ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مھجورا
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
اللہ
تعالى نے ہم مسلمانوں پر بہت زیادہ بڑے بڑے احسانات و انعامات کیے ہیں جن میں سے ایک عظیم احسان و انمول نعمت قرآن کریم کی ہے ۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے: قل بفضل اللہ و
برحمتہ فبذلک فلیفرحوا ھو خیر مما یجمعون(یونس/58)
یعنی آپ کہہ دیجیے کہ یہ اللہ کی فضل اور اس کی رحمت ہے جس پر ان کو خوش ہونا
چائیے , وہ ان تمام چیزوں سے بدرجہا بہتر ہے جس کو لوگ جمع کر رہے ہیں ۔ اس آیت میں فضل سے مراد
بعض مفسرین کے نزدیک قرآن ہے جو سب سے بڑی
نعمت اور سب سے بڑا احسان ہے اور رحمت سے مراد دین و ایمان وغیرہ ہے ۔ اور بعض کے
نزدیک دونوں سے مراد قرآن ہے ۔خیر اس میں کیا شک ہے کہ قرآن اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے جس پر اہل اسلام کا
خوش ہونا بالکل بجا و درست ہے ۔
اور ہم سب اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ قرآن اور رمضان کا آپس میں بہت زبردست و گہرا
تعلق ہے کیونکہ قرآن کریم کا نزول لوح محفوظ سے آسمانی دنیا پر اسی ماہ مبارک میں ہوا ۔آپ صلى اللہ علیہ و سلم پر اس کے نزول کی ابتداء بھی اسی ماہ میں ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ
23/سال کی مدت میں اس کا نزول مکمل ہوا ۔
قرآن کی عظمت و اہمیت , فضیلت اور بڑائی ,برتری اور تقدس کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ اللہ کا آخری
کلام ہے ۔ دین و شریعت کی بنیاد ہے ۔اس کی
نسبت جس کی بھی طرف ہوتی ہے وہ سب سے افضل قرار پاتا ہے, مثلا ماہ رمضان و شب قدر۔
اس کا سیکھنے و سکھلانے والا افضل ترین لوگوں
میں سے ہوتا ہے, اس کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں ۔ حافظ قرآن کے
والدین کو قیامت کے دن روشنی کا تاج پہنایا جائے گا۔وغیرہ غرضیکہ
اس کے بے شمار فضائل ہیں جن کا ذکر یہاں
ممکن نہیں ہے ۔
اسی طرح قرآن کے بہت سارے حقوق ہیں جن کی
ادائیگی اس امت پر فرض و لازم ہے ۔ جیسے
ہم اس کو خود سیکھیں, اس کی باقاعدہ تلاوت کریں, اس کو سمجھ کر پڑھیں
, اور اس کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ہم اس
کے مطابق عمل کریں , اور اپنی زندگی میں
اس کو ڈھال لیں اور اس کی دعوت و تبلیغ کریں, دوسروں کو سکھائیں , اس کی تعلیم
دیں اور اس کی عظمت و اہمیت سے باخبر کریں
۔ وغیرہ
بلا
شبہ ہمارے پیارے نبی اور اسلاف قرآن مجید کی عظمت و اہمیت سے بخوبی واقف تھے اور اس
کے تمام حقوق کومکمل طور سے ادا کرتے تھے,
اس میں ذرہ برابر کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے, قرآن کریم ہی ان کی زندگی
تھی, ان کے شب و روز قرآن کریم کا آئینہ تھے ,
قرآن کریم سے غفلت کے بارے میں ان کے یہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا اس لیے وہ
اس دنیا میں غالب تھے, باعزت تھے , صاحب
حیثیت و سطوت تھے , ان کی دنیا پر حکمرانی
تھی, باطل طاقتیں ان سے خوف زدہ رہتی تھیں , ان کی عزت و ناموس اور مال ولت محفوظ
تھی , ہر طرف ان کی دھاک تھی ۔ دنیا والے ان کی عزت کرتے تھے ۔بقول اقبال : وہ
زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر ۔
لیکن
آہستہ آہستہ یہ امت جس طرح زندگی کے دیگر میدانوں میں اسلام و شریعت سے دور ہوتی
گئی اسی طرح یہ قرآن سے بھی دور ہوتی گئی
اور آج حالت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت
بڑی تعداد خصوصا بلاد عجم میں قرآن ناظرہ
پڑھنا نہیں جانتی ہے , اور جو لوگ ناظرہ قرآن تلاوت کرتے ہیں ان کی اکثریت اس کو
سمجھتی نہیں ہے ۔ عمل کرنے میں بھی بہت زیادہ کوتااہیاں و خرابیاں پائی جاتی ہیں بلکہ اس کے بارے میں جو بھی لکھا
جائے وہ کم ہے ۔ دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تعلم تو بہت کم ہوگیا ہے جس سے یہ کتاب دنیا کی سب سے مظلوم کتاب بن گئی
ہے اور ہم مسلمان خود ہی اس پر ظلم کرتے
ہیں ۔بلکہ حالت اس سے بھی زیادہ بدتر ہے اور برصغیر کے اکثر مسلمانوں کی ذہنیت یہ
ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ماڈرن و عصری مواد جیسے فزکس, کیمسٹری, بائیولوجی, میتھ,
انگلش وغیرہ کی تعلیم پر خوب زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں ۔ وہ ایک
مادہ کے ٹیوشن کے لیے ہزاروں روپیہ صرف کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنے بچوں و
بچیوں کو ٹیوشن سنٹر یا ٹیوٹر کے گھر بلا جھجھک بھیجتے ہیں لیکن جب بات قرآن کی تعلیم کی ہوتی ہے تو ان کی
خواہش ہوتی ہے کہ مولوی خود ان کے گھر آکے ان کے بچوں کو تعلیم دے اور جب اجرت کی
بات ہوتی ہے تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ مولوی یا حافظ کم از کم اجرت پر راضی
ہوجائے اور زیادہ اجرت دیتے ہوئے ان کاکلیجہ پھٹتا ہے ۔
خود
ہی سوچئیے کہ کیا قرآن اسی سلوک و رویہ کا مستحق ہے؟ کیا قرآن کے ساتھ یہ انصاف
ہے؟ ہر گز نہیں , بلکہ یہ حافظ و مولوی کی توہین کے ساتھ قرآن کی
سرارسر توہین ہے کیونکہ اگر قرآن کی عزت ہمارے سینوں میں ہوتی تو ہمارا یہ رویہ ہرگز نہیں ہوتا بلکہ ہم اس کی
تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ کرتے اور اسے دنیا و آخرت دونوں میں سعادت کا سبب سمجھتے
۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کا مقارنہ و کمپریزن دنیا کی کسی کتاب سے نہیں کیا
جاسکتا ہے تو پھر اس کے ساتھ ہمارا یہ رویہ کیوں ہے؟
نتیجہ
واضح ہے کہ آج ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہیں
, ہماری شان و شوکت ختم ہوگئی ہے , بین
الاقوامی طور پر ہماری کوئی عزت ہے نہ
وقار ہے ۔بقول اقبال: اور ہم خوار
ہوئے تارک قرآن ہوکر ۔
اور
یہ امت آج کے دور میں یقینا اس آیت کی
مصداق بن چکی ہے : ان قومی اتخذوا ہذا
القرآن مھجورا (فرقان/30) اس امت کے انتہائی
شفیق و کریم نبی بطور شکایت یوم قیامت اللہ رب العالمین سے عرض کریں گے کہ
اے میرے پرور دگار: بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔
اس
آیت کی تفسیر میں مفسرین کا کہنا ہے کہ مشرکین قرآن کی تلاوت کے وقت خوب شور مچاتے
تھے تاکہ قرآن سنا نہ جاسکے, یہ بھی ہجران ہے, اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ
کرنا بھی ہجران ہے , اس پر غور و فکر نہ کرنا , اس کے احکام کو نافذ نہ کرنا اور نواہی سے نہ بچنا بھی ہجران ہے, اسی طرح اس
کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا یہ بھی ہجران ہے, اس کو حکم و فیصل تسلیم
نہ کرنا اور اس کے مطابق فیصلہ نہ کرانا
یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک
اور اس کا چھوڑ دینا ہے۔(تفسیر ابن کثیر , الوسیط للطنطاوی و احسن البیان)
مجھ
خاکسار کی نظر میں یہ امت کی بہت بڑی بد
نصیبی و محرومی ہے کہ وہ قرآن جیسی عظیم و
انمول نعمت کی عظمت و اہمیت سے نا واقف ہے اور اس کی تعلیم و تعلیم سے بہت زیادہ غافل ہے ۔بلا شبہ وہ مسلمان شخص دنیا کا سب سے بڑا جاہل شخص ہے جو قرآن مجید پڑھنا نہیں
جانتا ہےاگر چہ دنیا کا سب سے بڑا اعلى تعلیم یافتہ پروفیسر ہی کیوں نہ ہو ۔یقینا ایک مسلمان کے لیے یہ بہت بڑی حرماں نصیبی ہے کہ وہ قرآن پڑھنا نہیں جانتا ہے یا اس کوپڑھنا
جانتا ہے لیکن سمجھتا بالکل نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کا کوئی اثر اس کے اوپر نہیں ہوتا ہے ۔اور تلاوت قرآن کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔
آج ہم
مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ہم اپنا بہت
سارا بیش قیمتی وقت شوشل میڈیا, بیکار کی گفتگو. چائے نوشی,
لایعنی بحث و مباحثہ , ٹی وی وغیرہ اور دیگر
بیکار کی چیزوں میں ضائع کردیتے ہیں لیکن قرآن سیکھنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا ہے لہذا ہم اس
پر کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں بلکہ مجرمانہ غفلت برتتے ہیں۔وقت نہ ہونے یا کسی اور چیز کا بہانہ کرکے قرآن کی تعلیم حاصل نہیں کرتے ہیں۔دنیا کے تمام کاموں کے لیے وقت ہے لیکن
قرآن و دین سیکھنے کے لیے وقت نہیں ہے۔
کیا قرآن اسی سلوک کا مستحق ہے؟ کیا
مسلمان ہونے کا یہی مطلب ہے؟
رمضان
کے مبارک و مقدس مہینہ میں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ
گر
تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز
بہ قرآں زیستن
"اگر
تم مسلمان كى زندگی گزارنا چاہتے ہو تو قرآن كريم كو زندگی کا حصہ بنائے بغير ايسا
ممكن نہیں"۔
اور
یقینا قیامت کے دن قرآن کے بارے میں ہم سے
سوال کیا جائے گا ۔اس لیے رمضان کے اس
مبارک مہینہ کو غنیمت جانتے ہوئے اور قرآن و رمضان کے باہمی قوی تعلق کو مد نظر
رکھتے ہوئے ہم اس سے اپنا تعلق استوار
کریں, اس سے جڑیں, اس کی عظمت و اہمیت کی
قدر کریں اور اس کے تمام حقوق کو ادا کریں ۔ کیا ہم مسلمان اس کے لیے تیار ہیں ؟ اللہ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا کرے ۔ آمین
0 التعليقات: