عورتوں کا عیدین کی نماز پڑھنےکا حکم
حدیث:عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قالَتْ: أَمَرَنَا رَسولُ اللهِ
صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، أَنْ نُخْرِجَهُنَّ في الفِطْرِ وَالأضْحَى،
العَوَاتِقَ، وَالْحُيَّضَ، وَذَوَاتِ الخُدُورِ، فأمَّا الحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ
الصَّلَاةَ، وَيَشْهَدْنَ الخَيْرَ، وَدَعْوَةَ المُسْلِمِينَ، قُلتُ: يا رَسولَ
اللهِ، إحْدَانَا لا يَكونُ لَهَا جِلْبَابٌ، قالَ: لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِن
جِلْبَابِهَا.(صحیح مسلم/2056)
تخریج
حدیث: یہ حدیث الفاظ کے معمولی اختلاف اور کچھ اضافوں
کے ساتھ مختلف احادیث کتب میں مروی ہے ۔بخاری/974, 324, 980, 351, 981,971,
1652, مسلم/2054,2055, 2056, ترمذی/539, ابوداؤد/1136, سنن نسائی صغرى/390, 1559,
1560, ابن ماجہ/1307, 1308 وغیرہ
معانی کلمات:
اضحی: (ض پر
جزم) یہ اضحاۃ کی جمع ہے , عید قرباں میں ذبح کیا جانے والا جانور۔
عواتق:عاتق کی جمع ہے دوشیزہ, نئی بالغہ عورت, عمدہ شراب, پرانی شراب,
کشادہ مشک, کندھا وغیرہ
حیض:حائض کی
جمع ہے , حیض والی عورت۔
ذوات الخدور:خدور،خدر
کی جمع ہے۔پردہ جولڑکی کے لیے مکان کے گوشہ میں لگا دیا جائے ,باکرہ لڑکی کے لیے مکان کا مخصوص حصہ, شیر کی جھاڑی,
رات کی تاریکی ۔اس کی جمع اخدار بھی ہے
اور جمع الجمع اخادیر ہے ۔
یعتزلن: الگ
ہونا
جلباب:کھلی
چادر ج جلابیب۔
ترجمہ:
حضرت
ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں
نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم عید الفطر اورعید الاضحیٰ میں دوشیزہ ,
حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو باہر نکالیں، لیکن حیض والی عورتیں نمازسےدور رہیں۔وہ خیروبرکت اور مسلمانوں کی دعا
میں شریک ہوں۔میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !
ہم میں سے کسی عورت کے پاس چادر نہیں ہوتی۔آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی(کوئی مسلمان) بہن اس کو اپنی چادر کا ایک حصہ پہنا دے۔"
شرح:
بلا
شبہ اسلام نے عورت کو بہت ہی بلند مقام و مرتبہ عطا کیاہے اور اس کی شان و عظمت کو
دوبالا کیا ہے جب کہ اس سے پہلے زمانہ
جاہلیت میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی اور وہ گھر کے ایک حقیر و بیکار سامان
کے مانند تھی ۔اور اس کو وہ بہت سارے حقوق عطا کیے ہیں جن سے وہ سابق میں محروم
تھی ۔اسی لیے باحکمت شریعت نے اسلامی
شعائر و علامات کے اظہار میں شریک ہونے سے اس کو محروم نہیں کیا ہے بشرطیکہ وہ اس
سلسلے میں شرعی قوانین کی پابندی کرے ۔ اسی
وجہ سے اس کو عیدگاہ کی طرف نکلنے کی دعوت
دی گئی ہے اور اس پر ابھارا گیا ہے تاکہ
وہ مسلمانوں کے خیر اور دعاؤں میں موجود رہے ۔
(موقع الدرر السنیۃ: الموسوعۃ الحدیثیۃ, شرح حدیث ام عطیۃ)
اور بنا کسی ادنی شک کے عید الفطر اور عید الاضحیٰ دو ایسے فضیلت والے محبوب ترین ایام ہیں جن میں اسلام کی علامت واضح
طور پر عیاں ہوتی ہے اور ان کے اجتماع اور یکجہتی سے مسلمانوں کا بھائی چارہ ظاہر ہوتا
ہے۔ ہر ملک کے لوگ ایک جگہ جمع ہو کر اپنے اتحاد، اپنے دلوں کی ہم آہنگی اور اسلام
کی حمایت و مدد ، اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے،
اللہ کا ذکر قائم کرنے اور اس کے شعائر و
علامات کو ظاہر کرنے کے لئے اپنے اتفاق و
اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عورتوں کو
باہر نکلنے کا حکم دیا، حتیٰ کہ گھروں میں رہنے والی لڑکیوں کو، اور حیض والی عورتوں کو، بشرطیکہ وہ نمازیوں
سے دور کسی کونے میں ہوں، تاکہ وہ مسلمانوں کے خیر و بھلائی اور دعاؤں میں حاضر ہوں جس سے ان کو اس منظر
کی کچھ بھلائیاں حاصل ہوں ، اور ان کو اس کی
برکت اور اللہ تعالى کی رحمت و رضامندی مل
جائے ۔ اور رحمت و قبولیت ان کے زیادہ قریب ہو۔ ۔(موسوعۃ
الاحادیث النبویۃ: حدیث , امرنا رسول اللہ
ان نخرج فی العیدین.....)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام عورتوں کو
عیدین کے لیے نکلنا چاہیے حتیٰ کہ حائضہ عورتیں جو نماز نہیں پڑھ سکتیں وہ بھی
حاضر ہوں گی اور جن عورتوں کے پاس چادر نہیں ہے وہ اپنی کسی بہن سے عاریتاً چادر لے لے،یا یہ ممکن نہ ہو تو دونوں ایک چادر اوڑھ لیں اور
عیدگاہ جائیں ۔ اس طرح عورتوں کا عیدگاہ جانا جائز ہی نہیں بلکہ مطلوب و مستحسن ہے, اگر چہ یہ واجب نہیں ہے لیکن یہ
نبی کریم کا حکم تھا اور آپ کو پسند تھا تاکہ وہ بھی اس دن کی خوشیوں میں شریک ہوں
اور اس کی برکت و رحمت سے فیض یاب ہوں کیونکہ بلا شبہ ایک ساتھ عید منانے کی خوشی
ہی الگ ہوتی ہے ۔ ایک دوسری روایت میں ہے: عن ام
عطية، قالت:" كنا نؤمر ان نخرج يوم العيد
حتى نخرج البكر من خدرها حتى نخرج الحيض فيكن خلف الناس، فيكبرن بتكبيرهم ويدعون
بدعائهم يرجون بركة ذلك اليوم وطهرته".(بخاری/971)حضرت
ام عطیہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ
ہمیں عید کے دن نکلنے کا حکم تھا۔ یہاں تک
کہ کنواری و باکرہ کو اس کے گھر سے نکالیں اور حائضہ کو نکالیں ۔ یہ سب مردوں کے پیچھے
رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس
دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں۔
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کنواری و حائضہ سمیت تمام عورتوں کو عید کے دن نکلنے کا
حکم تھا جب کہ حائضہ کو نماز پڑھنے کی
اجازت نہیں ہے ۔اس کے باوجود اس کو عیدگاہ جانے کو کہا گیا ۔ معلوم ہوا کہ اس کے
پیچھے ایک خاص مقصد و حکمت ہے اور اس میں حاضری شریعت کی نظر میں ایک مستحسن امر ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا لیکن حائضہ عورتیں عیدین میں شرکت کے باوجود نمازسے الگ رہیں گی تاکہ
نماز میں صفیں نہ ٹوٹیں یا دوسری عورتوں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنیں۔لیکن انہیں
بناؤ سنگھار اور میک اپ کر کے نہیں جانا چاہیے۔
لیکن عجیب بات ہے کہ اس واضح حدیث و حکم کے باوجود احناف حضرات کہتے ہیں کہ آج کل حالات کے تغیر
اور عورتوں کے بن ٹھن کر نکلنے کی بنا پر ان کا جمعہ نماز اور عیدین میں جانا جائز
نہیں ہے۔ اور ان کی دلیل حضرت عائشہ کا یہ قول ہے:
عن عائشة رضي الله عنها قالت : لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث
النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل (بخاری
/869 و مسلم/445)حضرت عائشہ کی روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ
اگر رسول اللہ وہ چیزیں پالیتے اور دیکھتے جو عورتیں کرنے لگی ہیں تو انہیں مسجد
میں آنے سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں اس سے روک دی گئی تھیں۔
بلا
شبہ حضرت عائشہ کا یہ قول صحیح ہے کیونکہ بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے لیکن وہ مسلمان عورتوں کو عیدگاہ یا مسجد سے جانے سے
روکنے اور اس عظیم نعمت سے محروم کرنے کے لیے
دلیل نہیں بن سکتا ہے ۔اس کے مندرجہ ذیل وجوہات ہیں :
پہلی
بات تو یہ ہے کہ یہ ام المؤمنین حضرت
عائشہ کا قول ہے اور ان کی اپنی رائے ہے اور جب کسی صحابی یا صحابیہ کا قول نص
صریح کے مخالف ہو تو اس کو نہیں قبول کیا جا ئے گا ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن
عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: یوشک
ان تنزل علیکم حجارۃ من السماء أقول: قال رسول اللہ, و تقولون: قال ابوبکر و عمریعنی قریب ہے کہ
تمہارے اوپر آسمان سے پتھر کی بارش ہوجائے
میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ کا یہ فرمان ہے اور تم کہتے ہو کہ ابو بکر و عمر کا یہ کہنا ہے ۔یہ
بات عبد اللہ بن عباس نے اس وقت کہی جب ان سے حج تمتع پر بحث کی جا رہی تھی ۔ اسی
طرح کا قول حضرت عبد اللہ بن عمر کا بھی ہے ۔ انہوں نے فرمایا: افکتاب اللہ احق ان
تتبعوا ام عمر یعنی کیا کتاب اللہ اس بات کی زیادہ مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے یا عمر کا قول ۔(تفصیل
کے لیے دیکھیے: موقع الاسلام سؤال و جواب: لا یقدم قول احد و رأیہ على سنۃ النبی ,
سؤال نمبر 284553, تاریخ:8-6-2018ع)
معلوم ہوا کہ نص صریح کے ہوتے ہوئے ام
المؤمنین حضرت عائشہ کا قول قابل قبول
نہیں ہے اور اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس سے علم غیب کے بارے
میں اہل حدیث مسلک کی تائیید ہوتی ہے کہ
آپ کو علم غیب نہیں تھا ۔صرف اتنا ہی علم آپ کو ہوتا تھا جتنا وحی کے ذریعہ آپ کو
بتایا جاتا تھا۔ اس طرح کے سیکڑوں واقعات احادیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں
جیسے واقعہ افک , غزوہ خیبر میں زہر ملا
ہوا گوشت کھانا, غزوہ تبوک میں آپ کی اونٹنی کا غائب ہوجانا وغیرہ لیکن اللہ تعالى کو ہرچیز کا علم ہے , جو ہوچکا
اور جو ہورہا ہے اور جو آئندہ ہوگا سب کا علم اللہ کو ہے ۔ تو اگر اللہ تعالى
چاہتا تو اپنے نبی کے ذریعہ مستقبل کی خرابیوں و برائیوں کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو
مسجد میں جانے سے روک دیتا ۔ اس کا انکار تو کوئی نہیں کرسکتا ہے ۔ اور جب اللہ نے
نہیں روکا تو ہم کون ہیں ان کو روکنے والے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ کیا صرف مسجد و عیدگاہ جانے
ہی میں عورتوں کے لیے خطرہ ہے , دوسری جگہوں پر جانے میں ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں
ہے ۔ جبکہ ان مواقع میں خطرات کم ہیں اور عام حالات میں پبلک کے مقامات میں جانا
زیادہ خطرناک ہے اس سے نہیں روکتے۔وہ ہر جگہ بلاروک ٹوک بن ٹھن کر دعوت نظارہ دیتی
ہوئی آتی جاتی ہیں۔وہ کالج , اسکول, یونیورسٹی , بازار , پارک وغیرہ جانے کے لیے
آزاد ہیں جب کہ مسجد و عیدگاہ جانے پر پابندی ہے ۔جس سے ان نیکی اور خیرات کے کاموں سے محروم رہتی ہیں
اور ان کی خوشیاں بھی ادھوری رہ جاتی ہیں ۔بریں عقل و دانش بباید گریست ۔
علاوہ ازیں جو لوگ اس کی کراہت کے قائل ہیں وہ
کہتے ہیں:
یہ
ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور لوگوں پر
ان کی دھاک بیٹھ جائے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اس طرح کی روایت
آتی ہے اور وہ کمسن صحابہ میں سے ہیں،ظاہر ہے ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی
ہو گی جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔(ترمذی/539)
فوائد ومسائل:
حائضہ
عورت مسجدوں کے علاوہ ذکر الٰہی نیز خیر اور نیکی کے مقامات مثلاً علم و ذکر کی محفلوں
میں حاضری کو ترک نہیں کرے گی ۔ بلکہ ان کو وعظ
ونصیحت اور علمی مجالس میں شرکت کرنی چاہیے اور ذکروفکر اور دعاؤں میں شریک ہونا
چاہیے۔
عورتوں
کو عیدگاہ جانے کی تاکید کی گئی ہے کیونکہ
جب کسی کے پاس چادر نہیں ہے تو اس کو چادر
ادھار لینے کو کہا گیا ہے تو جس کے پاس
چادر ہے تو وہ بدرجہ اولى جائے گی اور اس
کی زیادہ حقدار ہے ۔ ۔
(موقع الدرر السنیۃ: الموسوعۃ الحدیثیۃ, شرح حدیث ام عطیۃ)
عورتوں کے لیے عید کی نماز کا جواز، بشرطیکہ وہ بے نقاب
ہوکر یا خوشبو لگا کر باہر نہ نکلیں، کیونکہ
اس کی ممانعت ہے۔
عید کی نماز بعض کے نزدیک فرض کفایہ ہے۔
حیض والی عورت کے لیے مسجد سے اجتناب ضروری ہے تاکہ وہ آلودہ نہ ہو۔
عید گاہ کے بھی وہی احکام ہیں جو مساجد
کے ہیں، اگرچہ وہ گھیرا ہوا نہ ہو ۔
حیض والی عورت کو دعا اور اللہ تعالیٰ
کے ذکر سے منع نہیں کیا گیا ہے۔
عید
کے دن کی فضیلت اور حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ دن ہے جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی
ہے۔.
عیدگاہ میں بلند آواز سے تکبیر کہنے
کا جواز۔
دعا اور ذکر کے لیے عید کی نماز میں لوگوں کی تعداد میں اضافے پر توجہ دینا۔
صحابہ
کی عورتوں کا طریقہ یہ تھا کہ کنواری اور
دیگر عورتیں گھر میں رہتی تھیں اور باہر
نہیں نکلتی تھیں ۔(موسوعۃ الاحادیث النبویۃ: حدیث ,
امرنا رسول اللہ ان نخرج فی العیدین.....)
آخر
میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم
مسلمانوں کو صحیح احادیث پر عمل کرنے کی توفیق دے اور شریعت نے جو حقوق مسلمان عورتوں کو عطا کیے ہیں ان کو ان سے محروم کرنے سے بچائے
اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنے والا بنائے ۔ آمین
0 التعليقات: