ذو الحجہ کی پہلی دہائی میں ناخن اور بال کاٹنے کا حکم

 

     ذو الحجہ کی پہلی  دہائی  میں ناخن اور بال کاٹنے کا حکم


حدیث: عن ام سلمۃ ان النبی قال: اذا رایتم ہلال ذی الحجۃ و اراد احدکم ان یضحی فلیمسک عن شعرہ و اظفارہ (مسلم/1977)

ترجمہ: حضرت ام سلمہ کی روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا: جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے تو وہ اپنا بال و ناخن کاٹنے سے رک جاے ۔

شرح: اس حدیث میں پیارے نبی نے مسلمانوں کو ایک حکم دیا ہے کہ جو بھی قربانی کرنا چاہتا ہے وہ ذو الحجہ کے پہلے دس دنوں میں قربانی کرنے تک بال و  ناخن کے  کاٹنے سے رک جائے ۔ اور ایک دوسری روایت میں چمڑا کے کاٹنے سے منع کیا گیا  ہے : فلا یمس من شعرہ و بشرہ شیئا یعنی وہ اپنے بال و چمڑا میں سے کچھ نہ کاٹے ۔

معلوم ہوا کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں قربانی کرنے والے کے لیے  تین چیزوں : بال,  ناخن اور چمڑا کا کاٹنا منع ہے ۔ بال جسم کے کسی بھی حصہ کا ہو اس کا کاٹنا منع ہے , سرکا بال ہو یا بغل کا بال ہو یا زیر ناف وغیرہ  کا سب اس حکم میں داخل ہیں,  اسی طرح بالوں کا اکھاڑنا بھی منع ہے ۔  اور جہاں تک ناخن کی بات ہے تو ہاتھ اور پیر دونوں کا ناخن کاٹنا منع ہے , اور چمڑا کاٹنے کا مطلب ہے کہ اگر کہیں چمڑا پھٹا ہوا ہے جیسا کہ انسان کی ایڑی میں عموما ہوتا ہے  یا اس میں ابھار ہے تو اس کو ان دس دنوں میں اسی طرح چھوڑ دے اس کو کاٹے یا رگڑے نہیں ۔

یہ حکم واجب ہے یا سنت؟

مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کرتے ہوئے علماء کا کہنا ہے کہ یہ حکم  واجب ہے  یعنی  قربانی کرنے والے کے لیے اس  حکم کا  لاگو و نافذ کرنا ضروری ہے, یہ سنت و مستحب نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں آپ نے امر کا صیغہ استعمال کیا ہے اور بال و ناخن کے چھوڑ نے کا حکم دیا ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے  ۔ اور کوئی قرینہ یا دلیل نہیں ہے جو اس کے وجوب پر نہ دلالت کرتا  ہو لہذا یہ حکم واجب ہے ۔

علاوہ ازیں ایک دوسری روایت سے بھی اس کے وجوب کا پتہ چلتا  ہے : من کان لہ ذبح یذبحہ فاذا أھل ھلال ذی الحجۃ فلا یاخذن من شعرہ و من اظفارہ شیئا حتى یضحی.(مسلم, ابو داؤد, نسائی)  یعنی جو ذبیحہ ذبح کرنا چاہتا ہے  اس لیے جب ذو الحجہ کا چاند طلوع ہو تو وہ اپنے بال و ناخن میں سے کچھ بھی نہ کاٹے حتى کہ قربانی کرلے ۔

اس حدیث سے بھی علماء نے وجوب پر استدلال کیا ہے کیونکہ آپ نے یہاں پر نہی کا صیغہ استعمال کیا ہے جو بنا کسی قرینہ و دلیل کے حرمت  پر دلالت کرتا ہےیعنی بال اور ناخن کا کاٹنا حرام ہے , اور یہاں پر کوئی قرینہ یا دلیل  نہیں پایا جاتا ہے  جو اس کے غیر حرمت  پر دال ہو۔(الاسلام سؤال و جواب, فتوى نمبر 70290 ,  مالذ ی یمتنع عنہ من أراد أن یضحی, عربی)  

معلوم ہوا کہ یہ حکم واجب ہے سنت یا مستحب قطعا نہیں ہے اور ہر قربانی کرنے والے کے لیے اس کی پابندی لازمی ہے ۔  

اس حکم کی عمومیت

یہ حکم عام ہے اور  ہر اس شخص  کے لیے ہے جو قربانی کرنا چاہتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت, شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ, بالغ ہو یا نابالغ , جو بھی قربانی کرنا چاہتا ہے اس کو اس حکم کی پابندی کرنی ہے ۔ (الاسلام سؤال و جواب, فتوى نمبر 70290 ,  مالذ ی یمتنع عنہ من أراد أن یضحی, عربی)  

 کیا یہ حکم قربانی کرنے والے کے اہل خانہ کو بھی  شامل  ہے؟

یہ حکم صرف قربانی کرنے والے کے لیے ہے ,  اور اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے قربانی کا بکرا اپنے سرمایہ سے خریدا ہے  اور جو گھر کا مالک ہے یا جس کے نام سے اصلا قربانی کی جارہی ہے ,  اس کے گھر کے دوسرے افراد مثلا بیوی اور بچے  اس حکم میں شامل نہیں ہوں گے  , اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم نے اس حکم کو قربانی کرنے والے سے جوڑا ہے  اور اس کے اوپر معلق کیا ہے , تو اس کا واضح مفہوم ہے کہ جن کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے ان کے لیے یہ حکم نہیں ہے ۔

 اس کی دلیل وہ روایات بھی  ہیں جن میں آتا ہے کہ پیارے نبی اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتے تھے  لیکن کسی بھی روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کبھی ان کو بال یا ناخن کاٹنے سے منع کیا ہے ,اب اگر ان کے اوپر یہ عمل حرام ہوتا تو آپ ضرور با ضرور ان کو منع کرتے ۔ یہی راجح قول ہے ۔  

 اسی طرح یہ حکم اس کے لیے بھی نہیں ہے جس کو کسی نے قربانی کرنے کی ذمہ داری دی ہے اور اس کو اپنا  وکیل بنایا ہےاور  جو قربانی کرنا نہیں جاہتا ہے اس کے لیے بھی  یہ حکم نہیں ہے ۔(الاسلام سؤال و جواب, فتوى نمبر 33743 , ھل یجوز لاھل المضحی ان یاخذوا من شعورھم و اظفارہم, عربی )

عذر شرعی کی وجہ سے بال یا ناخن و چمڑا کاٹنے کا حکم

اگر قربانی کرنے والے کا پاس کوئی شرعی عذر ہے مثلا وہ زخمی ہوگیا اور علاج کے لیے اس کے بال یا چمڑا یا ناخن کو کاٹنے کی ضرورت ہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے اور ان شاء اللہ اس کے اوپر کوئی حرج کی بات نہیں ہے, اسی طرح اگر کسی کا  آدھا یا کچھ ناخن ٹوٹ جاتا ہے اور اس کو تکلیف ہوتی ہے تو وہ بقیہ ناخن کو کاٹ سکتا ہے یا اس کے چمڑا کا کوئی جزو لٹک جاتا ہے اور اس کو تکلیف ہوتی ہے تو وہ اس کو کاٹ سکتا ہے ۔ ان سب حالات میں رخصت ہے ۔ (الاسلام سؤال و جواب, فتوى نمبر 192308, حکم اخذ المضحی من شعرہ لعذر, عربی )

اس حکم کی مخالفت کا فدیہ

اگر کسی کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے لیکن وہ اپنا ناخن یا بال یا چمڑا دانستہ یا نادانستہ طور پر  کاٹ لیتا ہے تو اس کے اوپر  متفقہ طور پر کوئی فدیہ نہیں ہے کیونکہ اس کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے  ہاں اس نے ایک گناہ کا کام کیا ہے لہذا وہ توبہ و استغفار کرے ۔ (الاسلام سؤال و جواب, فتوى نمبر 70290 ,  مالذ ی یمتنع عنہ من أراد أن یضحی, عربی)  

اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو شریعت کے اس حکم کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین  

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

1 التعليقات:

avatar

حالات حاضرہ پر بہترین تحریر