تکبیر
ات عیدین : الفطر و الاضحى
آیت:
{شَهۡرُ
رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدٗى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ
مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ ٱلشَّهۡرَ فَلۡيَصُمۡهُۖ
وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۗ
يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلۡعُسۡرَ وَلِتُكۡمِلُواْ
ٱلۡعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمۡ وَلَعَلَّكُمۡ
تَشۡكُرُونَ ١٨٥} (بقرہ/185)
معانی کلمات:
شھر: (ھ پر
جزم)یہ شھرۃ سے ماخوذ ہے , بولا جاتا ہے: شھر الشئی یشھر شھرۃ و شھرا یعنی چیز کا مشہور ہونا اس اعتبار سے کہ ہرکوئی
اس کو جان لےاور کسی کے لیے اس کا جاننا مشکل نہ ہو, کسی چیز کا اعلان کردینا, شائع کردینا, اسی سے
شھر السیف ہے جس کا معنى ہے تلوار کو نیام سے نکال کے سونت لینا ۔ بعض کا کہنا ہے
کہ ہلال کو شھر اس کی شہرت و واضح ہونے کی
وجہ سے کہا جاتا ہے اور اسی وجہ سے شھر (ماہ, مہینہ) کو شھر کہا جاتا ہے ۔
شھر بہ(ھ پر تشدید) کا معنی ہے کسی کو
رسوا و بدنام کرنا, تشہیر کرنا ۔
رمضان: یہ ہجری سال کا نواں مہینہ ہے جس کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض ہے, یہ غیر
منصرف ہے اس کی جمع رمضانات, أرمضۃ و رماضین ہے, یہ رمض سے مشتق ہے , کہا جاتا ہے
رمض النھار دن کا سخت گرم ہونا , رمض الصائم یعنی جب روزہ دار کا پیٹ شدید پیاس سے
جل رہا ہو, رمضاء کا معنى ہے سخت گرمی, جھلسا دینے والی گرمی, اسی سے حدیث میں آیا
ہے: صلاۃ الاوابین اذا رمضت الفصال(مسلم/748 و 1746) یعنی اوابین (اطاعت گذار,
اللہ کی طرف بکثرت توبہ سے رجوع کرنے والوں کی نماز ( چاشت) اس وقت ہوتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں ریت کے سخت
گرمی کی وجہ سے جلنے لگتے ہیں , کہا جاتا ہے کہ جب عربوں نے مہینوں کے نام قدیم
زبان سے منتقل کیے تو انہوں نے ان کے نام ان اوقات کے نام پر رکھے جن میں وہ واقع
ہوئے اور پڑے ، چونکہ یہ مہینہ سخت گرمی
کے دنوں کے موافق ہوا، اس لیے اس کا نام اس
طرح رکھا گیا۔ اور رمضان نام رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ یہ گناہوں کو جلا دیتا
ہے یعنی گناہوں کو نیک اعمال سے جلا دیتا
ہے ۔
عدۃ: (ع پر کسرہ و د پر تشدید) بمعنى عدد, تعداد,
جماعت, چند , بقی عدۃ اشہر بالمدینۃ
یعنی شہر میں چند یا کئی مہینے باقی رہا,
عندی عدۃ کتب یعنی میرے پاس کتابوں کی ایک
تعداد ہے ۔ (موقع المعانی , الوسیط للطنطاوی و مصباح اللغات)
ترجمہ:رمضان
وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور جس میں
ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں , اس لیے جو شخص اس مہینہ کو پائے
اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا روزہ رکھے,
اور جو شخص بیمار ہو یا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری
کرے, اللہ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے اور اس کا ارادہ تمہارے ساتھ سختی کا
بالکل نہیں ہے, وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور جس ہدایت سے اللہ نے تم کو
سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔
تفسیر:
یہ ایک طویل
آیت ہے جس میں رمضان اور روزہ کے متعلق
کئی احکام و مسائل کا ذکر کیا گیا ہے جن
کو طوالت کی وجہ سے یہاں بیان نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہاں صرف آیت کے آخری جزء کی تفسیر اور " تکبیرات
عید ین : الفطر و الاضحی " کا
ذکر کیا جا رہا ہے ۔
اللہ تعالى کا
فرمان: و لتکملوا العدۃ و لتکبروا اللہ على ما ھداکم و لعلکم تشکرون یہ جملہ اللہ کے قول : یرید اللہ بکم الیسر و
لا یرید بکم العسر پر معطوف ہے کیونکہ یہ
چاروں جملے اللہ تعالى کے سابقہ قول: فمن شھد منکم الشھر .......فعدۃ من ایام اخر
کی تعلیل ہے یعنی اس کی علت بیان کی گئی ہے ۔
اس کا معنى ہے کہ اللہ تعالى نے تمہارے اوپر رمضان کا
روزہ فرض کیا ہے,اس کے احکام کو واضح کردیا ہےاور تمہیں بیماری و سفر کی حالت میں روزہ چھوڑنے کی اجازت
دی ہے کیونکہ اس کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کرنے کا ہے سختی کا نہیں ہے ۔ اور
کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ تم رمضان کے کامل روزے رکھو تاکہ تم کو اس کی خیرات و
بھلائیاں حاصل ہوں اور اس کی برکتوں سے تم محروم نہ ہو ۔ اور جو شخص کسی عذر شرعی
کی وجہ سے اس مہینہ میں روزہ نہ رکھ سکے تو اسے دوسرے دنوں میں اس کی قضاء کرنی ہے ۔ اور اللہ تعالى تم سے چاہتا ہے کہ تم اس کی کبریائی بیان
کرو اور تکبیر کہو یعنی تم اس کی تعظیم
کرو کیونکہ اسی نے تنہا تم کو ان نفع بخش احکام کی رہنمائی کی ہے جن میں
تمہاری سعادت و صلاح, بہتری و خوشی ہے ۔
اور وہ تم سے چاہتا ہے کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو کہ برابر اس کی تعریف اور ثناء میں لگے رہو ۔
اس لیے کہ وہ اپنے بندوں پر انتہائی مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اُس نے اُن کے لیے
وہ چیزیں مقرر کی ہیں جن میں آسانی ہے سختی بالکل
نہیں ہے ۔
یہ آیت کریمہ تکبیر کے حکم کی دلیل ہے کیونکہ اس کے مطابق وہ ان چیزوں میں سے ہے جس
کو اللہ تعالى چاہتا ہے۔ اسی لیے حدیث میں
فرض نمازوں کے بعد تسبیح, تحمید اور تکبیر کہنا مستحب بتایا گیا ہے , اور عیدین : الفطر و الاضحى
میں اللہ کی تکبیر یعنی بڑائی بیان کرنا
ان دونوں کا سب سے بڑا مظہر ہے ۔
اس طرح ان آیتوں میں روزے کی فضیلت، اس کی مشروعیت کی حکمت اور اس فرض میں بندوں پر اللہ کی رحمت کے مظاہر کو نہایت مکمل اور حکیمانہ انداز
میں بیان کیا گیا ہے۔ (الوسیط للطنطاوی)
اللہ کا قول : یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر
اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر وہ چیز جس کا اللہ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے
وہ اپنی اصل میں بہت آسان ہے۔ اور اگر کچھ ایسے اسباب پائے جاتے ہیں جن سے وہ بھاری اور بوجھل ہوجاتا ہے تو وہ اسے دوبارہ آسان بنا دیتا ہے، اس طریقہ سے کہ یا تو اسے ساقط و ختم کردیتا ہے یا اس میں کئی
قسم کی تخفیف اور آسانی کر دیتا ہے ۔ یہ ایک
ایسا جملہ ہے جس کی تفصیل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کی تفصیلات میں تمام شرعی امور شامل
ہیں اور تمام رعایتیں اور سہولتیں اس میں داخل
ہیں۔ {اور تاکہ تم تعداد پوری کر و} - اور اللہ بہتر جانتا ہے - تاکہ کوئی یہ گمان نہ کرے اور
کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ رمضان کے روزوں کا
مقصد اس میں سے کچھ سے حاصل ہوجاتا ہے۔ لہذا اس وہم کو اس کی تعداد کو مکمل کرنے کا حکم دے
کر دور کردیا ہے ۔اور اس کے مکمل ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس کو
توفیق دی اور اس کو آسان بنا دیا اور اپنے
بندوں کے لیے اس کو واضح کردیا اور اس کے
اختتام پر اللہ کی تکبیر سے اس کا شکر ادا کرے ۔(تفسیر سعدی)
آیت کے آخری جزء کی تفسیر کے بعد اب تکبیرات کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔
تکبیرات عیدین کی تفصیل:
جیسا کہ معلوم ہوا کہ ماہ رمضان کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں
کو اپنی تکبیر یعنی بڑائی بیان کرنے کا حکم دیا ہے۔ تکبیر کا مطلب ہے
کہ اپنے دلوں اور زبانوں سے اس کی بڑائی
کرو، اور یہ لفظ "تکبیر " کے استعمال سے ہوتا ہے اور اس کا صیغہ ہے : الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر، الله أكبر،
ولله الحمد.
یا اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں : الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، لا
إله إلا الله. والله أكبر، الله أكبر، ولله الحمد., یا اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں
اللہ اکبر کبیرا, والحمد للہ کثیرا و سبحان اللہ بکرۃ و اصیلا ۔ یہ سب جائز
ہے۔یہی تکبیرات عید الاضحی میں بھی کہی جائیں گی ۔( موقع الامام ابن باز: نور على الدرب, صیغۃ التکبیر فی العیدین,موقع
الاسلام سؤال و جواب:متی یبدا التکبیر فی عید الفطر و متى ینتھی, سؤال نمبر 48969,
تاریخ 11-10-2007ع,)
تکبیرات عیدین کا حکم :
جمہور علماء کے نزدیک
دونوں عیدوں عید الفطر و عید الاضحی میں تکبیر
کہنا سنت ہے لیکن مذکورہ بالا قرآنی آیت کی وجہ سے عید الفطر
میں یہ مؤکد ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے:
مسلمانوں پر جب شوال کا چاند نظر آئے تو اللہ اکبر کہنا واجب ہے۔ (موقع الاسلام سؤال و جواب:متی یبدا التکبیر فی عید الفطر و متى
ینتھی,موقع اسلام ویب:الفتوى, وقت ابتداء و انتھاء التکبیر فی عیدى الفطر و
الاضحى,نمبر 6594 , 9-1-2001ع)
اور یہ مردوں
و عورتوں کے لیے مساجد، گھروں اور بازاروں میں سنت ہے۔
مرد اسے بآواز بلند کہیں گے لیکن عورتیں اسے آہستہ کہیں گی کیونکہ عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی آوازوں کو پست رکھیں۔ اسی
وجہ سے نبی کریم نے فرمایا ہے کہ اگر نماز
میں تم کو کچھ پیش آجائے تو مرد تسبیح کہیں گے اور عورتیں تالیاں بجائیں گی۔معلوم
ہوا کہ عورتیں تکبیر آہستہ کہیں گی اور
مرد زور سے کہیں گے ۔ (موقع الاسلام سؤال و جواب:متی یبدا التکبیر فی عید الفطر و متى
ینتھی)
عید ین پر تکبیر کب شروع اور
کب ختم ہوتی ہے؟
عید الفطر
عید الفطر پر اس کی ابتداء عید
کی رات غروب آفتاب سے ہوتی ہے جب غروب سے پہلے ہی ماہ شوال کے شروع ہونے کایقین ہوجائے جیسے کہ ماہ رمضان تیس دن کا مکمل ہوچکا ہے ۔یا
اس کی ابتداء شوال کے چاند کی رویت کے
ثابت ہونے سے ہوتی ہے ۔اور اس کا اختتام
نماز سے ہوتا ہے یعنی جب لوگ عید کی نماز شروع کردیں تو تکبیر کا وقت ختم ہوجاتا
ہے ۔اور اس میں تکبیر مطلق ہے مقید نہیں
ہے ۔اس لیے اسے بازاروں , راستوں , گھروں
اور مساجد وغیرہ میں کہا جاسکتا ہے ۔۔ (موقع الاسلام سؤال و جواب:متی یبدا التکبیر فی عید الفطر و متى
ینتھی,موقع اسلام ویب:الفتوى, وقت ابتداء و انتھاء التکبیر فی عیدى الفطر و
الاضحى,نمبر 6594 , 9-1-2001ع)
امام شافعی نے "الام " میں تحریر کیا ہے: اللہ تعالیٰ نے ماہ
رمضان کے بارے میں فرمایا: "اور تاکہ تم تعداد پوری کرو اور اللہ کی تکبیر
بیان کرو کہ جس نے تمہیں ہدایت کی ہے۔"
میں نے ایک صاحب قرآن کو جن سے میں بہت مطمئن ہوں یہ کہتے ہوئے سنا: ’’تاکہ تم ماہ
رمضان کے روزوں کی تعداد پوری کر لو اور اس کے پورے ہونے پر اللہ کی تکبیرکرو کیونکہ
اس نے تمہیں ہدایت دی ہے۔‘‘ اور ماہ رمضان کی تکمیل ماہ رمضان کے آخری دن غروب آفتاب
سے ہوتا ہے۔
پھر امام شافعی نےفرمایا: جب وہ شوال کا چاند دیکھیں تو میں پسند کرتا
ہوں کہ لوگ جماعت کے ساتھ اور انفرادی طور پر مسجدوں، بازاروں، گلیوں اور گھروں میں
تکبیریں کہیں، چاہے سفر میں ہوں یا قیام میں ، ہر حال میں، وہ جہاں بھی ہوں، کہیں بھی۔
انہیں اونچی آواز میں تکبیر کہنا چاہئے اور عید گاہ جانے تک برابر تکبیر کہتے رہیں
۔اور عیدگاہ پہنچنے پر بھی تکبیر کہتے رہیں
یہاں تک کہ امام مصلی پر کھڑا ہوجائے ۔ اس وقت تکبیر کہنا بند کردیں گے۔
پھر انہوں نے سعید بن المسیب،
عروہ بن الزبیر، ابو سلمہ اور ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے روایت کیا ہے کہ وہ عید الفطر کی رات مسجد میں بلند آواز سے تکبیریں
پڑھتے تھے۔
عروہ بن زبیر اور ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ جب وہ صبح
کے وقت عیدگاہ کے لیے نکلتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے۔
نافع بن جبیر سے روایت ہے کہ عید کے دن جب وہ صبح کے وقت عیدگاہ کے لیے نکلتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ عیدالفطر کے دن سورج نکلنے کے
بعد جائے نماز کی طرف جاتے تھے اور تکبیر کہتے رہتے تھے یہاں تک کہ عید کے دن جائے نماز تک پہنچ جاتے
تھے، پھر جائے نماز میں تکبیر کہتے تھے یہاں تک کہ جب امام بیٹھ جاتا تو تکبیر کہنا چھوڑ دیتے تھے ۔(موقع الاسلام سؤال و جواب:متی یبدا التکبیر فی عید الفطر و متى
ینتھی)
عید الاضحی
عید الفطر کے برخلاف عید
الاضحی میں تکبیر مطلق اور مقید دونوں ہے ۔ تکبیر مقید فرض نمازوں کے بعد ہوگی
۔اور اس کا وقت عرفہ کے دن فجر کی نماز سے ایام تشریق کے آخری دن کے عصر کی نماز
تک ہے ۔اور تکبیر مطلق تمام اوقات میں ہے اور یہ کسی جگہ کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔اس
لیے بازاروں اور راستوں وغیرہ میں تکبیر کہی جائے گی ۔ اور اس کا وقت پہلی ذو
الحجہ سے تشریق کے آخری دن تک ہے کیونکہ اللہ تعالى کا فرمان ہے: لیشھدوا منافع
لھم و یذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات(حج/28) اور متعین دنوں سے دس دن مراد ہیں ۔
اور گنے چنے دنوں سے تشریق کے دن مراد ہیں ۔ اور ایام تشرق یوم عید الاضحی کے بعد
تین دن ہوتے ہیں ۔ قرطبی کا قول ہے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ معلومات دس دن ہیں اور معدودات ایام تشریق ہیں ۔ اور یہی جمہور
کا قول ہے ۔ (موقع الامام ابن باز: نور على
الدرب, صیغۃ التکبیر فی العیدین,موقع اسلام ویب:الفتوى, وقت ابتداء و انتھاء
التکبیر فی عیدى الفطر و الاضحى,نمبر 6594 , 9-1-2001ع)
اللہ تعالى سے دعا ہے کہ
مسلمانوں کو عیدین کے موقع پر زیادہ سے زیادہ تکبیر کہنے کی توفیق عطا کرے اور اس
سنت پر عمل کرنے والا بنائے ۔ آمین
0 التعليقات: