وقت سے پہلے افطارى کرنے کی سزا

 

                     وقت سے پہلے افطارى کرنے  کی سزا  

حديث: عن أبي أمامة الباهلي رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:(بينما أنا نائم، إذ أتاني رجلان فأخذا بضبعيّ، فأتيا بي جبلاً وعراً، فقالااصعد، فقلت: إني لا أطيقه، فقالاإنا سنسهّله لك، فصعدتُ، حتى إذا كنت في سواء الجبل، إذا بأصوات شديدة، قلت: ما هذه الأصوات؟ قالواهذا عواء أهل النارثم انطلق بي، فإذا أنا بقوم معلّقين بعراقيّبهم، مشققة أشداقهم، تسيل أشداقهم دماً، قلت: من هؤلاء؟ قال:هؤلاء الذين يفطرون قبل تحلّة صومهم ........الخ

(صحیح الترغیب , علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے, علاوہ ازیں  اس حدیث کو نسائی نے سنن کبرى میں مختصر طور پر , ابن خزیمہ و ابن حبان نے معمولی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے)

معانی کلمات:

ضبع):  ض کے فتحہ کے ساتھ) بازو, وعر: مشکل, سواء: وسط . درمیان, فاطلع فراہ فی سواء الجحیم: اى وسط الجحیم جہنم کے وسط میں, عواء: (ع پر ضمہ) چیخ و پکار,  عراقیب:   عرقوب کی جمع ہے , ایڑی , پاؤں کا پچھلا حصہ, شدق:( ش مکسور) جمع أشداق,  منہ کا کنارا,  قبل تحلۃ صومہم: قبل أن یحل الفطر لہم بغروب الشمس اس سے پہلے کہ ان کے لیے سورج غروب ہونے پر روزہ کھولنا جائز و حلال ہو۔
ترجمہ: حضرت ابو امامہ باہلی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب میں سویا ہوا تھا تو  دو فرشتے انسانی شکل میں میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے میرے بازوؤوں کو پکڑا اور پھر وہ مجھ کو لےکر ایک مشکل چڑھائی والے  پہاڑ پر آئے اور مجھ سے  اس پر چڑھنے کو کہا ۔ میں نے جواب دیا کہ مجھے اس کی طاقت نہیں ہے  یعنی میں اس پر نہیں چڑھ سکتا ہوں , تو انہوں نے کہا کہ میں اسے تمہارے لیے آسان کر دوں گا ۔ لہذا میں نے  اس پر چڑھنا شروع کیا   یہاں تک کہ میں پہاڑ کے بیچ میں پہنچ گیا تو بہت زور کی آواز سنی ۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ کیسی آوازیں ہیں ؟  تو ان کا جواب تھا کہ یہ اہل جہنم کی چیخ و پکار ہے ۔پھر وہ مجھ کو لے کر  اور آگے بڑھے تو میں نے ایک ایسی قوم کو دیکھا جو الٹے پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں  , ان کے گوشہ دہن چیرے ہوئے ہیں  اور ان سے خون بہہ رہا  ہے  , میں نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟  تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے قصدا  افطاری کر لیتے ہیں ....آخر تک ۔

مختصر شرح:یہ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں نبی کریم نے اپنے ایک خواب کا ذکر کیا ہے ۔اور شرعی اعتبار سے   انبیاء کا خواب برحق و سچا ہوتا ہے اور جو کچھ انبیاء اپنے خوابوں میں دیکھتے ہیں وہ مخفی اور پوشیدہ  احکام و امور کی بابت اللہ تعالى کی طرف سے خبر اور تعلیم ہوتی ہے ۔

اس حدیث میں نبی کریم نے بتایا ہے کہ وقت سے پہلےیعنی سورج غروب ہونے سے پہلے  قصدا اور جان بوجھ کر افطاری کرنا ایک عظیم گناہ ہے اور جو شخص ایسا کرتا ہے وہ بہت بڑا مجرم ہے اور اس کی سزا بہت سخت ہے ۔آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایسے لوگ بہت بری حالت میں ہیں اور سب الٹے پاؤں لٹکے ہوئے ہیں جس طرح ایک قصائی اپنے ذبح کیے ہوئے جانور کو الٹا لٹکاتا ہے ۔ ان کے پاؤں اوپر کی طرف اور سر نیچے کی طرف ہیں۔

یہ سزا ہے ان لوگوں کی جو دن بھر روزہ رکھتے ہیں لیکن ٹائم سے پہلے جان بوجھ کر روزہ افطار کر لیتے ہیں ۔ ظاہر میں یہ ایک معمولی غلطی ہے  لیکن شریعت کی نگاہ میں یہ ایک بہت بڑا گنا ہ ہے کیونکہ یہ بنا کسی عذر شرعی کے روزہ توڑنا ہوا جو گناہ کبیرہ ہے خواہ وہ سورج غروب ہونے سے تھوڑا پہلے ہو ۔ شمس الدین ذہبی اپنی کتاب "کبائر " میں تحریر فرماتے ہیں کہ دسواں کبیرہ گناہ رمضان میں بنا کسی عذر کے روزہ چھوڑنا و افطار کرنا ہے ۔ علامہ ابن قیم نے بھی اپنی کتاب اعلام الموقعین میں رمضان میں روزہ چھوڑنے کو کبیرہ گناہ بتایا ہے ۔

لہذا جب کسی کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ وہ رمضان میں بنا کسی عذر کے روزہ نہیں رکھتا ہے تو حاکم اس کی تادیب و تعزیر کرے جس سے وہ اور اس کے مثل دوسرے لوگ روزہ چھوڑنے سے باز آجائیں کیونکہ اس نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کیا جس میں کوئی حد و کفارہ نہیں ہے ۔ پس اس میں تعزیر ہے ۔ اور جس مسلمان کو بھی اس کا علم ہے اس کو اس عظیم برائی سے روکنا چائیے ۔ اس کو نصیحت کرنی چائیے اور اسے اللہ کے عذاب و سزا سے ڈرانا چائیے ۔

ذرا سوچئے کہ یہ سخت و شدید  عذاب ان افراد کو دیا جا رہا ہے جو ٹائم سے پہلے دانستہ طور پر  افطار کر لیتے  ہیں تو جو افراد بنا کسی عذر شرعی کے  روزہ ہی نہیں رکھتے  ہیں تو ان کی کیا حالت ہوگی اور ان کو کس طرح کے عذاب سے دوچار کیا جائے گا ۔ اور فی زمانہ  سب سے زیادہ تکلیف کی بات یہ ہے کہ بہت سارے مسلمان بنا کسی عذر شرعی کے  روزہ نہیں رکھتے ہیں ۔ ایسے افراد کی سماج و معاشرہ میں کمی نہیں ہے ۔ وہ ہر جگہ نظر آتے ہیں ۔ گذشتہ سال 2022ع کے  رمضان  میں  میرے گھر پر کام ہورہا تھا اور مزدوری کرنے والے بہت سارے مسلمان تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی روزہ نہیں رکھتا تھا ۔ میں نے پوچھا کہ آپ لوگ  روزہ کیوں نہیں رکھتےہیں؟  تو ان کا جواب تھا کہ دن میں کام کرتے ہیں اس لیے روزہ نہیں رکھتے ہیں ۔ یہ ان کے ضعف ایمان و کمزوری ارادہ  کی دلیل ہے ۔ ورنہ جو انسان ارادہ کا پختہ ہوتا ہے اور ان کی نیت سچی ہوتی ہے تو وہ آرام سے روزہ رکھ سکتا ہے, اور اگر زیادہ پریشانی ہو تو دن میں کم کام کرے ۔

 مجھے یاد آتا ہے کہ جب میرا بچپن تھا تو  کس طرح ہمارے دادا رحمہ اللہ  جولائی کی سخت دھوپ میں کھیتوں میں دن بھر  کام کرتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے ۔ اللہ کے فضل و کرم سے انہوں نے ایک بھی روزہ کبھی بھی ترک نہیں کیا ۔جب کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ  سخت تپش میں کھیت میں دن بھر کام کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے ۔

معلوم ہوا کہ جب انسان میں تقوى ہو اور اس کی قوت ارادی مضبوط ہو تو وہ سخت ترین  حالات میں بھی  روزہ رکھ لیتا ہے ورنہ انسان  آسان و معمولی  حالت میں بھی  روزہ  نہیں رکھتا ہے ۔

اب  آخر میں اللہ  جل فی علاہ سے دعا ہے کہ وہ پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کو نہ صرف روزہ رکھنے کی توفیق عطا کرے بلکہ اس کے حقوق کو بھی کما حقہ ادا کرنے کی  توفیق دے ۔اور روزہ سمیت ہماری تمام عبادات کو قبول فرمائے اور ہمیں اخلاص سے نوازے۔ آمین و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: