مشہور شاعر سالک بستوی رحمہ اللہ کا سفر آخرت

 

وفیات                       

                           مشہور شاعر سالک بستوی رحمہ اللہ کا سفر آخرت

                                 

3/فروری 2024ع بروز سنیچر سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ غمناک خبر ملی کہ اردو کے شہرت یافتہ شاعر و ادیب سالک بستوی رحمہ اللہ اس دار فانی سے دار آخرت کی طرف کوچ کر گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔آپ کی ولادت غوری , سدھارتھ نگر میں 2/اپریل 1960ع میں ہوئی ۔آپ کا اصلی نام  ممتاز احمد ہے , آپ نے ایم اے تک کی تعلیم حاصل کی تھی , آپ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ عالم دین بھی تھے لیکن آپ کی شہرت بطور شاعر ہے , آپ کی  علمی و تعلیمی  , ادبی و سماجی سرگرمیاں بہت زیادہ ہیں , آپ ایک با صلاحیت استاد و مربی تھے , آپ تا مرگ اپنے قائم کردہ جامعۃ الاصلاح میں  تدریسی خدمات انجام دیتے رہے , آپ کے شاگردوں کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔

آپ بہت ہی متواضع, شریف, ملنسار, خلیق , خوش فکر و سنجیدہ عالم دین تھے, مہمان نواز اور علماء کے قدر داں تھے  اور کہنہ مشق و قادر الکلام شاعر تھے, انجمن کاشانہ ادب  کے صدر تھے , آپ جامعۃ الاصلاح کے علاوہ جامعۃ المحسنات کے بھی بانی و ڈائریکٹر تھے ۔ نو نہالانِ ملت کو زیور تعلیم سے آرا ستہ کر نے کی خاطر اپنے بھا ئی را شد سرا جی کے اشتراک سے  آپ نے یہ دونوں مدارس  قائم کیے تھے جو آج بھی بڑی کا میا بی سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ۔(زاہد آزاد جھنڈا نگری : ایک سارے شہر ویران کر گیا…مشہور شاعر سالک بستوی صاحب کا انتقال, سماج نیوز, 3/ فروری 2024)

 زمانہ طالب علمی سے ہی  شعروادب اورتصنیف و تا لیف کا شوق تھا ۔ 30 /سالہ ادبی سفر کے دوران شعر و ادب اور دینی و تعلیمی مو ضو عات پر ان کی در جن بھر کتا بیں منظر عام پر آکر عوام و خواص میں  مقبولیت  حاصل کر چکی ہیں۔’’جرم تبسم‘‘ان کی غزلیہ شا عری کا مجموعہ ہے۔

 واضح رہے کہ سالک بستوی کی شاعری نے انہیں فکر اسلامی کے ایک نما ئندہ شا عر کے طور پر پہچان دلائی ہے ۔ان کی شاعری سے ان کے مذہبی احساس ، فکر کی پاکیزگی  اور تعمیری سو چ کا پتہ بھی چلتا ہے ۔چونکہ انہوں نے اپنی  شا عری کو  طبیعت کی تفریح کے بجا ئے اصلاح نفس اور اخلا قیات کی تر ویج و اشا عت کا ایک مؤثر ذریعہ و  کارگر وسیلہ  بنایا ۔ان کے کلام میں سلا ست و سادگی کے ساتھ وہ سبھی لوازمات مو جود ہیں جن سے ان کی شا عری کو نئی شا عری کی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔(زاہد آزاد جھنڈا نگری : ایک سارے شہر ویران کر گیا…, سماج نیوز, 3/ فروری 2024)

آپ کا انتقال ایک سڑک حادثہ میں 3/فروری 2024 ع کو ہوا اور آپ کی نماز جنازہ 4/فروری 2024ع  بروز اتوار آپ کے آبائی گاؤں  غوری , بجہا بازار , سدھارتھ نگر میں بعد نماز ظہر  ادا کی گئی جس میں کافی تعداد میں علماء و عوام نے شرکت فرمائی ۔ اللہ تعالى آپ کی مغفرت فرمائے , جنت الفردوس میں جگہ دے اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین

میں خاکسار آپ  کی شخصیت سے  واقف نہیں تھا ,صرف ایک  شاعر کی حیثیت سے آپ کا نام سن رکھا تھا اور اسی اعتبار سے  آپ کو  جانتا تھا  اور ہم دونوں کے مابین کوئی تعلق و ربط نہیں تھا ۔آپ کے انتقال کے بعد آپ کی زندگی کے بہت سارے پہلو میرے سامنے آئے اور مجھے علم ہوا کہ آپ عالم دین بھی ہیں , جامعۃ الاصلاح  و جامعۃ المحسنات کے بانی ہیں اور معلم و مربی کے ساتھ  سماجی کارکن  بھی ہیں  وغیرہ ۔

 آپ سے میرا تعارف ستمبر 2020ع میں  على گڑھ آنے کے تقریبا  دو  سال  بعد ہوا خاص طور سے جب میں نے علامہ عزیر شمس پر ایک آن لائن سیمینا ر 8/  نومبر 2022ع میں کرانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت آپ سے رابطہ کیا اور سیمینار میں شریک ہونے کی گذارش کی تو آپ نے فورا منظور کر لیا اور مجھے 2/نومبر 2022ع کو واٹسپ پر 8:15 ص  پیغام بھیجا: محترم ڈاکٹر صاحب  و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ , الحمد للہ میں بخیر ہوں , آپ ایک کار خیر لے کر چلے ہیں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ آپ کو فائز المرامی عطا فرمائے ۔ آمین , آپ کی دعوت قبول ہے  ان شاء اللہ میری شمولیت رہے گی ۔

آپ کا خیر اندیش سالک بستوی , ایم اے صدر انجمن کاشانہ ادب , غوری, بجہا, سدھارتھ نگر

ہم دونوں کا آپس میں غائبانہ ہی تعارف رہا ,  واٹسپ میسیج کے علاوہ موبائل سے بھی کئی بار گفتگو ہوئی لیکن کبھی ملاقات کا موقع میسر نہیں آیا ۔ گذشتہ سال فروری 2023 ع کے دوسرے ہفتہ میں  جب میں نوگڑھ گیا تھا تو آپ سے ملاقات کی بہت تمنا تھی اور میں نے آپ کو واٹسپ میسیج بھی کیا تھا اور  فون پر گفلتگو بھی کی تھی  لیکن اس وقت آپ حیدر آباد میں تھے جس سے ملاقات نہ ہو سکی  اور یہ امید بر نہیں آئی ۔ اور جب سوشل میڈیا کے ذریعہ  آپ کو معلوم ہوا کہ میں دل کی  بیماری میں مبتلا ہوں اور  17/جولائی 2023 ع کو میرے دل کا بائی پاس آپریشن ہے تو آپ نے اسی دن مجھ کو پیغام بھیجا اور میری خیریت معلوم  کرنے کی کوشش کی جس کا جواب تو میں نہیں دے سکا کیونکہ اسی دن  الحمد للہ کامیاب آپریشن کے بعد  میں جواب دینے لائق نہیں تھا اور موبائل سے بھی دو ہفتہ دور تھا  ۔ آپ نے17/جولائی 2023ع , بوقت 18:12  تحریر فرمایا:--

  محترم السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

امید کہ آپ بخیر وعافیت ہونگے آپ کے آپریشن کا کیا ہوا اللہ کی ذات سے مجھے خیر ہی کی امید ہے۔

آپ کا سالک بستوی ایم اے

مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے آپ سے رسوم و رواج اور اصلاح و ترقی سوسائٹی کے بارے میں اشعار کہنے کی گذارش کی تھی لیکن مشغولیت کی وجہ سے آپ ایسا نہیں کر سکے اور پھر  آپریشن کی وجہ سے میں خود ہی  سب کچھ بھول گیا  اور دوبارہ یاد دہانی بھی نہیں کراسکا   اور آپ کا وقت موعود آپہنچا ۔

اور جب مجھ خاکسار نے سوشل میڈیا پر   2/اکتوبر 2023ع کو اصحاب قلم حضرات سے  ان کی نگارشات بھیجنے کی گذارش کی  توآپ نے اپنی ایک غزل میرے پاس بھیجی اور ماہ اکتوبر کے شمارہ میں شائع کرنے کو کہا, اور آپ نے لکھا:

محترم ڈاکٹر صاحب السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء کلی عطاء فرمائے آمین

یہ غزل آپ اصلاح و ترقی اکتوبر کے شمارے میں شامل فرمالیں

آپ کا سالک بستوی ( 2/اکتوبر 2023 ع بوقت 20:04)

اور جب مجھ خاکسار نے آپ کے غزل کو مجلہ اصلاح و ترقی میں جگہ دی اور آپ کو میری مکمل صحتیابی و شفایابی کا علم ہوا تو آپ بہت خوش ہوئے  اور  20/اکتوبر 2023ع بوقت:19:52واٹسپ پر  مجھ کو پیغام بھیجا  :

محترم ڈاکٹر صاحب السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

میری طبیعت قدرے کسلمند ہے موسمی بخار سے جائے مفر نہیں, آپ کی طبیعت خراب ہوجانے کی وجہ سے دل بڑا رنجور تھا اللہ تعالیٰ کا بے پایاں شکرو احسان ہے کہ صحتیاب کردیا اللہ تعالیٰ آپ کو شاداں و فرحاں رکھے۔ آمین

آپ نے میری غزل شائع کی ہے بےحد ممنون ہوں اللہ تعالیٰ اسے افادہء عام کا باعث بنائے۔ آمین

آپ کا سالک بستوی

جس  کے جواب میں نے  آپ کو لکھا:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 ان کلمات کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ, اللہ تعالى آپ  کو شفاء کامل و عاجل عطا فرمائے اور ہر شر و بلا سے بچائے ۔ آمین

آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنی نئی تخلیق بھیجتے رہیں  میں اسے شائع کرتا رہوں گا ۔ بہت بہت شکریہ جزاک اللہ خیرا و بارک فیک (20/اکتوبر 2023 ع  بوقت 20:17)

ان سب مکالمات و پیغامات  سے ایک بات تو عیاں ہے کہ آپ بہت ہی بااخلاق, ملنسار, صالح و خیرخواہ شخص تھے ۔آپ کے دل میں دوسروں کے لیے جگہ و ہمدردی تھی , غیروں کے لیے بھی آپ فکر مند رہتے تھے , آپ کی کوشش تھی کہ ہر ایک کو فائدہ پہنچایا جائے , مشغولیت کے باوجود آپ پیغامات کا جواب دیتے تھے ۔اس سے آپ کی  بہتر و مثالی شخصیت کا پتہ چلتا ہے کیونکہ آج کے زمانہ میں تو بہت سارے لوگ پیغامات کا جواب دینے کو  کون کہے فون ہی رسیو نہیں کرتے ہیں ۔

 آپ کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کی  شخصیت کئی پہلؤوں پر مشتمل  تھی , آپ بیک وقت ایک عالم دین, قادر الکلام و برجستہ شاعر, مؤلف و مصنف , داعی و مبلغ , سماجی کارکن و فلاحی خدمت گار تھے , زمین سے جڑے ہوئے بہت ہی متواضع و خاکسار انسان تھے ۔کیا معلوم تھا کہ آپ کا وقت موعود جلد ہی آ جائے گا , بلا شبہ آپ کی رحلت بہت بڑا خسارہ ہے ۔اللہ تعالى آپ کی تمام خدمات کو قبول فرمائے اور اسے آخرت کے لیے ذخیرہ بنائے اور ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے ۔آمین  

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: