان و واجبات کی ادائیگی سے منع کردے ۔ تو بایں صورت شرط نہیں لگائے گا ۔ اس قول کی بہت ساری دلیلیں ہیں ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم نے حج کیا اور عمرہ کیا لیکن کبھی شرط نہیں  لگائی اور نہ ہی عام طور سے  لوگوں کو اس کا حکم دیا کہ احرام کے وقت شرط لگاؤ ۔ لیکن جب ضباعۃ بن زبیر بن عبد المطلب نے آپ کو بتایا کہ ان کا ارادہ حج کرنے کا ہے اور وہ بیمار ہیں ۔ تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ حج کرو اور یہ شرط لگا لو :ان محلی حیث حبستنی کہ میں اس جگہ حلال ہوجاؤں گی جہاں تونے مجھ کو روک دیا ۔

معلوم ہوا کہ جن کی حالت ان کی طرح سے ہو وہ شرط لگائے اور جو اس حالت میں نہ ہو وہ شرط نہ لگائے ۔ اور یہ شرط لگانے کا فائدہ یہی ہے کہ اگر کوئی رکاوٹ پیش آگئی تو وہ بنا کسی چیز کے حلال ہو جائے گا ۔ یعنی نہ اس کو فدیہ دینا ہے اور نہ ہی اس کے اوپر قضاء ہے ۔ (موقع الشیخ صالح بن العثیمین, فائدۃ الاشتراط فی الاحرام بحج أو عمرۃ)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کوئی حج و عمرہ کی نیت کرتا ہے تو اس کے اوپر  اس کا پورا کرنا ضروری ہے اور اگر اس کو راستہ میں راجح اقوال کے مطابق کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ پیش آجاتی ہے تو وہ وہیں پر پہلے قربانی کرے گا پھر سر منڈائے گا اور حلال ہوجائے گا ۔ اور آئندہ سال اس کی قضاء کرے گا ۔ یہ سب سے بہتر و افضل قول ہے اور اسی پر سب کو عمل کرنا چائیے ۔اور اگر کسی کو ڈر ہے کہ کسی قسم کی رکاوٹ پیش آسکتی ہے تو وہ پہلے سے شرط لگا سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں اس کو ہدی نہیں دینا ہے اور نہ ہی قضا ء کرنا ہے ۔

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے مطابق  حج و عمرہ کی توفیق بخشے اور ہم سب کے نیک اعمال کو قبول فرمائے ۔ آمین

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: