پہلگام
میں سیاحوں پر حملہ غیر اسلامی عمل ہے اور ہرحال میں قابل مذمت ہے ۔
خبر
ہے کہ بروز منگل 22/اپریل 2025ع کو پہلگام
میں دو تین دھشت گردوں نے بے گناہ سیاحوں
کو نشانہ بنایا ۔ اور تقریبا 2/غیر ملکیوں
سمیت 28/افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ اور یہ کئی دہائیوں بعد شہریوں اور
سیاحوں پر بہت بڑا خطرناک و افسوسناک حملہ
ہے ۔اور تمام بین الاقوامی برادری نے اس کی مذمت کی ہے ۔
یہ
حملہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ اس کے پس پردہ عوامل و حقائق کیا ہیں ؟ کیا یہ کسی سازش
کا حصہ ہے؟ کیا اس کا مقصد دوقوموں کے درمیان نفرت و کراہیت کو بڑھانا ہے اور ووٹ
کی سیاست ہے یا کچھ اور ہے؟ یہ سب تحقیق
کا موضوع ہے ۔ فی الحال ان سب سے بحث نہیں
ہے یہاں صرف اس قسم کے حملوں کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینا مقصود ہے اور اس کا شرعی حکم بیان کرنا ہے ۔
واضح کیا جاتا ہے کہ بلا شبہ یہ ایک دھشتگردانہ
عمل ہے اور ہرحال میں قابل مذمت ہے خواہ
اس کی وجوہات کچھ بھی ہو۔ اسلام اس قسم کے عمل کا قطعی طور مخالف ہے جس میں بے گناہوں کو نشانہ بنایا جاتا
ہے اور غیروں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہے ۔شریعت میں اس کی ذرہ برابر کہیں سے کوئی گنجائش نہیں
ہے ۔ لہذا اسلام اس مجرمانہ فعل سے بری ہے یہ چند گمراہ و بھٹکے ہوئے نوجوانوں کا
عمل ہے جو سراسر اسلامی تعلیم کے مخالف ہے ۔
کیونکہ
اسلام تو ہمیں ہرحال میں عدل و انصاف کا حکم دیتا اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے
۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے: {يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ
كُونُواْ قَوَّٰمِينَ لِلَّهِ شُهَدَآءَ بِٱلۡقِسۡطِۖ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنََٔانُ
قَوۡمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعۡدِلُواْۚ ٱعۡدِلُواْ هُوَ أَقۡرَبُ لِلتَّقۡوَىٰۖ وَٱتَّقُواْ
ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ ٨} (مائدہ/8)
اے ایمان لانے والو !اللہ کی خوشنودی کے لیے حق پر جم جانے والے اور انصاف کی گواہی دینے
والے بنو, کسی قوم کی دشمنی تمہیں خلاف
عدل پر نہ ابھارے , عدل کرو کیونکہ وہ تقوى کے زیادہ قریب ہے , اور اللہ تعالى سے
ڈرو بلا شبہ وہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔
اس آیت میں اللہ تعالى نے سب کے ساتھ عدل کا حکم دیا ہے خواہ وہ دوست ہویا
دشمن, اپنا ہو یا پرایا, مسلم ہو یا غیر مسلم, قریبی ہو یا بیگانہ , چھوٹا ہو یا بڑا , جاہل ہو یا عالم , بادشاہ ہو
یا رعیت , خواہ کوئی بھی ہو سب کے ساتھ انصاف کرنے کا لازمی حکم ہے بلکہ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ کسی قوم کی عداوت و دشمنی
میں اندھا ہوکر اس کے ساتھ ناانصافی مت کرنا بلکہ اس کے ساتھ بھی انصاف کرنا ۔
اور ایک دوسری آیت میں ہے: { وَلَا
يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنََٔانُ قَوۡمٍ أَن صَدُّوكُمۡ عَنِ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ
أَن تَعۡتَدُواْۘ ٢}
(مائدہ/2) اور ایک
قوم جس نے تمہیں مسجد حرام جانے سے روک
دیا ہے اس کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو اور حد سے گذر جاؤ۔
اس آیت میں اللہ تعالى نے مسلمانوں کو
حکم دیا ہے کہ اگر چہ کفار مکہ نے تم کو مسجد حرام جانے سے روک دیا , تمہارے اوپر
ظلم و زیادتی کی ہے لیکن اس کے باوجود اس
قوم کی دشمنی میں اندھے ہوکر اور اس کے بغض و عداوت میں مبتلا
ہوکر تشفی و انتقام کے لیے تم قطعا زیادتی
نہیں کرنا بلکہ ہمیشہ اللہ کے حکم کی پابندی کرنا, عدل و انصاف سے کام لینا اگر چہ خود تمہارے
اوپر ظلم ہوا ہے, زیادتی ہوئی ہے یا کسی
جرم کا ارتکاب ہوا ہے , لہذا کسی کے لیے
بھی حلال نہیں ہے کہ اگر کسی نے اس کے ساتھ جھوٹ بولا ہے تو وہ اس کے ساتھ جھوٹ بولے یا کسی نے اس کے ساتھ
خیانت کی ہے تو وہ اس کے ساتھ خیانت کرے (تفسیر سعدی)
روایات میں مذکور ہے کہ جب کفار مکہ
نے نبی کریم اور آپ کے اصحاب کو مسجد حرام جانے سے روک دیا جس سے ان کو سخت تکلیف و پریشانی ہوئی اور ابھی آپ حضرات حدیبیہ میں ہی تھے کہ اسی وقت مشرق کے مشرکین کی ایک جماعت کا گذر ہوا
جو عمرہ کرنے جا رہے تھے ۔ اس پر صحابہ کرام نے کہا کہ ہم ان لوگوں کو عمرہ کرنے
سے روک دیتے ہیں جیسا کہ ان کے اصحاب نے ہمارے ساتھ کیا ہے ۔ تو یہ آیت نازل ہوئی
اور مسلمانوں کو کسی قوم کی عداوت و بغض
کی وجہ سے ظلم و زیادتی سے منع کردیا گیا
اور ہر ایک کے ساتھ انصاف کا حکم دیا گیا ۔ (الوسیط للطنطاوی)
مولانا ابو الاعلى مودودی نے لکھا ہے
:چونکہ کفار نے اس وقت مسلمانوں کو کعبہ کی زیارت سے روک دیا تھا اور عمرہ تک سے
مسلمان محروم کردئیے گئے تھے , اس لیے مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جن کافر
قبیلوں کے راستے اسلامی مقبوضات کے قریب سے گذرتے ہیں ان کو ہم بھی مسجد حرام سے
روک دیں اور زمانہ حج میں ان کے قالفلوں
پر چھاپے مارنے شروع کردیں ۔ مگر اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرما کر انہیں اس خیال
سے باز رکھا ۔(ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی , سید ابو الاعلى مودودی)
معلوم ہوا کہ اسلام میں ہر کسی کے ساتھ یہاں تک کہ ظالم کے ساتھ بھی اور ہرحال میں عدل
و انصاف مطلوب ہے اور ظلم و جارحیت ممنوع
ہے کیونکہ ظلم کا بدلہ ظلم نہیں ہوسکتا ہے
اور نہ ظلم کو ظلم سے دور کیا جا سکتا ہے ۔
اسی طرح اسلام کا ایک دوسرا لازوال اٹل قاعدہ ہے کہ کسی
غیرکو اس کے ناکردہ گناہ کی سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ عدل و انصاف نہیں ہے بلکہ ظلم و ستم , جارحیت اور زیادتی
ہے۔ فرمان باری تعالى ہے: {أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٞ
وِزۡرَ أُخۡرَىٰ ٣٨}
(نجم/38) یعنی یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔
مطلب ہے کہ ہر شخص خود اپنے فعل کا ذمہ دار ہے, ایک شخص
کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جا سکتی ۔ کوئی شخص اگر چاہے بھی تو کسی دوسرے شخص
کے فعل کی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں لے سکتا
نہ اصل مجرم کو اس بنا پر چھوڑا جا سکتا ہے کہ اس کی جگہ سزا بھگتنے کے لیے
کوئی اور آدمی اپنے آپ کو پیش کر رہا ہے ۔(ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی , سید ابو الاعلى مودودی)
کسی کے گناہ کی وجہ سے کسی غیر کی گرفت ہو اور اس کو
سزا دی جائے اور دوسرا سزا سے بچ جائے یہ غلط ہے اور انصاف کے تقاضوں کے مخالف ہےبلکہ
عین ظلم و ستم ہے ۔یہی شریعت کا فیصلہ اور
اس کا قانون و اصول ہے ۔
یہی اصول و ضابطہ قیامت کے دن بھی ہوگا ۔ فرمان الہی ہے: {وَلَا تَزِرُ
وَازِرَةٞ وِزۡرَ أُخۡرَىٰۚ وَإِن تَدۡعُ مُثۡقَلَةٌ إِلَىٰ حِمۡلِهَا لَا
يُحۡمَلۡ مِنۡهُ شَيۡءٞ وَلَوۡ كَانَ ذَا قُرۡبَىٰٓۗ ١٨} (فاطر/18) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ
نہیں اٹھائے گا, اور اگر کوئی گراں بار
دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے بلائے گا تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھائے گا
گو قرابت دار ہی ہو ۔
اس کے علاوہ کیا سیرت یا تاریخ خلفاء راشدین میں کوئی ایسا واقعہ یا مثال موجود ہے جس سے ثابت ہو کہ
ہمارے نبی نے یا ہمارے خلفاء راشدین نے کبھی بھی ظلم کا بدلہ ظلم یا برائی کا بدلہ
برائی سے دیا ہے یا کسی کے گناہوں کی سزا
کسی دوسرے کو دی ہو ۔ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سن 4ھ میں بئر رجیع و معونہ کے المناک حوادث
میں 77/صحابہ کرام بد عہدی, غداری اور خیانت کی وجہ سے دھوکے سے شہید کردئیے گئے لیکن کیا اس کا انتقام آپ نے مدینہ میں موجود
غیر مسلموں سے لیا؟ ہرگز نہیں ۔
کیا نبی کی سیرت اور خلفاء راشدین کی تاریخ میں کوئی
ایسا واقعہ یا مثال درج ہے جس میں میدان
جنگ میں موجود فوجیوں اور جنگجؤوں کو چھوڑ
کر شہریوں اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہو ۔ مجھے تو اس قسم کا کوئی واقعہ یا مثال
نہیں ملا ہے اور ہے بھی نہیں کیونکہ یہ
اسلامی اصول کے خلاف ہے ۔ اگر کسی کو علم ہو تو ضرور خبر کرے ۔
معلوم ہوا کہ یہ
اسلام کا اٹل قانون و دستور ہے کہ کسی کے گناہوں کی سزا کسی غیر کو قطعا نہیں دی
جاسکتی ہے اور کسی بے گناہ کو ہرگز نشانہ نہیں بنایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ سراسر عدل و انصاف کے مخالف ہے بلکہ
یہی عین ظلم و ستم ہے ۔
لہذا پہلگام میں سیاحوں کو نشانہ بنانا غیر اسلامی ,
غیر شرعی و غیر انسانی عمل ہے اور یہ مکمل طور سے دہشت گردی ہے اور ہر حال میں
قابل مذمت ہے ۔یہ ایک بزدلانہ عمل ہے ۔ اس سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں بلکہ اور
پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کی شدید بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔اس
لیے مسلمانوں کو ہر حال میں اسلامی تعلیم پر عمل کرنا چائیے اور ان کو یہ نہیں
بھولنا چائیے کہ ظلم کا بدلہ ظلم نہیں ہے اور نہ اس طرح ظلم کو ختم کیا جا سکتا ہے
۔ برائی کا بدلہ برائی نہیں ہے اور نہ اس
طرح برائی کو مٹایا جا سکتا ہے ۔بلکہ ظلم کا بدلہ انصاف اور برائی کا بدلہ بھلائی
ہے ۔
ساتھ ہی میں دنیا کی تمام مسلمان و غیر مسلم حکومتوں و
حکمرانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ
اپنی تمام پبلک کے ساتھ دین و مذہب , رنگ و نسل وغیرہ کی تفریق کے بغیر ان کے ساتھ انصاف کریں اور ہر قسم کے ظلم و ستم سے باز رہیں کیونکہ دنیا میں امن و امان
قائم کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ
بنا کسی تفریق کے سب کے ساتھ عدل و انصاف کرنا ہے اور ظلم و ستم سے دور
رہنا ہے ۔
امید ہے کہ
مسلمان اسلامی تعلیم کو اپناکر اسلام کی
مزید بد نامی کا باعث نہیں بنیں گے, وہ دھشت گرد تنظیموں سے دور رہیں گے اور ان کی کٹھ پتلی نہیں بنیں گے ۔ وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد
للہ رب العالمین
0 التعليقات: