مسلمانوں کی تمام مشکلات اور پریشانیوں کا حل: اتحاد و اتفاق

                                     بسم اللہ الرحمن الرحیم
                   مسلمانوں کی تمام مشکلات اور پریشانیوں کا حل :   اتحاد  و اتفاق

بردران اسلام  : آئیے  قرآن کی ان دو آیتوں کی روشنی میں موجودہ دور میں مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں , پہلی آیت سورہ آل عمران کی ہے جس میں اللہ تعالى ارشاد فرماتا ہے : واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا(آیت نمبر /103) یعنى اور تم سب لوگ مل کر اللہ کی رسی  یعنی دین اسلام کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں اختلاف  و تفرقہ نہ کرو۔
دوسری آیت سورہ انفال کی ہے , فرمان الہی ہے: و أطیعوا اللہ و رسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا و تذہب ریحکم واصبروا ان اللہ مع الصابرین(آیت نمبر /46)یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو , اور آپس میں لڑائی    و اختلاف  نہ کرو,  ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی , اور صبر کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
پہلی اور دوسری دونوں  آیتوں میں اللہ تعالى نے مسلمانوں کو اختلاف اور تفرقہ سے واضح طور پر روکا ہے ,جو ہر طرح کے اختلاف اور تفرقہ کو شامل ہے مثلا سیاسی , دینی اور اقتصادی اختلاف وغیرہ, اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اگر اختلاف کرو گے تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا, اور وہ نتیجہ امت کی کمزوری, ناکامی   اور طاقت و قوت کا ختم ہوجانا ہے, جن کا مشاہدہ  ہم خود اپنی آنکھوں سے اس دور میں کر رہے ہیں,جتنا مسلمان آجکل ذلیل و رسوا ہے شاید اس سے پہلے کسی دور میں اتنا ذلیل اور رسوا رہا ہو, اور جتناکمزور آج کا مسلمان ہے شاید کسی دور میں مسلمان اتنا کمزور رہا ہو, یہی وجہ ہے کہ آج کے زمانہ میں مسلمانوں کی بین الاقوامی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے ,اور دنیا کی تمام قومیں مسلمانوں پر پل پڑی ہیں, ہر جگہ ان کو ہراساں کیا جارہا ہے,ان کی عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے, ان کے املاک تباہ و برباد کئے جارہے ہیں, بہت سارے ممالک میں ان کو تہ تیغ کیا جارہا ہے, اسلامی شعائر و عبادات ادا کرنے سے روکا جاتا ہے مثلا چین نے صوبہ سنکیانگ(مشرقی ترکستان) میں مسلمانوں کے روزہ رکھنے پر پابندی لگا رکھی ہے, فرانس میں اسلامی پردہ پر پابندی ہے,بہت  سارے ممالک میں لمبی داڑھی رکھنے سے منع کیا جاتا ہے اور باریش شخص کو دہشت گرد تصور کیا جاتا ہے,فلسطین , برما ,سنٹرل افریقہ اور کئی ممالک میں مسلمان قتل و خونریزی کا شکار ہیں,  غرضیکہ امت اسلامی اس وقت بہت سارے مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے , مسلمانوں میں غربت بہت زیادہ ہے اور دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت غریب ہے , اسی طرح مسلمانوں میں جہالت بہت زیادہ ہے اور اکثر مسلمان ان پڑھ اور جاہل ہیں, مسلمان دنیا میں بیماریوں کی کثرت ہے اور وہ اعلی طبی سہولیات میسر نہیں ہیں جو غیر اسلامی دنیا میں پائی جاتی ہیں, وغیرہ وغیرہ ,مجھے امید ہے کہ ہر کوئی میری ان باتوں سے اتفاق کرے گا, لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کے وجوہات و اسباب کیا ہیں جب کہ اللہ نے مسلمانوں پر اس دور میں بھی ان کی معصیتوں اور گناہوں کے باوحود  بہت زیادہ احسان اور فضل و کرم کیا ہے,اور یہ فضل وکرم مختلف قسم کا ہے مثلا اللہ نے  مسلمانوں کو زراعتی ,حیوانی ,آبی ,معدنی غرضیکہ ہر قسم کی ثروت اور دولت سے نوزا ہے , پٹرول کا ایک وافر حصہ دیا ہے, ان کی تعداد بھی ایک ارب سے زائد ہے,  اسلامی ممالک کا رقبہ بھی بہت زیادہ ہے, ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک ہیں,ان کا محل وقوع بہت ہی اہم اور اسٹریٹیجک ہے, اہم آبی گذرگاہیں مسلمانوں کے پاس ہیں,  آب و ہوا بھی بہت اچھی اور ہر طرح کی ہے,پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان آج کے دور میں اتنا بے بس, کمزور اور ذلیل کیوں ہے اور اس کے خون کی قیمت پانی سے بھی ارزاں کیوں ہے ؟
میرے بھائیو : ان سوالوں کا جواب قرآن کی مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں موجود ہے, اور وہ مسلمانوں کا  ہر قسم کا باہمی اختلاف اور تفرقہ ہے جو ان تمام مشکلات کی جڑ اور بنیاد ہے, کیونکہ اللہ نے خود فرما دیا ہے کہ اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے , تفرقہ کرو گے , اتفاق و اتحاد کو پس پشت ڈال دو گےتو پھر کمزور ہوجاؤ گے ,  ناکامی تمھارا مقدر ہوگی ,تمھاری طاقت وقوت, شان و شوکت سب ختم ہو جائیگی , تمھاری عظمت و عزت خاک میں مل جائیگی ,اور تم ذلیل و خوار ہو جاؤ گے,لہذا اگر مسلمان دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اس اسلامی تعلیم پر عمل کرنا اور اس کو نافذ کرنا بہت ضروری ہے , کیونکہ ان آیتوں سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ طاقت , قوت ,عزت, غلبہ, کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ آپسی اتحاد و اتفاق ہی ہے , اورصرف  اسی کے ذریعہ ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کر سکتے ہیں, ورنہ ہم ایسے ہی ذلیل و خوار , کمزور اور بے بس و بے وقعت رہیں  گے۔
 اور یہ نقطہ بھی  یہاں پر بہت اہم ہے کہ یہ اتحاد و اتفاق ہر طرح کے اتفاق و اتحاد کو شامل ہے, مثال کے طور پر دینی اتفاق, سیاسی اتفاق , اقتصادی اتفاق, سماجی اور معاشرتی اتفاق وغیرہ
دینی اتفاق سے میری مراد یہ ہے کہ کم از کم پوری دنیا کے مسلمانوں کا  بنیادی عقیدہ ایک ہونا چاہئیے, جو ایک حد تک ان میں موجود ہے, لیکن مسلکی اور فقہی اختلافات کی وجہ سے ان کے اندر جو عداوت , نفرت , دشمنی اور اختلاف ہے وہ ختم ہونا چا ہیئے , ایک دوسرے کو کافر قرار دینے سے باز آنا چاہیئے , اور اگر کسی کے سامنے اپنی دعوت اور بات رکھنی ہے تو اسے اچھے اسلوب میں پیار و محبت کے ساتھ پیش کرنی چاہئیے,اور اگر یہ اختلافات نہ ختم ہو سکیں تو ہمیں پیار و محبت کے ساتھ بھائی بھائی بن کر رہنا چائیے جیسا کہ ہمارے اسلاف کا شیوہ تھا۔
سیاسی اتفاق سے میری مراد یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک کو ایک ملک ہونا چاہیئے, ان کا حاکم اور سلطان بھی ایک ہونا چاہئے, جیسا کہ نبی کریم اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں تھا,یہی اسلامی حکم ہے اور اسلام یہی چاہتا ہے, لیکن موجودہ دور میں اس سیاسی اتفاق کا پایا جانا  محض ایک خواب و خیال ہے, لیکن مسلمان کم از کم ایک فیڈریشن اور وفاق تو بنا سکتے ہیں یا کم ازکم خارجی امور میں ایک نقطہ نظر اپنا سکتے ہیں, اس سے بھی مسلمانوں کو قوت حاصل ہوگی اور ان کے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
 در اصل اسلام اور مسلمان دشمنوں خصوصا یہود و نصارى نے  سازِ ش کر کےاسلامی خلافت کا 1924 ع میں خاتمہ کردیا  جو ان کی سب سے بڑی کامیابی تھی , پھر انھوں نے اسلامی مملکت کو مختلف چھوٹے اور بڑے ملکوں میں تقسیم کردیا, اور ان کے درمیان مصنوعی سرحدیں کھینچ دیں (جو اسلامی نقطہ نظر سے سراسر غلط ہے)    تاکہ وہ آپس میں لڑتے رہیں , اور کبھی ایک نہ ہو سکیں, اور وہ اب بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جس کی سب سے واضح مثال سوڈان کی تقسیم ہے جب انھوں نے جولائی 2011 ع میں سوڈان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور ایک نیا عیسائی ملک جنوبی سوڈان کے نام سے قائم کردیا , اور انھوں نے ہی ملک شام  کو چار ملکوں فلسطین,جارڈن,سوریا,اور لبنان میں , بر صغیر ہندو پاک کو ہندوستان,پاکستان اور بنگلہ دیش میں  ,ترکستان کو پہلے دو حصوں مشرقی اور مغربی  ترکستان میں تقسیم کیا, مشرقی ترکستان پر چین نے قبضہ کیا اور اب تک اس پر قابض ہے اور اس نے اس کا نام سنکیانگ رکھا ہوا ہے, اور مغربی ترکستان پر روس نے قبضہ کیا اور اسے  پانچ  ملکوں ترکمانستان, طاجکستان, قزاقستان,ازبکستان, قرغزستان میں تقسیم کردیا, یہ ممالک اگر چہ اب روس کے پنجہ استبداد  سے  آزاد ہو چکے ہیں لیکن حقیقی آزادی ابھی تک ان کو نصیب نہیں ہوئی ہے, ان میں سے بعض ممالک نے اب بھی بعض اسلامی شعائر پر پابندی لگا رکھی ہے,  صومال کو جیبوتی , اریٹیریا اورموجودہ صومال  یعنی تین ملکوں میں تقسیم کر کے اس کے ایک اہم علاقہ  اوجادین کو حبشہ کے حوالہ کردیا,  انڈونیسیا   اور ملیشیا کو تقسیم کیا,اور اب بھی ان کا ارادہ عراق ,شام , پاکستان وغیرہ کو مزید تقسیم کرنے کا ہے , اور اس تقسیم کا واحد مقصد مسلمانوں کی طاقت کو کمزور کرنا اور ان کو آپس میں لڑانا ہے۔
اقصادی اتفاق سے میری مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں تجارت کرنے کی آزادی ہونی چاہئے, اس سلسلے میں ان کے اوپر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیئے ,کوئی بھی مسلمان  شرعی نقطہ نظر سےکہیں بھی جا کے تجارت کر سکتا ہے,اپنی روزی کما سکتا ہے , اپنا کاروبار کر سکتا ہے, اللہ کی قسم اگر تمام اسلامی ممالک اپنی سرحدیں مسلمانوں کے لئے کھول دیں اور ان کو ہر طرح کی آزادی دیدیں تو اس کے دینی , سیاسی , سماجی سمیت اقتصادی فوائد بھی بہت زیادہ ہوں گے,تجارت بڑھے گی,  کساد کم ہوگا, اقتصاد میں تیزی آئے گی, بہت سارے مسلمانوں کو روزگار حاصل ہوگا, گرانی کم ہو جائے گی,غربت میں کمی آئے گی , خوردو نوش اور غذائی اجناس سمیت تمام چیزیں ان شاء اللہ سستی ہوںگی, ہر طرف ارزانی ہوگی, سیر و سیاحت میں اضافہ ہوگا ,   نقل و مواصلات میں بے انتہا اضافہ ہوگا,مسلمان قومیں ایک دوسرے سے متعارف ہوں گی, ان کے درمیان آپسی   ربط و ضبط , میل جول  بڑھے گا,پیار و محبت میں اضافہ ہو گا, اسلامی اخوت  اور بھائی چارگی پروان چڑھے گی وغیرہ , اب سوال یہ ہے کہ اگر 21 یورپین ممالک اپنی سرحدیں ایک دوسرے کے لئے کھول سکتے ہیں تو پھر مسلمان ممالک ایسا کیوں نہیں کر سکتے ہیں۔
    یہ چند باتیں ہیں جو ان آیات کے تعلق سے میرے ذہن میں آیئں جن کو میں اپنے بھائیوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں, اور میرا یقین و عقیدہ ہے کہ جو اللہ نے فرمایا ہے وہی سچ ہے اور اسی پر عمل کر کے امت ایک بار پھر سرخرو اور کامیاب ہو سکتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت,مجد, شہرت, عزت اور ساکھ کو دوبارہ بحال کر سکتی ہے, اس کے علاوہ اور کوئی بھی حل کامیاب نہیں ہو سکتا ہے خواہ امت کتنی بھی کوشش کر لے سب بیکار اور وقت کا ضیاع  ہے,اور اگر اب بھی امت نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو ذلت , رسوائی  اور کمزوری مزید اس کا مقدر ہوگی کیونکہ اللہ کا فرمان ہے : ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتى یغیروا ما بانفسہم (رعد/11)  یعنی اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا ہے جب تک کہ کوئی قوم خود نہ اپنی حالت بدل لے, اور علامہ اقبال کا کہنا ہے
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں         ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
وما علینا الا البلاغ
   وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

1 التعليقات: