حج مبرور کا ثواب

 

                                     حج مبرور کا ثواب

حدیث: عن أبی ھریرۃ قال : سئل رسول اللہ أى العمل أفضل؟ قال : ایمان باللہ و رسولہ , قیل : ثم ماذا؟ قال: الجہاد فی سبیل اللہ , قیل : ثم ماذا ؟ قال : حج مبرور ۔(متفق علیہ)  

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے  ان کا کہنا ہے کہ آپ سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ و اس کے رسول پر ایما ن لانا, پھر آپ سے یہی سوال کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل اضل ہے ؟ تو آپ کا جواب تھا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا , پھر تیسری بار آپ سے یہی سوال کیا لیا کہ بعد ازاں کون سا عمل افضل ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ مبرور حج ہے ۔ (بخاری و مسلم )

شرح : نبی کریم سے افضل اعمال کے بارے میں پوچھا  گیا ۔ اور صحابہ کرام نبی کریم سے سوالات خصوصا دینی پوچھتے رہتے تھے کیونکہ اللہ کے فضل و کرم سے اسلام میں نیک اعمال خاص طور سے نوافل و مستحبات  کی اس قدر  بہتات اور کثرت ہے  کہ کوئی بھی مکلف شخص ان سب کو ادا نہیں کر سکتا ہے ۔ اور انسان کی عمر بھی تھوڑی ہے ۔ اس لیے بندہ کے لیے فرائض کے بعد ان افضل اعمال کی معرفت ضروری ہے جن سے اس کو اللہ کی قربت حاصل ہو اور بلند درجات تک پہنچ سکے ۔ کیونکہ ایسا  ممکن ہے کہ ایک انسان غیر افضل کاموں میں  کوشش و محنت کرتا ہے اور اس میں اپنا وقت لگاتا ہےجس سے وہ ان اعمال میں ایک بہت بڑے فضل سے محروم ہو جاتا ہے یا اس سے وہ اعمال فوت ہوجاتے ہیں جن کی فضیلت بہت زیادہ ہے حالانکہ ان میں مشقت ان سے کم ہے اور وقت بھی ان میں کم خرچ ہوتا ہے ۔ چونکہ صحابہ کرام خیر کے بہت زیادہ حریص تھے  اس لیے  وہ اس قسم کے سوالات کرتے رہتے تھے ۔ اور کون سا عمل سب سے افضل ہے یہ سوال دہراتے رہتے تھے ۔(موقع الشیخ خالد السبت/حدیث : اى الاعمال افضل)

چنانچہ یہاں پر نبی کریم سے جب سب سے افضل عمل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ کا جواب تھا کہ وہ اللہ و اس کے رسول پر ایمان لانا ہے ۔ اور بلا شبہ یہ دنیا کا سب سے افضل عمل ہے۔ اور یہی جڑ و بنیاد ہے جس پر اعمال کے قبول ہونے کا مدار ہے کیونکہ بغیر ایمان کے انسان کا  کوئی بھی نیک عمل عند اللہ مقبول نہیں ہے ۔

پھر آپ سے سوال کیاگیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے بہتر ہے ؟تو آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا سب سے افضل ہے ۔

تیسری بار جب یہی سوال آ پ سے پوچھا گیا تو آپ نے ارشادفرمایا: مبرور حج ہے ۔مبرور حج سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اس سےمراد وہ حج ہے جو گناہ سے خالی ہو ۔ اور ایک قول یہ ہے کہ وہ حج ہے جس میں حج کرنے والا جس حالت میں حج کرنے گیا تھا اس کے علاوہ دوسری حالت میں لوٹتا ہےیعنی اس کی حالت اللہ کے ساتھ  پہلے سے بہتر ہوجاتی ہے۔اور بعض کا کہنا ہے کہ مبرور سے مراد مقبول ہے یعنى جو حج اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کر چکا ہو۔(موقع الشیخ خالد السبت/حدیث : اى الاعمال افضل) اور ابن عبد البر نے ایضاح المبرور میں تحریر کیا ہے کہ مبرور حج وہ ہے جس میں ریاء و نمود , دکھاوا  شہرت طلبی , بدگوئی اور فسق و فجور نہ ہو اور مال حلال ہو (الوکہ/شرح حدیث  اى الاعمال افضل)

 اور اگر دیکھا جائے توان معانی میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ یونکہ وہی حج مقبول ہوگا جو گناہوں سے خالی ہوگا اور جس کا  اچھا اثر صاحب حج پر نمایاں ہوگا کیونکہ ایک دوسری حدیث میں ہے : من حج فلم یرفث و لم یفسق خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ أمہ , و فی احدى الروایات : غفر لہ ما تقدم من ذنبہ  جس نے حج کیا اور بد گوئی و بد عملی سے احتراز کیا نیز فسق و فجور سے دور رہا  تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جیسا کہ اپنی ماں سے ولادت کے دن تھا ۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ اسی لیے جب یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی حالت پہلے سے بہتر ہو تو یہ قبولیت کے اثرات و علامات میں سے ہے ۔ اور ایک انسان اپنے گناہوں کی مغفرت اور قبول عمل کے بعد اللہ تعالى سے زیادہ قریب حالت میں ہوتا ہے اور پہلے سے اس کی حالت بہتر ہوتی ہے ۔۔(موقع الشیخ خالد السبت/حدیث : اى الاعمال افضل)

احادیث میں تعارض اور ان کے درمیان توفیق:

تعارض : اس حدیث میں نبی کریم نے ترتیب وار تین افضل اعمال گنائے ہیں جب کہ دوسری احادیث میں اسی قسم کے  سوال کے جواب میں دوسرے اعمال کا تذکرہ ملتا ہے ۔ مثلا: حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت میں ہے کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول کون سا عمل اللہ کوسب سے زیادہ محبوب ہے ۔تو آپ نے جواب دیا کہ نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا۔ پھر میں نے یہی سوال دہرایا تو آپ کا جواب تھا کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ۔ پھر میں نے سوا ل کیاتوآپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ (بخاری و مسلم)

ان دونوں احادیث میں واضح طور پر فرق ہے جوہر کوئی جان سکتا ہے۔اس قسم کی اور بھی روایات ہیں ۔ اب اس تعارض کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے ۔

توفیق:  محدثین نے ان روایات کے درمیان توفیق کی تین صورتیں ذکر کی ہیں :

1-     یہ اوقات کے اختلاف پر محمول کیا جائے گا یعنی کسی وقت میں کوئی کام افضل ہوتا ہے اور کسی وقت میں کوئی دوسرا کام افضل ہوتا ہے ۔ وقت کی بنیاد پر افضلیت بدل جاتی ہے ۔مثال کے طور پر بسا اوقات جہاد سب سے افضل عمل ہوجاتا ہے اور یہ اس صورت میں ہے جب دشمن کا اسلامی ملک پر قبضہ ہوجائے اور وہ مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرلے ۔ اسی طرح جن روایات میں والدین کے سلوک کو اللہ کی راہ میں جہاد سے افضل بتایا  گیا ہےتو اس سے مراد وہ جہادہے جو فرض کفایہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں والدین سے اجازت پر شرکت موقوف ہے ۔ لیکن اگر جہاد فرض عین ہے تو ایسی صورت میں بلا شبہ  اس کا مقام ومرتبہ اعلى و افضل ہے ۔ (الوکہ/شرح حدیث  اى الاعمال افضل)

2-   اشخاص و افراد کے اختلاف پر محمول کیا جائے گا ۔اور کون سی چیز ان کے لیے موزوں و مناسب ہے ۔چونکہ سوال کرنے والوں کے حالا ت جدا جدا تھے اورآ پ کو ہر قوم کی رغبت و ضرورت کا علم تھا۔  اسی لیے آپ نے ہر ایک کو جو اس کے زیادہ مناسب و موزوں تھا اس کے مطابق جواب دیا۔ (الوکہ/شرح حدیث  اى الاعمال افضل, موقع الشیخ خالد السبت/حدیث : اى الاعمال افضل)

3-   یہ سابقہ تمام چیزوں پر محمول کیا جائے گا  کیونکہ اس تفضیل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عمل مطلق طور پر سب سے افضل ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ یہ بھی افضل اعمال میں سے ایک ہے ۔ اور یہ تمام افضل اعمال میں سے ہیں ۔ اور ان کا مقام و مرتبہ اللہ کے یہاں بہت زیادہ ہے ۔(موقع الشیخ خالد السبت/حدیث : اى الاعمال افضل, الوکہ/شرح حدیث  اى الاعمال افضل)

     خلاصہ کلام یہ ہے کہ مبرور حج ایک بہت ہی افضل عمل ہے لیکن بشرطیکہ حلال مال سے ہواور فسق و فجور نیزبدگوئی و بد عملی سے پاک ہو ۔ اور مبرور حج کی تعریف و تو صیف میں مذکور صفات و شروط  سے ایک حاجی خود ہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس کا حج مبرور ہے یا نہیں ۔اس کو کسی سے پوچھنے یا فیصلہ کرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

      اور اللہ کے فضل و کرم سے اسلام  میں افضل اعمال کی بہتات ہے کوئی  بھی شخص اپنی پسند, صلاحیت و طاقت کے مطابق ان میں سے کسی کو بھی انجام دے کر ڈھیر ساری نیکیاں کما سکتا ہے ۔ اور افضل اعمال والی روایتوں میں  کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ یہ تمام اعمال ہی افضل اعمال میں شامل ہیں ۔

     اللہ تعالى ہم تمام مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اور حجاج کرام  کے حج و عمرہ  کو قبول فرمائے ۔ آمین و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           

  

  

   

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: