کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ
(مودی حکومت کی مسلمان اوقاف پر
بری نظر )
ڈاکٹر عبد المنان محمد
شفیق مکی
سابق پروفیسر ام القری
یونیورسٹی و مترجم فوری حرم مکی شریف ,
مکہ مکرمہ
سکریٹری اصلاح و ترقی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی ,
علی گڑھ
www.drmannan.com/www.islahotaraqqi.com
یہ
ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وقف آغاز اسلام ہی سے ایک اسلامی روایت رہی ہے , اور
مسلمانوں نے ہر علاقہ و ہرزمانہ میں اللہ کی رضامندی , اجر و ثواب کے حصول, انسانیت کی خدمت اور آخرت میں کامیابی کے لیے اپنی زمینوں و جائیداووں کو
اللہ کے لیے وقف کیا ہے۔ ہندی مسلمان بھی اس میدان
میں کافی آگے رہے ہیں اور انہوں نے بھی اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے
اور بہت بڑی تعداد میں اپنی جائیدادوں و
زمینوں کو وقف کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ
تقسیم کے باوجود آج وطن عزیز میں سب سے زیادہ زمین ریلوے اورمسلح افواج کے بعد تیسر ےنمبر پر وقف بورڈ کے پاس ہے , اس کے پاس9/ لاکھ40/ہزار ایکڑ زمین ہے
جس کی قیمت تقریبا ایک اعشاریہ دو
لاکھ کروڑ روپئیے ہے ۔ 2009ع میں وقف بورڈ کے پاس صرف چار لاکھ ایکڑ زمین تھی ۔ سب
سے زیادہ وقف املاک دلی, حیدر آباد, لکھنؤ اور اجمیر میں ہیں ۔ ہر صوبہ میں ایک
وقف بورڈ قائم ہے اور اس وقت ملک میں کل
32/وقف بورڈ ہیں۔
آزادی
کے بعد سب سے پہلے 1954ع میں پارلیمنٹ میں ایک وقف ایکٹ بنایا گیا جسے وقف ایکٹ 1954 کا نام دیا گیا ۔ اور اس کے
ذریعہ سے ملک بھر کے مسلمان اوقاف کو منظم کیا گیا اور اس میں وقتافوقتا ترمیم و
تبدیلی بھی ہوتی رہی ۔اس کے بعد 1995ع میں
اس کی جگہ ایک نیا وقف ایکٹ بنایا گیا جس کو وقف ایکٹ 1995 کا نام دیا گیا
۔ اسی وقف ایکٹ میں آخری ترمیم 2013ع میں کانگریس دور حکومت میں بی جی پی کی حمایت سے ہوئی تھی۔اس وقت تک
مسلمان اوقاف محفوظ تھے , ان پر کسی حکومت کی بری نگاہ نہیں تھی اور نہ ہی وہ کسی
جماعت و گروپ کی نگاہ میں کھتکتے تھے ۔لیکن اب 2025ع میں بھاجپا کی
قیادت میں این ڈی اے حکومت میں ایک بار پھر تبدیلی و ترمیم کی گئی ہے جس کو
یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ امپاورمنٹ ایفیشینسی اینڈ ڈپولپمنٹ ایکٹ 2025 ع(Unified Waqf Management Empowerment Efficiency and Development
Act 2025) کا نام دیا گیا ہےجس کے ذریعہ مسلمانوں کو ان کے اوقاف سے محروم کرنے اور ان
کے زمینوں کو چھیننے کی منظم و منصوبہ بند
سازش رچی گئی ہے اور ہندو مسلم نفرت و
عداوت کو مزید بڑھانے کا انتظام کیاگیا ہے ۔
اس
کی ایک خاص و اہم وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ بی جی پی آر ایس ایس کی ایک سیاسی شاخ ہے اور آر ایس ایس کی بنیاد ہی مسلم دشمنی و عداوت , نفرت و کراہیت پر مبنی ہے۔اس کا اپنا ہندتوا کا مخصوص ایجنڈا ہے اور اس کے رہنما و ماڈل نہرو و
گاندھی, آزاد, بھگت سنگھ, بوس کے بجائے
ھیڈگوار و گولوالکر, مونجے, ساورکر, گوڈسے وغیرہ ہیں جن کی شان میں یہ قصیدے پڑھتے ہیں اور
ان کی یہ پوجا کرتے ہیں ۔ اس لیے بی جی پی بھی ایک سیاسی پارٹی ہونے کے
باوجود مسلمانوں کی دشمن ہے, آرایس ایس کے ہندتوا ایجنڈوں کی پابند ہے ,اس کے مسلم مخالف
ایجنڈوں کو نافذ کرتی ہے اور اس کے افکار و نظریات کو پروان چڑھاتی ہے ۔ اس میں ذرہ برابر کسی طرح کی شک و شبہ
کی کوئی بات نہیں ہے ۔ گذشتہ گیارہ سالوں
کے بی جی پی دور حکومت نے اس کے اوپر مہر لگادی ہے ۔ اگر چہ بی جی پی کچھ اندرونی
و بیرونی مجبوریوں کی وجہ سے بظاہر "سب کا ساتھ سب کا وکاس و سب کا وشواس"
کا نعرہ لگاتی ہے لیکن یہ سب آنکھ میں دھول جھونکنے کے برابر ہے اور سراسر جھوٹ و بکواس ہے ۔
کیونکہ
مودی حکومت اور آر ایس ایس کی سیاست شروع ہی
سے جھوٹ اور پراپگنڈہ کی رہی ہے اور ابتداء سے ہی اس کی یہی روش اور چال رہی ہے ۔ جھوٹ اور پروپگنڈہ کرنے میں اس حکومت
کا کوئی ثانی نہیں ہے بلکہ یہ گوبلز سے بھی چار قدم آگے ہے ۔ ہر چیز میں جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا اس کی
فطرت ہے ۔ جب اس پارٹی کا سب سے بڑا نیتا علانیہ طور پر مجمع عام میں جھوٹ بولتا
ہو اور جس کو اپنے منصب و عمر کا کوئی لحاظ نہ ہو
تو دوسروں کا کیا کہنا ہے ۔ اسی پالیسی کو اس وقف ترمیمی بل پر نافذ کیا
گیا ہے ۔ حکومت دن رات یہ پرچار کرتی رہی
کہ یہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں کے حق میں ہے ۔ اس کو اوقاف میں موجود فساد اور کرپشن کو ختم کرنے کے لیے لایا گیا ہے
, اس کا مقصد غریب مسلمانوں کا فائدہ کرنا ہے جس سے وہ ابھی تک محروم تھے ۔ اس میں
عورتوں اور دوسرے مسلم طبقات مثلا بوہرہ, آغاخانی وغیرہ کو جگہ دی گئی ہے ۔اس سے تنازعات میں کمی
آئے گی , کام کاج میں شفافیت پیدا ہوگی وغیرہ ۔ حکومت نے الزام لگایا کہ اپوزیشن اس کے
بارے میں مغالطہ و غلط فہمی پھیلا رہی ہے
۔جب کہ اپوزیشن پارٹیوں کا ماننا ہے کہ یہ
بل مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے اور یہ آئین کی کئی دفعات جیسے 24, 25, 26 وغیرہ کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس کے سراسر مخالف ہے
۔بلا شبہ یہ بل ہندتوا کے ایجنڈا کو نافذ کرنے کے لیے آر ایس ایس کے کہنے پر لایا
گیا ہے اور حکومت خود غلط و جھوٹا پرچار کر رہی ہے ۔ یقینا یہ نیوانڈیا ہے اور مودی ہے تو ممکن ہے
۔
یہاں
یہ ذکر کردینا بہت ہی مناسب و برمحل ہے کہ سوسال کی انتھک محنت و جد و جہد کے بعد آرایس
ایس نے ملک عزیز کو اپنے خطرناک چنگل میں زبردست
طور پر جکڑ لیا ہے اور اس پر سیاسی , انتظامی و اداری ہراعتبار سے قبضہ کرلیا ہے ۔ اس کے کارکنان و ممبران ملک کے ہر شعبہ میں پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے
ملک کے تمام بڑے و چھوٹے اداروں پر مضبوط گرفت بنالی ہے ۔ ہر جگہ ان کے اپنے آدمی بیٹھے ہوئے ہیں جو
حکومت کا ہر قسم کا تعاون کرتے ہیں ۔ عدلیہ سے لے کر تعلیمی اداروں تک سب پر ان کا
قبضہ ہوچکا ہے ۔ ایسی صورت میں بھاجپا کو
الیکشن میں شکست دینا بہت مشکل ہے ۔ کیونکہ وہ الیکشن جیتنے کے لیے ہر قسم کا فراڈ
کرتے ہیں ۔ صرف ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے ہیں بلکہ انتخابی ووٹر لسٹ میں
پھیر بدل کرتے ہیں , اس کے علاوہ فراڈ ووٹ
ڈلواتے ہیں , کاؤنٹنگ میں بے ایمانی کرتے
ہیں وغیرہ ۔ ایسی صورت میں ملک کو ان سے آزادی اسی وقت مل سکتی ہے جب ایک نئی
عوامی تحریک شروع ہو ۔ کانگریس یا کسی دیگر سیاسی پارٹی میں اب ان کو شکست دینے کی
طاقت نہیں ہے ۔ ملک کا مستقبل دن بدن تاریک ہو رہا ہے اور بی جی پی نفرت و کراہیت کا کھیل کھیل کر
حکومت کے مزے لے رہی ہے اور عوام تباہ و بر باد ہو رہی ہے ۔
ملکی
حالات پر نگاہ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ بی جی پی نے اپنے دور حکومت میں بہت
سارے مسلم مخالف اقدامات کیے ہیں ۔ جیسے: سی اے اے و این آر سی نافذ کرنا , مسلمانوں
کو حملہ آور قرار دینا, ان کے دور حکومت کو غلامی کا دور قرار دینا, ان کے خلاف
سماج میں نفرت و کراہیت پیدا کرنا , حج
سبسڈی کو ختم کرنا, مولانا آزاد فیلوشپ کو بند کرنا, دینی و مذہبی تعلیم کو ختم
کرنے کی کوشش کرنا, گھروں ,مدارس و مساجد کو بلڈوز کرنا, مسلمانوں کو چن چن کر
نشانہ بنانا, ماب لنچنگ کرنا وغیرہ ۔ غرضیکہ
مودی حکومت نے مسلمانوں کو ہرطرح سے نشانہ بنایا ہے اور ان کو نقصان پہنچانے و پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی ہے ۔
اسی
سلسلہ کی آخری کڑی فی الحال پورے ملک
میں پھیلے ہوئے مسلمان
اوقاف پر مودی حکومت کی بری نظر ہے اور اس کی زمینوں کو ہڑپ کرنے کی سازش ہے ۔ اسی
وجہ سے حکومت نے باقاعدہ ایک وقف ترمیمی
بل گذشتہ سال 8/اگست 2024ع کو لوک سبھا میں پیش کیا تھا جس کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے سخت مخالفت ہوئی تھی ۔ جس کے
نتیجہ میں اس بل کو 32/ممبران پر مشتمل جے پی سی کے پاس بھیج دیا گیا تھا جس کے صدر یوپی کے ایک دن کے وزیر اعلى
جگدمپیکا پال تھے ۔ کئی میٹنگوں کے بعد ان کے زیر صدارت 250/صفحات کی ایک رپورٹ تیار کی گئی اور پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے صرف چار گھنٹہ
پہلے یہ رپورٹ ممبران کو بھیجی گئی ۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی مختصر و کم
وقت رپورٹ کو پڑھنے کے لیے ناکافی تھا لیکن ان سب کے باوجود یہ بل دوبارہ لوک سبھا میں مرکزی اقلیتی بہبود کے مرکزی وزیر کرن رجوجی کے ذریعہ بدھ 2/اپریل 2025ع کو 12/بجے دن میں پیش کیا گیا جس پر تقریبا
14/گھنٹوں کی طویل بحث کے بعد ووٹنگ ہوئی ۔ موافقت میں 288/ووٹ جب کہ
مخالفت میں 232/ووٹ پڑے ۔اس طرح56/ووٹ کی اکثریت کے ساتھ یہ بل پاس ہوگیا ۔
بعد
ازاں جمعرات 3/اپریل کو یہ بل 11/بجے دن میں مرکزی وزیر برائے اقلیتی بہبود کے
ذریعہ راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا جہاں راجیہ سبھا کی تاریخ کی 17/گھنٹوں کی سب سے طویل بحث ہوئی اور صبح 4/بج کر 2/منٹ پر اس بل کو پاس کردیا گیا ۔اس کی موافقت میں
112/ووٹ ڈالے گئے جب کہ مخالفت میں 95/ووٹ
پڑے ۔ پھر جمعہ کو صدر جمہوریہ ہند نے اس بل پر اپنا دستخط کردیا جس سے اب یہ
قانون بن گیا ہے ۔
لوک
سبھا و راجیہ سبھا دونوں میں اپوزیشن
پارٹیوں نے اس بل کی زبردست مخالفت کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بل مسلمانوں کے
اوقاف پراپرٹی کو بچانے اور حفاظت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ان کو لوٹنے کے لیے لایا
گیا ہے ۔ اس بل کا اہم مقصد اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کرکے امبانی و اڈانی کے حوالہ
کرنا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جے پی سی کے حزب مخالف ممبران نے جو تجاویز اور مشورے دئیے تھے ان کو اس میں
شامل نہیں کیا گیا ہے اور صرف جے ڈی یو و
ٹی ڈی پی ممبران کے تجاویز و مشورہ کو جگہ
دی گئی ہے جن کی بنیاد پر اس میں کل 14/ تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اب اس میں وہ طاقت و مضبوطی نہیں رہ
گئی ہے جیسا کہ پہلے تھی ۔جن میں ایک سب
سے بڑی تبدیلی یہ کی گئی کہ 2025ع کے پہلے کے اوقاف پر یہ قانون نافذ نہیں ہوگا۔ لیکن ماہرین
کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک مغالطہ ہے ۔ یہ قانون صرف رجسٹرڈ وقف املاک پر نافذ نہیں ہوگا لیکن جن املاک پر
اختلاف و جھگڑا ہے اس پر نافذ ہوگا ۔ مثال کے طور پر صرف یوپی میں تقریبا 98/فیصد
وقف املاک پر اختلاف ہے۔ اور جس دن یہ قانون نافذ ہوگا اسی دن ان کو سرکاری املاک
بنانے کا اعلان کردیا جائے گا ۔کیونکہ اس میں ایک شق یہ ہے کہ مختلف فیہ و متنازع املاک پر جب تک فیصلہ نہیں ہوتا ہے ان کو سرکاری
املاک مانا جائے گا ۔
دوسری
بڑی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ پہلے ڈی ایم کو متنازعہ املاک کے بارے میں فیصلہ کرنے
کا اختیار دیا گیا تھا لیکن اب یہ اختیار اس کے بجائے صوبائی گورنمنٹ کے ذریعہ نامزد آفیسر کرے گا ۔ لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہیں
پڑتا ہے ۔کیونکہ صوبائی حکومت کوئی ایسا آفیسر نامزد ہی نہیں کرے گی جو اس کی
پالیسی پر عمل نہ کرے ۔ مخالفت تو دور کی بات ہے ۔وقف بورڈ میں دو غیر مسلموں کو
شامل کیا جائے گا جن کو صوبائی حکومتیں نامزد کریں گی۔
خلاصہ
کلام یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق ان 14/تبدیلیوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ۔اور
اس بل کے پیش کرنے سے حکومت کا جو ارادہ و منشا ہے اس کی راہ میں یہ رکاوٹ بالکل
نہیں بنے گا ۔ اس کے علاوہ اس بل میں اور بھی بہت ساری خرابیاں
و کمیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے چند اہم
و نمایاں خرابیاں مندرجہ ذیل ہیں :--
اس
بل کی ایک سب سے اہم خرابی یہ ہے کہ اس
میں وقف بائی یوزر یعنی وقف بذریعہ استعمال کو ختم کردیا گیا ہے ۔دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں کم از کم دو غیر مسلم افراد کی شمولیت کی
گنجائش دی گئی ہے بلکہ اکثریتی غیر مسلم
ارکان پر مبنی بورڈ کی راہ بھی ہموار کی گئی ہے ۔تیسری خرابی یہ ہے کہ 1995ع کے
قانون کے دفعہ 107کے تحت وقف جائیداد پر
قبضے کے خلاف دعوى دائر کرنے کی کوئی مدت مقرر نہیں تھی لیکن یہ دفعہ منسوخ کردی
گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ 12/سال گذر جانے
کے بعد وقف املاک پر قابض افراد کے خلاف دعوى نا قابل سماعت ہوگا ۔علاوہ ازیں واقف
یعنی ڈونر کے لیے ایک شرط یہ لگائی ہے کہ وہ کم از کم پانچ سال سے
اسلام پر عمل پیرا ہو ۔ اس کا مقصد نو مسلم مسلمانوں کو وقف کرنے سے روکنا
ہے اور یہ سراسر شریعت کی خلاف ورزی ہے ۔وغیرہ
خیر اب یہ بل اپنی اچھائیوں و خرابیوں کے
ساتھ پاس ہوچکا ہے یہ ایک حقیقت ہے اور
صدر جمہوریہ کی توثیق کے بعد قانونی شکل بھی اختیار کر چکا ہے ۔ بکے ہوئے ضمیر
فروش چند ایک مسلمانوں کو چھوڑ کر تمام مسلمانوں نے اس بل کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور اس بل کے خلاف اس کی واپسی تک احتجاج کا اعلان کیا ہے ۔سپریم کورٹ میں اب تک
13/پٹیشن اس بل کے خلاف دائر کیے جا چکے ہیں ۔ اس بل کے پاس ہونے سے پہلے بھی
مسلمانوں نے دلی میں جنتر منتر پر 17/مارچ
2025ع کو اور پٹنہ کے گاندھی میدان میں 26/مارچ کو احتجاج
کیا تھا اور صدر جمہوریہ سے ملنے کا وقت بھی مانگا تھا ۔ احتجاج کرنا ہر ہندوستانی کا جمہوری و دستوری حق ہے
لہذا ہم مسلمانوں کو بھی پرامن طریقے سے احتجاج کرنا چائیے اور قانونی چارہ جوئی بھی
کرنی چائیے ۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت مسلمانوں سے یہ حق بھی
چھیننا چاہتی ہے اور ان کو اس سے محروم کرنا چاہتی ہے ۔ چنانچہ بہار کے نائب وزیر
اعلى وجے سنہا نے اپنے ایک بیان میں کہا
ہے کہ جو وقف ترمیمی بل کی مخالفت کرے گا تو وہ غدار مانا جائے گا اور اس کو جیل
کی سزا ہوگی ۔یوپی میں تو 300/ لوگوں کو صرف نماز جمعہ کے دوران اپنے بازؤوں پر
کالی پٹی باندھ کر پرامن احتجاج کی وجہ سےقانونی
نوٹس جاری کیا گیا ہے اور ہرایک کو دو دو لاکھ کا بانڈ بھرنے کو کہا گیا ہے ۔حد تو
تب ہوگئی جب ایک نیتا سنجے نروپم نے وقف
بل کے خلاف احتجاج کرنے پر مسلمانوں کو جلیانوالہ باغ کی دھمکی دے ڈالی ۔ خیر یہ
نیو انڈیا ہے اور مودی ہے تو سب ممکن ہے ۔
اس
بل نے جہاں ایک طرف بہت سارے سیکولر چہروں
مثلا نائیڈو, نتیش کمار, جینت چودھری و پاسوان وغیرہ کو بے نقاب کردیا ہے ۔وہیں
دوسری طرف مسلمانوں کو بھی آگاہ کردیا ہے کیونکہ بی جی پی کے اس الزام میں تو
حقیقت ہے کہ وقف سے مسلمانوں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے اور اسے اس کے اکثر ذمہ داروں
نے اپنی تجوریاں بھرنے کا انتظام کیا ہے ۔حالانکہ حکومت کا یہ الزام اور
موقف" کلمۃ حق ارید بہا الباطل
" کی بہترین مثال ہے ۔ان کا مقصد سدھار کے بجائے فساد ہے اور دراصل یہی ہے :کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ ۔
بلا شبہ وقف کے پاس اتنی پراپرٹی اور جائیداد
تھی کہ اس سے مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے بہت سارے کام ہوسکتے تھے لیکن انتہائی
افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں نے اس کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ جس کا
نتیجہ واضح ہے کہ اللہ تعالى نے یہ بل ان کے اوپر مسلط کردیا ۔
لہذا مسلمانو ں اب بھی وقت ہے سدھر جاؤ اور اسلام کو مضبوطی سے
پکڑ لو اور حقیقی با عمل مسلمان بنو
کیونکہ ہمارے تمام پریشانیوں و مصائب کی جڑ ہماری بے عملی و بد عملی ہے اور اسی
وجہ سے ہمارے اوپر ظالم و جابر حکمراں مسلط کیے جاتے ہیں اور اس قسم کی قانون سازی
کرتے ہیں ۔ و ما علینا الا البلاغ و آخر
دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔(8-4-2025 بوقت 10/بجے شب)
0 التعليقات: