کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے؟

 

                                               کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے؟

حدیث: عن البراء بن عازب  قال : قام فینا رسول اللہ فقال: أربع لا تجوز فی الضحایا: العوراء البین عورھا, و المریضۃ البین مرضھا, و العرجاء البین ظلعھا, و الکبیرۃ التی لا تنقی۔ و فی روایۃ : العجفاء بدل الکبیرۃ, وفی روایۃ الکسیر بدل الکبیرۃ

(ابوداود/۲۸۰۲،نسائی/۴۳۷۴،ترمذی/۱۴۹۷، ابن ماجہ/۳۱۴۴،صحیح ابن خزیمہ:۲۹۱۲ وغیرہ, امام ترمذی, امام حاکم , امام ذہبی و علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے, یہ حدیث  مختلف  و متعدد طریقوں سے مروی ہے جن کے الفاظ میں اختلاف ہے  لیکن مقصود وخلاصہ سب کا ایک ہے)

معانی کلمات:

ضحایا: یہ ضحیہ کی جمع ہے اس کا لفظی معنى دن کا بلند ہونا ہے  اور کسی چیز کا   شکار ہونا  ہے, بولا جاتا ہے : ذہب ضحیۃ الانفجار یعنی دھماکہ کا شکار ہوگیا ۔شرعی معنى قربانی کا جانور جو اللہ عزوجل کی قربت کے لیے قربانی کے دنوں میں ذبح کیا جاتا ہے خواہ دن یا رات میں کسی بھی وقت ذبح کیا جائے۔

عوراء:  یہ عور سے بنا ہے اور یہ اعور کا مونث ہے جس کی جمع عور و عوران ہے, معنى کانا  و اندھاہونا ہے ۔

عرجاء: یہ عرج سے مشتق ہے اور اعرج کا مونث ہے , اس کا معنى ہے لنگڑانا, لنگڑا ہونا ,  اعرج کی جمع عرج و عرجان ہے۔

ظلع: لنگڑا پن, عیب

عجفاء:یہ عجف سے ماخوذ ہے , باب سمع و کرم دونوں سے آتا ہے, اس کا معنى کمزور ہونا, دبلا ہونا ہے, یہ اعجف کا مؤنث ہے جس کی جمع عجاف ہے ۔

تنقی : یہ  نقا ینقو سے بناہے, اس کا معنى ہے ہڈی سے گودا کو نکالنا, اسی سے  نقی(ن پر کسرہ اور ق مجزوم) ہے جس کی جمع انقاء ہے اور نقی العظم کا معنى ہڈی کا گودا ہے ۔(المعجم الوسیط و مصباح اللغات)

ترجمہ: حضرت براء بن عازب کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہمارے درمیان کھڑے ہوکر فرمایا: چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے , , کانا جس کا کاناپن واضح ہو, بیمار جس کی بیماری واضح ہو, لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو, اور انتہائی   دبلا جانور جس کی ہڈیوں میں  گودا نہ ہو۔

شرح: قربانی کرنا ایک اہم عبادت اور اسلام کا شعار  و علامت ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔اسی لیے بہتر, اچھا ,  صحت مند اور بے عیب جانور کی قربانی دینی چاہیےکیونکہ جب ایک انسان خود اپنے لیے نہیں پسند کرتا ہے کہ اسے کوئی عیب دار چیز ہدیہ یا تحفہ میں پیش کی  جائے تو جب کوئی چیز اللہ کے لیے پیش کی جا رہی ہے تو اس کو بدرجہ اولى بہت ہی اچھا اور بے عیب ہونا چائیے , ورنہ کسی عیب دار جانور کو اللہ کی قربت کے لیے پیش کرنا اس کی نشانیوں کا مذاق اڑانا ہے اور یہ اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے ۔اس لیے ہر مسلمان پر  ان عیوب کو جاننا  بہت ضروری ہے جن سے قربانی نہیں ہوتی ہے۔


اور جس طرح تقویٰ اور اخلاص  قربانی کی قبولیت کی اہم شرط ہے، اسی طرح جانور کا ان  خرابیوں و عیوب سے پاک ہونا بھی ضروری ہے جسے

 نبی کریم ﷺ نے قربانی کی قبولیت میں رکاوٹ  قرار دیا ہے۔(مجلس التحقیق الاسلامی: محدث, کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے, 

اہل الحدیث و الاثر: اشیخ محمد بن صالح العثیمین, بلوغ المرام, شرح کتاب الاطعمۃ,  الدرر السنیۃ, الموسوعۃ الحدیثیۃ)

 اور مذکورہ بالا  حدیث سے واضح ہے کہ چار قسم کے جانوروں کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے  , اور اگر ان کی قربانی کی جاتی ہے تو وہ قبول نہیں ہوگی اور نہ کافی ہوگی ۔اور یہ چار جانور ہیں :---

پہلا:  ایسا کا نا جانور جس کا کا نا پن ظاہر ہو ۔

آپ نے مطلق طور پر کانا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس کی  تحدید کردی ہے کہ وہ واضح اور ظاہر ہو ۔اور کانا پن ایک یا دونوں آنکھوں میں ہو سکتا ہے ۔(الدرر السنیۃ)

اب سوال یہ  ہے کہ اس عیب کا پتہ کیسے چلے گا ؟ کیا وہ جانور کے چلنے یا آنکھ کے دیکھنے سے معلوم ہوگا؟ اس کی بابت بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس کے چلنے سے یہ واضح ہوجائے گا کیونکہ کانا کی چال و رفتار تندرست جانور کی طرح نہیں ہوتی ہے , وہ چلتے وقت اپنی گردن کو تھوڑا سا جھکائے رہتا ہےتاکہ اس کی نگاہ اس کے سامنے کی چیزوں پر مرکوز رہے,  کیونکہ وہ صرف ایک طرف سے دیکھتا ہے ,  جب کوئی غور سے دیکھے گا تو اس کو معلوم ہوجائے گاکہ یہ کانا ہے ۔

یا آنکھ  کے  دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ وہ کانا ہے , اور یہ دو طریقے سے ہو سکتا ہے یا تو اس کی آنکھ  ابھری ہوئی  اور باہر کی طرف نکلی ہوئی ہو سکتی ہے کیونکہ بعض اوقات کانا پن اس طرح سے باہر آجاتا ہے گویا کہ وہ ایک زائد غدود ہے ۔یا دھنسی ہوئی ہو سکتی ہے , اور اس کی وجہ سے وہ جانور اندھا بھی ہو سکتا ہے۔ اب اگر کوئی جانور اندھا ہے لیکن اس کو دیکھ کر یہ نہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ اندھا یا کانا ہے تو اس کی قربانی کافی ہے اور اس کی قربانی کی جاسکتی ہے ۔ (,  اہل الحدیث و الاثر: اشیخ محمد بن صالح العثیمین, بلوغ المرام, شرح کتاب الاطعمۃ)

دوسرا: ایسا بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو ۔

یہاں بھی نبی کریم نے بیماری کی وضاحت کردی ہے اور اس کو مطلق نہیں رکھا  تاکہ امت  مشقت اور پریشانی  میں نہ پڑے,کیونکہ  بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جانور اور خاص طور سے بکری بیمار نہ ہو  لیکن ضروری ہے کہ بیماری واضح اور ظاہر ہو ۔  

اور اس کے معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی جانور میں مندرجہ ذیل علامات میں سے کوئی ایک علامت پائی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ واضح طور پر بیمار ہے:----

     بخار: اگر کسی  جانور کو بخار ہے تو اس کے جسم کو چھونے پر بہت زیادہ حرارت کا احساس ہوگا ۔

سستی و کاہلی : بیمار جانور سست و کاہل ہوتا ہے اور اکثر اوقات تندرست جانوروں کے ساتھ نہیں چلتاہے ۔

خوراک کی کمی : اگر کوئی جانور عادت سے کم کھاتا ہےتو اس کا مطلب ہے کہ وہ بیمار ہے کیونکہ غذا کی کمی بیماری کی طرف اشارہ کرتی ہے، خاص طور پر اس جانور میں جس کی مرضی انسان کی طرح نہ ہو۔

خارش : یہ جسم پر ظاہر ہوتی ہے اور بہت ہی واضح و خطرناک بیماری ہوتی ہے , اور بعض اوقات گوشت و ہڈی تک سرایت کرجاتی ہے ۔

اور یہ بیماری ہر زمانہ و ہر علاقہ میں ہوتی ہے ۔ 1922ع کے وسط میں انڈیا میں بہت بڑے پیمانہ پر ایک لمپی وائرس نامی  وبا گایوں میں پھیلی تھی ۔آواز کی دی وائس کی 26-9-2022ع کی  ایک خبر کے مطابق  ملک میں لمپی وائرس نے خوفناک شکل اختیار کر لی تھی ۔ یہ وائرس 15 ریاستوں کے 251 /اضلاع میں پھیل چکا تھا اور اس نے 20.56 / لاکھ سے زیادہ گایوں کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ تقریباً ایک لاکھ گائیں اس کی وجہ سے موت کا شکار ہوئیں۔ صرف ایک صوبہ  راجستھان میں 13.99/ لاکھ سے زیادہ گائیں متاثر ہوئیں  اور 64 ہزار سے زیادہ مر گئیں۔ اس کا براہ راست اثر مویشی پالنے والے کسانوں پر پڑا ۔اس خبر کو تفصیل سے جاننے کے لیے اس لنک پر جائیںhttps://www.urdu.awazthevoice.in/india-news/lumpy-virus-spread-in-states-about-one-lakh-cows-died-20723.html

کراہنا : اور کبھی بیاری ایسی ہوتی ہے کہ سستی و کاہلی کے ساتھ غیر معمولی کراہنا و آواز  کا نکالنا پایا جاتا ہے , اور بلاشبہ کراہنا یہ تکلیف و بیماری پر دلالت کرتا ہے ۔(,  اہل الحدیث و الاثر: اشیخ محمد بن صالح العثیمین, بلوغ المرام, شرح کتاب الاطعمۃ)

اور آج کے زمانہ میں تو جانوروں کا طب بھی بہت زیادہ ترقی کرچکا ہے اور اس کے بھی ڈاکٹر ہوتے ہیں جن کو veterinarian کہا جاتا ہے اور یہ آسانی سے پہچان لیتے ہیں کہ جانور بیمار ہے کہ نہیں اور اس کی بیماری واضح ہے یا نہیں ہے۔ یہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کے لیور کو چیک کرتے ہیں تاکہ اگر کوئی خفیہ بیماری ہو تو پتہ چل جائے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ بیماری واضح ہو اور اس کا پتہ چل رہا ہے , اگر بیماری کم ہے اور غیر واضح ہے تو پھر اس جانور کو ذبح کرنا جائز ہے ۔

تیسرا: ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔

لنگڑا پن جو واضح ہو ۔ خواہ وہ ہاتھ میں ہو یا پیر میں یا ان دونوں میں ہو , کسی ایک میں ہو یا دونوں میں , اگر جانور واضح طور پر کسی ہاتھ یا پیر میں لنگڑا ہے , صرف دبے پاؤں نہیں چلتا ہے بلکہ  اور اس کا  لنگڑا پن خوب واضح ہے تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے ۔ اور اس کے جاننے کا طریقہ علماء نے یہ بتایا ہے کہ وہ تندرست جانوروں کے ساتھ چلنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ان سے پیچھے رہتا ہے خواہ وہ اونٹ ہو یا گائے یا بکری ۔ ڈانٹنے  و مارنےکے باوجود پیچھے رہتا ہے تندرست جانوروں تک نہیں پہنچ پاتا ہے ۔ لیکن جو جانور لنگڑا ہونے کے باوجود تندرست جانوروں کے ساتھ چلتا ہے تو بلا شبہ یہ لنگڑا ہے لیکن اس کا لنگڑا پن واضح نہیں ہے ۔اس کی قربانی جائز ہے ۔

 چوتھا: انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔

 بہت ہی لاغر و دبلا جانور جس کی ہڈیوں  میں گودا نہیں ہے , جس کے دیکھنے سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ بہت ہی کمزور, دبلا پتلا ہے, صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے اور وہ جانور اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ اس کی ہڈیوں میں گودا نہیں ہے , وہ نہایت کمزور ہے تو اس کی قربانی صحیح نہیں ہے ۔(,  اہل الحدیث و الاثر: اشیخ محمد بن صالح العثیمین, بلوغ المرام, شرح کتاب الاطعمۃ)

کچھ اور  جانور جن کی قربانی حلال نہیں ہے:

 مذکورہ عیوب کے علاوہ کچھ اور قبیح ترین  عیوب ہیں جن میں  مبتلا جانور کی قربانی جائز نہیں, اور وہ یہ ہیں :---

اندھا اور ٹانگ کٹا جانور۔امام نووي (متوفى: ۶۷۶ھ) نے کہاأجمعوا على أن العمياء لا تجزئاس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔(المجموع شرح المہذب:8/۴۰۴)
    آٓدھا یا آدھے سے زیادہ سینگ ٹوٹے اور کان کٹے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے , اس کی دلیل حضرت جری بن کلیب(ثقہ تابعی )  کی روایت ہے , وہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سنا انھوں نے فرمایا: « نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم أن يضحى بأعضب القرن والأذن قال قتادة فذكرت ذلك لسعيد بن المسيب فقال العضب ما بلغ النصف فما فوق ذلك.» (سنن ترمذی:۱۵۰۴،سنن ابو داود:۲۸۰۵،سنن ابن ماجہ:۳۱۴۵، سنن نسائی:۴۳۸۲،صحیح ابن خزیمہ:۲۹۱۳،) یہ روایت حسن لذاتہ ہے, اس کے بارے میں راجح قول یہی ہے أگر چہ بعض نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔( تفصیل کے لیے دیکھیے: مجلس تحقیق اسلامی,  محدث: کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے) 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فرمایا جن کے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے ہوں۔ قتادہ کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے اس «أعضب القرن والأذن» ( سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے) کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: «عضب»سے مراد وہ جانور ہے جس کا آدھا یا آدھے سے زیادہ سینگ ٹوٹا یا کان کٹا ہو۔

امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی اس تشریح سے پتہ چلتا ہے کے معمولی ٹوٹے ہوئے سینگ والے جانور کی قربانی جائز ہے مگر نصف (آدھا) یا اس سے زیادہ سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ اور یاد رہے کہ پیدائشی طور پر سینگوں کا نہ ہونا قربانی سے مانع نہیں۔

علامہ شوکانی رحمہ اللہ (متوفی:۱۲۵۰ھ) مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

«فِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهَا لَا تُجْزِئُ التَّضْحِيَةُ بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ وَهُوَ مَا ذَهَبَ نِصْفُ قَرْنِهِ أَوْ أُذُنِهِ.»‘‘یہ حدیث دلیل ہے کہ سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے ہوئے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے اور (أعضب القرن والأذن: سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے) وہ ہیں جن کا نصف سینگ یا نصف کان ضائع ہوچکا ہو۔ (نیل الأوطار من أسرار منتقی الأخبار :5/۱۳۸)۔( دیکھیے: مجلس تحقیق اسلامی,  محدث: کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے) 

ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات درج ذیل عیوب والے جانوروں کی قربانی جائز  نہیں ہے:----

1.ایسا کا نا جانور جس کا کا نا پن ظاہر ہو ۔

2.ایسا بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو ۔

3.ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔

4.انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔

5. جس کا سینگ آدھا  یا اس   سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔

6. جس کا کان آدھا  یا اس سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔

7. مذکورہ عیوب سے قبیح ترین عیوب میں مبتلا جانور جیسے اندھا اور ٹانگ کٹا جانور۔

قربانی کے جانور میں معمولی نقص معاف ہے:

احادیث اور علماء کے اقوال کی روشنی میں  واضح ہے کہ مذکورہ عیوب اور ان سے شدید تر عیوب کے علاوہ دیگر معمولی یا غیر ظاہر عیوب میں مبتلا جانوروں کی قربانی جائز ہے۔امام امیر صنعانی (متوفی:۱۱۸۲ھ) کہتے ہیں:«وَالْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ هَذِهِ الْأَرْبَعَةَ الْعُيُوبِ مَانِعَةٌ مِنْ صِحَّةِ التَّضْحِيَةِ وَسَكَتَ عَنْ غَيْرِهَا مِنْ الْعُيُوبِ، فَذَهَبَ أَهْلُ الظَّاهِرِ إلَى أَنَّهُ لَا عَيْبَ غَيْرُ هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ، وَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إلَى أَنَّهُ يُقَاسُ عَلَيْهَا غَيْرُهَا مِمَّا كَانَ أَشَدَّ مِنْهَا أَوْ مُسَاوِيًا لَهَا كَالْعَمْيَاءِ وَمَقْطُوعَةِ السَّاقِ.»

‘‘یہ حدیث دلیل ہے کہ یہ چاروں  عیوب قربانی کے صحیح ہونے میں رکاوٹ ہیں  اور ان کے علاوہ دیگر عیوب سے سکوت اختیار کیا گیا، چنانچہ اہل ظاہر کا مذہب ہے کہ ان چار عیوب کے علاوہ کوئی بھی عیب قربانی میں مانع نہیں ہے  لیکن جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مذکورہ عیوب سے شدید تر عیوب اور ان جیسے دیگر عیوب مثلاً قربانی کے جانور کا اندھا ہونا اور ٹانگ کا کٹا ہونا جیسے عیوب وغیرہ کا بھی مذکورہ عیوب پر قیاس کیا جائے گا۔’’ (سبل السلام:2/535) ۔( دیکھیے: مجلس تحقیق اسلامی,  محدث: کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے) 

امام قتادہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام سعید بن مسیب (مشہور تابعی) سے (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں) اس «أعضب القرن والأذن» ( سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے) کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا: ((العضب ما بلغ النصف فما فوق ذلك)) ‘‘«عضب»سے مراد وہ جانور ہے جس کا آدھا یا آدھے سے زیادہ سینگ ٹوٹا یا کان کٹا ہو۔ (سنن ترمذی:۱۵۰۴،وقال:حسن صحیح، سنن نسائی:۴۳۸۲)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت اوپر گزر چکی، جس میں نبیﷺ نے سینگ ٹوٹے اور کان پھٹے جانوروں کی قربانی سے منع کیا۔اس حدیث کی تشریح میں امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے اس قول سے پتہ چلتا ہےکہ  جس جانور کا سینگ نصف یا نصف سے زیادہ ٹوٹا ہو اور اسی طرح اتنی مقدار میں کان کٹا ہو تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔لیکن معمولی ٹوٹے ہوئے سینگ یا جس پر رگڑ یا چوٹ کے نشانات ہو یا آدھی سے کم سینگ کا ٹوٹنا ایسا عیب نہیں جو قربانی سے مانع ہو۔ یعنی ایسے جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے اور اسی طرح کان پر چوٹ یا تھوڑا سا کان کٹا ہو،ایسے جانور کی قربانی بھی جائز ہے۔واللہ اعلم

امام خطابی رحمہ اللہ (متوفی ۳۸۸ ھ) نے فرمایا:«وفيه دليل على أن العيب الخفيف في الضحايا معفو عنه.»اس حدیث (سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ) میں یہ دلیل ہے کہ قربانی (والے جانور) میں معمولی نقص معاف ہے۔ (معالم السنن :۲؍۱۹۹، تحت ح ۶۸۳)

شیخ الاسلام امام ابن خزیمہ نیسابوری (متوفی:۳۱۱ھ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں:«باب النهي عن ذبح ذات النقص في العيون والآذان في الهدي والضحايا نهي ندب وإرشاد؛ إذ صحيح العينين والأذنين أفضل لا أن النقص إذا لم يكن عورا بينا غير مجزئ، ولا أن ناقص الأذنين غير مجزئ.»

"حج اور قربانی میں آنکھوں اور کانوں میں نقص والے جانور ذبح نہ کرنا نہی تنزیہی ہے، کیونکہ بلا شک دو صحیح و سالم آنکھ و کان والا  افضل ہے , اس کا  مطلب یہ نہیں ہے  کہ آنکھ اور کان میں (معمولی) نقص والا جانور بھی قربان کرنا منع ہے۔"(صحیح ابن خزیمہ،قبل حدیث ۲۹۱۴)۔( دیکھیے: مجلس تحقیق اسلامی,  محدث: کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے) 

مذکورہ بالا عیوب کے علاوہ دیگر عیوب کا حکم:

احادیث میں ان عیوب کی تفصیل بتا دی گئی ہے جس کی وجہ سے قربانی درست نہیں ہوتی۔لہذا ان عیوب یا ان سے بھی شدید عیوب مثلاً اندھا جانور، ٹانگ کٹا جانور وغیرہ کے علاوہ دیگر عیوب میں مبتلا جانور کی قربانی کی جاسکتی ہے۔دانت کا ٹوٹنا، دانت کا زخمی ہونا یا سرے سے دانت ہی نہ ہونا ایسا عیب نہیں جو قربانی سے مانع ہو۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ عبید بن فیروز (تابعی) نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ (صحابی) سے کہا: «فإني أكره أن يكون في السن نقص.» مجھے ایسا جانور بھی ناپسند ہے جس کے دانت میں نقص ہو۔
انھوں نے فرمایا: «ما كرهت فدعه ولا تحرمه على أحد» ‘‘تمھیں جو چیز بُری لگے اسے چھوڑ دو اور دوسروں پر اُسے حرام نہ کرو۔’’(ابوداود/۲۸۰۲،نسائی:۴۳۷۴،اس کی سندصحیح ہے)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے اس شاندار قول سے یہ مسئلہ واضح ہوتا ہے کہ کسی جانور کے دانت میں نقص ہو یا دانت ٹوٹے ہوئے ہو یا کوئی اور معمولی نقص ہو جیسے سینگ باہر سے کچھ ٹوٹا ہوا ہو یا تھوڑا سا کان کٹا ہوا ہو،یا دم کچھ ٹوٹی ہوئی ہو یا زخم لگا ہو،یا جانور کا گونگا اور بہرا ہونا یا دیگر وہ عیوب جن کی بابت شریعت خاموش ہے جیسے جانور کا رنگ بھدا ہونا، جانور کا قد چھوٹا ہونا وغیرہ تو ان کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ہاں اگر یہ عیوب والے جانور کسی کو ناپسند ہو تو ان عیوب سے پاک جانور کا انتخاب کرلیں۔پر دوسروں کے لیے ان عیوب والے جانور کی قربانی کو ناجائز یا حرام مت کہیں۔کیونکہ شریعت نے ان عیوب پر کوئی حکم نہیں لگایا۔۔( دیکھیے: مجلس تحقیق اسلامی,  محدث: کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے) 

خصی جانور کی قربانی کا حکم:

خصی جانور کی قربانی جائز ہے اور جانور کا خصی ہونا قربانی میں عیب نہیں ہے۔سلف صالحین میں سے بعض اہل علم جانوروں کو خصی کرنا مکروہ سمجھتے تھے اور بعض اہل علم جانوروں کو خصی کرنے کی رخصت دیتے تھے۔نبی کریمﷺ سے جانور کو خصی کرنے کی ممانعت ثابت نہیں ہے۔اس بارے میں تمام روایات ضعف سے خالی نہیں ہے۔ان روایات کا ضعف جاننے کے لیے اور خصی جانور کی قربانی کے جواز پر دلائل دیکھنے کے لیے شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا مضمون ‘‘جانور کو خصی کرنے کی شرعی حیثیت’’ اور شیخ فاروق رفیع حفظہ اللہ کی کتاب قربانی، عقیقہ اور عشرہ ذی الحجہ ص:۸۸۔۹۰ کا مطالعہ کریں۔( مجلس تحقیق اسلامی,  محدث: کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے) 

حاملہ جانور کی قربانی:


حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے اور اس کے پیٹ کا مردہ بچہ حلال ہے۔
امام ابن منذر رحمہ اللہ (متوفی:۳۱۸ھ) نے اس پر اجماع نقل کیا ہے:
وأجمعوا علي أن الجنين اذا خرج میتا ، أن ذكاته بذكاة امه.
کہ ذبیحہ کے پیٹ سے بچہ مردہ برآمد ہو تو اُس کی ماں کی قربانی اس کے لیے کافی ہوگی۔(دیکھیے:کتاب الاجماع ، باب الضحایا والذبائح ،ص۵۲،مترجم ابو القاسم عبدالعظیم (
مزید ارشاد نبویﷺ ملاحظہ ہو:جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولﷺنے فرمایا: «ذكاة الجنين ذكاة أمه» ‘‘بچے کا ذبح کرنا اس کی ماں کو ذبح کرنے میں ہے(یعنی ماں کا ذبح کرنا پیٹ کے بچے کے ذبح کو کافی ہے)۔’’ (سنن ابوداود:۲۸۲۸، صحیح ابن حبان:۵۸۸۹،علامہ البانی نے اسے صحیح اور شیخ زبیر علی زئی نے حسن کہا ہے۔)۔( مجلس تحقیق اسلامی,  محدث: کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے) 

اس مسئلہ کی مزید تفصیل یہ ہےکہ:---

یہ حکم اس صورت میں مخصوص ہے کہ جب جنین اپنی ماں کے پیٹ سے اس کو ذبح کرنے کے بعد مردہ حالت میں باہر نکلتا ہے  اور اس کے نکلنے سے پہلے اس میں روح پھونک دی گئی ہو ۔

لیکن اگر اس میں روح نہ پھونکی گئی  ہو تو وہ مردہ ہے اور اس کے ماں کو ذبح کرنا اس کو حلال نہیں کرے گا۔

اسی طرح: اگر وہ مردہ  باہر  نکلا، اور ہم جانتے ہیں کہ اس کی موت اس کی ماں کو ذبح کرنے سے پہلے ہوئی ہے؛ تو وہ متفقہ طور پر حلال نہیں ہے ۔

اور اگر جنین ماں کو ذبح کرنے کے یعد زندہ نکلتا ہے اور اس کی زندگی ثابت و مستحکم ہے تو اس کو ذبح کرنے کے بعد ہی اس کا کھانا حلال ہوگا کیونکہ وہ ایک دوسری جان ہے اور اس کی اپنی الگ  زندگی ہے ۔ (الاسلام سؤال و جواب:شرح حديث : ( ذَكَاةُ الْجَنِينِ ذَكَاةُ أُمِّهِ )  فتوى نمبر (182410  تاریخ: 09-08- 2012 , عربی )

مذکورہ بالا سطور سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ کن جانوروں کی قربانی جائز ہے اور کن کی جائز نہیں ہے ۔ لہذا قربانی کرتے وقت مسلمانوں کو اس پر ضرور توجہ دینی چاہئیے تاکہ ہم سب کی قربانیاں عند اللہ مقبول ہوں اور ہمیں اس کا تقرب حاصل ہو ۔

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ تمام شرعی شروط کو پورا کرتے ہوئے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔



التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: