منفی تبدیلیاں : نعمتوں کے زوال کا پیش خیمہ

 منفی تبدیلیاں  : نعمتوں کے زوال کا پیش خیمہ   

 آیت: ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ(انفال/53)

ترجمہ: یہ اس لیے کہ اللہ تعالى کسی قوم کو اپنی عطا کردہ نعمت کو اس وقت تک   بدلتا نہیں ہے یہاں تک کہ وہ قوم خود اپنی حالت کو تبدیل کرلے ۔ اور یہ کہ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

تفسیر: اس آیت میں اللہ عز وجل نے  اپنی ایک اہم قانون فطرت و قانون  دنیا کا ذکر کیا ہے , کافروں  اور ان کے ہم مثل و مشابہ مثلا نافرمانوں اور منکروں کو عذاب دینے اور ان سے اپنی نعمتوں کو چھیننے کی وجہ بتائی ہے ۔ ذلک اسم اشارہ مبتدا  ہے اور اس کا مشار الیہ فاخذہم اللہ بذنو بہم اس سے پہلی والی آیت میں ہے۔ اور خبر بان اللہ .... ہے ۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کافروں پر جو عذاب نازل ہوا اور ان کی جو رسوائی و ذلت ہوئی وہ  عدل الہی ہے  کیونکہ مخلوق  میں اللہ کی یہ سنت رہی ہے  اور اس کے حکم میں اس کی حکمت کا یہ تقاضا رہا ہے  کہ وہ اپنی نعمتوں کو اسی وقت چھینتا ہے اور اس کو سزاؤں سے بدل  دیتا ہے  جب اس قوم کے ذریعہ گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے  اور معاصی و فحاشی کو انجام دیا جاتا ہے ۔ اور لوگ اللہ کی نعمتوں  کے بدلے میں اس کا شکر ادا نہیں کرتے ہیں اور اس کی اطاعت و فرماں برداری نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے بدلے میں کفر و معصیت کرتے ہیں  تو اللہ تعالى انی نعمتوں کو ان کے اعمال کے مطابق عذاب سے بدل دیتا ہے ۔ (الوسیط للطنطاوی)

اور اسی کے بالکل مشابہ اللہ تعالى کا یہ قول بھی ہے: : إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ .(رعد/11) یعنی بلا شبہ اللہ تعالى کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا ہے یہاں تک کہ وہ خود ہی اپنے کو بدل لیں ۔

فخر رازی کا کہنا ہے کہ قاضی نے  لکھا ہے :اس  آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل اور صلاحیت عطا فرمائی، رکاوٹوں کو دور کیا اور راستوں کو آسان کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ عبادت اور شکر گذاری میں  میں مشغول ہوجائیں اور کفر سے کنارہ کش ہوجائیں,اگر وہ ان حالات کو بے حیائی اور کفر میں بدل دیں تو انہوں نے اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو بدل دیا، لہذا بلا شبہ ، وہ نعمتوں کے بدلے لعنت اور عطیات کے مشقت و  مصیبت کے  مستحق ہیں۔

آپ نے فرمایا: یہ واضح اشارے میں سے ہے کہ وہ - اللہ تعالیٰ - کسی کو عذاب دینے  اور نقصان پہنچانے کا آغاز نہیں کرتا ہے۔

کشاف کے مصنف نےتحریر کیا ہے : "اگر آپ یہ کہیں: فرعون کے خاندان اور مشرکین مکہ کے درمیان کیا تبدیلی آئی یہاں تک کہ اللہ نے ان پر اپنی نعمت کو تبدیل کر دیا، ان کی حالت بھی  پسندیدہ و خوش کن نہیں تھی  جس کو   وہ  ناگوارو غضب  کی حالت   میں تبدیل کر دیں گے۔ "(الوسیط للطنطاوی)

طنطاوی کا کہنا ہے کہ  جس طرح پسندیدہ  و اچھی  حالت ناگوار و بری حالت میں بدل جاتی ہے اسی طرح ناگوار حالت مزید ناگوار حالت میں بدل جاتی ہے، وہ لوگ رسول اللہ کی بعثت سے پہلے کافر  اور بتوں کی پوجا کرنے والے تھے  لیکن جب آپ کو ان کے پاس واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا  گیا تو انہوں نے آپ کو جھوٹا قرار دیا , آپ سے دشمنی کی,  آپ کے خلاف گروہ بندی کرتے ہوئے آپ کا خون بہانا چاہا ۔ اس کا مطلب ہے  کہ انہوں نے اپنی حالت پہلے سے بد تر کرلی ۔ چنانچہ اللہ نے ان کو مہلت کی جس نعمت سے نوازا تھا  اس کو بدل دیا اور ان کو عذاب دینے میں جلدی کی ۔(الوسیط للطنطاوی)

اور اللہ کا قول : و ان اللہ سمیع علیم  یہ  بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ ... الخ  پر معطوف ہے, جس کا مطلب ہے کہ ان کو نعمتوں کے انکار کی وجہ سے عذاب دیا گیا,اور اس لیے کہ وہ ان کی برائیوں کو سننے والا ہے جو وہ بولتے ہیں ، اور ان کی برائیوں اور بد اعمال  کو جاننے والا ہے جن کو وہ  انجام دیتے ہیں ، اور اس پر جس عذاب کے وہ حقدار تھے وہ ان کو مل چکی ہے ۔ اللہ  نے ان پر ظلم نہیں کیا ، لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے ۔

اس آیت کا معنى و مفہوم اکثر  مفسرین نے یہی بیان کیا ہے کہ جب بھی  اللہ تعالى کسی قوم  کے اوپر کوئی انعام و اکرام کرتا ہے اور ان کو کسی نعمت سے نوازتا ہے تو وہ اس وقت تک ان سے نہیں چھینتا ہے جب تک کہ وہ اطاعت کو معصیت میں ,  اچھی حالت کو بری  حالت میں, خیر کو شر میں  نہ بدل لیں ۔ اور اللہ کا  یہ فیصلہ عین عدل و انصاف ہے ۔(ابن کثیر, بغوى,  جزائری وغیرہ)

احتساب : دور زوال کے مسلمانوں  کو اس آیت کی روشنی میں اپنا محاسبہ کرنا چائیے , ماضی اور حال کا مقارنہ کرنا چائیے تو خود ہی واضح ہوجائے گا کہ آج کے دور میں ہماری درگت کی وجہ کیا ہے اور ہم اتنے ذلیل و رسوا کیوں ہیں ؟

اس کی بابت تو تفصیل سے یہاں تحریر نہیں کیا جا سکتا ہے پھر بھی بہت ہی اختصار کے ساتھ اشارہ کر دیتا ہوں ۔

اسلامی تاریخ سے  ادنى واقفیت رکھنے والا  ہر شخص یہ جانتا ہے کہ مسلمان تقریبا ایک ہزار سال سے زائد تک  اس دنیا پر بہت ہی شان و شوکت, جاہ و جلال, طاقت و قوت   کے ساتھ حکومت کرتے رہے ,وہ حاکم تھے محکوم نہیں , غالب تھے مغلوب نہیں , با رعب تھے مرعوب نہیں ,  دنیا ان کے نام سے تھراتی تھی وہ نہیں ,  وہ قائد تھی غلام نہیں , دنیا کی قیادت و سیادت ان کے ہاتھ میں تھی , وہ کسی کے ماتحت و زیر نگیں نہیں تھے بلکہ دوسرے ان کے زیر نگیں تھے , اس کی بات سنی جاتی تھی ان سنی نہیں ,  قابل اطاعت تھی قابل رد نہیں ۔ وہ دنیا سے جزیہ لینے والے تھے دینے والے نہیں , ہر طرف ان کا بول بالا تھا , رعب و دبدبہ تھا  ذلت و رسوائی نہیں , فتح و نصرت تھی , جیت و غلبہ تھا  وغیرہ ۔

 اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس وقت کے اکثر  مسلمان اسلام پر عمل کرنے والے تھے ۔ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس کو نافذ کرتے تھے ۔ سیاسی اتحاد بہت حد تک قائم تھا ۔ اسلامی خلافت موجود تھی ۔ مسلمان  صرف شرعی علوم میں نہیں بلکہ دنیاوی  علوم و فنون کے تمام میدانوں  میں دوسری قوموں سے بہت آگے تھے۔ صنعت و حرفت میں ان کے اندر کمال تھا  غرضیکہ سیادت و قیادت کی تمام خوبیاں ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں۔

لیکن موجودہ دور کے مسلمان اپنے اسلاف  کے بالکل برعکس ہیں  بلکہ ان کا اسلاف سے مقارنہ کرنا صحیح نہیں ہے اور اگر کوئی مقارنہ کرتا ہے تو وہ اسلاف کی توہین ہے کیونکہ دور حاضر کے اکثر مسلمان اسلام پر عمل نہیں کرتے ہیں اور نہ اس کو اپنی زندگی میں نافذ کرتے ہیں , اسلامی احکامات پر عمل نہیں کرتے ہیں اور ہر قسم کی برائیوں میں غرق ہیں , محرمات کی بھر مار ہے, فساد اور کرپشن کی کثرت ہے ,  صرف نام کے مسلمان ہیں ۔ اور پھر مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد و اتفاق سرے سے مفقود ہے ۔ خلافت بھی  تقریبا سوسال سے ختم ہے ۔ اور یہ سب سے بڑی کامیابی ہے جو دشمنان اسلام کو تاریخ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ملی ہے ۔دنیاوی علوم خصوصا سائنس و ٹکنالوجی میں ہم بہت پیچھے ہیں ۔ عمدہ و اعلى  صنعت و حرفت  ہمارے اندر زیرو ہے , ہمارے اکثر  علماء و  نا اہل حکمراں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں ناکام ہیں  وغیرہ  

واضح ہے کہ ہمارے اندر بہت زیادہ منفی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ ہم اطاعت سے معصیت اور  شر سے خیر کی طرف منتقل ہوئے ہیں   ہمارے اندر ترقی کے بجائے تنزلی پیدا ہوئی ہے  اور  مثبت کے بجائے منفی تبدیلیاں  ظاہر ہوئی ہیں جس کے نتیجہ میں اللہ تعالى نے ہم مسلمانوں سے  اپنی بہت ہی  اہم نعمت دنیا کی سیادت و قیادت  کو چھین لیا ہے اور اسے  ہمارے دشمنوں کو عطا کردی ہے  کیونکہ ہم اس کے  کسی بھی طرح سے اہل نہیں ہیں ۔  اور ہمارے اوپر ذلت و رسوائی مقدر کردی ہے ۔

اب  اگر ہم اس  بری و ذلیل حالت سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر زندگی کے ہر میدان میں مثبت تبدیلی لانی ہوگی۔ اسلام کو اپنانا ہوگا  اس کے علاوہ اور کوئی دوسری راہ نہیں ہے ۔و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ مسلمان عوام, علماء و حکمرانوں کو اپنے اندر مثبت تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین , وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔      

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: