حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے

 


                   حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے


جب   یہ موضوع  قلمبند کیا جا رہا ہے تو آج مئی کی 27/تاریخ ہے , لوک سبھا جنرل الیکشن  2024ع  کے 6/ مراحل مکمل ہوچکے ہیں اور 543/لوک سبھا سیٹوں میں سے486/سیٹوں پر الیکشن مکمل ہوچکا ہے  , اب صرف یکم جون کو 57/ سیٹوں پر  آخری مرحلہ کی ووٹنگ باقی ہے ۔

بلا شبہ اس بار کا عام  انتخاب 2014 و 2019ع کے سابقہ  عام انتخابات سے بہت زیادہ مختلف ہے , اس بار کا عام  انتخاب وطنی  جمہوریت, آئین و ریزرویشن کو بچانے کا انتخاب ہے, ظلم و جبر کے خلاف حق و انصاف کا انتخاب ہے, نفرت و کراہیت کے خلاف محبت و امن کا انتخاب ہے, ملک کو تانا شاہی سے بچانے کا انتخاب ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ   اس سے پہلے کے دو عام انتخابات  میں بی جی پی اور اس کی حلیف جماعتوں کے حق میں عوام نے ووٹ کیا تھا  اور ان کو بڑی  کامیابی حاصل ہوئی تھی  جس سے انہوں نے اقتدار کے  دس سال بنا کسی پریشانی کے  پورے کیے ۔

 2014ع کے عام انتخاب میں بھاجپا کی کامیابی کی یقینا ایک بڑی وجہ اس وقت نریندر مودی کی جادوئی شخصیت اور اس کا سحر انگیز خطاب تھا ,  مخالفین بھی مودی کی اس خوبی کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کو خطاب کرنے و مافی الضمیر کو ادا کرنے  کا ملکہ حاصل ہے اور ساتھ ہی  کرپشن , کالا دھن , مہنگائی, بے روزگاری , نوکری ,  غریبی, عورتوں کو با  اختیار بنانے وغیرہ مسائل پر بھاجپا کا مستحکم و مضبوط بیانیہ تھا جس کو اس نے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ اچھے انداز میں  عوام کے سامنے پیش کیا  اور انہیں مسائل پر توجہ دیتے ہوئے الیکشن لڑا ,  ہر جگہ و ہر علاقہ میں زبردست پرچار کیا گیا , بڑے بڑے بورڈ لگائے گیے, گھر گھر جاکر عوام سے رابطہ کیا گیا, سوشل میڈیا  کا بھر پور استعمال کیا گیا اور عوام  کو پندرہ لاکھ روپیہ  دینے, ہر سال دو کروڑ روزگار دینے اور مہنگائی سے نجات دلانے وغیرہ  جیسے  بہت زیادہ پرفریب و دلکش, خوشنما اور حسین   وعدے کیے گئے ۔ اس کے علاوہ بھاجپا نے اپنی  پسندیدہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے  ہمیشہ کی طرح ہندؤوں کے خطرہ میں ہونے کا نعرہ لگایا  ,  رام مندر اور ہندتوا کے موضوعات کو شدت کے ساتھ اٹھایا ,   دنیا جانتی ہے کہ مذہب و دین انڈین عوام کی رگوں میں دوڑتا ہے, ان کو اپنے مذہب سے حد درجہ  لگاؤ و محبت ہے, ان کو مذہب کے نام پر آسانی سے گمراہ کیا جا سکتا ہے , اس لیے بھاچپا نے مذہب کے نام پر ان کےجذبات سے کھیلا اور مسلمانوں کا ڈر اور خوف ان کے اندر بیٹھانے میں کامیاب رہا جس سے ان کے اندر پولرائزیشن ہوا  اور اکثریت کا ووٹ کافی تعداد میں بھاجپا کو ملا جس سے اس کو جیت ملی ۔یعنی ایک طرف کامیاب حکمت عملی و بہترین پلاننگ اور اس کی زبردست تنفیذ اور لگاتار کوشش و انتھک جد و جہد۔

وہیں دوسری طرف لوگ کانگریس حکومت  میں آئے دن ہونے والے  مالی جعلسازی اورکرپشن سے پریشان ہوچکے تھے , وہ تبدیلی کے خواہشمند  تھے,  وہ اپنے خوابوں کی تعبیر  اور مستقبل کی تعمیر کے لیے ایک نئی حکومت کے متمنی تھے اور بھاجپا ان کے سامنے ایک بہتر و شاندار  بدیل کے طور پر موجود تھی جو  کانگریس  حکومت کو کرپشن و کالا دھن کے موضوع پر گھیرنے میں اور اس کے خلاف سنگھی انا ہزارے کو مہرہ بنا کر"انڈیا اگینسٹ کرپشن" تحریک کے ذریعہ   عوام میں جھوٹا  پرچار کرنے میں بہت زیادہ  کامیابی حاصل کی  اور ان کو یہ باور کرانے میں از حد کامیاب رہی  کہ یہ گھوٹالوں کی حکومت ہے  اور  اس نے ملک کو لوٹا ہے لہذا اس کو شکست دینا  اور حکومت سے باہر کا راستہ دکھانا بہت ضروری ہے ۔بھولی بھالی  عوام نےبھاجپا اور اس کی حلیف جماعتوں کی باتوں پر مکمل  بھروسہ اور  اعتماد کیا اور اپنا ووٹ اس کو دیا جس سے الیکشن میں  اس کو بڑی جیت حاصل ہوئی ۔

اس کے پانچ سال کے بعد  جب  2019ع  میں  لوک سبھا  کا عام انتخاب منعقد ہوا  تو حالات کی ناسازگاری و  ناموافق  ماحول سے  ایسا لگ رہا تھا اور پوری امید تھی کہ بھاجپا اس بار  الیکشن  ہار جائے گی لیکن عین انتخاب سے قبل 14/فروری 2019ع کو  پہلے سے  تیار کردہ منصوبہ کے تحت  پلوامہ دھماکہ  کا بہت ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں سی آر پی  ایف کے 40/جوان مارے گئے  ۔ بھاجپا حکومت نے اس حادثہ کا غلط استعمال کیا , قوم پرستی کے نام پر عوام  کے جذبات کو بھڑکایا اور اس کے نام پر ووٹ مانگے , پاکستان کے خلاف"سرجیکل اسٹرائک " کے نام سے    فوجی کاروائی کی  اور اسی ماہ کی 26/تاریخ کو بالاکوٹ پر  ہوائی حملہ کیاگیا,جھوٹی قوم پرستی اور حب الوطنی  کو اپنا انتخابی بیانیہ قرار دیا   اور قوم کو ورغلانے میں کامیاب رہی جس  سے الیکشن کا نتیجہ پلٹ گیا اور ایک بار  پھر بھاچپا اپنا حکومت بنانے میں کامیاب رہی ۔حالانکہ ابھی تک نہ اس حادثہ کی تحقیق سامنے آئی ہے اور نہ یہ معلوم ہوا ہے  کہ 400/کلو آرڈی ایکس کہاں سے آیا اور کیسے وہاں پرپہنچا۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ الیکشن جیتنے کے لیے  حکومت کے اشارہ پر ہوا تھا ورنہ اب تک حقائق کا پتہ چل جاتا ۔

     خیر بھاجپا نے لگاتار دو الیکشن جیتے اور دس سال حکومت کی اور اس دوران وہ اپنے وعدوں میں سے صرف دو وعدے ایک رام مندر اور دوسرا  آئین سے آرٹیکل 370/ کو ختم کرنے کا پورا کیا ۔ اس کے علاوہ سیاسی, اقتصادی, سماجی, تعلیمی , تجارتی, صنعتی , خارجی   وغیرہ ہر محاذ پر وہ ناکام رہی, مہنگائی  دن بدن بڑھتی رہی , بے روزگاری میں روز بروز  اضافہ ہوتا رہا, 2016 ع میں نوٹ بندی کا  نہایت غلط فیصلہ کیا گیا  جس نے انڈیا کی معاشی کمر توڑ دی , آر بی آئی کے احتیاطی خزانہ کو لوٹا گیا, سرکاری  نوکریاں  آئے دن کم ہوتى رہیں, سرکاری منافع بخش  اداروں کو فروخت کردیا گیا,بنا  کامل تیاری کے جی ایس ٹی نافذ کرکے  تاجروں کو پریشان کیا گیا اور حد تو یہ ہے کہ ہر چیزحتی کہ آٹا, دہی , علاج, دوا اور کاپی کاغذ وغیرہ  پر جی ایس ٹی لگا کرکے   غریبوں کو لوٹا گیا , کارپوریٹ کو نوازا گیا  اور ان کے 16/لاکھ کروڑ قرض معاف کردیا گیا ,  بڑے اداروں کی آزادی و خود مختاری کو بہت حد تک ختم کردیا گیا , میڈیا کی آزادی سلب کر لی گئی اور اس کو غلام بنا دیا گیا, صحافیوں پر حملے کیے  گئے , پورے ملک میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا گیا, انڈیا کی تاریخ میں پہلی بار سزا دینے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیا گیا , گھر کے ایک فرد کے جرم  کی وجہ سے پورے گھر والوں کو سزا دی گئی , ملک پر 255/ لاکھ کروڑ کا بیرونی قرضوں  کا بھاری بوجھ لاد دیا گیا , ملک اقتصادی اعتبار سے تباہ و برباد ہوگیا, فوج کو کمزور کیا گیا , کسانوں کو ان کے حق سے محروم کر دیا گیا , آوارہ جانوروں نے ان کی زندگی اجیرن کردی, نوجوانوں پر لاٹھی برسائے گئے , مسابقہ جاتی امتحانات کے سوال بارہا  آؤٹ ہوئے ,الیکٹورل بانڈ کے نام پر قانونی اعتبار سے سب سے بڑا عالمی گھپلہ کیا گیا , تعلیم کو مہنگا کیا گیا اور سرکاری تعلیمی اداروں کو بند کیا گیا , 2021-2022 ع کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف صوبوں میں 61361 /سرکاری اسکولس بند کیے گئے جن میں سب سے زیادہ مدھیہ پردیش  میں 29361/اسکولس اور پھر یوپی میں 26118/اسکولس بند کیے گئے , مہنگے  پرائیویٹ اسکولوں کوبڑھاوا دیا گیا  تاکہ غریب بچے تعلیم نہ حاصل کرسکیں جو بی جی پی کا اصل مقصد ہے۔ انڈین سیاست کا معیار انتہائی  پست ہوا , بہت سارے  لیڈروں کا ایمان و ضمیر سب فروخت ہوگیا , ان کی شرم و حیا و غیرت سب مر گئی , 400/سے زائد  صوبائی  ممبران اسمبلی  کی خرید و فروخت ہوئی , کئی صوبائی حکومتوں کو گرایا گیا , مختلف سیاسی  پارٹیوں کو توڑا گیا ۔وغیرہ  اور یہ حکومت سیاسی, اقتصادی, فوجی, تعلیمی, تجارتی, معاشی, صنعتی  وغیرہ  ہر اعتبار سے بری طرح سے  ناکام رہی ۔اور یہ بہت ہی مشہور مثل ہے کہ  کاٹھ کی ہانڈی بار بار نہیں چڑھتی  ہے , اور عوام کو صرف وعدوں و آرزؤں کے ذریعہ بہت دنوں تک بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔ اور دس سال کا عرصہ بہت ہی طویل عرصہ ہوتا ہے جو بہت سارے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔

    اس لیے 2024ع کا عام انتخاب اس لحاظ سے بھی  بہت ہی مختلف ہے کہ عوام کو سمجھ میں آگیا کہ بھاجپا صرف جھوٹ بول رہی ہے,پبلک  اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگی, وہ سمجھ گئی کہ بھاجپا  مذہب کا استعمال کرکے اصل مسائل جیسے مہنگائی,  بےروزگاری, نوکری, غریبی, تعلیم و نجکاری وغیرہ   سے عوام کے دھیان کو ہٹارہی ہے , اس نے لوگوں کی زندگی سے براہ راست وابستہ مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی ہے , عوام نے دس سال کے اندر مکمل  تجربہ کرلیا  اور پھر وزیر داخلہ امت شاہ  کے بیان کہ 15/لاکھ کا وعدہ  صرف جملہ تھا,  اور گارنٹی  کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے , یہ چناؤ تک بولتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں نے عوام کی آنکھوں  پر بندھی ہوئی پٹی کو کھول دیا, پبلک کو حقیقت کا علم ہوگیا تو ان کا ذہن بہت تیزى کے ساتھ بدلنے لگا اور عوام نے اس حکومت کو تخت و تاج سے محروم کرنے کا من بنا لیا اور تقریبا  پورے ملک کا مزاج یہ ہے کہ مرکز میں سرکار بدلی جائے  ۔ چھ مراحل کی ووٹنگ مکمل ہونے کے بعدبہت سارے   مبصرین, کئی  مشہور صحافیوں,  بعض مشہور دانشوروں اور بڑے سیاستدانوں  کا کہنا ہے کہ اب یہ حکومت جا رہی ہے اور اس کو اکثریت نہیں ملنے والی ہے ۔

  مذکورہ بالا سبب  کے علاوہ اور بھی کئی  اسباب و وجوہات  ہیں جن سے عوام میں بیداری  کی لہر آئی اور ان کا شعور بیدار ہوا ۔ ان میں سے ایک اہم سبب حالیہ اتخاب میں   حکمراں جماعت کا بیانیہ سیٹ کرنے  میں ناکام ہونا ہے, اس بار بھاجپا کوئی اہم مسئلہ و موضوع مضبوطی کے ساتھ عوام کے سامنے  تسلسل کے ساتھ نہ رکھ سکی اور اس میں وہ بری طرح سے ناکام ہوئی  ۔ اور اسے جب اپنی شکست سامنے نظر آنے لگی تو  ہر مرحلہ کے ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم مودی بار بار اپنا بیان بدلتے ہوئے  اور ایک نیا جھوٹا  بیانیہ پیش کرتے ہوئے نظر آئے۔ اس کا آغاز انہوں نے مچھلی اور مٹن سے کیا , پھر ہندو عورتوں کے منگل سوتر کے چھیننے اور اس کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے , وراثت ٹیکس کے ذریعہ  پبلک کی آدھی  مال و دولت پر قبضہ کرنے کی بات آئی, مزید ہندؤوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لیے  رام مندر پر بابری تالا لگانے اور اس کو بلڈوزر سے مسمار کرنے اور ملک میں شرعی قانون نافذ کرنے کا راگ الاپا گیا  اور آخر میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ انڈیا  اتحادکی حکومت آپ کے گھر سے ٹونٹی نکال لے جائے گی اور کنکشن کاٹ کے  بجلی کی سپلائی بند کردے گی وغیرہ ۔بات بہت لمبی ہے کہاں تک لکھی جائے لیکن ظاہر ہے کہ ان بیانات میں انہوں نے اخلاقی, دینی, سیاسی, سماجی و منصبی  تمام قیود و حدود کو پھلانگ دیا  اور اسے  تار تار کردیا, اس قدر  سفید جھوٹے بیانات دیتے ہوئے  انہیں اپنی شخصیت کا خیال رہا نہ اپنے مذہب کا, اپنی عمر کا لحاظ رہا  نہ اپنے منصب کا ۔ وہ جھوٹ بولنے میں اتنا زیادہ گر گئے  جس کے بارے میں کوئی سوچ نہیں سکتا ہے, اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ وہ ہر روز بنا کسی شرم کے علانیہ طور پر  پورے یقین و اعتماد کے ساتھ نیا  جھوٹ بولتے رہے ۔

    اور وزیر اعظم اسی پر نہیں رکے بلکہ انہوں نے اپنے حالیہ ایک انٹرویو میں دعوى کردیا  کہ وہ بھگوان کے اوتار ہیں , اور بھگوان نے ایک خاص مشن کے لیے ان کو بھیجا ہے اور پھر دعوى کردیا کہ وہ ابھی ناشی  یعنی لافانی ہیں جب کہ یہ سراسر جھوٹ ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب خرافات و بکواس ہے, جنتا بھی اس کو خوب سمجھ رہی ہے ۔ اس لیے ان بیانات و خطاب کا ان کے اوپر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ ہر بیانیہ کے بعد اس کا الٹا اثر ہوا اور عوام سمجھ گئی کہ ان کو ورغلایا جا رہا ہے ۔ اس لیے اس بار بہت سارے افراد جنہوں نے اس سے پہلے بھاجپا کو ووٹ دیا تھا انہوں نے علانیہ طور پر اس سے توبہ کرلیا  اور عوام کے ذہن و شعور میں تبدیلی آئی  اور آتی جارہی ہے ۔ماحول بہت زیادہ بدل گیا اور انڈیا اتحاد کے حق میں  لہر بہنے لگی ۔اس کا اندازہ ان ویڈیوز سے ہوتا ہے جو سوشل میڈیا میں وائرل ہیں اور جن میں عوام بھاجپا خصوصا نریندر مودی کو گالی دیتے ہوئے نظر آرہی ہے ۔ سچ ہے :

                حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے

                  کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

 اور یہ بھی حقیقت ہے کہ

            ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں                      ناؤ کاغذ کی کہیں چلتی نہیں

    اس الیکشن میں ہوا بدلنے کی ایک اہم وجہ کانگریس اور مخالف پارٹیوں کا اتحاد و اتفاق بھی ہے, یہ اتحاد اگر چہ مکمل طور سے ہر صوبہ میں  نہ ہو سکا لیکن جیسے جیسے انتخاب کے ایام قریب آتے گئے ان کے مابین باہمی   اتحاد و اتفاق میں اضافہ ہوتا رہا  اور مختلف صوبوں میں  کئی پارٹیوں کے ساتھ  اکثر سیٹوں پراتفاق ہوگیا  جو آج ایک حقیقت ہے اور جس سے عوام میں ایک مثبت پیغام گیا اور مختلف پارٹیوں کے مابین  ووٹ تقسیم ہونے سے بچ  گیا جوپچھلے انتخابات میں  بھاجپا کی کامیابی  کی ایک اہم وجہ تھی اس سے مقابلہ عموما تین چار افراد کے درمیان ہونے کے بجائے ڈارکٹ  صرف دو کے درمیان ہوکرکافی سخت ہوگیا اور بھاجپا کی  جیت کی راہ بہت مشکل ہوگئی   ۔

   ان سب کے علاوہ اس الیکشن میں عوام کے افکار و نظریات  میں تبدیلی کی ایک اہم وجہ راہل گاندھی کی شخصیت میں تبدیلی اور ان کی پہلے بھارت جوڑو یاترا (7/ستمبر 2022ع سے 30/جنوری 2023ع تک)اور پھر بعد میں بھارت جوڑو نیائے یاتر ا (14/جنوری -16/مارچ 2024ع )ہے , بلا شبہ اس کے ذریعہ راہل گاندھی  نے عوام سے براہ راست رابطہ کیا, ان کے ساتھ رو برو  گفتگو کی , ان کے مسائل سے آگاہ ہوئے ,بنا کسی واسطہ کے  اپنا نقطہ نظر ان کے سامنے رکھااور بہت ہی کامیاب طریقہ سے  اپنی آواز کو ان تک پہنچایا  جس سے  بلا شبہ عوام میں ایک مثبت پیغام گیا , عوام نے خود ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا, ان کی جو خراب شبیہ بنادی گئی تھی وہ دور ہوئی ۔ بہت سارے لوگ یہ ماننے کو مجبور ہوئے کہ راہل گاندھی کی شخصیت ویسی نہیں ہے جیسا کہ مین اسٹریم میڈیا کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے, اور یہ یاترا کا عمل  اس لیے بھی  بہت ضروری تھا کیونکہ میڈیا راہل گاندھی و کانگریس کی خبروں کو  بہت کم کور کرتا ہے ۔

    پبلک کا موڈ بدلنے کی ایک اہم وجہ ستیہ پال ملک کا حکومت مخالف رویہ اور ان کی  شجاعت اور راست گوئی ہے , انہوں نے بہت ہی  بیباک انداز میں  سچائی کو  عوام کے سامنے رکھا اور مودی و اس کی حکومت کو بے نقاب کردیا , مثل مشہور ہے کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے , چونکہ وہ  بھاجپا کے ایک قد آور سیاسی لیڈر تھے اور کئی اہم مناصب  و عہدوں پر فائز تھے, وہ میگھالیہ, گوا, جموں و کشمیر اور اڑیسہ کے گورنر رہ چکے تھے لہذا وہ اندر کی باتوں سے بھی واقف تھے ۔ اس لیے جب انہوں نے اندر کی باتوں سے یکے بعد دیگرے پردہ اٹھایا اور عوام کو اس سے خبردار کیا تو پبلک دنگ  رہ گئی ۔ لیکن ان کے سامنے یقین کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ وہ مودی کے آدمی تھے , اور حیرت کی بات  تو یہ ہے کہ وہ 77/سال کی عمر میں ضعیفی و لاغری, دھمکی و ای ڈی کی جانچ  کے باوجود  خاموش نہیں بیٹھے اور مختلف علاقوں کا دورہ کرکرکے حکومت کو بے نقاب کرتے رہے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بہت خطرنا ک لوگ ہیں, ان کو کرسی سے ہٹانا بہت ضروری ہے, ورنہ آئندہ کی نسلیں ہم کو معاف نہیں کریں گی۔ان کے انٹرویوز اور خطاب کے بہت سارے ویڈیوز سوشل میڈیا میں دستیاب ہیں  جہأن آسانی سے ان کو دیکھا جا سکتا ہے ۔

    اور آخر میں اس الیکشن میں مشہور یوٹیوبر  دھرو راٹھی  نے  زبردست انٹری  ماری اور انہوں نے یوٹیوب پر  بھاجپاو نریندر مودی کی بابت اپنے کئی ویڈیوز سے تہلکہ  مچا دیا جس میں انہوں نے مودی و اس کی حکومت  کی حقیقت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں تمام حقائق کے ساتھ عوام کے سامنے رکھا۔ اور یہ ایک ناقابل تردید  حقیقت ہے کہ  ان کی ویڈیوز بہت زیادہ وائرل ہوئیں اور عوام میں ازحد مقبول ہوئیں , بی جی پی آئی ٹی سیل اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ان کے سامنے ٹک نہ سکا اور چاروں خانے چت ہوگیا ,  اور ان کے ویڈیوز کا جواب دینے سے مکمل طور سے  عاجز رہا ,  انہوں نے اپنا ایک مشن " سو کروڑ " لانچ کیا   جس میں انہوں نے عوام سے ویڈیوز کو زیادہ سے زیادہ شیئر کرکے سو کروڑ لوگوں تک پہنچانے کی اپیل کی ۔پبلک نے بھی اس نوجوان کو مایوس نہیں کیا اور ان کے ویڈیوز کو نہ صرف شیئر کیا بلکہ ملک کے طول و عرض میں  چوراہوں  و گلیوں وغیرہ میں بڑے بڑے مانیٹر پر اس کی نماش کی جس سے لاکھوں لوگ تک آسانی سے ان کا پیغام پہنچا۔

    ان کی ویڈیوز میں سے  دا نریندر مودی فائلس : اے ڈکٹیٹر مینٹلتی(The Narendra Modi Files: A Dictator Mentality,1.4 crore views),  ریلٹی آف نریندر مودی :ہاؤ انڈین ویر فولڈ(Reality of  Narendra Modi: How Indians were Fooled, 2.5 crore views),  ڈرا ہوا ڈکٹیٹر: اروند کیجریوال جیلڈ(Arvind Kejriwal Jailed: Dictatorship Confirmed,3.4 crore views), ڈکٹیٹر شپ کنفرمڈ , الکٹورل بانڈز: دا بگسٹ اسکیم ان ہسٹری آف انڈیا(Electoral Bonds: The Biggest Scam in History of India? 1.8 crore views) وغیرہ زبردست وائرل ہوئے اور ان سب کو کروڑوں لوگوں نے نہ صرف دیکھا بلکہ اس کو بہت زیادہ پیمانہ پر شیئر بھی کیا اور اس کے مشن کا حصہ بھی بنے ۔ بلا شبہ ان ویڈیوز نے  حقیقت  کو  دلائل کے ساتھ بیان کرکے عوام کی رائے کی تبدیلی میں ایک اہم کردار کیا ہےجس کا اندازہ بآسانی  ان کے ویوز کی کثرت سے کیا جا سکتا ہے ۔   

       مذکورہ بالا ان 6/  بنیادی و مرکزی اسباب و عوامل  کے علاوہ عوام کی رخ میں تبدیلی کے   اور بھی اسباب و وجوہات ہیں مثلا اس بار حزب مخالف نے پرچار و پر سار بھی جم کے کیا ہے اور اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے, حتی کہ سوشل میڈیا میں بھی وہ بھاجپا سے آگے نکل گئے ہیں ۔ خود راہل گاندھی نوجوانوں میں کافی پاپولر ہوئے ہیں اور انہوں نے نریندر مودی کو اس معاملے میں  بہت پیچھے چھوڑ  دیا ہے,  اینٹی انکمبینسی (Anti-Incumbency) یعنی اقتدار کی مخالفت , مودی بھکت بعض  صحافیوں کے رخ میں تبدیلی ۔وغیرہ, ایک مختصر اداریہ میں ان  سب کو بیان کرنا  ممکن نہیں ہے , صرف حالیہ  الیکشن کا اس کے ہر پہلو سے  مفصل  جائزہ  لینے کے لیے ایک ضخیم کتاب درکار ہے ۔اور جوکچھ  تحریر کیا گیا ہے وہی مقصود پر دلالت کے لیے  کافی ہے ۔

       خلاصہ کلام یہ ہے کہ  عوام کے رخ میں  تبدیلی کی ہوا بہت بڑے پیمانہ  چل رہی ہے,  بکثرت عوام کا ذہن بدلا ہے اور اس کا اعتراف زمین پر موجود بہت سارےصحافیوں و سیاستدانوں  نے کیا ہے  اور اب تو حکومت کے حامی  اس  میدان کے مشہور و معروف  ماہرین تک جیسے  پول ایکسپرٹ سنجے کمار سابق ڈائریکٹر سی ایس ڈی ایس  , پردیپ گپتا  ایکسس مائی انڈیا کے چیرمین  و ڈائریکٹر نے اس کو مانا ہے اور برملا اس کا اعتراف کیا ہے  ۔

خیر لوگوں نےاپنا  فیصلہ دے دیا ہے, اب سب کو4/ جون کا شدت کے ساتھ انتظار  ہے , دیکھیے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے, کیا انڈیا اتحاد  کامیاب ہوگا  اور عوام کی توقعات کے مطابق  ایک نیا سورج  طلوع ہوگا یا این ڈی اے الیکشن کمیشن , آرایس ایس اور اپنے نہایت وفاداروں  کی لابی کی بے ایمانی  کے  ذریعہ  ایک بار پھر بازی مارے گا۔ اس کا پتہ تو چار جون کو ہی چلے گا ۔ لیکن ایک خدشہ تو ہے وہ ہے انڈین الیکشن کمیشن کا مشکوک اور متنازعہ و جانبدارانہ کردار جو  وزیر اعظم کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے میں  ناکام رہا, اس کے علاوہ ہر شعبوں و میدانوں میں  کافی تعداد میں موجود آر ایس ایس کے پروردہ افراد جو  جمہوریت و آئین نیز  عدل و انصاف کا قتل و خون کرکے مودی کو جیت دلانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جیسا کہ اس سے پہلے چندی گڑھ میں ہوچکا ہے ۔

اللہ خیر کرے , عوام کی اکثریت کی طرح  میری نیک خواہشات  انڈیا اتحاد کے ساتھ ہے, اللہ کرے کہ ایک بار حکومت بدلے اور لوگ اطمینان و چین , سکھ و شانتی کی سانس لیں ۔اور اس اپیل کے ساتھ یہ اداریہ ختم کرتا ہوں کہ یکم جون کو ضرور با ضرور انڈیا اتحاد کے حق میں ووٹ کیجیے گا۔   

 

 

 

 

وزیر اعظم کا  سفیدجھوٹ

الیکشن کمیشن کا رول:

راجیو گاندھی کی شخصیت:

کانگریس اور دیگر پارٹیوں کا اتحاد:

کانگریس اور مخالف جماعتوں کا زبردست پرچار

دھرو راٹھی کا کردار , ستیہ پال ملک

سوشل میڈیا میں کانگریس کی دہوم اور راہل کی برتری

کانگریس کو سزا مل گئی جو کافی ہےفرقہ واریت میں نرمی برتنے کی

یہ کانگریس سابقہ کانگریس سے کافی مختلف ہے 

یادگار الیکشن ختم ان نتائج کا انتظار کیجیے

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: