دنیا کی محبت : ہر مصیبت کی جڑاورمسلمانوں کی کمزوری کی اہم وجہ

                                            دنیا کی محبت : ہر مصیبت  کی جڑاورمسلمانوں کی  کمزوری کی اہم وجہ

حدیث: عن ثوبان، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:يُوشِكُ الأممُ أن تداعَى عليكم كما تداعَى الأكَلةُ إلى قصعتِها . فقال قائلٌ : ومن قلَّةٍ نحن يومئذٍ ؟ قال : بل أنتم يومئذٍ كثيرٌ ، ولكنَّكم غُثاءٌ كغُثاءِ السَّيلِ ، ولينزِعنَّ اللهُ من صدورِ عدوِّكم المهابةَ منكم ، وليقذِفَنَّ اللهُ في قلوبِكم الوهْنَ . فقال قائلٌ : يا رسولَ اللهِ ! وما الوهْنُ ؟ قال : حُبُّ الدُّنيا وكراهيةُ الموتِ (صحيح أبي داود,الصفحة أو الرقم,:4297, صححه الالباني و مسند احمد)

معانی کلمات:

یوشک: قریب ہے ۔

تداعى: العدو: متوجہ ہونا,  القوم: ایک دوسرے کو بلانا,  تداعت الحیطان: شکستہ و ویران ہونا, تداعى القوم علیہ : دشمنی میں متفق ہونا۔

اکلۃ: یہ آکل کی جمع ہے , معنى کھانا تناول کرنے والا, کھانے والا

قصعۃ:کھانے کا برتن, پیالہ, یہ عموما لکڑی کا بنا ہوتا ہے جمع: قصعات و قصاع و قصع

غثاء: جھاگ,  کوڑا کرکٹ جو سیلاب کی جھاگ سے ملا ہوا ہو۔

سیل: مصدر ہے , بہنے والا, ماء سیل بہنے والا پانی, سیلاب جمع سیول

ینزعن:نزع سے بنا ہے , مختلف معانی ہیں : کھینچنا, معزول کرنا, اکھیڑنا وغیرہ

یقذفن:یہ کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے:پھینکنا, مارنا, تہمت لگانا, بنا سوچے سمجھے کلام کرنا وغیرہ , یہاں مراد ہے ڈال دینا۔

مہابۃ: ھاب سے مصدر ہے,  ہیبت, رعب,  خوف, تعظیم, قدر, یہاں خوف مراد ہے۔

وہن: کمزوری, ضعف

ترجمہ: قریب ہے کہ کافر قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو جمع ہونے اور جارحیت و زیادتی کی دعوت  دیں جیسا کہ کھانے والے ایک دوسرے کوکھانے سے بھرے ہوئے بڑے  پیالے کی طرف بلاتے ہیں ,  اس پر ایک صحابی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول کیا یہ صورت حال ان دنوں میں ہماری کم تعداد کی وجہ سے ہوگی؟  آپ نے جواب دیا:  نہیں بلکہ تمہاری تعداد ان دنوں بہت زیادہ ہوگی  لیکن تم سیلاب کے  جھاگ اور اس میں  ملے ہوئے کوڑا کرکٹ کی مانند ہوگے , اور اللہ تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہارا خوف کھینچ لے گا اور اللہ تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا ۔یہ سن کر ایک صحابی نے پوچھا کہ اے رسول اللہ: وہن کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ۔(یہ روایت ابوداؤد و مسند احمد کی ہے , علامہ البانی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے, حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے اور کئی طرق سے روایت کی جاتی ہے ) ۔

شرح: اس حدیث میں اللہ کے نبی نے امت اسلام کے ساتھ مستقبل میں پیش آنے والے ایک بہت ہی اہم  غیبی چیز کی خبر دی ہے اور پیشینگوئی کی ہے کہ قریب ہی دنیا کی بہت ساری کافر قومیں  عقیدہ,  دین, مسلک , تہذیب , ثقافت اور کلچر وغیرہ  میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کو مسلمانوں پر حملہ کرنے اور ان کے خلاف اکٹھا ہونے کی دعوت دیں گی۔ لیکن اس میں زمانہ کی تحدید نہیں ہے ۔ اس لیے بعض  علماء کا کہنا ہے کہ یہ حدیث ہر اس زمانہ پر منطبق ہوتی ہے جب کافروں کا مسلمانوں پر تسلط , اقتدار اور قبضہ ہوجائے ۔ جیسا کہ چھٹویں و ساتویں صدی ہجری میں  صلیبی جنگوں کے زمانہ میں ہوا , اس کے بعد  ساتویں صدی ہجری میں تاتاریوں نے  کئی مسلمان ممالک  پر قبضہ کرلیا ۔ پھر یورپین طاقتوں نے 19 و بیسویں صدی عیسوی میں تقریبا تمام مسلمان ممالک کو اپنا غلام بنا لیا , اور عصر حاضر پر یہ حدیث سب سے زیادہ منطبق اور فٹ ہوتی ہے ۔ (اسلام ویب)

اور مسلمانوں کے خلاف کافروں کا یہ اجتماع ان پر حملہ کرنے, ان کے ممالک پر قبضہ کرنے اور ان کی مال و دولت کو چھیننے کے لیے ہوگا  کیونکہ اللہ تعالى نے مسلمان ممالک کو بہترین زرخیز زمینوں و ہر قسم کے مواسم سے نوازا ہے , ان ممالک میں مختلف قسم کی پیداوار ہیں , بہت زیادہ نہریں ہیں , آبی گذر گاہوں پر ان کا کنٹرول ہے , اور دور حاضر کی قیمتی ایندھن پٹرول ,گیس و دیگر معدنیات سے ان کو مالا مال کیا ہے ۔ اب اگر مسلمان ممالک  اپنے معاملات اور ان میں موجود نعمتوں و خیرات  کا انتظام و انصرام بحسن و خوبی کرتے ہیں  تو وہ خود کفیل ہو سکتے ہیں  ۔(الوکہ)

بعد ازاں آپ نےکافروں کی دعوت کی تشبیہ بیان کرتے ہوئے  فرمایا  کہ ان کی دعوت اور بلانا اسی طرح ہوگا جس طرح کھانے والےپیالے پر جمع ہوتے ہیں تو  آپس میں ایک دوسرے کو کھانے سے بھرے  ہوئے بڑے پیالے کی طرف بلاتے ہیں ۔کیونکہ کھانا بہت زیادہ اور  وافر مقدار میں ہوتا ہے اور بنا کسی روک ٹوک کے کوئی بھی کھانے والا کھانے میں شریک ہو سکتا ہے ۔اس سے نبی کریم کا یہ بتانا  مقصود ہے کہ یہ امت نہایت کمزور و بے بس ہوجائے گی ۔ اس کی عاجزی اتنی زیادہ ہوجائے گی کہ مار پر مار پڑنے کے باوجود بیدار نہیں ہوگی , اس کے اندر کوئی حرکت نہیں ہوگی ,  اور نہ لوٹ کھسوٹ پر کوئی مزاحمت کرے گی,مسلمان ان کا تر نوالہ ہوں گے , کوئی چیز ان کی لوٹ پاٹ میں تلخی نہیں پیدا کرے گی ۔

اسی طرح اس صفت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی نعمتوں , مال و دولت کو چھیننے کے لیے  ایسا طریقہ اپنائیں گے  جس سے ان کو کوئی نقصان نہ ہو اور کوئی شر ان کو لاحق ہو نہ اس کے علاوہ ان کو کوئی جانی نقصان ہو, مطلب ہے کہ وہ بنا کسی مشقت و پریشانی, نقصان و خسارہ اور  مزاحمت و مقابلہ کے مسلمانوں کے اسباب و اموال  پر قبضہ کرلیں گے۔(الوکہ و مکتبہ شاملہ )

یقینا مسلمانوں کے حالات کی یہ تصویر کشی بہت ہی خوفناک, وحشتناک اور ہولناک ہے کہ صحابہ کرام بھی سہم گئے ,اور مجلس میں موجود ایک صحابی نے آپ سے پوچھا : کیا ہماری یہ  بری حالت ہماری تعداد کے  کم ہونے   اور دشمنوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے ہوگی ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ نہیں  بلکہ تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی جیسا کہ موجودہ دور میں ہے  اور پہلے بھی رہا ہے , اس وقت مسلمانوں کی تعداد 2/ارب کے قریب ہے, مطلب ہے کہ   تمہاری عدد کم نہیں ہوگی ہوگی  لیکن تم سیلاب کے  جھاگ اور اس میں  ملے ہوئے کوڑا کرکٹ کی مانند ہوگے ۔

اس کا  واضح مطلب و صاف مفہوم  ہے کہ اس بری حالت کا تعلق تعداد کے کم و زیادہ ہونے سے نہیں ہے, تعداد زیادہ ہوگی تو اچھی حالت ہوگی اور کم ہوگی تو بری حالت ہوگی,  بلکہ اس سے اشارہ ایک معنوی چیز کی طرف ہے  اور وہ ہے بے عملی و بد عملی, کوتاہی و خرابی , مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کی  تعداد تو بہت زیادہ ہوگی لیکن  شرعی کوالٹی اور دینی  معیار سے گری ہوئی ہوگی, احکام و حدود پر عمل نہ کے برابر ہوگا, ان کے اندر بہت ساری خرابیاں  و برائیاں ہوں گی,  با برکت اثرات کا فقدان ہوگا, ہمت و لگن  کی کمی ہوگی , معمولی اور حقیر چیزوں سےلگاؤ ہوگا, لہذا ان کو اپنی عزت و فضیلت کی کوئی فکر نہیں ہوگی ۔ اسی وجہ سے وہ سیلاب کے جھاگ کی طرح  کمزور و بے بس ہوں گے ۔جس طرح سیلاب  جھاگ اور کوڑا کرکٹ کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے  اسی طرح ان کی حالت ہوگی۔

ساتھ ہی اللہ تعالى مسلمانوں کے دشمنوں کے دلوں سے ان کا خوف نعمتوں کی ناقدری اور برے اعمال کے نتیجہ میں  ختم کردے گا  جس سے  کافر مسلمانوں سے خوف نہیں کھائیں گے , جب کہ یہ خوف و ھیبت غلبہ و فتح کی بشارت اور اس کا مقدمہ ہوتی ہے  لیکن ان مسلمانوں کے لیے جو باعمل اور سچے ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس  اللہ تعالى امت اسلامیہ کو   بطور عذاب و سزا  وہن یعنی کمزوری, بزدلی  اور وسائل کی کمی  میں مبتلا کردے گا ۔وہن کا لفظی  معنی  کمزوری ہے جیسا کہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے: حملتہ امہ وہنا على وہن(لقمان/14) لیکن اس کے باوجود کسی صحابی نے آپ سے پوچھا کہ وہن کیا ہے ؟ شاید اس کے ذہن میں  یہ تصور پیدا ہوا کہ وہن کوئی متعین و مخصوص چیز ہے , تو آپ نے اس کی تفسیر لفظی معنى کے تقاضا سے زیادہ بتائی اور فرمایاکہ وہ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ہے ۔

 دنیا سے محبت  اور موت سے نفرت سے مراد  اس کا ظاہری معنی نہیں ہے کہ انسان دنیا سے محبت کرتا ہے اور موت سے نفرت کرتا ہے  کیونکہ ہر شخص دنیا سے محبت کرتا ہے اور موت سے نفرت کرتا ہے بلکہ اس  سے مراد وہ برا پہلو ہے جو انسان کو اس دنیا اور اس کی مال و دولت سے محبت کرنے کا سبب بنتا ہے, اور عمل کو چھوڑ کے عیش و عشرت کے ساتھ اس دنیا میں جینے کی محبت پیدا کرتا ہے  کیونکہ ہر کوئی موت سے نفرت کرتا ہے جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ نے فرمایا  جب انہوں نے   نبی کریم کو  یہ بیان کرتے ہوئے سنا  : من أحب لقاء اللہ أحب اللہ لقاءہ  و من کرہ لقاء اللہ کرہ اللہ لقاءہ , قالت : أ کراہیۃ الموت, فکلنا یکرہ الموت یعنی جس کو اللہ سے ملاقات کرنا پسند ہوتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے , اور جس کو اللہ سے ملاقات کرنا ناپسند ہوتا ہے تو اللہ تعالى اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے , اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ کیا اس سے مراد موت کی نفرت ہے تو ہم سب موت سے نفرت کرتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ اس سے موت سے انسان کی فطری نفرت کا ظاہری مفہوم نہیں مراد ہے، بلکہ معنی یہ ہے کہ ایک مومن آخرت کی اپنی تیاری کی وجہ سے  موت کو خوش آمدید کہتا ہے , وہ اللہ سے ملاقات کا متمنی ہوتا ہے , اس کے برعکس ایک فاجر و فاسق شخص موت کو ناپسند کرتا ہے اور آخرت کی طرف منتقلی نہیں چاہتا ہے ۔ یہ معنى ہے دنیا کی محبت اور موت سے نفرت کا , اور بلا شبہ یہ دونوں ایک دوسرے کی طرف لے جانے والے ہیں ۔(الوکہ)

نبی کریم کا یہ فصیح و بلیغ بیان کمزوری کے اسباب کی تشخیص کرتا ہے , اور یہ واضح کرتا ہے کہ اگر انہوں نے دنیا ہی کو اپنا نصب العین بنا لیا اور اللہ کے متعین کردہ ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا , تو ان کا نقصان ہی نقصان ہوگا اور ان کا مقصد پورا نہیں ہوگا بلکہ اس کے برعکس ہوگا اور ان کا دشمن ان کے اوپر مسلط ہوگا ۔ جیسا کہ دور حاضر میں ہم مسلمان خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور ماضی میں بھی ایسا کئی بار ہوچکا ہے ۔

یہ پیشین گوئی ایک برگزیدہ پیغمبر کی امتِ اسلامیہ کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اس بات پر توجہ دیں جو ان کے لیے عزت، وقار اور اچھے نتائج کا باعث بنتی ہے، اور وہ  ان کا اپنے رب کے دین پر قائم رہنا ہے, عمل کرنا اور بد عملی سے دور رہنا ہے ۔ اب اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اللہ تعالى ان کو دنیا کے ساتھ آخرت میں بہتر ثواب دے گا ۔

یقینا یہ روایت ایک  انتہائی اہمیت کے حامل معاملے کا فیصلہ کرتا ہے اگر مسلمان اپنی عزت و وقار کی زندگی چاہتے ہیں اور اپنے رب سے ملاقات کے وقت اچھا انجام چاہتے ہیں , اور یہ حدیث  پوری امت کو مخاطب کرتی ہے , اس میں حکمرانوں, قائدین, قوموں اور افراد سب کے لیے خطاب ہے , ہر ایک کو خطاب کیا گیا   ہے جس کا اسے مکلف بنایا گیا ہے ۔ عوام , علماء , حکمراں ہر ایک کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے ,آج ملت اسلامیہ کے حالات، جیسا کہ دیکھا جا رہا ہے، اپنی سلامتی کو برقرار رکھنے، أپنے حالات کو مستحکم کرنے، اور اپنے دشمنوں کے غلبہ سے ہوشیار رہنے کے لیے قرآنی نصوص اور احادیث نبوی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اللہ سے استقامت کے لیے دعا گو ہیں۔

عصر حاضر کے مسلمانوں کا جائزہ: بلا شبہ  موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی  کمزوری کی  ایک اہم وجہ وہی ہے جس کی اس حدیث میں وضاحت کی گئی ہے , وہ دنیا کی محبت میں مبتلا ہونا اور موت سے نفرت کرنا ہے ۔ اور یقینا جو دنیا کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ مرنا نہیں چاہتا ہے, موت سے اس کو نفرت ہوتی ہے کیونکہ دنیا کی محبت اس پر غالب آجاتی ہے , وہ صرف اپنی دنیا پر توجہ دیتا ہے , آخرت کو بالکل بھول کر اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور اس کے لیے تیاری نہیں کرتا ہے ۔ آج کل کے اکثر مسلمان دنیا داری میں سر سے پیر تک غرق ہیں , وہ دنیا  میں اس قدر مشغول ہیں کہ ان کے پاس نماز تک پڑھنے کے لیے وقت نہیں ہے, اسلام کے احکام پر عمل کرنے لیے ٹائم نہیں ہے ۔ دین کو جاننے, سمجھنے یا قرآن کوپڑھنے  و سمجھنے کےلیے ان کے پاس فرصت نہیں ہے ۔ دین سے ان کو کوئی محبت و لگاؤ نہیں ہے ۔ ان کی ساری دوڑ دھوپ اور تگ و دو صرف دنیا تک محدود ہو کے رہ گئی ہے ۔ احکامات پر عمل نہیں ہے اور ساتھ ہی برائیوں کی بھر مار ہے ۔ آج کی دنیا میں کون سی ایسی برائی ہے جو مسلمانوں میں موجود نہیں ہے ۔ سب سے بڑی برائی شرک سے لے کر چھوٹی سی چھوٹی برائی  خطبہ جمعہ کے دوران گفتگو کرنا, پیشاب کرتے وقت قبلہ کا استقبال کرنا  وغیرہ تک کا دور دورہ ہے ۔اسی وجہ سے آج کے مسلمان غثاء کغثاء السیل یعنی سیلاب کی جھاگ کی مانند جھاگ و کوڑا کرکٹ ہیں ۔

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کے تمام طبقات : علماء, حکمرانوں و عوام کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اس پر کامل طور سے عمل کی توفیق دے تاکہ اس کی یہ بد حالت بدل سکے۔ آمین , وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: