دعا کے نہ قبول ہونے کی بڑی و اہم وجہ

 

                       دعا کے نہ قبول ہونے کی بڑی و اہم وجہ

حدیث:عن أبی ہریرۃ قال : قال  رسول اللہ : إن اللہ طیب لا یقبل إلا طیبا و إن اللہ أمر المؤمنین بما أمر بہ المر سلین  فقال: یا أیہا الرسل کلوا من الطیبات و اعملوا صالحا إنی بما تعملون علیم (مؤمنون/51) , و قال: یا أیہا الذین آمنوا کلوا من طیبات ما رزقناکم (بقرہ/172) , ثم ذکر الرجل یطیل السفر أشعث أغبر یمد یدیہ الى السماء  یا رب یا رب و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام فأنی یستجاب لذلک (مسلم و ترمذی, ترغیب و ترہیب /1717 )

معانی کلمات:

  طیب : پاک و کمیوں و خرابیوں سے بالا تر

لا یقبل الا طیبا:  یہاں طیب سے مراد حلال  ہے ۔

أشعث: بکھرا ہوا سر کا بال

أغبر: غبار آلود جس سے بال کا رنگ بدل گیا

یمد یدیہ الى السماء :اپنے ہاتھوں  کو دعا کے لیے اٹھاتا ہے ۔

فانی یستجاب لہ :  کیسے اور کیوں اس کی دعا کو قبول کیا جائے گا۔ (موقع الوکہ: شرح حدیث: ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا)

 

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ پاک ہے اور وہی قبول کرتا ہے جو اچھی و پاکیزہ  ہو، اور اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا جس کا اس نے رسولوں کو حکم دیا تھا، تو اس نے  فرمایا: اے رسولوں ! اچھا حلال روزی کھاؤ  اور نیک کام  کرو، بلا شبہ میں تمہارے عمل سے واقف ہوں ، اور فرمایا: اے ایمان والو اور جو پاکیزہ و حلال  چیزیں ہم نے تمہیں عطا کی ہیں ان میں سے کھاؤ، پھر ایک شخص کا ذکر کیا جو پراگندہ اور غبار آلود طویل سفر کرتا ہے۔ وہ آسمان کی طرف اپنا  ہاتھ اٹھاتاہے اور کہتا ہے ، اے رب، اے رب، لیکن  اس کا کھانا حرام ہے ، اس کا پینا حرام ہے ، اس کا لباس حرام ہے ،اور اس کی غذا حرام تھی ، تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔

حدیث کا مقام و مرتبہ :

 یہ ایک بہت ہی اہم حدیث ہے اور اس کی اہمیت نیز مقام و مرتبہ کا پتہ اس کے بارے میں مختلف علماء کے اقوال سے  ہوتا ہے ۔امام نووی  رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ ان احادیث میں سے ایک ہے جس پر اسلام کی بنیادیں  اور احکام کی عمارتیں قائم ہیں ۔امام طوفی رحمہ اللہ نے لکھا ہے : جان لیجیے کہ اس حدیث کی منفعت بہت زیادہ ہے کیونکہ  یہ دعاء کے حکم , اس کی شرط اور رکاوٹ کی وضاحت  پر مشتمل ہے ۔ علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ  نے اس کی بابت تحریر فرمایا ہے : یہ ان احادیث میں سے ایک ہے جس پر اسلام کی بنیادیں  اور احکام کی عمارتیں قائم ہیں ۔ اور اس میں حلال سے خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور اس کے علاوہ سے خرچ کرنے سے روکا گیا ہے ۔ اور یہ کہ جو کچھ کھایا، پیا اور  پہنا جائے اور اس کی مثل چیزیں ضروری ہے کہ  خالص طور سے اور بغیر کسی شک کے حلال ہوں۔

        اور اس  حدیث کے بارے میں  یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کھانے,  پینے اور لباس میں حلال کو تلاش کرنےاور حرام چیزوں سے بچنے کی ترغیب دینے کی بنیاد ہے۔(موقع الوکہ: شرح حدیث: ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا)

شرح:

     اس حدیث میں نبی کریم نے ایک اہم حقیقت کی  وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالى  پاک ہے ۔  اس میں کسی بھی قسم کی کمی اور خرابی نہیں ہے ۔ وہ اپنی ذات , صفات اور افعال میں پاک ہے ۔اور وہ صرف انہیں اعمال کو قبول فرماتا ہے  جو اعمال کو فاسد کرنے والی چیزوں سے خالی ہو مثلا  شرک, ریاء و کبر و غرور , خود پسندی وغیرہ  اور صرف  حلال مال کو قبول فرماتا ہے  کیونکہ لفظ طیب میں   مدح و ثناء اور شرف کا معنى شامل ہے اس بناء پر اللہ تعالى سے اسی چیز کے ذریعہ قربت حاصل کی جائے گی  جو اس معنى کے مناسب ہو ۔ اور وہ اعمال میں اخلاص اور اموال میں حلال مال ہے ۔

      اور جب اللہ نے اپنے بندوں کے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا فرمایا اور محرمات کے علاوہ تمام چیزوں کو ان کے لیے مباح و حلال قرار دیا تو اس نے مسلمان مرد اور عورتوں کو وہی حکم دیا جو اس نے اپنے رسولوں کو دیا تھا ۔ اور  حلال کھانے کو واجب قرار دے کر ان کے درمیان  خطاب کو برابر کردیا ۔ لہذا فرمایا: اے رسولو حلال کھاؤ اور نیک عمل کرو  اور فرمایا: اے ایمان لانے والو: اور جو پاکیزہ و حلال  چیزیں ہم نے تمہیں عطا کی ہیں ان میں سے کھاؤ۔ یقینا اللہ تعالى کا حکم اپنے  رسولوں و مسلمانوں کے لیے ایک ہی ہے کہ وہ پاک و حلال چیزیں ہی کھائیں اور خبیث و حرام سے دور رہیں کیونکہ وہ ان کے اوپر حرام ہے ۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے : و یحل لہم الطیبات و یحرم علیہم الخبائث (اعراف/157) اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور ناپاک و گندی چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے ۔(موقع الوکہ: شرح حدیث: ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا)

    اللہ تعالى نے سورہ  مومنون کی آیت نمبر 51 میں حلال کھانے اور صالح عمل کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ  حلال صالح عمل میں مدد کرتا ہے  اور اس میں معاون اور مد گار ہوتا ہے ۔(تفسیر ابن کثیر)

          اور ہمارے اسلاف سے منقول اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ   حلال کے  بہت زیادہ  حریص تھے اور حرام سے بہت دور رہتے تھے ۔ چنانچہ میمون بن مہران کا قول ہے: آدمی اس وقت تک متقی نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ جان لے کہ اس کا لباس اور کھانے پینے کا مصدر کیا ہے۔  اور وہیب بن ورد کا کہنا ہے کہ اگر تم اس ستون کے مقام پر  کھڑے ہوجاؤ تب بھی تم کو کوئی چیز فائدہ دینے والی نہیں ہے  یہاں تک کہ تم دیکھو کہ تمہارے پیٹ میں داخل ہونے والی چیز حلال ہے یا حرام۔اور یحیى بن معاذ کا فرمان ہے : اطاعت اللہ کا ایک خزانہ ہے جس کی کنجی دعاء ہے اور اس کنجی کے دانت حلال کے لقمے ہیں ۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے  ایک ایسے شخص کی عظیم مثال بیان کی  جس نے قبولیت دعا کے اہم  اسباب کو اختیار کیا  لیکن وہ   اپنے خورد و نوش  میں حلال و پاکیزہ چیزوں کا استعمال نہیں کرتا تھا ۔ اور وہ اہم اسباب یہ ہیں :-----

پہلا: دور دراز  کا سفر کرتا ہے:  اور محض سفر ہی دعاء کے قبول ہونے کا تقاضا کرتا ہے  کیونکہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا : تین دعاؤں کے قبول ہونے میں کسی قسم کا کوئی شبہہ نہیں ہے جن میں ایک مسافر کی دعا ہے (ابو داؤد, ترمذی, ابن ماجہ)   اور مسافر دوران سفر پیش آنے والی مشقتوں کے نتیجہ میں  عموما اپنے  سفر میں منکسر المزاج و متواضع ہوتا ہے   جس سے اس کی دعاء کی قبولیت کا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔

دوسرا: پراگندہ اور غبار آلود: اور یہ اس کی تابعداری, عاجزی اور محتاجی کی دلیل ہے کیونکہ اس کی ظاہری شکل و صورت اور لباس  میں خوبصورتی و  زینت نہیں پایا جاتا ہے بلکہ اس کا لباس اور وہ خود گرد و غبار سے ڈھکا ہوتا ہے ۔ اور جس کی یہ حالت ہو تو وہ قبولیت کے زیادہ لائق ہوتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے  اور اس کی طرف محتاجی کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ 

تیسرا: وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو  آسمان کی طرف اٹھاتا  ہے:بلا شبہ اللہ تعالى کریم ہے وہ اپنے کسی سائل کو رد نہیں کرتا ہے ۔ ایک حدیث میں  ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: یقینا اللہ تعالی شرم کرنے والا اور سخی ہے ۔ جب کوئی أپنے دونوں ہاتھوں کو اس کی طرف اٹھاتا ہے تو وہ ان کو خالی و ناکام واپس کرنے سے شرم کرتا ہے ۔ (امام احمد وغیرہ)

چہارم: وہ اپنی دعاء میں الحاح و اصرار کرتا ہے : وہ یا رب یا رب کئی بار کہتا ہے ۔ اس کو دہراتا  ہے اور یہ دعا کے قبول ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔اسی وجہ سے نبی کریم جو بھی دعا کرتے تھے اس کوکم از کم  تین بار دہراتے تھے ۔

دعا کی قبولیت کے یہ چار اسباب ہیں  جن کو اس شخص نے کامل طور سے اختیار کیا ۔ لیکن اس نے  ایک رکاوٹ  لا کر ان چاروں وجوہات کو ختم کردیا ۔ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا: فأنی یستجاب لہ ؟ اور یہاں پر یہ استفہام تعجب اور استبعاد یعنی  عدم امکانیت کا ہے جس کی یہ حالت ہو ۔ مطلب ہے کہ ایسی صورت میں اس کی دعاء کا قبول ہونا ممکن نہیں ہے ۔ (موقع إسلام ویب/ حدیث : ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا)

   اور آخر میں: ہم سب مسلمانوں  کے لیے اشد  ضروری ہے کہ أپنے بارے میں  ایک مضبوط موقف اختیار کریں ، جس میں ہم اپنے کھانے پینے یا پہننے والے لباس کے بارے میں محتاط رہیں اور صرف حلال استعمال کریں ، تاکہ  ہماری دعا اللہ کے نزدیک قبول ہو ۔

         موجودہ دور کے بہت سارے مسلمان یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے ۔ ایسے مسلمانوں  کو اس حدیث کی روشنی میں اپنا جائزہ لینا چائیے جس سے ان کو واضح طور سے معلوم ہوجائے گا کہ ہماری دعائیں کیوں نہیں قبول ہوتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ دور حاضر کے مسلمانوں کی اکثریت حرام کھاتی ہے ۔اسے حلال و حرام کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے جس سے اس کی دعا رد کر دی جاتی ہے ۔

      اب اگر کوئی  مسلمان یہ چاہتا ہے کہ اس کی دعاء قبول ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک طرف  حلال کھائے اور دوسری طرف  حرام سے کامل طور سے  دور رہے کیونکہ حرام کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے  ۔حلال  سے اس کے اندر روحانی بلندی اور نفسیاتی سکون پیدا ہوگا جس سے اس کی دعاؤں کے قبول ہونے کا زیادہ امکان ہوگا۔ اور حرام کھانے سے نہ کوئی عمل قبول ہوتا ہے اور نہ ہی دعاء قبول ہوتی ہے ۔

  اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کو حلال کمانے و کھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: