غرور و تکبر: تعریف, نشانیاں و برے نتائج

 غرور و تکبر: تعریف, نشانیاں  و برے  نتائج  

حدیث: عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((قال الله عز وجل: العزُّ إزاري، والكبرياء ردائي، فمن ينازعني عذَّبتُه))؛ رواه مسلم.

و فی روایۃ : يقولُ اللهُ تعالى : العظَمةُ إزاري والكبرياءُ ردائي فمن نازعني واحدًا منهما عذبتُه۔

معانی کلمات:

  عز  : اسی سے عزیز ہے جو اللہ کا ایک نام ہے ۔اور اس کا معنى شریف , قوی , غالب,  نادر و معزز ہے , جو کسی سے مغلوب نہ ہو اور کوئی اس کو عاجز نہ کر سکے  ۔

إزار : لنگی جو جسم کے نچلے حصہ کو ڈھکتا ہے ۔

کبریاء: بزرگی, عظمت , غرور , تکبر, کبر

رداء : چادر جو حسم کے اوپری حصہ پر ہوتا ہے ۔

ترجمہ:  حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:اللہ تعالى کا فرمان ہے کہ  عزت و عظمت میرا ازار ہے اور تکبر میری چادر ہے۔ اس لیے جو بھی مجھ سے جھگڑا کرے گا تو میں اس کو عذاب دوں گا۔(مسلم)

اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالى فرماتا ہے  کہ میرا ازار عظمت ہے اور میری رداء تکبر و غرور ہے ۔ اس لیے جو ان میں سے کسی کے بارے میں بھی مجھ سے تنازعہ کرے گا تو میں اس کو عذاب دوں گا۔ یہ حدیث الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ احادیث کی  مختلف کتابوں میں  وارد ہوئی ہے۔

شرح: مذکورہ بالا حدیث میں یہ بتلایا گیا ہے کہ  عظمت  و تکبر یہ اللہ کی دو ایسی صفات ہیں جو اسی کے ساتھ خاص ہیں ان میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ جیسا کہ اس دنیا میں انسان کی لنگی و چادر میں کوئی اس کا شریک نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ خود تنہا اس کو پہنتا ہے ۔اسی طرح ان دو صفات کو اللہ نے اپنے لیے لازم کر لیا ہے اور اس کی خصوصیات میں سے ہیں جن میں وہ اپنے علاوہ کسی کی مشارکت کو قبول نہیں کرتا ہے ۔ اس لیے جس نے عظمت و کبر کا دعوى کیا توگویا اس نے اللہ سے اس کے ملوکیت و ملکیت میں جھگڑا کیا ۔ اور جس نے اللہ سے جھگڑا کیا تو وہ اس کو عذاب دے گا۔ (موقع الجمھرۃ/معجم الاحادیث)

عظمت و تکبر  اللہ کی صفات میں سے ہیں ۔ جو اللہ کی عظمت سے واقف ہوتا ہے وہ اپنی  ذات سے کبر و غرور کوجڑ سے اکھاڑ کے پھینک دیتا ہے  ۔جو شخص اللہ سے اس کی کسی صفت کے بارے میں جھگڑا کرے گا وہ جہنم  میں ڈالا جائے گا۔ (موقع الجمھرۃ/معجم الاحادیث)

اس حدیث سے واضح طور پر  معلوم ہوتا ہے کہ تکبر گناہ کبیرہ ہے ۔ عذاب کا سبب ہے اور یہ صرف صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے ۔ اور ایک مسلمان کی صفت تواضع ہے  لہذا  ایک مسلمان شخص کو ہمیشہ متواضع ہونا چائیے ۔ اپنے نفس کو حقیر جاننا چائیے ۔ اور کبھی بھی متکبر و متجبر کی صفت نہیں اختیار کرنی چائیے ۔کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس کو اتنا ہی زیادہ بلند کرتا ہے ۔

تکبر کی تعریف و علامت:

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر وہ حدیث ذکر کردی جائے جس میں پیارے نبی نے خود کبر و تکبر کی تعریف کی ہے ۔ عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، عن النَّبي صلى الله عليه وسلم، قال لا يدخل الجنَّة من كان في قلبه مثقال ذرَّة من كبر! فقال رجل: إنَّ الرَّجل يحبُّ أن يكون ثوبه حسنًا، ونعله حسنة؟ قال: إنَّ اللَه جميل يحبُّ الجمال، الكبر: بطر الحقِّ وغمط النَّاس ( رواہ مسلم)

حضرت عبد اللہ بن مسعود نبی کریم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جنت میں وہ شخص داخل نہیں  ہوگا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کبر و غرور ہے ۔ اس پر ایک صحابی نے پوچھا کہ بلا شبہ ایک شخص پسند کرتا ہے کہ اس کی پوشاک اچھی ہو اور اس کا جوتا خوبصورت ہو ۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ بلا شبہ اللہ خوبصورت ہے اور وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے ۔ تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے ۔ یہ مسلم کی روایت ہے ۔

اس حدیث میں آپ نے خود ہی تکبر کی تعریف کردی ہے اور واضح کردیا کہ اچھی و خوبصورت چیزوں کا استعمال تکبر نہیں ہے  جو ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے ۔ بلکہ تکبر حق کا انکار کرنا اور اس کو نہ قبول کرنا ہے ۔ مثلا بہت سارے مشرکین , منافقین و یہود و نصارى جانتے تھے کہ آپ نبی برحق ہیں جیسا کہ اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ہے(بقرہ/146)  لیکن اس کے باوجود اسلام نہیں لائے ۔ تو یہ غرور و گھمنڈ ہے ۔ اسی طرح آج کے زمانہ میں بہت سارے مقلدین مسلمان خصوصا علماء جانتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی رو سے یہ مسئلہ صحیح نہیں ہے یا اس کےبالکل  برعکس ہے یا مرجوح ہے مثلا  تین طلاق , مروجہ حلالہ, نبی کے علم غیب, حاضر و ناظر کے مسائل وغیرہ لیکن اس کے باوجود ان کا انکار کردیتے ہیں  تو یہ کبر ہے ۔

اسی طرح کسی انسان کو کسی بھی وجہ سے مثال کے طور پر اس کے حسب و نسب, خاندان, فقر و غربت, قومیت, زبان, جہالت , پیشہ, رنگ و نسل  وغیرہ کی وجہ سے حقیر جاننا در اصل تکبر ہے ۔ اور جب ایک انسان کسی کو حقیر جانتا ہے ۔ اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو وہ اس کے حقوق کا انکاری ہوتا ہے ۔ اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے اور اس کو ہلکا و معمولی سمجھتا ہے ۔

تکبر کے برے اثرات و نتائج:

غور و فکر اور نصیحت حاصل کرنے سے محرومی:

ایک  مسلمان پر تکبر کا پہلا اثر غور و فکر, اور نصیحت و سبق حاصل کرنے  سے محرومی کا ہوتا ہے اور جو غور و فکر اور سبق و نصیحت حاصل کرنے سے محروم ہوا  تو اس کا نتیجہ تباہی اور صریح نقصان ہوگا۔ کیونکہ وہ اپنی خطاؤں اور غلطیوں پر باقی رہے گا  اور  اپنے کیچڑ میں ڈوبا رہے گا، جب تک زندگی ختم نہیں ہو جاتی۔

2- نفسیاتی پریشانی اورگھبراہٹ  :

اس لیے کہ متکبر اپنے جذبہ غرور و گھمنڈ کو تسکین دینے کے لیے  پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے آگے سر جھکائیں اور ہمیشہ اس کی رکاب میں رہیں، اور چونکہ  عزیز ترین اور معزز لوگ اس سے انکار کرتے ہیں، بلکہ وہ در اصل اس کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں تو جس سے اس کے اوپر مایوسی طاری ہوجاتی ہے اور جس کا نتیجہ نفسیاتی گھبراہٹ و بے چینی کی شکل میں نکلتا ہے ۔ یہ اس بات کے علاوہ ہے کہ اس متکبر کی اپنی ذات میں  مصروفیت اسے خدا کی معرفت اور اس کی یاد سے بالکل غافل کر دیتی  دیتی ہے۔ جس کے بہت سارے نتائج برآمد ہوتے ہیں جن میں دنیا کا سب سے کم تر نتیجہ نفسیاتی گھبراہٹ و پریشانی ہوتی ہے ۔

3- خرابیوں اور کمیوں کا  دور نہ ہونا :

اس کی وجہ یہ ہے کہ متکبر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہر چیز میں کمال کو پہنچ گیا ہے اس لیے  وہ اپنی ذات کا احتساب  اور جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ہے ، تا کہ وہ اس کی خوبیوں و خرابیوں کو جان لے ، اور جس چیز کے اصلاح کی ضرورت ہو اس کی اصلاح کرے ۔ اسی طرح وہ کسی دوسرے سے نصیحت، ہدایت یا رہنمائی قبول نہیں کرتا ہے۔ اور ایسے لوگ اپنی خامیوں اور خرابیوں  میں غرق رہتے ہیں، اورأپنی زندگی کی آخری سانس تک  اسی سے چمٹے رہتے ہیں اورجہنم  میں  داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جاتے ہیں ۔

4- جنت سے محرومی اور عذاب جہنم کا مستحق ہونا:

اور یہ ایک صریح چیز ہے کہ جو شخص الوہیت کے مقام پر تجاوز کرے گا اور اپنے عیوب اور برائیوں پر اڑا رہے گا, اس کی زندگی لازماً ختم ہو جائے گی اور جو اس نے  نیکی کی ہے جس پر  وہ اجر و ثواب کا مستحق ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا تو وہ ہمیشہ کے لیے یا عارضی طور پر جنت سے محروم ہو جائے گا۔

5- حامیوں کی حمایت کا فقدان، بلکہ اختلاف، ٹوٹ پھوٹ، اور تنہائی کا احساس:

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک انسان کا  دل فطری طور پر اس  سے محبت کرتا ہے جو اپنا پہلو اس  کے لیے نرم رکھتا ہے اور اپنا بازو اس کے لیے پست رکھتا ہے اور اس کی طرف  تکبر کے بجائے تواضع سے دیکھتا  ہے۔

6- الہی مدد و نصرت سے محرومی:

ایسا اس لیے ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالى کی جاری سنت ہے کہ وہ صرف انہیں کی مدد و حمایت کرتا ہے جن کے نفسوں میں انکساری و تواضع ہوتا ہے ۔ جو اپنے نفسوں سے شیطان کے حصہ کو باہرنکال  دیتے ہیں بلکہ اپنے نفسوں سے اپنے نفوس کے حصہ کو نکال دیتے ہیں یعنی انتہائی متواضع ہوتے ہیں اور ان میں انانیت بالکل نہیں ہوتی ہے  ۔ اور متکبر وہ ہیں جن کے نفوس میں غرور و گھمنڈ ہوتا ہے ۔ اور جس کی یہ صفت ہو تو اس کا الہی مدد یا حمایت کا کوئی حق نہیں ہوتا ہے ۔

7- اللہ کے غضب کا مستحق ہونا اور اس کی  ناراضگی  سے دوچار ہونا۔(موقع الدرر السنیۃ, من آثار الکبر)

دور حاضر میں مسلمانوں میں  تکبر و غرور: موجودہ دور کے مسلمانوں کا  اس باب  میں جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے  کہ ان میں یہ خرابی و برائی بہت زیادہ موجود ہے ۔ مسلمانوں کا کوئی معاشرہ, علاقہ یا ملک ایسا نہیں ہے جہاں یہ برائی موجود نہ ہو ۔ بعض علاقوں میں تو بہتات ہے ۔آج کے زمانہ میں بہت سارے مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کو قومیت و فقر و غربت کی بنیاد پر حقیر سمجھتے ہیں جو سراسر کبر  اور غرور ہے ۔ بہت سارے خلیجی ممالک مثلا سعودیہ , عمان, امارات,  قطر و کویت وغیرہ میں  بہت برا حال ہے ۔وہ ایشیا و افریقہ کے غیر ملکیوں کو اپنے برابر نہیں سمجھتے ہیں ۔کچھ علماء و فضلاء و دانشوروں کو چھوڑ کر اکثر کی یہی حالت ہے ۔وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی اخ سے خطاب کرنے کے بجائے صدیق و رفیق کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔ اسی طرح ہمارے ملک انڈیا کے  بہت سارے علاقوں میں خود مسلمان بہاری  مسلمان   بھائی کو کمتر سمجھتا ہے اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ کچھ علاقوں میں یوپی والوں کو حقیر جانا جاتا ہے ۔ اسی طرح بین الاقوامی طور پر بعض رنگ و نسل کے لوگ اپنے کو دوسری قوموں سے افضل و برتر سمجھتے ہیں ۔ مثلا یورپین اقوام و آرین قوم وغیرہ ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ گناہ کبیرہ ہر جگہ و ہر مسلمان معاشرہ میں موجود ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء و دعاۃ اس کی بابت عوام کو بیدار کریں اور ان میں اسلامی اخوت کا شعور بیدار کریں جس سے اس گناہ کبیرہ کا قلع قمع کیا جاسکے ۔

آخر میں اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی تکبر و غرور سے حفاظت فرمائے ۔ آمین ۔و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: