شب قدر کی اہمیت و فضیلت

 

             شب قدر کی اہمیت و  فضیلت

                                          ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق مکی

www.islahotaraqqi.com   

     آیات: {إِنَّآ أَنزَلۡنَٰهُ فِي لَيۡلَةِ ٱلۡقَدۡرِ ١} {وَمَآ أَدۡرَىٰكَ مَا لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ ٢} {لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ خَيۡرٞ مِّنۡ أَلۡفِ شَهۡرٖ ٣}  {تَنَزَّلُ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ فِيهَا بِإِذۡنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمۡرٖ ٤}{ سَلَٰمٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطۡلَعِ ٱلۡفَجۡرِ ٥}

ترجمہ:  بلا شبہ ہم نے اسے (قرآن) قدر کی رات میں نازل کیا ہے, اور آپ کو کیا معلوم کہ قدر کی رات کیا ہے, قدر کی رات ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے, اس رات میں فرشتے اور روح (جبرئیل ) اپنے رب کی اجازت سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں,  وہ رات سراسر طلوع فجر تک سلامتی والی ہے ۔

وجہ تسمیہ:اس سورت کا نام قدر ہے ۔,اس  کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے۔ قدر کا  ایک  معنی قدر و منزلت ہے، اس لیے اسے شب قدر کہتے ہیں ، اس کا ایک اور  معنی اندازہ اور فیصلہ کرنا ہے ، چونکہ اس میں سال بھر کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں، اس لیے اسے لیلۃ  القدر کہتے ہیں اور اس کا ایک نام لیلۃ  الْحُكْمِ بھی ہے ، اس کے معنی تنگی کے بھی ہیں۔ اس رات اتنی کثرت سے زمین پر فرشتے اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ شب قدر یعنی تنگی کی رات یا اس لیے یہ نام رکھا گیا کہ اس رات جو عبادت کی جاتی ہے، اللہ کے ہاں اس کی بڑی قدر ہے اور اس پر بڑا ثواب ہے۔(احسن البیان)

تفسیر: اس سورت  میں شب قدر کی فضیلت و اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت کے تین مظاہر و خصائص  کو  بیان کیا گیا ہے  ۔ اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے لیکن اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مدنی ہے ۔

 

انزلناہ : اس میں منصوب ضمیر "ہ" سے مراد قرآن کریم ہے , قرآن کا ذکر اس سے پہلے نہیں ہوا ہے اس کے باوجود ضمیر سے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے  تو اس سے  اس کی شان کی تعریف کرنا ہے , اس کی عظمت کا بیان کرنا ہے  اور اس  کی شہرت کو بتانا ہے ۔ اس لیے اس کا ذکر کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود ہے ۔

یعنی اتارنے کا آغاز کیا کیونکہ یہ معروف و مشہور  ہے  کہ قرآن کریم کا نزول نبی کریم پر تقریبا 23/سال کی مدت میں  تھوڑا تھوڑا ہوا ہے ، یا اس سے مراد ہے کہ  لوح محفوظ سے اس بیت العزت میں جو آسمانی  دنیا پر ہے ایک ہی مرتبہ میں  اتار دیا  اور پھر وہاں سے حسب وقائع نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا رہا,  اور یہ لیلۃ القدر رمضان ہی میں ہوتی ہے  جیسا کہ قرآن کی آیت  شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن سے واضح ہے ۔(الوسیط للطنطاوی) ابن کثیر کا کہنا ہے کہ دوسرا قول حضرت ابن عباس کا ہے ۔(تفسیر ابن کثیر)

اور قدر  جس کی نسبت رات کی طرف کی گئی ہے اس کا معنى شرف, عزت  اور عظمت ہے ۔یہ ان کے قول : لفلان قدر عند فلاں سے لیا گیا ہے  یعنی اس کا بڑا مرتبہ و بڑا اعزاز ہے ۔اسی لیے اس رات کا یہ نام رکھا گیا ہے کیونکہ یہ انتہائی قدر و عظمت والی رات ہے  کیونکہ اسی رات میں  عظیم مقام و مرتبہ والے فرشتہ کے ذریعہ عظیم مقام و مرتبہ والے رسول پر عظیم قرآن کا نزول ہوا ۔تاکہ عظیم مقام و مرتبہ کی  حامل امت کی تکریم کی جائے ۔ اور بلا شبہ اللہ کے نزدیک  اس امت کی قدر و منزلت اور ثواب میں اضافہ ہوتا ہے بشرطیکہ وہ اس رات میں عبادات اور طاعتوں میں صرف کرے ۔ 

اور یہاں پر قدر سے تقدیر بھی مراد ہو سکتا ہے کیونکہ اس رات اللہ تعالى اپنے بندوں کی تقدیر کو مقدر کرتا ہے  لیکن پہلا قول زیادہ  ظاہر و واضح ہے کیونکہ اس کے بعد اللہ کا قول: و ما ادراک ما لیلۃ القدر تعظیم اور  جلالت  شان کو بتاتا ہے ۔

یعنی ہم نے اپنی قدرت اور حکمت سے اس قرآن عظیم کے  اتارنے کی ابتدا اپنے رسول پر قدر کی رات میں کی ہے جس کی ہمارے نزدیک بہت ہی بڑا و بلند مقام و مرتبہ ہے  کیونکہ اس رات میں طاعتوں کا بہت بڑا مقام و بکثرت ثواب ہے ۔(الوسیط للطنطاوی)

اور شب قدر  ہی وہ رات ہےر جس کے بارے میں اللہ تعالى نے فرمایا ہے: إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةٍ مُبارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ. فِيها يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ. أَمْراً مِنْ عِنْدِنا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ. رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ. (دخان/3-6)یقینا ہم نے اس کو بابرکت رات میں نازل کیا ہے, بلا شبہ ہم ڈرانے والے تھے , اس (رات ) میں ہر حکیمانہ یا مضبوط معاملہ ہمارے حکم سے لکھا جاتا ہے اور اس کی وضاحت کی جاتی ہے, یقینا ہم ہی رسول بھیجنے  والے ہیں آپ کے رب کی مہربانی سے , بلا شبہ وہ سننے والا جاننے والا ہے ۔

اور یہ رات یقینا  رمضان ہی کی ایک رات ہے, شعبان یا کسی اور مہینہ کی رات نہیں ہے  کیونکہ فرمان باری تعالى ہے: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ.(بقرہ/185) یعنی رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کو نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس  میں ہدایت کی اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی واضح نشانیاں ہیں ۔

 بعض علماء کے قول کے مطابق ترتیب میں سورہ قدر کو سورہ علق کے بعد رکھنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ انزلناہ میں ضمیر سے مراد قرآن ہے جس کے نزول کی ابتدا سورہ علق سے ہوئی ۔ (الوسیط للطنطاوی)

صاحب کشاف کا کہنا ہے کہ اللہ تعالى نے قرآن  کی تین طریقوں سے تعظیم کی ہے : ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے اس کی نزول کو اپنی طرف منسوب کیا، اور اسے کسی اور کے ساتھ مخصوص نہیں کیا۔ دوسرا: اس کے ظاہری نام کے بجائے اس کو ضمیر کے ساتھ ذکر کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بہت ہی مشہور اور با شرف ہے اور اس کے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ تیسرا: اس وقت کی قدر و منزلت کو بلند کرنا ہے جس میں قرآن کو نازل کیا گیا۔  (الوسیط للطنطاوی)

اور اللہ تعالى کا قول: و ما ادراک ما لیلۃ القدر اس رات کی عظمت و فضیلت کا ایک اور ذکر  ہے,  یعنی اس کی عظمت و اہمیت  کو الفاظ و کلمات کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا ہے,  مخلوق اس کی تہ تک پوری طرح نہیں پہنچ سکتی ہے ۔ صرف ایک اللہ ہی ہے جو اس کو جانتا ہے ۔

پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی فضیلت کے مظاہر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس لیے کہ اس میں قرآن نازل کیا گیا، جو سب سے زیادہ درست و سیدھی راہ  کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اور لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا  ہے, اور اس وجہ سے  کیونکہ اس میں عبادت کا زیادہ ثواب ملتا  ہے اور ان مہینوں کی عبادت سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے جن میں شب قدر نہیں ہوتی۔

 اور وقتا فوقتا  وقت، جگہ، نیت کے خلوص اور اچھی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے تھوڑا سا کام زیادہ  کام سے افضل  ہو سکتا ہے اور یہ اللہ تعالى کے ساتھ مخصوص ہے کہ وہ  بعض اوقات، جگہوں اور لوگوں کو خاص فضیلت عطا فرمائے۔

ہزار مہینہ اس سے مراد   متعین طور پر یہ مذکورہ عدد  بھی ہوسکتا ہے  یا اس سے کثرت  بھی مراد ہوسکتا  ہے ۔اور اس کا  معنى ہے  کہ کم از کم عدد جس پر اس رات کو فضیلت حاصل ہے وہ یہ عدد ہے ۔ایسی صورت میں اس کا مطلب ہے کہ یہ رات تمام زمانہ پر فضیلت والی ہے ۔(الوسیط للطنطاوی)

یعنی اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اور ہزار مہینے ۸۳ سال ۴ مہینے بنتے ہیں۔ یہ امت محمدیہ پر اللہ کا کتنا احسان عظیم ہے کہ مختصر عمر میں زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے کیسی سہولت عطا فرمادی۔

پھر اس نے اس بابرکت رات کا ایک اور فائدہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس میں فرشتے اور روح ہر کام کے لیے اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں۔یعنی اس رات کی فضیلتوں و خصوصیتوں میں  سے یہ بھی ہے  کہ فرشتے جن میں سرفہرست اور مقدمہ میں روح امین ہوتے ہیں زمین پر فوج در فوج اترتے ہیں  اللہ تعالى کے حکم و اس کی اجازت سے ۔اور وہ سب کے سب کسی معاملہ کی وجہ سے اترتے ہیں جن کو اللہ تعالى اپنے بندوں تک پہنچانا چاہتا ہے ۔(الوسیط للطنطاوی)

تنزل کی اصل تتنزل ہے ۔لیکن ایک تا کو تخفیف کے لیے حذف کردیا گیا تو وہ تنزل ہوگیا۔  اور فرشتوں کا زمین پر اترنا  ان برکات کو پھیلانے کے لیے ہوتا ہے جو ان کو گھیرے ہوتی ہیں ۔ لہذا ان کا اس رات نازل ہونا اس کی عزت, عظمت اور ساتھ ہی اللہ تعالى کی اپنے بندوں پر رحمت کی دلیل ہے ۔

روح سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں اور فرشتوں کے ذکر کے بعد ان کا خصوصیت سے ذکرکرناعام  کے بعد خاص کے ذکر کرنے کے قبیل سے ہے(ابن کثیر و الوسیط)  ان کی مزید  فضیلت کی وجہ سے  اور ان کے ان خصائص کی وجہ سے جو صرف ان کے ساتھ مخصوص ہیں اور کوئی دوسرا ان کا ان میں شریک نہیں ہے ۔ یعنی فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام سمیت اس رات میں زمین پر اترتے ہیں ان کاموں کو سرانجام دینے کے لیے جن کا فیصلہ اس سال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اور اللہ کا قول: باذن ربھم: یہ اس کے قول تنزل سے متعلق ہے ۔ اور با سبب کے لیے ہے یعنی وہ اترتے ہیں کیونکہ ان کے رب نے انہیں اترنے کی اجازت دی ہے۔

جمل کے قول کا خلاصہ ہے کہ اللہ کے قول: من کل امر میں  من کی دو صورتیں جائز ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ لام کے معنى میں ہے اور اس کا تعلق تنزل سے ہے یعنی: یہ ہر اس حکم کے لیے نازل ہوتے ہیں جس کا آئندہ سال تک کے لیے فیصلہ کردیا گیا ہے ۔ دوسرا یہ کہ وہ با کے معنى میں ہے یعنی وہ ہر اس حکم  موت, زندگی اور روزی کے ساتھ نازل ہوتے ہیں جس کا فیصلہ اللہ نے اس رات میں کیا ہے۔ (الوسیط للطنطاوی) اس کا معنى یہ نہیں ہے کہ اللہ کی تقدیر صرف اسی رات میں واقع ہوتی ہے بلکہ اس کا معنى ہے کہ اس تقدیر کو فرشتوں کے لیے ظاہر کیا جاتا ہے ۔

اور اللہ تعالى کا قول: سلام ہی حتى مطلع الفجر میں اس رات کی تیسری خصوصیت کا بیان ہے ۔ اور سلام مصدر ہے اس کا معنى سلامتی ہے  اور یہ خبر مقدم ہے اور" ہی"  مبتدا مؤخر ہے ۔ اور خبر کو  مقد م کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے  خوشی کے بارے میں  جلدی  سے خبردے  دی جائے , اور اس رات کے بارے میں بطور مبالغہ مصدر سے اطلاع دی گئی ہے  یا مصدر کی تاویل بطور اسم فاعل کی جائے گی   یا مضاف مقدر مانا جائے گا ۔ اور مطلع الفجر کا معنى اس کا طلوع ہونا و ظاہر ہونا ہے ۔ 

یعنی یہ رات ہر اس مومن کے لیے  لگاتار و برابر سلامتی اور دائمی امان والی ہوتی ہے جو اسے طلوع فجر تک اللہ تعالى کی اطاعت میں گذارتا ہے  یا یہ طلوع فجر تک سلامتی والی ہے  یا یہ ہر مؤمن مرد اور عورت کے لیے طلوع فجر تک  ہر قسم کے شر وبلا  سے محفوظ ہے ۔ (الوسیط للطنطاوی) یا   اس  رات  میں شر نہیں ۔ یا اس معنی میں سلامتی والی ہے کہ مومن اس رات کو شیطان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ یا فرشتے اہل ایمان کو سلام عرض کرتے ہیں یا فرشتے ہی آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں۔ (احسن البیان)

 اور اہل علم نے شب قدر کی فضیلت, اس کے وقت اور اس کی خصوصیات  کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہےجس کا خلاصہ امام قرطبی نے اچھے انداز میں دلائل کے ساتھ کیا ہے, آپ نے لکھا ہے کہ یہاں کل   تین مسائل ہیں:

پہلا: شب قدر کی تعیین میں , اور اکثر کا کہنا ہے کہ یہ 27/ویں رات ہے  اور جمہور کا کہنا ہے کہ یہ ہر سال رمضان میں ہوتی ہے ۔ اور اللہ نے اس کو مخفی رکھا ہے تو اس میں یہ حکمت ہے تاکہ لوگ اس کو پانے کے لیے عمل اور عبادت میں محنت کریں ۔(قرطبی)

 در حقیقت اس کی تعیین میں بھی شدید اختلاف ہے۔  تاہم احادیث و آثار سے واضح ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ اس کو مبہم رکھنے میں یہی حکمت ہے کہ لوگ پانچوں ہی طاق راتوں میں اس کی فضیلت حاصل کرنے کے شوق میں اللہ کی خوب عبادت کریں۔(احسن البیان) مزید تفصیل کے لیے تفسیر ابن کثیر کا مطالعہ کیجیے ۔

  دوسرا: اس کی علامات: ان میں سے ایک یہ ہے کہ سورج صبح کو سفید اور بغیر شعاعوں کے طلوع ہوتا ہے۔

تیسرا: اس کی فضیلت میں... جس  کے لیے اللہ تعالى کا  یہ کہنا کافی ہے - "قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے" اور اس کا یہ فرمان: "اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں" اور حدیث میں ہے : "جس نے  شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید کے ساتھ قیام کیا  تو  اللہ اس کے پچھلے گناہوں کو بخش دے گا۔"(تفسیر قرطبی و الوسیط )

شب قدر کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین حضرت عائشہ کے سوال پر  بطور خاص یہ دعا بتلائی ہے: اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي (ترمذی/3513, ابن ماجہ/3850 و احمد/25384)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس بابرکت رات سے مستفید ہونے والوں میں شامل فرمائے۔آمین

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: