أمت کی زبوں حالی اسی وقت ختم ہو گی جب یہ امت خود کو بدل لے گی

       أمت کی زبوں حالی  اسی وقت ختم ہو گی  جب یہ امت خود کو بدل لے گی
                     (إن اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم)


برادران اسلام : ہم میں سے اکثر اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ  یہ امت تقریبا زندگی کے ہر شعبہ بشمول  تعلیم,اخلاق, سياست, صنعت و حرفت, ٹکنالوجی, اقتصاد, فوجی ساز و سامان, طب اور سائنس وغیرہ   میں  ذلت, پستی, پسماندگی ,تنزلی ,  تخلف و انحطاط کے ایک انتہائی نازک دور سے گذر رہی ہے۔اسلام و مسلمان دشمنوں کے علاوہ أپنے بھی امت پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں۔اوریہ امت مختلف قسم کے  زخموں سے چور چور ہے ۔اس وقت حالات انتہائی خراب ہیں جن کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے پورے بدن سے خون رس رہا ہے ۔ اور اس کی حالت ایسے ہی ہے جیسا کہ اس شعر میں کہا گیا ہے کہ :
        تن ہمہ داغ  داغ  شد                    پنبہ   کجا   کجا   نہم
یعنی پورا جسم چھلنی  و زخمی ہے تو پھاہا کہا ں کہاں رکھوں ۔
مختصرا یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج کی دنیا میں مسلمانوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ ان کا خون پانی اور حیوانوں سے بھی سستا اور گیا گذرا ہے۔ کیونکہ  حیوانوں کے قتل عام پر بھی حیوانات سے متعلق تنظیمیں خوب ہنگامہ کرتی ہیں ۔ احتجاج ہوتا ہے ۔لیکن مسلمانوں کا قتل عام دور حاضر میں کئی جگہ مثلا برما, فلسطین و سیریا وغیرہ میں سرکاری سرپرستی میں دنیا کی آنکھوں اور کانوں کے نیچے ہورہا ہے ۔ پھر بھی دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ہم غیروں سے کیا شکایت کریں جب أپنے ہی  خاموش ہیں ۔ ہاتھوں پر ہاتھ دھرے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ علماء جو وارثان انبیاء ہیں خود ان کی اکثریت فساد و بگاڑ کا شکار ہو چکی ہے۔ دنیا کی تمام بیماریاں ان کو لگ چکی ہیں۔ حکمرانوں کے خوف یا چاپلوسی کی وجہ سے ان کے اندر  حق بات  کہنے کی جرأت بالکل نہیں ہے۔ بیشتر علماء اسی وجہ سے مسلمان سماج و معاشرہ میں اپنا وزن , مقام و مرتبہ کھو چکے ہیں۔ خال خال ہی ربانی علماء باقی ہیں جو بہر صورت حق بات کہتے ہیں  لیکن آج کی دنیا میں ان کی آواز صدا بصحراء ہے ۔
حکمرانوں کی بات کرنا ہی بیکار ہے۔ وہ تو أپنی دنیا میں مست و مگن ہیں ۔ ان کے لیے کرسی و حکومت ہی سب کچھ ہے ۔ عوام کے مال کی چوری اور عیاشی ان کا شب و روز کا دھندہ ہے۔ امت کو ان کی قطعا کوئی پرواہ نہیں ہے۔نفاذ شریعت کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ ان کی اکثریت مغرب کی غلام ہے۔ان میں سے بہت سارے اسلام و مسلمانوں کے دشمن ہیں ۔ ان کے ہاتھ خود مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں۔ تو پھر ان کو مسلمانوں کے خون کی کیا پرواہ ہے۔کیا کریں بیچارے ۔ وہ خود مجبور و عاجز ہیں ۔ دوسروں کے حکم کے محتاج ہیں۔ بہت ہوا تو زبانی مذمت اور تھوڑا بہت  مالی امداد کرکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کا فرض پورا ہوگیا ۔میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام مسلم حکمراں ایک ہی قسم کے ہیں۔ ان  میں ایک دو  ایسے ضرور ہیں جن کے اندر امت کا درد ہے   لیکن جیسا کہا جاتا ہے کہ اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ غرضیکہ خواہ علماء ہوں یا حکمراں ان کی اکثریت  بے  حس ہے۔ ان کے ضمیر  مردہ ہوچکے ہیں ۔ کوئی بھی اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک سے  نہیں ادا کر رہا ہے۔
اب آئیے ذرا امت کے عام أفراد کا جائزہ لیتے ہیں ۔ دیکھتے ہیں ان کی کیا حالت ہے ۔ کیا ان کے یہا ں سب ٹھیک ہے یا یہ بھی  حمام میں ننگے ہیں۔ حالانکہ میرے خیال میں اس پر کچھ کہنے یا تحریر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے حالات کھلے کتاب کی مانند واضح ہیں۔ پھر بھی وضاحت  کے لیے چند چیزیں بیان کردیتا ہوں۔
مثال کے طور پر ہر مسلمان جانتا ہے کہ نماز اسلام کا دوسرا رکن ہے ۔ اس کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے۔ بلکہ اسے اسلام و کفر کے درمیان فرق بتلایا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کتنے مسلمان آج کے دور میں پنج وقتہ نماز باقاعدہ جماعت کے ساتھ مسجد میں پابندی سے ادا کرتے ہیں ؟ اسی پر دیگر عبادات کو بھی قیاس کر لیجیے۔ اسی طرح منکرات و برائیوں سے کتنے مسلمان دور رہتے ہیں؟کون نہیں جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا, شراب پینا, بدکاری, زناکاری, حرام کمائی, رشوت خوری, بدگوئی, تہمت وغیرہ اسلام میں حرام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کتنے مسلمان ان سے بچتے ہیں؟ عورتوں کا بھی وہی حکم ہے جو مردوں کا ہے۔ ایک مسلمان عورت کو پردہ کا حکم دیا گیا ہے۔ کتنی مسلمان عورتیں اسلامی پردہ کرتی ہیں؟ لسٹ بہت لمبی ہے۔وغیرہ وغیرہ, یہ تو سب چند مثالیں ۔ اسی پر بقیہ امور کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔
معلوم ہوا کہ امت کے عام افراد بھی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں۔ وہ بھی مسلمانوں کی زبوں حالی  کے اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے علماء و حکمراں ہیں ۔ بس  فرق  اتنا  ہے کہ علماء کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے ۔ اس کے بعد حکمراں اور عوام ہیں۔ لیکن ذمہ داری سب کی ہے ۔ کوئی أپنے کو اس سے الگ نہیں کر سکتا ہے۔ عوام بھی نہیں کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ عوام کوکس نے نماز پڑھنے سے  روکا ہے؟ عوام کو کس نے برائیوں کے کرنے کا حکم دیا ہے؟ عوام کو کس نے بھلائیوں سے منع کیا ہے؟پھر بھی عوام  اگر  شریعت پر عمل نہیں کرتے ہیں تو ذمہ داری ان کی ہے کسی اور کی نہیں ہے۔ اور عوام کو جان لینا چائیے کہ یہ ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے اوپر ظالم و جابر حکمراں اللہ کی طرف سے مسلط کر دئیے گئے ہیں۔جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:وکذلک نولی بعض الظالمین بعضا بما کانوا یکسبون ( انعام /129) یعنی اسی طرح ہم ایک ظالم کو دوسرے ظالم کا والی و حاکم بنادیتے ہیں ان کے اعمال کی وجہ سے۔ ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس کا کہنا ہے کہ جب اللہ کسی قوم سے راضی ہوتا ہے تو ان کا حاکم ان کے بہترین آدمی کو بناتا ہے ۔ اور جب وہ کسی قوم سے ناراض ہوتا ہے تو ان  کا حاکم ان کے بد ترین آدمی کو بناتا ہے ۔ (تفسیر قرطبی) ورنہ اگر ہمارے اعمال درست ہوتے تو یہ ظالم اور جابر کبھی بھی ہمارے حکمراں نہیں ہوتے۔ کیونکہ یہ حکمراں و امراء بھی ہمارے ہی سماج و معاشرہ کے فرد و رکن ہوتے ہیں ۔ اگر پورا سماج و معاشرہ درست و صالح ہے تو یہ بھی ان شاء اللہ درست و صالح ہوں  گے۔ایک شاعر کہتا ہے:
صحبت صالح ترا صالح کند                                و صحبت طالح ترا طالح کند
سماج و معاشرہ اور صحبت و خلت کا اثر ایک معروف چیز ہے کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا ہے۔
اور سچ فرمایا  اللہ تبارک و تعالى نے: و ما أصابکم من مصیبۃ  فبما کسبت أیدیکم (شورى/30)  یعنی تمہاری یہ مصیبت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ایک دوسری آیت میں ہے:  مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ  ( النساء 79 ) یعنی جو بھلائی تم کو حاصل ہوئی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تم کو پہنچی ہے وہ خود تمہاری ذات سے ہے۔
 بات بہت لمبی ہوگئی۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ آج کے دور میں مسلمانوں کے حالات بد سے بد تر ہو چکے ہیں۔ان کی حالت اسی طرح ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ دنیا کے بہت سارے ملکوں عراق, سیریا, برما , فلسطین, مشرقی ترکستان, برما , یمن وغیرہ  میں ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔اور  جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے:مثل المؤمنين في توادهم وتراحمهم وتعاطفهم كمثل الجسد الواحد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالحمى والسهر یعنی  مومنوں  کی باہمی شفقت , محبت اور رحمت کی  مثال ایک انسانی جسم کی مانند ہے کہ جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا  ہے تو اس کا پورا بدن درد سے تڑپ اٹھتا ہے(مسلم, کتاب البر و الصلۃ, باب تراحم المؤمنین و تعاطفہم و تعاضدہم, حدیث نمبر 2586).
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ان مظلوم بھائیوں کو نہ بھول جائیں ۔ ان کے لیے دعائیں کریں ۔ لیکن صرف دعا ہی پر کفایت نہ کر لیں  بلکہ  ہر ممکن  جائز و شرعی طریقے سے ان کی مدد کرنے کی کوشس کریں۔اسی طرح اپنی سوچ کو صرف اپنی ذات یا سماج و معاشرہ یا ملک تک محدود نہ کریں بلکہ اپنی امت کی بھی فکر کریں۔اس  کے بارے میں ہمیشہ  سوچیں اور اس کو ان ابتر حالات سے باہر نکالنے کی تدبیریں کریں۔
اب سوال یہ  پیدا ہوتا ہے کہ امت کو ان بد حالات سےباہر نکالنے کی کیا صورت ہے اور کیا یہ کسی خاص گروہ یا جماعت یا کسی متعین شخص و فرد کی ذمہ داری ہے یا  اس امت کے  ہر فرد کی  ذمہ داری ہے؟
میرے خیال میں امت کو ان ابتر حالات سے باہر  نکالنے کی کوئی ایک صورت نہیں ہے بلکہ کئی صورتیں ہیں۔اور اس کے لیے امت کے علماء , حکمراں و افراد  ہر ایک کو   اپنی ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کرنا ہوگا۔تبھی یہ بدحالی دور ہوسکتی ہے۔ورنہ یہ امت یوں ہی تباہ و برباد ہوتی رہے گی۔ اس کی عزت لٹتی رہے گی۔ اس کا خون بہتا رہے گا۔ اس کا سرمایہ ضائع ہوتا رہے گا۔ اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ خیر میں یہاں  ان بہت ساری صورتوں کا ذکر کرنے نہیں جارہا ہوں  جو امت کی زبوں حالی کو دور کرنے میں بہت ہی کارگر ہیں۔ بلکہ صرف ایک اہم صورت کا ذکر کرہا ہوں جس کا تعلق ہر فرد سے ہے ۔ اور اگر اس پر عمل کیا گیا تو گارنٹی ہے کہ امت کی یہ زبوں حالی جلد از جلد دور ہواجائے گی۔ ان شاء اللہ ۔
وہ اہم صورت  یہ ہے  کہ اس امت کا ہر فرد اسلام کودینی , سیاسی, سماجی اور اقتصادی طور پر  مضبوطی سے پکڑ لے ۔ قرآن و حدیث کو  ہر اعتبار سے اپنی زندگی میں اتار لے ۔ اور اسی کے مطابق اپنی مکمل زندگی ڈھال لے۔پوری قوم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرلے اور  گناہوں کو چھوڑ کر اطاعت الہی کا راستہ اختیار کرلے۔اب اگر امت کا ہر فرد اپنے آپ کو قرآن و حدیث کے مطابق دینی , سیاسی , سماجی اور معاشی طور پر   بدل لیتا ہے تو یہ امت بھی بدل جائے گی اور یقینا ان خراب حالات سے باہر آجائے گی۔اس کے بغیر یہ امت بدلنے والی نہیں ہے اور نہ ہی ان خراب حالات سے باہر نکلنے والی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالى کا فرمان ہے: ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتى یغیروا ما بانفسہم  (رعد/11) ترجمہ: یقینا اللہ کسی قوم کی حالت کو اس وقت  تک نہیں بدلتا ہے جب تک وہ خود اپنے کو نہ بدل لے ۔
ایک دوسری آیت میں ہے: ذلک بأن اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمہا على قوم حتی یغیروا ما بانفسہم, و أن اللہ سمیع علیم(انفال/ 53) ترجمہ: یہ اللہ کی اس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے کو نہیں بدل دیتی۔ اور اللہ سب کچھ سننے و جاننے والا ہے۔
ان آیات سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ امت کے اندر تبدیلی کا کوئی بھی عمل اس کے افراد کے ذریعہ ہی شروع ہوتا ہے اور اللہ تعالی اسی وقت تبدیلی لاتا ہے جب انسان خود تبدیلی پیدا کریں ۔ اور یہ انسانی ذمہ داری ہے۔ اور وہ جیسی تبدیلی  لائے گا نتیجہ اسی کے موافق نکلے گا۔اگر تبدیلیاں اچھی ہیں تو اچھا نتیجہ برآمد ہوگا اور اگر تبدیلیاں خراب قسم کی ہیں تو نتیجہ بھی خراب نکلے گا۔یہ ایک الہی قانون ہے جس سے کوئی مفر نہیں ہے۔دشمنوں کو کوسنے, ہاتھ پر ہاتھ دھرے  بیٹھے رہنے  یا فرشتوں کے ذریعہ کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔  چنانچہ اگر ہم کو اپنی امت کی فکر ہے  اور ہمیں احساس ہے کہ ہم اس کا ایک فرد ہیں ۔اور  اس کے حالات پر افسو س و تکلیف ہے تویہ ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم  خود سےاصلاح و تبدیلی کی   ابتدا کریں  ۔ اپنے نفس کا جائزہ لیکر اس کو قرآن و حدیث کے مطابق  صحیح کریں۔ پھر اپنے اہل و عیال و سماج کو صحیح کریں۔جن کے نتیجہ میں  ان شاء اللہ یہ امت  بھی سدھر جائے گی اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ اور عظمت رفتہ کو پھر حاصل کر لے گی۔
اور یہ کسی فرد واحد یا کسی خاص جماعت  اور گروہ یا کسی خاص ملک و بادشاہ یا حاکم یا سربراہ کی تنہا ذمہ داری نہیں ہے۔ اور نہ ہی  تن تنہا اس کو  آسانی سےانجام دیا جا سکتا ہے۔بلکہ  یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس امت کو اس نازک اور خراب حالات سے نکالنے میں اپنی پوری کوشس صرف کریں ۔اور  ہم یہ ہرگز خیال نہ کریں کہ یہ ذمہ داری صرف علماء کی ہے یا یہ کام صرف ہمارے حکمرانوں کا ہے۔ یا ہم تنہا کیا کر سکتے ہیں۔ در اصل یہ ہم سب کی مشترکہ اور اجتماعی ذمہ داری ہے اور ہر شخص کی ذمہ داری ہے کیونکہ امت فرد ہی سے بنتا ہے۔ لہذا ہر شخص کو اپنی طاقت بھر ذمہ داری ضرور ادا کرنی ہے۔علامہ اقبال نے کیا ہی أچھی بات کہی ہے:            
                            افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
                             ہر فرد  ہے ملت کے مقدر  کا  ستارہ
اسی لیے ہر فرد اور شخص کو امت و سماج کے تئیں اپنی ذمہ داری  ضرو ر سمجھنی چائیے  اور اسے اس کا احساس ہونا چائیے کیونکہ اقوام کی تقدیر افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ ان کی محنت, لگن , جد و جہد اور کوشس سے امت بنتی  و بدلتی ہے ۔عروج کی منزلیں  طے کرتی ہے۔اور   جب ہمیں احساس ہوگا تبھی ہم ان ذمہ داریوں کے بارے میں سوچیں گے اور ان کو ادا کرنے کی کوشس کریں گے ۔اور ملت کے مقدر کا ستارہ بن کر اپنی امت کے حالات و تقدیر کو بدل ڈالیں گے۔ لیکن اگر  ہمیں احساس و شعور ہی نہیں ہوگا تو پھر ہم اپنا کردار ادا کرنے سے بالکل عاجز ہوں گے۔اور سماج و معاشرہ میں ایک مہمل عنصر بن کر رہ جائیں گے۔جس کے نتیجہ میں امت بھی ذلت, پستی, تنزلی اور انحطاط کا شکار ہوگی اور اس کا بھی دوسری قوموں کے درمیان کوئی وزن نہیں ہوگا۔
اسی طرح ہم ہرگز یہ بھی نہ سوچیں کہ ہم تنہا کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں  کیونکہ  بسا اوقات تنہا ایک انسان ایسا کارنامہ انجام دیتا ہے جس کو پوری ایک جماعت کرنے سے عاجز رہتی ہے۔ایسے افراد کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ خود نبی کریم کی مثال ہمارے سامنے ہے۔اس کے علاوہ حضرت ابو بکر , حضرت عمر , حضرت امام احمدبن حنبل , حضرت امام ابن تیمیہ , نیپولین  بونا پارٹ  وغیرہ  کی مثالیں ہیں ۔ اور عصر حاضر میں  ہندستان کے بابا رام دیو کی زندہ مثال موجود ہے جس نے اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف ہندستان میں بلکہ پوری دنیا میں  یوگا کو متعارف کرایا۔ اور اس فن کو دوبارہ زندہ کیا ۔ اور آج حالت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے بین الاقوامی یوگا ڈے منایا جاتا ہے۔کیونکہ  جب کوئی  انسان تنہا کسی منزل کی طرف خلوص کے ساتھ روانہ ہوتا ہے تو لوگ اس کے کارواں میں شامل ہوتے رہتے ہیں ۔ ایک شاعر کہتا ہے۔
 میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل   مگر      لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
لہذا یہ بندہ  عاجز  اپنے تمام مسلمان بھائیوں سے ایک مودبانہ و عاجزانہ التماس و گذارش کرتا ہے کہ امت کے اندر اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اور اپنی قدر و قیمت کا اندازہ لگاتے ہوئے آج ہی سے خود اپنے اندر قرآن و حدیث کے موافق ہر طرح کی دینی , سماجی, سیاسی اور معاشی  تبدیلیاں پیدا کیجیے ۔ اسلامی احکامات پر عمل کیجیے اور برائیوں سے دور رئیے۔اور طاقت بھر دوسروں میں بھی تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشس کیجیے ۔ ان شاء اللہ آپ کی کوشسوں اور تبدیلیوں سے یہ امت بھی  بدلے گی اور ان خراب و ابتر  حالات سے باہر  نکل جائے گی جن میں وہ آج مبتلا ہے۔وما ذلک علے اللہ بعزیز
                     وما علینا الا البلاغ , وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
تحریرا فی یوم الخمیس 16-3-1438ہ/15-12- 2016 ع , مکۃ مکرمہ1,15تا 3,30م



التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: