امامت میں مساوات

 

              امامت میں مساوات

      اللہ کے فضل و کرم سے پہلی بار  على گڑھ مسلم یونیورسٹی کےمرکز پروفیسر خلیق احمد نظامی برائے علوم قرآن کے  ماتحت" قرآن کی روشنی میں صنفی انصاف اور خواتین کو با اختیار بنانا" کے موضوع  پر 2-3/مارچ 2024ع  کو منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ مقالہ اسی سیمینا رمیں پیش کیا گیاتھا  جس  کے تمام مقالات چھپ چکے ہیں ۔ کتاب کا نام : قرآن کی روشنی میں صنفی انصاف اور خواتین کو با اختیار بنانا ہے ۔ میرے مقالہ کا عنوان امامت میں مساوات ہے ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ میں نے سیمینار کے موضوع پر سخت تنقید کی تھی پھر بھی میرا مقالہ بنا کسی حذف و اضافہ کے شائع کر دیا گیا۔یہ ہوتا ہے آزادی فکر اور مخالف رائے کا احترام ۔ قارئین   مجلہ کی خدمت میں اسے نشر کیا جا رہا ہے ۔

عناصر موضوع:

مقدمہ

سیمینار کے  موضوع پر تنقید

امامت کی لفظی و اصطلاحی تعریف

مساوات کی لفظی و اصطلاحی تعریف

مساوات کا اسلامی نظریہ

مساوات کا مغربی نظریہ

امامت کی اقسام

امامت عظمی کے شروط

نماز کی امامت کے شروط

مرد کی امامت عورتوں کے لیے

عورتوں کی امامت مردوں کے لیے

امامت میں مساوات

ام ورقہ کی حدیث  اور اس سے عورتوں کی امامت پر استدلال

صنفی مساوات

خاتمہ

 

      مقدمہ

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے  کہ دشمنانِ اسلام ایک منصوبہ بند طریقے سے  ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مذہب اسلام کے خلاف  دشمنانہ اورمنفی تحریک چلارہے ہیں، اور اس کو بدنام کرنے کے لیے  تمام تر وسائل  و ذرائع بروئے کار لارہے ہیں، یہ بد خواہ  اشخاص  اسلام کی عمدہ و بہترین, صاف و شفاف  تصویر کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں ، فرسودہ  اعتراضات و لا یعنی اشکالات اور بیہودہ الزامات و بیکار  اتہامات کو بار بار دہراتے رہتے ہیں، چبائے ہوئے نوالوں کو پھر سے چباتے ہیں اور بار بار الٹی اور قے کرکے اسی کو ہر بار چاٹتے ہیں، اور شک و شبہ کا  تخم ریزی کرکے  خرافات کا ایسا جنگل اگادیتے ہیں کہ الامان و  الحفیظ۔

بنا بریں  روشن خیال طبقہ اور دین و شریعت سے جاہل و ناواقف  یا معمولی واقفیت رکھنے والےاشخاص قصدا یا بغیر قصد کے  ان دشمنان  اسلام کے آلہٴ کار بنتے ہیں، اور اپنےدینی  اصول و قوانین اور مذہبی روایات و عادات  پر قدغن لگانے، ان کا حلیہ بگاڑنے اور دامنِ شریعت کو  نوچنے میں دشمنانِ دین کے ساتھ کھڑے  نظر آتے  ہیں، اسلامی علوم و فنون کی بابت  ان کی تقریر و تحریر ان کے نام نہاد ریسرچ اور مطالعہ کی آئینہ دار اور ان کے مبلغ علم کی غماز ہوتی ہیں، ایسے لوگ دین  کی آستین کے سانپ ثابت ہوتے ہیں۔

 اس طرح کی سادہ لوحی و نادانی یا  مکاری اور عیاری کی ایک مثال  مارچ 2005 ع میں امریکا میں پیش آئی۔ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی“ میں شعبہٴ فلسفہ اور مذاہب میں اسلامیات کی پروفیسر ڈاکٹر امینہ ودود نے کچھ دنوں پہلے اعلان کیا تھا، کہ وہ نمازِ جمعہ میں مردوں اور عورتوں کی امامت کریں گی۔ کئی مسلم جماعتوں اور  تنظیموں نے محترمہ کے اس اعلان پر مخالفت کی اور  احتجاج کیا ، اور کئی مسلم اسکالروں نے ان کو اس غیر شرعی ناجائز  عمل سے روکنا چاہا  ، مگر اس احتجاج و اضطراب سے محترمہ پر کوئی فرق نہیں پڑا ، اور ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ,  بالآخر انہوں نے  اعلان کے مطابق  ۱۸/ مارچ ۲۰۰۵ع / کو نیویارک کے ایک گرجا گھر میں نمازِ جمعہ کا خطبہ دیا اور نماز پڑھائی ۔ خبروں  کے مطابق چالیس مرد، ساٹھ خواتین اور کچھ بچوں نے ان کی امامت میں جمعہ کی نماز ادا کی۔(مولانا عمرفاروق لوہاروی: عورت کا نماز میں مردوں کی امامت کرنا,  مقالات و مضامین, موقع دار العلوم  دیوبند,   انڈیا)

ڈاکٹر امینہ کے بقول  اس عمل کی وجہ یہ ہے کہ  اس سے خواتین اور مردوں میں مساوات قائم ہوگا۔ غور کیجیے کہ انگریز مستشرق  ایڈورڈ ولیم لی نے قرآن کے منتخب حصوں کے اپنے انگریزی ترجمہ ( مطبوع ۱۸۴۳ع/ لندن) کے دیباچہ میں تحریر  تھا، کہ اسلام کا سب سے کمزور پہلو اس کا عورت کو کم تر درجہ دینا (Degradration of women) ہے، اس کے بعد سے اب تک یہ جھوٹ گوبلز  اور بی جی پی کے فارمولہ پر عمل کرتے ہوئے  بار بار دہرایا جاتا ہے، اور اس قدر دہرایا جاتا ہے کہ لوگ اس کو سچ سمجھنے لگے ہیں , اسی وجہ سے  نہ صرف اسلام کے کھلے دشمن اس کو دہراتے ہیں، بلکہ اسلام کا اعتراف کرنے والے نسبتاً منصف مزاج موٴرخین اور خود کو روشن خیال کہلوانے والے مسلمان بھی اس کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں، جیسے کہ وہ کوئی ثابت شدہ واقعہ  یا مسلم حقیقت ہو۔۔(مولانا عمرفاروق لوہاروی: عورت کا نماز میں مردوں کی امامت کرنا,  مقالات و مضامین, موقع دار العلوم  دیوبند,   انڈیا)

 اس کی وجہ  زوال پذیر قوموں کی ایک بڑی خصوصیت :  ذہنی مرعوبیت اور نفسیاتی شکست ہے۔  اور اس واقعہ کی روشنی میں ہم کم سے کم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ دور حاضر کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد  مغرب اور بالخصوص امریکی تصورات سے حد درجہ مرعوب ہے۔ ’انتہا پسندی‘ اور ’دقیانوسیت‘ ایسی خطرناک گالیاں بن گئی ہیں کہ ہمارے روشن خیال، اصحاب نظرو فکر اس گالی سے اپنے دامن کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اسلام اور اس کے احکام و آداب  سے ان کی اصل حیثیت میں وابستگی اور پورے اعتماد کے ساتھ ان کی طرف دعوت، اب بہت کم لوگوں کامزاج رہ گیا ہے۔ غالب مشغلہ یہ ہے کہ ان احکام و آداب  کو مغربی و امریکی آہنگ و رنگ  دیا جائے اور اہل مغرب   کو انسان کامل   تسلیم کرکے یہ ثابت کیا جائے کہ انسان کامل کی ہر سنت اور ان کا ہر قول ہمارےدین و شریعت  میں موجود ہے۔

ایک  منصف مزاج و حقیقت پسند آدمی پورے یقین و اعتماد  کے ساتھ یہ  کہہ سکتا ہے کہ اسلام نے عورت کو جو مقام و عزت عطا کی ہے۔  مغربی تہذیب و جدید معاشروں میں اسے اس کا دسواں حصہ  بھی حاصل نہیں ہے۔ لیکن اسے کیا کہا جائے کہ زوال و شکست, پسماندگی اور پچھڑاپن  آنکھوں پر ایسے پردے ڈالتی ہے کہ انسان اپنے وجود ہی پر شرمندہ شرمندہ سا رہتا ہے۔ چہ جائیکہ اپنی اقدار اور تہذیب کی خوبیوں پر فخر کرسکے۔( سید سعادت اللہ حسینی: عورت کی امامت اور شریعت کا مزاج, موقع ماہنامہ حجاب اسلامی, نئی دہلی)

سیمینار کے  موضوع پر تنقید

خاکساراپنے  سامعین , حاضرین  اور ذمہ داران سے معذرت کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ آن لائن سیمینار اور اس کا عنوان بھی اسی ذہنی مرعوبیت, نفسیاتی شکست اور فکری و ثقافتی غلامی کی دلیل اور  اس کی واضح علامت ہے , اور اس کا عنوان و موضوع ہی  نہایت  غلط ہے , سراسر باطل عنوان ہے , اس کا حقیقت سے ذرہ برابر کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ محض  غیروں کے پروپگنڈہ سے متاثر ہونے کی دلیل  ہے , اور اس سے دانستہ و نادانستہ طور پر   ایک غلط پیغام مسلمانوں و غیر مسلموں کے درمیان جاتا ہے کہ عورتوں کو اسلام میں بااختیار نہیں بنایا گیا ہے ۔ دین اسلام میں صنفی انصاف نہیں ہے ۔معاذ اللہ اسلام میں  عورت کے حقوق  میں کسی قسم کی  کوئی  کوتاہی و کمی ہے جس کو دور حاضر میں دور  کیا جا رہا ہے ۔ وغیرہ

صنفی انصاف اور با اختیار بنانے کا مطلب کیا ہے ؟ کیا اسلام میں صنفی انصاف نہیں ہے ؟ کیا ہمارے دین نے عورتوں کو بااختیار نہیں بنایا ہے؟ آخر آپ کس صنفی انصاف و اختیار کی بات کرتے ہیں؟  کیا آپ غیر مسلموں  کی طرح  ان کے اعتراض و الزام  سے ڈر کرمسلم خواتین  کو وہ حقوق دینا چاہتے ہیں  جو اللہ تعالى نے ان کو نہیں دئیے ہیں , اگر آپ کی مراد یہ ہے تو یہ سراسر غلط ہے کیونکہ شریعت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے اور نہ قانون سازی کا اختیار کسی کو ہے  مثلا اب آپ عورت کو یہ حق نہیں دے سکتے ہیں کہ وہ حاکم یا سربراہ بنے  یا نماز میں مردوں کی امامت کروائے یا جمعہ کا خطبہ دے یا پولس و فوج میں بھرتی ہو    وغیرہ ۔

اور اگر  آپ یہ سمجھتے  ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو با اختیار نہیں بنایا ہے تو یہ   بھی سراسر باطل و جھوٹ  اور اسلامی تعلیمات سے جہالت کی دلیل ہے ۔بلا شبہ اسلام نے عورت کو بااختیار بنایا   ہے اور ان کے ساتھ مکمل صنفی انصاف کیا ہے اورعورت کا اپنے شوہر کے تابع  ہونے کا مطلب اس کے اختیار کو چھیننا نہیں ہے یا اس کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا نہیں ہے بلکہ یہ تنظیمی چیز ہے تاکہ گھر و خاندان بنا کسی پریشانی کے سکون و  آرام سے چل سکے ۔ کیونکہ جس طرح ایک ملک میں دو وزیر اعظم , دو صدر نہیں ہو سکتے ہیں اور ایک میان میں دو تلواریں نہیں ہو سکتی ہیں اسی طرح ایک گھر میں ہر حیثیت سے مساوی دو افراد نہیں ہو سکتے ہیں ۔نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ 

اللہ کی قسم اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورتوں کو ان کی فطرت و ساخت کے اعتبار سے  جو حقوق دئیے  ہیں آج تک کسی بھی دین, مذہب, دستور , آئین  و نظام نے ان کو عطا نہیں کیا ہے ,  اسلام نے دنیا و آخرت دونوں میں ان کی جو تکریم کی ہے اور جو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے وہ  آج بھی دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں ہے,  اسلام نے ان کو وہ سارے موزوں و مناسب  ضروری  حقوق عطا کیے ہیں جو ان کے لیے از روئے انسان اس دنیا میں زندہ رہنےاور ترقی کرنے  کے لیے ضروری ہیں اور ان پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا ہے ۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ عدل کیا ہے, ان کو ان کے مناسب مساوات کا درجہ دیا ہے  اور   ان سب کے ذریعہ ان کو با اختیار بنایا ہے , اب آج کے دور میں یا کسی بھی زمانہ میں شریعت میں عطا کردہ حقوق  سے زیادہ ان کو حقوق دینا عورت کے ساتھ انصاف نہیں بلکہ سراسر ظلم, بے انصافی اور دھوکا  ہے, ان کے ساتھ مذاق اور کھلواڑ ہے, شریعت سے غداری ہےاور  اللہ کے حدود سے تجاوز کرنا ہے  ۔

   کیونکہ اللہ تعالى انسانوں کا خالق ہے اور خالق سے بڑھ کر مخلوق  کی حاجات, ضروریات, مصالح اور ذمہ داریوں کے بارے میں کوئی نہیں جانتا ہے ۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے: الا یعلم من خلق و ہو اللطیف الخبیر(ملک/14)  , اسی طرح خالق سے بڑھ کر اپنے مخلوق کا محب,   خیر خواہ,  ہمدرد و وفادار کوئی نہیں ہو سکتا ہے , خالق جو ماضی , حال, مستقبل , حاضر و غائب سب کچھ  جانتا ہے اور اس کا علم  قیامت تک ہونے والی ہر چیز کو محیط  ہے,  کیا  اس کو اس کا علم نہیں ہے کہ اس کے مخلوق کی بہتری , مصلحت, مفاد و  خیر کس چیز میں ہے ۔ کیا آج کے نام نہاد انسانیت کے ٹھیکیدار, خواتین کے جھوٹے ہمدرد  , اور غلط مساوات کا دعوى کرکے عورتوں کو سبز باغ دکھا کر ان کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنے والے اللہ و اس کے رسول سے زیادہ عورتوں کے ہمدرد, خیر خواہ و وفادار ہیں ,جو عورتوں کو با اختیار بنا رہے ہیں ,ایسے افراد   جن کا علم بہت ہی کم ہے, عقل بہت ہی محدود ہے , مستقبل کا کچھ پتہ نہیں ہے  وہ صنفی مساوات کے علمبردار ہیں۔ ہرگز نہیں ۔بلکہ ان کا مقصد کچھ اور ہے, کہیں پر نگاہیں اور کہیں پر نشانہ والا معاملہ ہے ۔ وہ عورت سے اس کی فطری امومت و  انوثت اورشرم و حیاء  چھین لینا چاہتے ہیں,وہ خواتین کو ان کی فطری خوبیوں و صفات سے محروم کرنا چاہتے ہیں ,  وہ عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا چاہتے ہیں ۔ وہ انسان کی کھال میں بھیڑئیے ہیں ۔وہ عورتوں کی آزادی نہیں بلکہ ان تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں ۔اور آج کل  مغربی تعلیم و تربیت  , تہذیب و تمدن کے نام پر یہی سب ہورہا ہے , علامہ اقبال نے بہت پہلے اس سے خبردار کر دیا تھا: ----

تہذیبِ فرنگی  ہے اگر  مرگِ    اُمومت

ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت

جس عِلم کی تاثیر سے زن  ہوتی ہے  نازن

کہتے  ہیں اُسی  علم  کو  اربابِ   نظر موت

بیگانہ رہے  دِیں  سے  اگر    مَدرسۂ   زن

ہے عشق و محبّت کے لیے عِلم و ہُنر موت

اب خاکسار  اصل موضوع پر آتا ہے  اور پہلے امامت کی لفظی و اصطلاحی تعریف کی جاتی ہے۔

امامت : یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ ام  (میم پر تشدید) فعل کا مصدر ہےاور یہ فعل ثلاثی لازم و متعدی دونوں  ہے  ۔ اس کا لفظی معنى  کئی ایک ہے, کہاجاتا ہے أمت المراۃ یعنی عورت ما ں بن گئی ,  ام الناس او بہم یعنی ان کے آگے بڑھا اور ان کو نماز پڑھائی , أم البیت قصدہ یعنی اس کا قصد کیا أم خصمہ یعنی دماغ پر مارنا وغیرہ (المعجم الوسیط, الدرر السنیہ, مصباح اللغات و ویکبیدیا)

اسی سے امام ہے جس کا معنى  ہے وہ جس کی پیروی کی جائے ,  پیش امام جس کی اقتدا کی جائے , پیشوا, نمونہ, واضح راستہ, قرآن , امیر لشکر, مصلح اور منتظم, خلیفہ, بادشاہ ,  سلطان و امیر  جس کی اتباع کی جائے لہذا اس کے اہل خانہ و امت اسی طرح کرتی ہے جس طرح وہ کرتا ہے یعنی جس چیز کا قصد وہ کرتا ہے اسی کا وہ بھی کرتے ہیں, اور ام در اصل  قصد و ارادہ  پر دلالت کرتاہے ۔( مصباح اللغات  و الدرر السنیہ)  

اسی وجہ سے  راستہ اور عمارت پر بھی  امام کا اطلاق کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی پیروی کی جاتی ہے، یعنی راستہ چلنے والا اس کے ذریعہ  رہنمائی  حاصل کرتا ہے، اور امام چونکہ  لوگوں کے لیے نمونہ اور قدوہ   ہوتا ہے کیونکہ لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں اور اس کی سیرت و کردار سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں  اس لیے اس کو کو امام کہا جاتا ہے ۔(ویکیبیڈیا: لفظ امامۃ)

قرآن میں امام کا   لفظ واحد اور جمع دونوں شکلوں  میں آیا ہے:فرمان باری تعالی ہے: ﴿قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لاَ يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ﴾(بقرہ/124) ﴿يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ﴾(اسراء/71) ﴿وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا﴾(انبیاء/73)  ﴿وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ﴾ (قصص/05)  ﴿فَقَاتِلُواْ أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لاَ أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ﴾ (توبہ/12) ( موقع الدرر السنیہ : ورود لفظ الامام فی القرآن و السنۃ, ویکیبیڈیا: لفظ امامۃ)

     احادیث میں بھی امام کا لفظ بکثرت آیا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
عن عَبدِ اللهِ بنِ عُمَرَ رَضيَ اللهُ عنهما أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال فالإمامُ الَّذي على النَّاسِ راعٍ، وهو مَسؤولٌ عن رَعِيَّتِه....(بخاری و مسلم) 

 عن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد، وإذا سجد فاسجدوا" (بخاری و مسلم).

عن أبي هريرة - رضي الله عنهقالقال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم: "الإمام ضامنٌ والمؤذن مؤتمن، اللهم أرشد الأئمة واغفر للمؤذنين  (ابوداؤد, ترمذی و احمد, موقع الدرر السنیہ : ورود لفظ الامام فی القرآن و السنۃ, امام البانی نے صحیح قرار دیا ہے)

اصطلاحی تعریف: امام اصطلاح میں تین چیزوں پر بولا جاتا ہے :

امامت کبرى یا عظمی : اس سے مراد خلافت یا بادشاہت یا سلطنت ہے ۔

امامت صغرى: یہ نماز کی امامت ہے ۔

امامت سے اس شخص کی بھی صفت بیان کی جاتی ہے جو اپنے فن میں ہر کسی سے برتر ہو , سب سے فائق ہو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں اپنے فن کا امام ہے ۔

اور یہاں پر مراد نماز کی امامت ہے جس کی تعریف کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کو ہر مسلمان جانتا ہے , اسی لیے اکثر فقہاء نے اس کی تعریف نہیں کی ہے لیکن کوئی شخص امام اسی وقت ہوگا جب ماموم اپنی نماز کو اس کی نماز سے مربوط کردے اور یہی ارتباط و تعلق ہی در اصل امامت ہے ۔ (محمد بن ابراہیم ہزاع: الامام و مسئولیتہ فی الصلاۃ, تعریف الامامۃ, موقع الکلم الطیب)

مساوات: یہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ ساوى فعل رباعی لازم متعدی  سے مصدر ہے , اس کے بھی کئی معانی ہیں , ساوى الشئی :برابر ہونا, ساوى الرجل قرنہ: ہم مثل ہونا, قدر و قیمت میں برابر ہونا, علم و شجاعت میں ایک جیسا ہونا, کہا جاتا ہے: ہذا لا یساوی درہما یہ ایک درہم کے برابر نہیں , دوچیزوں میں مساوات کا مطلب ہے کہ ان میں کوئی کمی یا زیادتی نہ ہو دونوں بالکل برابر ہوں ۔(المعجم الوسیط و مصباح اللغات)

"مساوات" یہ ایک ایسا  لفظ ہے جو  صحیح اور غلط دونوں  طرح سے استعمال ہوتا  ہے، اور یہ اچھائی اور برائی کے لیے ایک عام لفظ ہے, (موقع الاسلام  سوال و جواب, مفہوم المساواۃ فی الاسلام,  جواب نمبر 115534, تاریخ:21-7-2010) اور یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس کو  خیر یا شر کس مقصد کے تحت استعمال کرتا ہے ۔

اب آئیے جانتے ہیں کہ اسلام کا مساوات کے بارے میں کیا نقطہ نظر ہے اور مساوات کا مغربی نظریہ کیا ہے اور دونوں میں سے کون انسانوں کے لیے عمدہ , اچھا ,  بہتر و افضل ہے۔

مساوات کا اسلامی نظریہ:

جہاں تک اس کلمہ میں موجود خیر اور سچائی کا تعلق ہے تو وہ اسلام کا اپنا تصورِ مساوات ہے اور وہ  یہ ہے کہ تمام مسلمانوں میں انسان ہونے کے ناطے مساوات پائی جاتی ہے، اسلام ہر دو اَصناف (مرد اور عورت) کے مابین انسان ہونے کے ناطہ سے کوئی فرق اور امتیازروا نہیں رکھتا بلکہ دونوں کو ایک ہی نفس کا جوڑا قراردیتاہے: اللہ تعالى کا فرمان ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا النّاسُ اتَّقوا رَ‌بَّكُمُ الذی خلقکم من نفس و‌ٰحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنها زَوجَها وَبَثَّ مِنهُمارِ‌جالًاكَثيرً‌اوَنِساء﴾(نساء/1) 
''  
اے انسانو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت پھیلادیے۔'' ایک دوسری آیت میں ہے:
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ أَن خَلَقَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزو‌ٰجًا لِتَسكُنوا إِلَيها وَجَعَلَ بَينَكُم مَوَدَّةً وَرَ‌حمَةً﴾.(روم/21)''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں  تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو ۔ اوراس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ (محمد عمران صدیقی: ' 'مساوات' یا 'عدل' ؛ شرعی نقطہ نظر,  موقع محدث , اپریل, 2010ع )

 تمام مسلمان شریعت کے نزدیک اس کے احکام و فرائض میں برابر ہیں، قانون سب کے لیے ایک ہے ,کالے گورے اور عربی وعجمی میں کوئی امتیاز موجود نہیں ہے,  اس میں کچھ مذاہب کی طرح طبقاتی نظام نہیں ہے , اور نہ ہی حسب و نسب, رنگ و نسل, ملک و علاقہ, قومیت و شہریت , مالداری و غربت   وغیرہ کی بنیاد پر ان کے درمیان فرق کیا جاتا ہے ,  اسلام میں برتری کا صرف ایک معیار ہے اور وہ تقوى ہے ۔ (عبد الکریم زیدان:المدخل لدراسۃ الشریعۃ الاسلامیۃ,  خصائص الشریعو الاسلامیۃ , ط 1, بیروت: مؤسسۃ الرسالہ ناشرون, 1425ھ /2005ع ,  ص 39-40)شریعت کے مخاطب ہونے اور اللہ کی بندگی بجا لانے کے لحا ظ سے بھی مساوات ہے، بقولِ شاعر:

    ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز           نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔

  نیز مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات یہ بھی ہے کہ  جس طرح کوئی مرد اللہ کی مخلوق ہے اسی طرح عورت بھی، جس طرح مرد پر کچھ ذمہ داریاں اپنے خالق کی طرف سے عائد کی گئی ہیں، اسی طرح عورت پر بھی۔ جس طرح مرد کے کچھ حقوق ہیں، اسی طرح عورت کے لئے بھی اور جس طرح مرد قیامت کے دن اپنے ربّ کے سامنے جواب دہ ہے، اسی طرح عورت بھی اپنے عقیدہ و عمل میں اپنے ربّ کے سامنے جواب دہ ہوگی , اور جس طرح  آخرت میں اجر اور جنت کا وعدہ مرد کے لیے ہے اسی طرح عورت کے لیے  بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) (جو بھی نیک عمل کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور وہ مومن ہو- ہم اسے ضرور اچھی زندگی دیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ انہیں ضرور دیں گے  (نحل: 97) (محمد عمران صدیقی: ' 'مساوات' یا 'عدل' ؛ شرعی نقطہ نظر,  موقع محدث , اپریل, 2010ع,موقع الاسلام  سوال و جواب, مفہوم المساواۃ فی الاسلام,  جواب نمبر 115534, تاریخ:21-7-2010)

  اسی کے مثل  سزاؤں کے نفاذ میں نہ تو عزت دار اور پست کی تمیز ہے اور نہ ہی مرد اور عورت کے درمیان۔ اگر ان میں سے کوئی ایسا کام کرے جو کوڑے مارنے، سنگسار کرنے یا قتل کرنے کے لائق ہے۔

اس کی عملی مثالیں سامنے آئی ہیں، جب عرب کے معزز قبائل کی ایک عورت نے چوری کی اور جس کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کیا گیا  تو کوئی اس کی شفاعت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا: : ( إنَّمَا أَهْلَكَ الذينَ قَبْلَكُم أنَّهُم كانُوا إِذَا سَرَقَ ِفيهُم الشَّريفُ تَرَكُوه ، وَإِذَا سَرَقَ فيهُم الضَّعيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الحَدَّ ) بخاری و مسلم ’’تم سے پہلے کے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی  چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب ان میں سے کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اس  پر سزا جاری کرتے تھے ۔ اور جب ایک صحابی نے دوسرے صحابی کو اس کے ماں کے کالی ہونے کا طعنہ دیا  تو رسول اللہ نے اس سے غصہ ہو کر فرمایا:”تم ایسے آدمی ہو جس میں جاہلیت  ہے"۔بخاری و مسلم

یہی لفظ مساوات  کا صحیح مفہوم ہے اور یہ اسلام کا تصور مساوات ہے  اور جو لوگ  مغربی  مساوات کا مطالبہ کرنے والے ہیں وہ   یہ معنى ہرگز نہیں مراد لیتے ہیں  اور نہ ہی ایسا  چاہتے ہیں ۔(موقع الاسلام  سوال و جواب, مفہوم المساواۃ فی الاسلام,  جواب نمبر 115534, تاریخ:21-7-2010)

پھر جاہلیت کے علم برداراسی 'مساوات' کو 'صنفی' تفریق مٹانے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مرد اور عورت مساوی ہیں،اُنہیں برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کارگاہ ِعمل میں اُترنا چاہئے۔ زندگی کے ہر شعبے میں عورت کا کردار ہونا چاہئے اور مرد وعورت کو مخلوط ہونا چاہئے۔ چادرا ور چاردیواری پرانے دور کی باتیں ہیں۔ شرم و حیا رجعت پسندی کی یادگاریں ہیں، اگر مرد کو چارشادیوں کی اجازت ہے تو عورت کو بھی برابر ہونی چاہئے ورنہ مرد کے لئے بھی ایک۔ مرد نبی ہوسکتا ہے تو عورت کیوں نہیں؟ مرد سربراہ مملکت بن سکتا ہے تو عورت کیوں نہیں؟
    اس 'صنفی' مساوات کی دلیل نہ تو کسی نبی کے صحیفے میں ہے نہ عقل سلیم کے وظیفے سے بلکہ سراسر اَہوا اور ظنون ہیں، شہوات و شبہات ہیں، خواہشاتِ نفس اور توہماتِ عقل ہیں، شیطانی وسوسے ہیں، علمِ وحی سے بغاوت ہے، تعلیماتِ انبیا سے سرکشی ہے اور عبدیت و بندگی سے اِعراض ہے۔(محمد عمران صدیقی: ' 'مساوات' یا 'عدل' ؛ شرعی نقطہ نظر,  موقع محدث , اپریل, 2010ع ) اور مغربی مساوات کی طرف دعوت دینا بلا شبہ گمراہی . زندقہ اور الحاد ہے  کیونکہ اللہ کا فرمان ہے : و  لیس الذکر کالانثى  (آل عمران/36) یعنی  اور مرد عورت کی طرح نہیں ہے۔(موقع الاسلام  سوال و جواب, مفہوم المساواۃ فی الاسلام,  جواب نمبر 115534, تاریخ:21-7-2010)

اسلام 'دینِ عدل' ہے۔ بندہ ہونے کے ناطے مرد اور عورت برابرہیں تو نماز کی ادائیگی اور روزہ رکھنا دونوں پر فرض ہے۔ صنفی اعتبار سے مختلف ہیں تو عورت کے لئے حیض کے دنوں میں نماز معاف اور روزہ قضا کردیا گیا۔ وراثت کا حق دار تو دونوں کو قرار دیا گیا، لیکن ذمہ داریوں میں فرق کی وجہ سے حق میں تفریق کردی گئی۔ معاشی سرگرمیوں کی اجازت دونوں کے لئے ہے لیکن فریضہ یہ مردوں کا قرار پایا۔ جہاد میں شرکت کی اجازت دونوں کے لئے ہے، لیکن فرض مردوں پر ہے۔۔(محمد عمران صدیقی: ' 'مساوات' یا 'عدل' ؛ شرعی نقطہ نظر,  موقع محدث , اپریل, 2010ع )

مساوات کا مغربی نظریہ:

مساوات کی مغربی تعریف : مذہب، رنگ، زبان، جنس، سیاسی رائے یا سماجی سطح کی بنیاد پر امتیاز کے بغیر تمام سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کا حصول ہے۔(ویکیبیدیا: المساواۃ)

اور جو مغربی یا  ان کے ہم خیال  لوگ اسے استعمال کرتے ہیں اور اس کی طرف دعوت دیتے ہیں ان میں سے اکثر کا مطلب اس کے غیر درست  استعمال میں موجود  صرف غلط اور برائی سے ہوتا  ہے ۔  اور ان کے نزدیک اس کا استعمال  تمام لوگوں کو برابر بتانے کے لیے کیا جاتا ہے , ان کے درمیان دین یا جنس کی وجہ سے کوئی تفریق نہیں کی جاتی  ہے , اسی وجہ سے انہوں نے تمام شعبوں میں مردوں کے ساتھ خواتین کی برابری کا مطالبہ کیا، یہاں تک کہ وہ بھی جو مردوں کی خصوصیت ہیں۔(موقع الاسلام  سوال و جواب, مفہوم المساواۃ فی الاسلام,  جواب نمبر 115534, تاریخ:21-7-2010)

صنفی مساوات یا مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مرد اور عورت کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہیے۔

یہ تصور انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے اعلامیہ پر مبنی ہے اور اس کا حتمی مقصد قانون میں مساوات اور سماجی رویوں میں مساوات کا حصول ہے، خاص طور پر جمہوری سرگرمیوں میں اور مساوی کام کے لیے مساوی اجرت حاصل کرنا۔

صنفی مساوات کا مقصد جنسوں کے درمیان برابری پیدا کرنا اور زندگی کے تمام شعبوں میں ان کا تمام حقوق اور مراعات سے بہرہ  ور ہونا ہے۔ اور یہ اقوام متحدہ کے ملینیم اہداف میں سے ایک ہے تاکہ عورت  ترقی میں حصہ لے ,  معاشرے کی تعمیر کرے، اور ان کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے ۔۔(ویکیبیدیا: المساواۃ)

اس تعریف سے واضح ہے کہ مغرب کا مساواتی نظریہ عورت و مرد کے مابین مطلق مساوات کا ہے , ان دونوں میں کسی قسم کی تفریق صحیح نہیں ہے ۔

معلوم ہوا کہ اسلام کا مساواتی نظریہ  اور مغرب و امریکہ کا  مساواتی نظریہ  بہت سارے امور میں خصاصا مرد و زن کے مابین مساوات کے بارے میں یکسر الگ و مختلف ہے , دونوں میں مکمل یکسانیت نہیں ہے  اور نہ وہ آپس میں میل کھاتے ہیں ۔اسلام میں مساوات ہے اور نہیں بھی ہے  کیونکہ کچھ چیزوں میں مساوات ہے اور کچھ میں نہیں ہے۔

اور آج کل ایک  المیہ یہ  بھی ہے کہ جب سے اہل مغرب نے مرد و زن کے درمیان مطلق مساوات کا نعرہ لگایا ہے تو اس کے رد میں کچھ علماء نے سرے ہی سے مساوات کا انکار کردیا اور ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں عدل ہے مساوات نہیں ہے ۔ یعنی دونوں طرف سے  افراط و تفریط ہے , مستحسن و معتدل نظریہ وہی ہے کہ مطلق مساوات قطعا  نہیں ہے کچھ چیزوں میں ہے اور کچھ چیزوں میں نہیں ہے  ۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے ۔

اسلامی و مغربی مساوات اور ان کے درمیان فرق کو جان لینے کے بعد خاکسار  ایک بار پھر امامت کی طرف آتا ہے ۔

امامت کے اقسام:

 جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا اس سے واضح ہے کہ امامت کی کل دو قسمیں ہیں  امامت کبرى و امامت صغرى اور دونوں امامت کے لیے  بہت سارے شروط ہیں  جن میں سے ایک اہم  و بنیادی شرط ذکورت  یعنی مرد ہونا ہے ۔

خلیفہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمان  عاقل بالغ آزاد کے ساتھ مرد بھی ہو ,اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے , اس لیے کوئی عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی ہے ۔اس کی دلیل  ابو بکرہ کی مشہور روایت ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے : لن یفلح قوم ولوا امرھم امراۃ ( بخاری )  کیونکہ اس عہدہ سے خطرناک کام اور عظیم ذمہ داریاں مربوط ہوتی ہیں  جو عورت کی فطرت اور اس کی نسوانیت کے منافی ہوتی ہیں , اس لیے شریعت کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اس کو اس  عظیم منصب سے باز رکھا جائے اور اس کو اس کا مکلف نہ بنایا جائے اور اسے اس کے سپرد نہ کیا جائے, پہلے اس پر رحمت و شفقت کرتے ہوئے اور دوسرے ، اس منصب کو  کسی ایسے شخص کے سپرد کرنے  سے بچانا جو اس کو ادا کرنے سے قاصر ہے، جس سے وہ ضائع ہوجائے ۔(اسلام ویب: شروط الامامۃ العظمی)

نماز کی امامت کے لیے بھی مرد کی شرط ہے اگر نمازیوں میں صرف مرد یا مرد و خواتین دونوں ہیں , ہاں اگر صرف خواتین ہیں تو عورت ان کی امامت کراسکتی ہے ۔ لیکن صرف مردوں یا مرد و خواتین کی امامت وہ شرعی نقطہ نظر سے بالکل نہیں کر سکتی ہے ۔ اگر کسی عورت کی امامت میں لوگ نماز ادا کرتے ہیں تو ان کی نماز فاسد ہوجائے گی۔یہی سلف و خلف کا مسلک ہے,  اس پر چاروں مسالک و سات فقہاء  کا اتفاق ہے بلکہ اس پر اجماع بھی بیان کیا جاتا ہے ۔(شروط امامۃ  الصلاۃ: اسلام ویب و الدرر السنیہ) اور مرد صرف عورتوں کی بھی امامت کراسکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ عورتوں کی تعداد دو یا اس سے زائد ہو تاکہ خلوت نہ ہو اور بہتر ہے کہ اس کے ساتھ محرم ہو ۔ بعض نے صرف اجنبیات عورتوں کی امامت کو مکروہ کہاہے لیکن نماز ان کے یہاں بھی درست ہے۔(اسلام ویب/ الفتوى:حکم امامۃ الرجل لمجموعۃ من النساء,  و حکم امامۃ الرجل لنساء اجنبیات وحدہن, الموقع الرسمی لسماحۃ الشیخ الامام ابن باز:فتاوى: حکم امامۃ الرجل للنساء)

امامت میں مساوات

کیا امامت میں مرد و زن کے مابین مساوات ممکن ہے, اس  کے لیے ہم سب کو یہ جاننا  از حد ضروری ہے کہ عورت کو  مرد کی طرح شریعت میں امامت کا حق حاصل ہے کہ نہیں؟کیا اس کا امامت کرنا شرعا جائز ہے ؟

ظاہر ہے کہ شریعت کی روشنی میں اس سوال کا جواب نفی میں ہے ,  اور ایک خاتون کے لیے ہرگز نہیں جائز ہے کہ وہ صرف مردوں یا مردوں و عورتوں کی مشترکہ جماعت کی امامت کرائے   اوراس کی  مندرجہ ذیل وجوہات ہیں: ----

اول: بخاری کی درج بالا روایت ہے جس میں عورت کو ذمہ داری دینے سے منع کیا گیا ہے  ۔ کیونکہ اس گروہ نے اپنے امور امام کے سپرد کر رکھے ہیں۔ اس لیے ایک  عورت کا ان کا امام ہونا درست نہیں۔

دوم: نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا مردوں سے پیچھے رہنا ضروری  ہے, ان کی صف ہمیشہ مردوں ہی کے نہیں بلکہ اگر بچے ہیں تو ان کے بھی پیچھے ہوگی  ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امامت میں ان پر سبقت کرنا جائز نہیں ہے۔

تیسرا: کیونکہ ایسا فتنہ ہو سکتا ہے جو آدمی کی نماز میں خلل ڈالے خواہ وہ اس کے پہلو میں ہو یا اس کے سامنے۔(شرو ط الامامۃ: موقع الدرر السنیہ)

    انہیں اسباب کی وجہ سے خواتین کی امامت  پر اسلامی تاریخ میں کبھی بھی اختلاف رائے نہیں رہا۔ ہمیشہ اس بات پر امت متفق رہی کہ کوئی خاتون ، مردوں، یامرد و خواتین کی مشترکہ جماعت کی امامت نہیں کرسکتی ہے ۔ گرچہ اس ممانعت کی واضح صراحت کسی نص سے نہیں ہوتی لیکن چودہ صدیوں میں امت کا اس پر اتفاق اور متواتر عمل خود ایک بہت مضبوط دلیل ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے نصوص سے ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے یہ ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے اس مسئلہ پر اپنے بیان میں ان نصوص کو یکجا کردیا ہے۔( سید سعادت اللہ حسینی: عورت کی امامت اور شریعت کا مزاج, موقع ماہنامہ حجاب اسلامی, نئی دہلی)

   اور جیسا کہ اوپر شروط میں ذکر کیا گیا ہے کہ نماز کی امامت کا ایک اہم و بنیادی شرط ذکورت ہے لہذا عورت قطعا امام نہیں ہو سکتی ہے ۔ اس پر اجماع بھی منقول ہے ۔

      معلوم ہوا کہ کسی بھی صورت میں عورت خالص مردوں یا مردوں و خواتین کی مشترکہ جماعت کی امام نہیں ہو سکتی ہے,یہ شرعا جائز نہیں ہے , اسی سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ امامت  نماز میں مرد و زن کے مابین مساوات نہیں ہے ۔

ام ورقہ کی حدیث سے عورت کی امامت پر استدلال :

    بعض حضرات حضرت ام ورقہ کی حدیث سے خواتین کا   خالص مردوں یا مردوں و عورتوں کی مشترکہ جماعت کی امامت پر استدلا ل کرتے ہیں, اس  حدیث کے الفاظ یہ ہیں:----  

- كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يَزورُها في بَيتِها ، وجعلَ لَها مؤذِّنًا يؤذِّنُ لَها ، وأمرَها أن تؤمَّ أهلَ دارِها ( اس حدیث کی راویہ ام ورقہ بنت عبد اللہ بن حارث ہیں , صحیح ابو داؤد/592, علامہ البانی نے اس کو حسن قرار دیا ہے )

  یہ حدیث ایک دوسری حدیث کا خلاصہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر جانے کا  ارادہ کیا  تو ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہا آپ کے پاس تشریف لائیں  اور آپ کے ساتھ  غزوہ میں  جانے کی  اجازت طلب کی تاکہ  بیماروں کی دیکھ بھال کریں ۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالى ان کو شہادت نصیب کرے،توآپ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھر میں باقی رہو  اور تم کو عنقریب شہادت نصیب ہوگی ، اسی لیے ان کو شہیدہ کہا جاتا تھا , اور رسول اللہ آپ کی تکریم کرتے تھے اوران کے گھر ان سے ملاقات کے لیے جاتے تھے بلکہ آپ نے ان کے لیے ایک مؤذن متعین کردیا تھا جو ان کے اذان دیتا تھا اور وہ  کافی بوڑھا تھا , پھر آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کریں  یعنی ان کو نماز پڑھائیں ,  کیونکہ انہوں نے قرآن حفظ کیا  تھا اور  غالب امکان یہ ہے کہ اہل دارہا  سے مراد ان کے گھر کی عورتیں اور لونڈیاں ہیں ۔ اور یہ حدیث عورتوں کی امامت اور ان کی جماعت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتی ہے۔(موقع الدرر السنیہ/ الموسوعۃ الحدیثیہ, حدیث ام ورقہ )

     اس حدیث سے واضح ہے کہ نبی کریم نے ان کو ان کے گھر کا امام بنایا تھا اور واضح ہے کہ گھر میں مرد و خواتین دونوں ہوتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ عورت مردوں یا مردوں اور عورتوں کی مشترکہ جماعت کی امامت کراسکتی ہے ۔

لیکن اس حدیث سے یہ استدلال کرنا بہت سارے اسباب کی بنا پر صحیح نہیں ہے :---

1 – امام ذہبی اور بعض دیگر ائمہ نے اس حدیث کو اس کے راوی عبد الرحمن بن خلاد اور  ولید بن جمیع کی دادی کی جہالت کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے ۔لیکن علامہ البانی نے اس کو حسن قرار دیا ہے(ارشیف ملتقى اہل الحدیث, ما صحۃ حدیث ام ورقہ),   اور بعض دیگر اہل علم نے صحیح قرار دیا ہے , ان کا کہنا ہے کہ عبد الرحمن کے  حالات مخفی نہیں رہے بلکہ مشہور معروف ہیں  لہذا جہالت کا دعوى صحیح نہیں ہے۔(موقع اہل الحدیث و الاثر, الشیخ محمد بن صالح  عثیمین, بلوغ المرام ,شرح کتاب الصلاۃ)

2- اس حدیث کو صحیح ماننے کی صورت میں بھی اس سے عورت کی امامت پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سے بالکل یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ ان کے گھر کے مرد بھی ان کی امامت میں نماز ادا کرتے تھے , اس کی اس میں صراحت بالکل نہیں ہے, اگر وہ ان کے پیچھے نماز ادا کرتے تو اس کی صراحت ضرور ہوتی۔(راقم)

3- اس حدیث کی وضاحت دار قطنی کی ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے  جس میں آیا ہے تؤم  نساءھا یعنی وہ اپنے عورتوں کی امامت کراتی تھیں ۔ لہذا  اہل دارہا کو من النساء کے ساتھ خاص کر دیا جائے گا ۔ اس میں مرد شامل نہیں ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ وہ صرف عورتوں کی امام تھیں مردوں کی نہیں ۔ ( موقع موسوعۃ الاحادیث النبویہ, حدیث ام ورقہ)

4- اگر  اس سے استدلال کرتے ہوئے یہ مان لیا جائے کہ عورت امام بن سکتی ہے  تو یہ حدیث دوسری صحیح احادیث  جن میں عورت کے کھڑی ہونے کی جگہ مردوں کی صفوں کے پیچھے بتایا گیا ہے کے مخالف ہے , اس سے  متعارض ہے لہذا اس کا  صحیح معنى وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا ۔(ارشیف ملتقى اہل الحدیث, ما صحۃ حدیث ام ورقہ)

5- اس حدیث کی ایک  توجیہ  ڈاکٹر حمید اللہ نے کی ہے ۔ خطبات بھاولپور میں ڈاکٹر صاحب نے اس حدیث کے متعلق لکھا ہے کہ ایسی استثنائی صورتیں جو کبھی کبھی امت کو پیش آسکتی ہیں ان کی پیش بندی کے لیے رسول اللہ ﷺ نے یہ انتخاب فرمایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ خود انہوں نے ایک افغان طالب علم لڑکی کو اس کے نو مسلم شوہر کی امامت کی اجازت دی تھی۔ گویا ام ورقہ کا واقعہ ایک استثنائی صورت ہے جسے عمومی قاعدہ نہیں بنایا جاسکتا۔۔( سید سعادت اللہ حسینی: عورت کی امامت اور شریعت کا مزاج, موقع ماہنامہ حجاب اسلامی, نئی دہلی)

    ظاہر ہے کہ ان کی یہ توجیہ سراسر غلط ہے اور اس میں کوئی دم نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ کسی  نومسلم مرد کا نماز و اس کی دعائیں سیکھنا کوئی مشکل امر نہیں ہے اور مردو  عورت فردا فردا نماز ادا کرسکتے ہیں  ضروری نہیں ہے کہ جماعت سے ادا کریں اور شوہر بیوی کو دیکھ کر نماز سیکھ سکتا ہے ۔

    معلوم ہوا کہ حضرت ام ورقہ کی روایت سے عورت کی امامت پر استدلال کرنا قطعا صحیح نہیں ہے ۔

ایک ضروری وضاحت:

   یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ عورتوں کی امامت کی ممانعت کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کم تر درجہ کی مالک ہے۔ یا اس کا مقام پست تر ہے۔ یہ محض تقسیم کار کا اسلامی اصول ہے۔ اس مسئلہ پر بی بی سی پر بحث کرتے ہوئے ایک ترک مسلمان احمد نے سچ کہا کہ ’’یہ ایسا ہی ہے جیسے مرد و زن کی مساوات کے چکر میں میں اپنے نومولود شیر خوار کو دودھ پلانے کی کوشش کروں۔‘‘ جس طرح احمد کو مرد ہونے کی حیثیت سے اپنے بچہ کودودھ پلانے کاموقع حاصل نہیں اور اس محرومی کی وجہ سے اس کا درجہ کم تر نہیں ہوجاتا اسی طرح اس کی بیوی کو نماز پڑھانے کا موقع حاصل نہیں۔ اور یہ بھی اس کے مقام و مرتبہ میں کم تری کا ذریعہ نہیں ہے۔

 اور یہ معاملہ صرف اسلام تک محدود نہیں ہے۔ ایک عیسائی خاتون سینٹ بن سکتی ہے، پوپ نہیں بن سکتی۔ وہ چرچ میں وعظ بھی نہیں کہہ سکتی ہے۔ نہ کوئی خاتون یہودی ربی ہوسکتی ہے۔ گویا یہ مسئلہ مذاہب عالم کے درمیان متفق علیہ مسئلہ ہے۔

اسلام نے عورتوں کو سماجی زندگی میں مساویانہ حق دیا ہے۔ وہ تعلیم دے سکتی ہے اسلامی تاریخ میں خواتین نے فقیہ، محدث، مفسر، مفتی، استاذ، سپہ سالار و غیرہ سارے رول ادا کیے ہیں۔ خلافت اسلامیہ کے امور و معاملات میں حضرت عائشہؓ کی دلچسپی اور ان کا عمل دخل سب پر واضح ہے۔ مساجد میں بھی اسلام خواتین کو آنے، مساجد کے معاملات میں دلچسپی لینے، اور تعلیم و تربیت کے عمل میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔ عیدین و جمعہ کے موقعوں پر خواتین کو مسجد میں جانے کی خصوصی ہدایات بھی ملتی ہیں۔ رسول اللہﷺ کے عہد میں حائضہ عورتیں تک عیدگاہ میں جایا کرتی تھیں۔

   امامت کے مسئلہ کا تعلق شرم و حیاء اور اختلاط مرد و زن سے متعلق اسلامی تصورات سے ہے۔ اسلام مردوں اور عورتوں کے سماجی اختلاط میں کچھ حدود کی تعیین ضروری سمجھتا ہے۔عام سماجی زندکی میں بھی خواتین اور مردوں کا ایسا اختلاط کہ جسم سے جسم مس کریں، یا ایسی قربت کہ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوجائیں، اسلام میں سخت ناپسندیدہ اور اخلاقی اعتبار سے نہایت درجہ معیوب ہے۔ اس لیے کہ یہ اخلاقی برائیوں، بے راہ روی، جنسی آوارگی اور اس کے نتیجہ میں خاندانی نظام کے انتشار کا نقطۂ آغاز ہے۔ نماز تو پاکیزگی، روحانی بلندی اور نفس کے تزکیہ کا ذریعہ ہے۔ یہ مقصد کسی ایسی جماعت میں قطعاً حاصل نہیں ہوسکتا جہاں مردوخواتین کاندھے سے کاندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ ملائے کھڑے ہوں یا اگلی صف خواتین کی ہو۔ اس لیے باجماعت نمازمیں خواتین کو شرکت کی اجازت دینے کے ساتھ اسلام نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ خواتین کی صفیں مردوں کی صفوں کے پیچھے ہوں اور دونوں کے درمیان بچوں کی صفیں ہوں۔ حیاء کے نسوانی تقاضے، فطری طور پر مردانہ تقاضوں کے مقابلہ میں زیادہ شدید تر ہیں۔ اس لیے یہ پسند نہیں کیا گیا کہ امامت کرتے ہوئے کوئی خاتون مردوں کی صف کے سامنے جھکے۔ اور رکوع و سجود کے دوران اس کے اعضا ء نمایاں ہوں۔( سید سعادت اللہ حسینی: عورت کی امامت اور شریعت کا مزاج, موقع ماہنامہ حجاب اسلامی, نئی دہلی)

  صنفی مساوات اور مطلق مساوات مرد و زن کے برے نتائج  چونکہ اس بحث کا موضوع نہیں ہے اور بحث کافی طویل ہوچکا ہے  ورنہ اس پر بھی کچھ روشنی ڈالی جاتی , اور جو حضرات مغربی تہذیب پر نظر رکھتے ہیں و ہ ان سے اچھی طرح واقف ہیں , ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لیے خاتمہ پر بات ختم کی جاتی ہے ۔

خاتمہ:

اوپر جو کچھ ذکر کیا گیا اس سے قطعی طور پر ثابت ہوجاتا ہے کہ ایک خاتون  کسی بھی حالت اور صورت میں صرف مردوں یا مردوں اور عورتوں کی مشترکہ جماعت کی امامت نہیں کراسکتی  ہے ,   یہ شرعا حرام  اور باطل ہے اور اس کے پیچھے نماز بھی نہیں ہوگی ۔  اور اسلام کا  اپنا مخصوص تصور مساوات  ہے جو مغرب کے تصور مساوات سے جدا ہے۔ لہذا امامت میں مساوات بالکل نہیں ہے۔و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

 مصادر و مراجع:

قرآن کریم     

بخاری

مسلم

ابوداؤد

مسند الامام احمد بن حنبل

ارشیف ملتقى اہل الحدیث, ما صحۃ  حدیث ام ورقہ

اسلام ویب: شروط الامامۃ العظمی, الفتوى:حکم امامۃ الرجل لمجموعۃ من النساء,  و حکم امامۃ الرجل لنساء اجنبیات وحدہن

سید سعادت اللہ حسینی: عورت کی امامت اور شریعت کا مزاج, موقع ماہنامہ حجاب اسلامی, نئی دہلی

مولانا عمرفاروق لوہاروی: عورت کا نماز میں مردوں کی امامت کرنا,  مقالات و مضامین, موقع دار العلوم  دیوبند,   انڈیا

عبد الکریم زیدان:المدخل لدراسۃ الشریعۃ الاسلامیۃ,  خصائص الشریعو الاسلامیۃ , ط 1, بیروت: مؤسسۃ الرسالہ ناشرون, 1425ھ /2005ع ,  ص 39-40

محمد بن ابراہیم ہزاع: الامام و مسئولیتہ فی الصلاۃ, تعریف الامامۃ, موقع الکلم الطیب

محمد عمران صدیقی: ' 'مساوات' یا 'عدل' ؛ شرعی نقطہ نظر,  موقع محدث , اپریل, 2010ع

  مصباح اللغات

المعجم الوسیط

موقع الدرر السنیہ : ورود لفظ الامام فی القرآن و السنۃ,

موقع الاسلام  سوال و جواب, مفہوم المساواۃ فی الاسلام,  جواب نمبر 115534, تاریخ:21-7-2010

الموقع الرسمی لسماحۃ الشیخ الامام ابن باز:فتاوى: حکم امامۃ الرجل للنساء)

    موقع اہل الحدیث و الاثر, الشیخ محمد بن صالح  عثیمین, بلوغ المرام ,شرح کتاب الصلاۃ

موقع موسوعۃ الاحادیث النبویہ, حدیث ام ورقہ

ویکبیدیا: إمامۃ , المساواۃ

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: