رمضان اور قرآن کا باہمی تعلق

 

                           رمضان اور قرآن کا باہمی تعلق

آیت: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ (بقرہ/185 )

 ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کی اور( حق و باطل کے مابین )فرق کرنے کے واضح دلائل و براہین  ہیں ۔

توضیح کلمات:

شہر : یہ شہرۃ سے ماخوذ ہے ۔ بولا جاتا ہے : شهر الشيء يشهر شهرة وشهراً  یعنی جب کوئی چیز بہت زیادہ مشہور ہوجائے اور ہر کسی کو اس کا علم ہوجائے ۔ اور اسی سے کہا جاتا ہے: شہرت السیف یعنی تونے تلوار سونت لی ۔ بعض کا کہنا ہے کہ ہلال کو اس کی شہرت و وضاحت کی وجہ سے شہر کہا جاتا ہے اور اسی سے  شہر کو شہر کا نام دیا گیا ہے ۔

رمضان: اس ماہ کا نام ہے جس کا روزہ ہم سب پر فرض ہے ,  اور وہ قرطبی کے قول کے مطابق   رمض سے بنا ہے ۔بولا جاتا ہے : رمض الصائم یرمض  جب روزہ دار  کا پیٹ سخت پیاس کی وجہ سے گرم ہوجائے  اور جلنے لگے ۔اور رمضاء کا معنى سخت حرارت  اور گرمی کی شدت  ہے ۔اور رمضان کو رمضان اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نیک کاموں کے ذریعہ گناہوں کو جلادیتا ہے ۔ اور ایک قول یہ بھی ہے  کہ جب عربوں نے مہینوں کے ناموں کو پرانی زبان سے منتقل کیا  تو انہوں نے ان کا نام اس زمانہ  کے مطابق رکھا جس میں وہ واقع ہوئے تھے، اور یہ مہینہ موسم گرما کے دنوں کے ساتھ موافق تھا، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔(وسیط : طنطاوى)

 

تفسیر: یہ آیت قرآن کی سب سے بڑی سورت  بقرہ  کی آیت نمبر 185 کا ابتدائی حصہ ہے جس میں اللہ عز و جل نے رمضان و قرآن دونوں کی تعریف کی ہے اور ان کے اوصاف و خوبیوں کا ذکر ہے ۔ اور بلا شبہ رمضان و قرآن دونوں کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے اور دونوں کا آپس میں بہت ہی مضبوط و گہرا تعلق ہے جس کا اس آیت سے صاف و واضح طور پر پتہ چلتا ہے ۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالى نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کے نزول کے لیے رمضان کے مہینہ کو اختیار کیا ۔ اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں  ذکر کیا ہے  کہ حدیث کے مطابق رمضان ہی وہ مہینہ ہے  جس میں پہلے کے انبیاء پر بھی اسی مہینہ میں کتابوں کا نزول ہوا ۔ اس لیے صحف ابراہیم,  زبور , توریت  و انجیل سب کا نزول اسی مہینہ میں ہوا  ہے۔ لیکن قرآن و دیگر آسمانی کتابوں کے نزول میں فرق یہ ہے کہ سابقہ کتابیں ایک ہی مرتبہ میں اپنے رسولوں پر نازل ہوئیں البتہ قرآن کریم لوح محفوظ سے آسمانی دنیا کے بیت  العزت پر ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا  اور یہ رمضان کے شب قدر میں ہوا جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: انا انزلناہ فی لیلۃ القدر(قدر/1)  یعنی ہم نے اس کو قدر کی رات میں نازل کیا ہے ۔ اور ایک دوسری آیت میں ہے انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ (دخان/3)یعنی ہم نے اس کو بابرکت رات میں اتارا ہے ۔ پھر وہاں سے حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا 23/ سال میں مکمل قرآن مجید نبی کریم پر نازل ہوا۔(تفسیر ابن کثیر)

اور بعض کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ رمضان میں نزول قرآن کا آغاز ہوا اور پہلى وحی جو غار حرا میں آئی وہ رمضان میں آئی (تفسیر احسن البیان)

اس کے بعد اللہ نے قرآن کی تعریف کی ہے اور اس کے اوصاف و خوبیوں کا ذکر کیا ہے  اور یہ واضح کیا ہے کہ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو اس پر ایمان لائے, اس کی تصدیق کی اور اس کی اتباع کی ۔ اور اس میں واضح  ,روشن و صاف بینات یعنی دلائل و براہین  ہیں   ان کے لیے جو ان کو سمجھتا ہے اور ان  میں غور و فکر کرتا ہے  اور جوآپ کی لائی ہوئی  چیز کی صحت پر دلالت کرتی ہیں مثلا  ہدایت جو گمراہی  کے منافی ہے , اور رشد جو ضلالت کی ضد ہے اور جو حق و باطل اور حلال و حرام کے درمیان فرق کرنے والا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر)

لہذا اس قدر عظمت و فضیلت والا مہینہ اس لائق ہے کہ اس میں روزہ فرض کردیا جائے جو لوگوں کے لیے بطور  موسم ہو۔(تفسیر سعدی)

 اس آیت سے واضح ہے کہ قرآن مجید اور رمضان مبارک کا آپس میں نہایت گہرا و مضبوط تعلق ہے ۔ اسی وجہ سے نبی کریم اس ماہ مبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی آپ نے رمضان میں جبریل کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا ۔ اسی طرح رمضان کی تین راتوں  میں آپ نے صحابہ کرام  کو با جماعت قیام اللیل بھی کرایا ۔

معلوم ہوا کہ قرآن و رمضان دونوں کی اسلام میں بہت زیادہ عظمت , فضیلت اور بلند و بالا مقام و مرتبہ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے نہایت ہی مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور آپس میں بہت ہی اچھی طرح مربوط ہیں ۔  عصر حاضر کے ہم مسلمانوں کو چاہئیے  کہ ہم ان دونوں کی عظمت کو پہچانیں اور ان دونوں کے حقوق کو کما حقہ ادا کریں تبھی ہم ان دونوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور یہ ہمارے لیے مفید و نافع ہو سکتے ہیں ورنہ ہم ان دونوں عظیم نعمتوں  کے فوائد, ثمرات و برکتوں سے محروم رہیں گے اور ان کا کوئی اثر ہمارے اوپر نہیں ہوگا جیسا کہ آج کل کا مشاہدہ ہے  کہ روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن کے باوجود ہم مسلمانوں میں کوئی قابل قدر تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے اور یکے بعد دیگرے کئی رمضان آتا ہے اور گذر جاتا ہے لیکن ہماری حالت بالکل نہیں بدلتی ہے ۔

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو قرآن و رمضان دونوں کی عظمت و اہمیت کو جاننے کی توفیق عطا فرمائے اور دونوں کے حقوق کو بھی کما حقہ ادا کرنے کے قابل بنائے  اور اس میں کسی بھی طرح کی کوتاہی سے محفوظ رکھے  ۔ آمین۔

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: