مسلمانوں کو آئینہ دکھاتی حدیث
drmannan.com/islahotaraqqi.com
حدیث:عن عبد الله بن عمر قال: اقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: يا مَعْشَرَ المهاجرينَ ! خِصالٌ خَمْسٌ إذا ابتُلِيتُمْ
بهِنَّ ، وأعوذُ باللهِ أن تُدْرِكُوهُنَّ : لم تَظْهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قَطُّ ؛
حتى يُعْلِنُوا بها ؛ إلا فَشَا فيهِمُ الطاعونُ والأوجاعُ التي لم تَكُنْ مَضَتْ
في أسلافِهِم الذين مَضَوْا، ولم يَنْقُصُوا المِكْيالَ والميزانَ إِلَّا أُخِذُوا
بالسِّنِينَ وشِدَّةِ المُؤْنَةِ ، وجَوْرِ السلطانِ عليهم، ولم يَمْنَعُوا زكاةَ
أموالِهم إلا مُنِعُوا القَطْرَ من السماءِ ، ولولا البهائمُ لم يُمْطَرُوا ، ولم
يَنْقُضُوا عهدَ اللهِ وعهدَ رسولِه إلا سَلَّطَ اللهُ عليهم عَدُوَّهم من غيرِهم
، فأَخَذوا بعضَ ما كان في أَيْدِيهِم ، وما لم تَحْكُمْ أئمتُهم بكتابِ اللهِ
عَزَّ وجَلَّ ويَتَخَيَّرُوا فيما أَنْزَلَ اللهُ إلا جعل اللهُ بأسَهم بينَهم".
تخریج:صحیح
الجامع/7978, علامہ البانی نے صحیح قرار
دیا ہے , ابن ماجہ/4019, المعجم الاوسط
للطبرانی/4671, الحاکم فی المستدرک/8623 معمولی اختلاف کے ساتھ۔
معانی
کلمات:
معشر:
ایک طرز کے لوگ, جماعت جس کے مشاغل و احوال ایک جیسے ہوں, مثلا: معشر الطلاب, معشر
الشباب, معشر التجار وغیرہ, اہل و عیال, رشتہ دار, دس دس, بولاجاتا ہے: جاء القوم
معشر یعنی لوگ دس دس آئے۔ج معاشر
خصال:
یہ خصلۃ کی جمع ہے , معنى عادت ہے اچھی
عادت ہو یا بری لیکن اس کا زیادہ تر استعمال اچھی عادت کے لیے ہوتا ہے, اور اس کا
ایک معنى گچھا بھی ہے کہا جاتا ہے: خصلۃ
عنب :عنقود یعنی انگور کا گچھا۔
الفاحشۃ:
یہ فاحش کا مؤنث ہے اور اس کی جمع فواحش ہے , فاحشۃ کا ایک معنى زنا ہے, اور فحش قول یا فعل وہ ہے جو نہایت قبیح و برا ہو , انتہائی مکروہ و گندا عمل جس سے لوگ سخت نفرت کرتے ہیں اور اس کا ذکر کرنا بھی برا سمجھتے ہیں۔ علماء کا کہنا ہے کہ فواحش سے زنا, لواطت ,
سحاق (عورت کا عورت کے ساتھ جنسی خواہش کی نکمیل)اور اس کے مثل تمام گندگیاں مراد
ہیں ۔(موقع اسلام ویب: تحریم الفواحش)
فشا:زیادہ ہونا, پھیل
جانا, منتشر ہونا
طاعون:اس
کی جمع طواعین ہے, یہ ایک بہت بری متعدی
بیماری ہے جس میں بہت تیز بخار
ہوتا ہے جو چوہوں سے انسان کو منتقل ہوتا ہے ۔انگلش میں پلیگ کہتے ہیں, عام وبا۔
اوجاع:
یہ وجع کی جمع ہے معنى بیماری و تکلیف, دکھ درد ہے ۔
السنين: قحط سالی, سوکھا
شدة
المؤونۃ: مہنگائی اور معاشی تنگی
جور
السلطان:حاکم کا ظلم
القطر: مصدر ,بارش , کسی بہنے والی
چیز کا قطرہ ج قطار
یتخیروا:اختیار
کرنا , چن لینا, انتخاب کرنا
بأس:دشمنی , عداوت , جنگ , مضائقہ , بہادری,
خوف و عذاب وغیرہ کے معنى میں آتا ہے یہاں
جنگ اور عداوت مراد ہے ۔ (موقع المعانی, موقع موسوعۃ الاحادیث النبویۃ: شرح حدیث خمس
اذا ابتلیتم ..., موقع اسلام ویب و مصباح
اللغات)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی
روایت ہے ان کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم ہماری
طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:"اے
مہاجرین کی جماعت! پانچ عادتیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤگے (تو تمہارے اوپر
مختلف قسم کا عذاب نازل ہوگا) ، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم ان
میں مبتلا ہو(وہ پانچ عادتیں یہ ہیں) پہلی
یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (
کھلم کھلا فسق و فجور اور زناکاری) ہونے
لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں
میں نہ تھیں، دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط،
معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں، تیسری یہ کہ جب لوگ
اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا
ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا،
چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ
تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے، جو ان کے پاس
موجود اموال و جائیداد میں سے کچھ حصہ چھین
لیتا ہے، پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں
کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں
پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے“۔
شرح:
یہ ایک مشہور روایت ہے جس میں نبی کریم نے
مہاجرین کے ذریعہ سے اپنی امت کو خبردار
کیا ہے اور اس کوزبر دست تنبیہ کی ہے کہ
اگر یہ بڑی برائیاں اور کبیرہ گناہ تمہارے اندر پیدا ہوتے ہیں تو اس کا انجام
بہت برا ہوگا کیونکہ اس دنیا میں بندوں کے اعمال کے اثرات مرتب ہوتے ہیں
اور ان کے نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔(موقع الدرر
السنیۃ:الموسوعۃ الحدیثیۃ, شرح حدیث یا معشر المھاجرین)
اور یہ حدیث دلیل ہے کہ قوموں میں بیماریوں
اور مصیبتوں کا ظہور ایک قسم کا عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ لوگوں پر اس وقت نازل کرتا
ہے جب ان میں فساد اور گناہ پھیل جاتے ہیں۔ اور مصائب وتکالیف کے ظاہری اسباب کے
علاوہ کچھ روحانی اور باطنی اسباب بھی ہوتے ہیں۔اگر عقائد واخلاق کی ان خرابیوں سے
پرہیز کیا جائے تو اللہ تعالی ظاہری اسباب کو تبدیل فرمادیتا ہے۔(موقع
اسلامک اردو بکس.کام: موسوعۃ القرآن و
الحدیث,شرح حدیث سنن ابن ماجہ/4019)
اس
حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت مہاجرین کو خطاب کرتے ہوئے پانچ کبیرہ گناہوں اور ان کے اثرات و نتائج کا
ذکر کیا ہے, آپ نے فرمایا: "اے مہاجرین
کے گروہ، پانچ خصلتیں ایسی ہیں کہ اگر تم ان میں مبتلا ہو" یعنی وہ عادتیں ظاہر اور عام ہو جاتی ہیں، تمہارے اندر پھیل
جاتی ہیں ۔ اور بلا شبہ ان پانچوں ممانعتوں
میں تا قیامت تمام مسلمان شامل ہیں۔
نبی
کریم نے یہاں پر خاص طور سے مہاجرین کو مخاطب کیا ہے تاکہ وہ اس
دعوت و تبلیغ کو غور سے سماعت فرمائیں , اس کا ان کے اوپر اثر ہو اور یہ ان کے
اندر راسخ ہوجائے۔ اور پھر یہ دیکھتے ہوئے
کہ آپ کے بعد مسلمانوں کی ذمہ داریاں وہی سنبھالیں گے لہذا وہ ان چیزوں پر دھیان
دیں اور مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھیں ۔
اور
اس حدیث میں برائیوں کے ارتکاب کو
ابتلاء(آزمائش , امتحان) سے تعبیر کیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ارتکاب کا
اثر و نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے اللہ کا غضب اور اس کی ناراضگی حاصل ہوتی
ہے, اور ان اثرات و نتائج کے پائے جانے سے ممکن ہے کہ لوگ برائیوں
سے دور رہیں ۔۔(موقع الدرر السنیۃ:الموسوعۃ الحدیثیۃ,
شرح حدیث یا معشر المھاجرین)
و
اعوذ باللہ ان تدرکوہن : یہ دعا کے قبیل سے ہے , آپ نے ان کے لیے برائیوں اور تباہیوں میں پڑنے سے
محفوظ رہنے کی دعا کی ہے ۔پھر آپ نے ان کودرج ذیل پانچ عادتوں و خصلتوں کے بارے میں بتایا:----
1-
جب کسی قوم میں بدکاری و زناکاری پھیل
جاتی ہے ,وہ خوب عام ہوجاتی ہیں , پھران کی تشہیر کی جاتی ہے اور اعلان کیا جاتا ہے تو اللہ تعالى ان کو بطور عذاب طاعون میں مبتلا کردیتا ہے جو ایک ایسی بیماری ہے
جس سے بہت زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں
۔اور بھی دوسری ایسی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں جن کا وجود سابقہ قوموں میں نہیں تھا ۔ یہ اس بات
کی دلیل ہے کہ یہ زنا اور فاحشہ کے پھیلنے کے جرم کی واضح اور یقینی علامت ہے۔۔(موقع
الدرر السنیۃ:الموسوعۃ الحدیثیۃ, شرح حدیث یا معشر المھاجرین)
اس دور میں یہ کوئی راز کی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا مشاہدہ ہم سب اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔
اسی وجہ سے موجودہ دور میں ایسی بیماریاں ظاہر ہوئیں جن کا اس سے پہلے وجود نہیں
تھا ۔ بے حیائی کے نتیجے میں آتشک اور سوزاک جیسی بیماریاں پیدا ہوئیں۔پھر ایڈز
اور ہیپاٹائٹس وغیرہ کی بیماریاں سامنے آگئیں۔اور ابھی چند سالوں پہلے کی بات ہے
کہ 2020ع میں کورونا جیسی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سارا نظام
درہم برہم ہوگیا ۔کوئی معاشرہ بے حیائی سے جتنا محفوظ ہے، اسی قدر اس میں یہ
بیماریاں کم ہیں۔
2-
اگر کوئی قوم کسی بھی وجہ سے ناپنے اور وزن کرنے میں کمی کرتی ہے ۔ اور ناپنے
ووزن کرنے میں کمی کا مطلب ہے کہ خرید و فروخت کے وقت ناپنے اور وزن کی جانے والی
چیزوں میں چوری کرنا تو اس کے نتیجہ میں
اللہ تعالى ان کو قحط, خشک سالی , پانی کی کمی , مہنگائی اور معاشی تنگی
میں مبتلا کرتا ہے اور ساتھ ہی ان کے
حکمراں ان پر ظلم کرتے ہیں ۔ کیونکہ اس سے دوسروں کا حق مارا جاتا ہے اس
لیے اس کی سزا بھی مالی نقصان اور قحط کی صورت میں ملتی ہے۔
3-
اگر کوئی قوم اپنے اموال کا زکاۃ ادا کرنے سے رک جاتی ہے تو آسمان سے بارش کا نزول
بھی رک جاتا ہے ۔ اور اگر جانور نہ ہوتے تو
آسمان سے بارش نہ ہوتی کیونکہ وہ
اس کے حقدار نہیں ہیں ۔ اور یہ ان کے اوپر اللہ کے شدید غیظ و غضب کی دلیل ہے
کیونکہ اس نے ان کو صرف جانوروں کی وجہ سے روزی دی گویا کہ یہ جانور اللہ کے نزدیک
ان سے افضل ہیں اگر وہ ان برے اعمال کو
انجام دیتے ہیں ۔
4-
اگر کوئی قوم اللہ و اس کے رسول کے عہد و
پیمان کو توڑ دیتی ہے یعنی ان عہدو پیمان کو پورا نہیں کرتی ہے جو اللہ و ان کے
رسول نے ان سے لیا ہے کہ وہ ہر اس عہد و
پیمان کو پورا کریں گے اور اس کی پابندی
کریں گے جو وہ کسی کے ساتھ انجام دیتے ہیں تو اللہ تعالى ان کے علاوہ سے ان پر دشمن مسلط
کردیتا ہے جو ان کے بعض اموال, جائیداد اور زمین پر قبضہ کر لیتا ہے ۔ (موقع
الدرر السنیۃ:الموسوعۃ الحدیثیۃ, شرح حدیث یا معشر المھاجرین)
بعض علماء کا کہنا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے
عہد سے مراد اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلموں کے جائز حقوق کا تحفظ ہے۔اس کے
علاوہ اسلام قبول کرنے والا اللہ کی عبادت اور اس کے رسول اللہﷺ کی اطاعت کا عہد
کرتا ہے۔اس عہد کی خلاف ورزی بھی قوم کو سزا کا مستحق بنا دیتی ہے۔(موقع
اسلامک اردو بکس.کام: موسوعۃ القرآن و
الحدیث,شرح حدیث سنن ابن ماجہ/4019)
5- اگر کسی قوم کے حکمراں قرآن کے مطابق حکومت نہیں کرتے ہیں اور اس کی نازل کردہ چیز کو اختیار نہیں کرتے
ہیں یعنی اگر حکمراں قرآن میں موجود تمام
چیزوں کے مطابق حکومت کرنے سے گریز کریں
یا اس میں سے کسی ایسی چیز کا انتخاب کریں جو ان کے مفاد میں ہو تو وہ اس کو نافذ کرتے ہیں اور اس کا حکم دیتے
ہیں اور اس کے باقی احکام کو نافذ نہیں
کرتے ہیں اور اس کو معطل کردیتے ہیں ۔گویا وہ ان کی طرح ہیں جو کتاب کے بعض حصہ پر ایمان
رکھتے ہیں اور اس کے بعض حصہ کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ تو اللہ تعالى ان کو ایک دوسرے کا
دشمن بنا دیتا ہے کیونکہ ان کا معاملہ
دنیاکے لیے ہوگیا اس لیے ان کے دلوں سے خیر کو نکال دیا گیا اور
ان کے اوپر اللہ رب العالمین کا عذاب نازل ہوا ۔(موقع
الدرر السنیۃ:الموسوعۃ الحدیثیۃ, شرح حدیث یا معشر المھاجرین)
اور یہ ایک یقینی امر ہے کہ شریعت پر عمل کرنے
سے اختلافات ختم ہوجاتے ہیں جس کے برعکس دنیوی مفاد کے لیے اللہ کے احکام کی خلاف
ورزی سے خود غرضی کی عادت پختہ ہوتی ہے اور ایثار اور ہمدردی کے جذبات ختم ہوجاتے
ہیں اس کے نتیجے میں معمولی بات پر اختلافات شدت اختیار کر لیتے ہیں۔(موقع
اسلامک اردو بکس.کام: موسوعۃ القرآن و
الحدیث,شرح حدیث سنن ابن ماجہ/4019)
واضح
رہے کہ یہ سزائیں ان گناہوں کے مرتکبین کے لیے صرف دنیا میں ہیں ۔ اب اگر وہ ان گناہوں سے باز نہیں آتے ہیں اور ان سے توبہ نہیں کرتے ہیں تو ان کے لیے آخرت کا عذاب بھی ہے ۔(موقع
الدرر السنیۃ:الموسوعۃ الحدیثیۃ, شرح حدیث یا معشر المھاجرین)
اس
مناسبت سے ذیل میں علامہ ابن قیم الجوزیہ
کی ایک بہترین تحریر کا ترجمہ پیش کیا جا
رہا ہے جس میں اعمال خیر و شر کے مطابق جزا و سزا کی بہترین وضاحت ہے ۔
علامہ
ابن القیم رحمہ اللہ کا قول ہے:--
علماء
کا کہنا ہے کہ کتاب و سنت نے سو سے زائد مقامات پر اس بات کی طرف رہنمائی کی ہے
کہ خیر و شر میں بدلہ عمل ہی کے جنس سے
ہوتا ہے جیسا کہ فرمان الہی ہے : جزاء وفاقا یعنی ان کے اعمال کے مطابق , اور یہ
شریعت و تقدیر دونوں سے ثابت ہے ۔
"عون المعبود مع حاشیۃ ابن القیم" (12/176)
اور بلا شبہ انسان جیسا عمل کرتا ہے ویسا ہی اس کو پھل ملتا ہے , جیسی کرنی ویسی
بھرنی بہت مشہور مثل ہے اور تقریبا
تمام ادیان و انسانوں میں یہ عقیدہ
و فکر موجود ہے ۔
اس
لیے فواحش کا ظہور اور ان کا اعلان کرنا یہ اللہ تعالى کی شان و مرتبہ پرمنحصر ہے کہ وہ ان جرائم کی ایسی سزا دے جس میں اس کی لذت کا
بدلہ ہو ۔
لوگوں
کا روزیوں میں ناپ تول میں کمی کرکے اور
وزن میں دھوکا دہی کرکے ایک دوسرے پر ظلم
کرنے کی جو سزا ہے وہ قحط سالی, بھکمری اور حاکم کا رعایا پر
ظلم کرنا ہے ۔
لوگوں
کا اپنی زکاۃ کو ادا نہ کرنا اور محتاجوں و ضرورتمندوں کو اس سے محروم رکھنا اس
جرم پر
لوگوں کو انہیں کے گناہ کے جنس سے سزا
دی جاتی ہے اس لیے ان کو بارش کی
نعمت سے محروم کردیا کیا جاتا ہے ۔
لوگوں
کا غداری کرنا اور عہد و پیمان کا توڑنا
اس پر ان کو اسی گناہ کے جنس سے سزا ملتی
ہے لہذا ان کے دشمن ان کے ساتھ
غداری سے پیش آتے ہیں اور ان پر حملہ کرتے ہیں ۔
اور
حکمرانوں کا شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرنا
وہ در اصل عدل و علم کو ختم کرنا اور جہالت و ظلم و جور کو پھیلانا ہے ۔
ابن
قیم نے یہ بھی لکھا ہے:
اللہ
تعالیٰ نے نیکوں اور بدکاروں کے اعمال کو اس دنیا میں ان کے اثرات کا لازمی تقاضا قرار دیا ہےیعنی جیسا عمل
ہوتا ہے اسی طرح اس کا اثر و نتیجہ ہوتا ہے :
اس
لیے احسان, زکاۃ اور صدقہ سے رک جانے کو آسمان سے بارش کے روکنے , قحط سالی اور
سوکھے کا سبب بتایا ہے ۔
اسی
طرح اس نے مساکین و فقراء پر ظلم
کرنے, ناپ و تول میں کمی کرنے اور زور آور کا کمزور پر زیادتی کرنے کو ان بادشاہوں اورحکمرانوں کی ناانصافی کا سبب بنایا جو رحم مانگنے پر رحم نہیں
کرتے اور شفقت مانگنے پر شفقت نہیں کرتے ۔ درحقیقت وہ رعایا کے اعمال ہیں، جو ان کے
ان جیسے حکمرانوں کی شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں!!
چنانچہ در حقیقت اللہ تعالى اپنی حکمت و عدل
سے لوگوں کے لیے ان کے اعمال کو ان کے
موافق شکلوں اور صورتوں میں ظاہر کرتا ہے , کبھی قحط اور خشک سالی سے , کبھی دشمن سے,
کبھی ظالم حکمرانوں سے, کبھی عام
بیماریوں سے, کبھی ان کے دلوں میں موجود پریشانیوں،
دردوں اور غموں سے جو ان سے کبھی جدا نہیں ہوتے ہیں , اور کبھی ان سے آسمان
و زمین کی برکتوں کو روک کرکے, اور کبھی شیاطین کو ان پر مسلط کرکے جو ان کو یقینی طور پر عذاب کے اسباب کی طرف لے
جاتے ہیں تاکہ وہ عذاب کے حقدار بن جائیں
, اور ان میں سے ہر ایک اپنے طبعی
انجام کو پہنچ جائے ۔
اور
عقلمندوہ ہے جو دنیا کے مختلف خطوں میں اپنی بصیرت کو عمل میں لاتا ہے، لہذا وہ اس کا مشاہدہ کرتا ہے اور اللہ کے انصاف اور حکمت کے مقامات کو دیکھتا ہے۔ پھر اس
پر واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اور ان کے پیروکار خاص طور پر نجات کے راستے پر ہیں، جب
کہ باقی مخلوق تباہی کے راستے پر ہے اور ہلاکت و بربادی کے گھر کی طرف جا رہی ہے۔اللہ اپنے حکم کو نافذ کرنے والا ہے ، اس کے فیصلہ کو
کوئی مؤخر کرنے والا نہیں ہے اور نہ اس کے حکم کو کوئی پلٹنے والا ہے ۔اور کامیابی
کا عطا کرنے والا اللہ ہے۔ ("زاد المعاد"
(4/333-334) ۔
فوائد
و مسائل:
حدیث
میں گناہوں سے ڈرایا گیا ہے اور اس پر تنبیہ کی گئی ہے کیونکہ یہ
لوگوں کی آزمائش اور عذاب کا سبب
ہوتا ہے ۔اور ہر گناہ کی سزا اسی کے جنس سے ہوتی ہے ۔
یہ
آپ کی نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ۔ (موقع
الدرر السنیۃ:الموسوعۃ الحدیثیۃ, شرح حدیث یا معشر المھاجرین)
یہ
آپ کی نبوت کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے ، کیونکہ آپ کا قول بالکل سچ ثابت ہوا
ہے اور آج کے دور میں وہی کچھ واقع ہوا ہے جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں
۔( موقع موسوعۃ الاحادیث النبویۃ: شرح حدیث خمس اذا
ابتلیتم ...,)
معاشی
آسودگی اور اقتصادی ترقی کے لیے ملک میں دیانت داری کا چلن ضروری ہے۔
عہدوں
اور معاہدوں کی خیانت دشمنوں کے تسلط و
غلبہ کا سبب ہے۔
اللہ
کی کتاب کے مطابق حکومت نہ کرنا مسلمانوں کے درمیان دشمنی و نااتفاقی کا باعث ہے۔
دوسروں
پر رحم کرنے والے پر اللہ تعالی رحم کرتا ہے۔اس کے برعکس دوسروں کو تکلیف پہنچانے
والا,ان کی مدد نہ کرنے والا اور ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے والا اللہ
کے رحم کا مستحق نہیں رہتا۔
مسلمان ممالک کی قومی صحت کی حفاظت کے لیے ہر ملک سے فحاشی کے تمام ذرائع مثلاً فحش
لٹریچر، ساز، رقص، فلمیں، مرد وعورت کا اختلاط، ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ کے بے ہودہ
پروگرام وغیرہ کا سدباب ضروری ہے۔
پانی
کی قلت موجودہ دور کا ایک اہم مسئلہ بنتا جارہا ہے۔اگر زکاۃ کے نظام کوصحیح
بنیادوں پر قائم کرکے اسے شریعت کے مطابق چلایا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
مسلمان
ممالک کے دفاع کی مضبوطی کے لیےعقیدہ
توحید کی توضیح و تبلیغ اور توحید کے صحیح تصور کو پختہ کرنا چاہیے۔تب اللہ کی وہ
مدد آئے گی جس کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے۔فرقہ، پارٹی، علاقے، زبان اور قبیلے کی
بنیاد پر انتشار دور حاضر کا بہت بڑا المیہ ہے۔اس کا علاج ہر سطح پر شریعت کا مکمل
نفاذ ہے۔(موقع اسلامک اردو بکس.کام: موسوعۃ القرآن و الحدیث,شرح حدیث سنن ابن ماجہ/4019)
دور حاضر کے مسلمان اور یہ حدیث : یہ
حدیث دور حاضر کے مسلمانوں کو آئینہ دکھاتی ہے , ان کو حقیقت حال سے باخبر کرتی
ہے, ان کو بے نقاب کرتی ہے, یہ حدیث آج کے مسلمانوں کے لیے ایک حقیقی آئینہ ہے جس میں ان کو اپنا
چہرہ دیکھنا چائیے جس سے ان کو اپنی حقیقت
کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا , یہ ایک حقیقی معیار و پیمانہ ہے جس کی روشنی میں مسلمانوں کو اپنا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ وہ
خواب غفلت سے بیدار ہوں ۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ آج ہماری جو بری حالت ہے
وہ ہمارے گناہوں اور کرتوتوں کا نتیجہ ہے ۔ اس حدیث پر بہت زیادہ تعلیق و تبصرہ کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔ اس میں مذکور
کون سی ایسی برائی یا گناہ ہے جو آج کے
مسلمانوں میں بکثرت موجود نہیں ہے اور جس
کا حدیث میں بیان کردہ نتیجہ بھی ہمارے
سامنے واضح نہیں ہے ۔امت اگر اپنا فائدہ
چاہتی ہے اور حالات میں مثبت تبدیلی کی خواہاں ہے تو اسے اپنی روش بدلنی ہوگی اور
ان برائیوں کے حصار سے باہر آنا ہوگا۔
اللہ
تعالى ان تمام برائیوں اور ان کے بد اثرات و نتائج سے پوری امت مسلمہ کی حفاظت
فرمائے ۔آمین و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ
رب العالمین ۔
0 التعليقات: