زکاۃ یا صدقۃ الفطر :حکمت و علت اور مقدارو وقت

 

زکاۃ  یا صدقۃ الفطر :حکمت و علت اور مقدارو  وقت  

ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق مکی

سابق پروفیسر ام القری یونیورسٹی  و مترجم فوری حرم مکی شریف , مکہ مکرمہ

سکریٹری  اصلاح و ترقی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی , علی گڑھ

www.drmannan.com/www.islahotaraqqi.com

حدیث میں آیا ہے : عن ابن عباس  قال: فرض رسول اللہ زکاۃ الفطر طھرۃ للصائم من اللغو و الرفث , و طعمۃ للمساکین , من اداھا قبل الصلاۃ فھی زکاۃ مقبولۃ , ومن اداھا بعد الصلاۃ فھی صدقۃ من الصدقات (بخاری و مسلم)

اس حدیث میں فرضیت صدقہ فطر کی علت و حکمت بتائی گئی ہے اور اس کے نکالنے کے وقت کی تحدید کی گئی ہے  لہذا پہلے ہم اس کو جانتے ہیں اس کے بعد اس کے دیگر ضروری مسائل  جیسے وجوب, اس کے  شروط وقیمت میں ادائیگی  وغیرہ  کا ذکر کیا جائے گا۔

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر)فطرانہروزہ دار کی بیہودہ باتوں   اور فحش گوئی سے روزہ کو پاک کرنے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے فرض  کیا ہے۔ جس نے  اسے نماز ادا کرنے سے پہلے ادا کیا  تو  وہ مقبول  زکاۃ ہے اورجس نے اسے  نماز کے بعد ادا کیا  تو یہ صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔

تخریج:  اس روایت کو  أبوداود نے ، الزكاة، باب زكاة الفطر، حديث:1609، ابن ماجہ نے ، الزكاة، حديث:1827، اور حاکم نے:1 /409  میں روایت کیا ہے ۔

 معانی کلمات:

طھرۃ: ط پر ضمہ ہے , معنى ہے   پاکی , پانی سے نہانا, مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، معنی ہے: روزے دار کے نفس کی پاکی  کے لیے۔

لغو:  یہ لغا سے  مصدر ہے, بے فائدہ بیہودہ  اور بے کار بات , لغو کا تعلق زبان و قول سے ہوتا ہے، دل سے نہیں۔

رفث: مصدر ہے , گندی و فحش گفتگو ,  جماع , ہمبستری

طعمۃ: ط پر ضمہ ,  ہر کھائی جانے والی چیز, روزی, کھانا, اس کا عطف طھرۃ کے لفظ پر ہے ۔(موقع المعانی , مصباح اللغات  و موقع موسوعۃ القرآن و الحدیث)

شرح: یہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے جس میں دو چیزوں کا بیان ہے ۔ ایک زکاۃ الفطر کو فرض کرنے کی علت و حکمت بتائی گئی ہے  اور دوسرااس کے نکالنے کے وقت کی تحدید و تعیین کی گئی ہے ۔

فرضیت کی حکمت:

زکاۃ الفطر کو  سن 2/ھ میں فرض کیا  گیا اور یہ وہی سال ہے جس سال رمضان کا روزہ فرض کیا گیا۔  اس کے اور زکاۃ کے درمیان فرق یہ ہے کہ یہ افراد پر فرض ہے جب کہ زکاۃ اموال پر فرض ہے ۔ اسی وجہ سے اس میں وہ شروط نہیں پائی جاتی ہیں جو زکاۃ  میں پائی جاتی ہیں جیسے نصاب اور سال کا پورا ہونا وغیرہ ۔ اس کے علاوہ اور بھی روایتیں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر فرض ہے۔(موقع اسلام ویب: احکام زکاۃ الفطر  و موقع الجزیرۃ: مدونات, زکاۃ الفطر ...احکامھا الفقھیۃ و مقاصدھا الشرعیۃ: دز خالد حنفی) )

  بلا شبہ زکاۃ الفطر ایک ایسی عبادت ہے جس کو فرض کرکے اللہ نے ہم مسلمانوں پر بڑا فضل و کرم و احسان کیا ہے ۔ کیونکہ بتقاضائے بشریت روزہ دار سے روزہ کے دوران بہت ساری غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ۔کبھی وہ لغو و بیکار باتیں کرتا ہے, گاہے بگاہے فحش گوئی کا شکار ہوجاتا ہے یا کوئی اور غلطی ہوجاتی ہے جس سے روزہ میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ لہذا اسی کمی اور نقصان کو پورا کرنے اور روزہ کو اس سے پاک کرنے کے لیے اللہ نے صدقۃ الفطر کو فرض قرار دیا ہے ۔بعض اہل علم کا کہنا ہے  کہ زکاۃ الفطر کی  روزہ کے لیے وہی حیثیت ہے جو  نماز کے لیے سجدہ سہو کی ہے  , یہ روزہ کی کمی کو پورا کرتا ہےجس طرح سجدہ سہو نماز کی کمی کو پورا کرتا ہے ۔(موقع اسلام ویب: احکام زکاۃ الفطر)۔ یہ اس کے فرض کرنے  کی پہلی وجہ ہے ۔

اس کے فرض کرنے کی دوسری وجہ یہ ہےکہ مالدار مسلمان عید  کی خوشیوں میں مشغول  و مگن ہوکر اپنے غریب بھائیوں کو بھول نہ جائیں بلکہ خصوصی طور پر اس دن ان کا بھی  خیال رکھیں ۔ تاکہ   غریب و نادار مسلمان اس انتہائی  خوشی کے  دن  بھی  روزی روٹی کے انتظام  کی جھنجھٹ میں نہ پڑےبلکہ  اس دن کی  خوشیوں میں ہنسی خوشی  سے  شریک ہو , نفسیاتی سکون و اطمینان اس کو حاصل ہو اور اس کا چہرہ ہشاش بشاش ہو  ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا  اسلام دین رحمت ہے اور یہ ہرکسی کے ساتھ رحم کرنے کی تعلیم دیتا ہے  اور خوشی میں  دوسروں کو بھی شریک کرتا ہے ۔

علماء کرام کا کہنا ہے  کہ حدیث میں مساکین کا بالخصوص ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ صدقۂ فطر صرف انہیں  کا مخصوص استحقاق ہےاور صرف وہی اس کے حقدار ہیں ۔اور ایک قول یہ بھی ہے کہ صدقۂ فطر کا مصرف وہی جگہیں ہیں جو زکاۃ کے مصارف ہیں۔ بعض اصناف کا نص میں ذکر اس کی تخصیص کو مستلزم نہیں ہے جیسا کہ زکاۃ کے مسئلے میں بھی واقع ہوا ہے۔ (موقع موسوعۃ القرآن و الحدیث: شرح حدیث  بلوغ المرام , مولانا صفی الرحمن مبارکپوری) صدقہ فطر صرف اور صرف فقراء و مساکین کو دیا جائے گا ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے یہی اختیار کیا ہے۔اور صدقہ فطر  ان کو دینا جائز نہیں ہے جن  کا نفقہ و کفالت نکالنے والے پر  واجب ہوتا ہے ۔ اور صدقہ فطر ایک مسکین کو یا کئی مسکینوں کو دینا جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ اسے ان غریب رشتہ داروں کو ادا کیا جائے جن کے اخراجات زکوٰۃ دینے والے پر واجب نہیں ہیں۔((موقع اسلام ویب: احکام زکاۃ الفطر)

صدقۃ الفطر نکالنے کا وقت: اس کے نکالنے کا سب سے افضل وقت عید کے دن  نماز فجر کے بعد سے  عید کی نماز سے پہلے  تک ہے ۔ عید سے ایک دو دن پہلے بھی اس کا نکالنا جائز ہے جیسا کہ بعض صحابہ کرام کا اس پر عمل رہا ہے ۔ حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:صحابہ کرام عید سے ایک دو دن پہلے ہی صدقہ فطر ادا کر دیا کرتے تھے۔“ (صحیح البخاري، الزکاۃ، باب صدقۃ  الفطر علی الحر والمملوک، حدیث: 1511)

اور اگر کوئی عید کی نماز سے پہلے فطرانہ  نہیں نکالتا ہے اور عید کی نماز کے بعد نکالتا ہے تو  زکاۃ فطر نہیں ادا ہوگی بلکہ یہ ایک عام صدقہ ہوگا اور آدمی فریضے کا تارک ہی رہے گا۔ لہذا ہر مسلمان شخص کو نماز عید سے پہلے فطرانہ ضرور نکال دینا چائیے۔ اگر صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا نہ کیا جا سکے تو بعد میں ادا کر دینا چاہیے اس سے اگر صدقہ فطر کا خاص ثواب تو نہیں ملے گا تاہم عام صدقے کا ثواب مل جائے گا اور اس طرح اس محرومی کی کسی حد تک تلافی ہو جائے گی۔(موقع: موسوعۃ القرآن و الحدیث:سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1827)

اگر تاخیر کسی عذر کی وجہ سے ہو مثلاً عید ایسی جگہ پڑ جائے جہاں اس کے پاس ادا کرنے کے لیے کچھ نہ ہو یا کوئی اسے ادا کرے یا عید کی خبر اچانک ایسی آئے کہ نماز سے پہلے ادا نہ کر سکے یا کسی پر بھروسہ کر رہا ہو اور وہ ادا کرنا بھول جائے تو ایسی صورت میں عید کے بعد بھی ادا کر سکتا ہے۔ کیونکہ وہ ان تمام حالات میں معذور  ہے۔(موقع اسلام ویب: احکام زکاۃ الفطر)

فوائد و مسائل:

صدقہ فطر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ غریب اور مسکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو جائیں۔
مسلمان اپنی خوشی میں دوسرے مسلمانوں کو بھی شریک کرتا ہے۔

صدقہ فطر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ روزے کے آداب میں ہو جانے والی کمی اور کوتاہی معاف فرما دیتا ہے۔

نماز عید سے پہلے صدقہ فطر کی ادائیگی کا آخری وقت ہے۔

عید کے دن سے پہلے ادا کر دینا بھی درست ہے۔ (موقع: موسوعۃ القرآن و الحدیث:سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1827)   

   زکاۃ الفطر کے بعض دیگر  ضروری مسائل:

انتہائی مناسب اور موزوں ہے کہ اب یہاں زکاۃ الفطر سے جڑے ہوئے بعض دیگر اہم مسائل کا ذکر کردیا جائے تاکہ موضوع مکمل ہوجائے اور قارئین اس سے مستفید ہوں ۔

زکاۃ الفطر کا حکم :

صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے، مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا،چھوٹا ہو یا بڑا ,  عاقل ہو یا دیوانہ، آزاد ہو یا غلام ۔اس کی دلیل  حضرت  ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :فرض رسول اللہ زکاۃ الفطر من رمضان صاعا من تمر او صاعا من شعیر على العبد و الحر , والذکر و الانثى و الصغیر و الکبیر من المسلمین(بخاری و مسلم) یعنی رسول اللہ نے   رمضان کا صدقہ فطر مسلمانوں میں سے ہر غلام و آزاد, مرد و عورت, اور چھوٹے و بڑے پر ایک صاع کجھور یا ایک صاع جو کا فرض کیا ہے ۔ اہل علم کا اس پر اجماع ہے ۔ ۔(موقع اسلام ویب: احکام زکاۃ الفطر)

شروط وجوب:

اس کے واجب ہونے کے لیے دو شرطوں کا پایا جانا  ضروری ہے :

- اسلام: کافر پر صدقہ فطر  نہیں ہے۔

-آدمی کی  زکاۃ فطر ادا کرنے  کی صلاحیت و قدرت :یہ اس پر واجب ہے جس کے پاس عید کی دن و رات کے لیے اس کی اپنی خوراک اور اس کے اہل خانہ کی خوراک سے زائد مقدار اس کے پاس موجود ہے, اسی طرح  جن کی کفالت و ان کی بنیادی ضرورت جیسے کھانا, پینا, رہائش اور لباس وغیرہ  اس کے ذمہ ہے   ان کی بھی ایک دن کی خوراک سے زائد مقدار اس کے پاس موجود ہے ۔

اور والد پر اپنے چھوٹے بیٹے کی طرف سے اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو زکاۃ فطر نکالنا واجب ہے , لیکن اگر وہ صاحب مال ہے تو  اسی کے مال سے زکاۃ فطر واجب ہے اور صحیح مسلک کے مطابق باپ کے مال میں واجب نہیں ہے ۔

اور جمہور علماء کا کہنا ہے کہ باپ پر ہر اس فرد کا صدقہ فطر نکالنا لازم  ہے جس کا نفقہ اس پر واجب ہے , مثلا: بیوی , والدین۔ اس کی دلیل عبد اللہ بن عمر کی مرفوع روایت ہے: امر رسول اللہ بصدقۃ الفطر عن الصغیر و الکبیر و الحر و العبد ممن تمونون (دار قطنی 2/141 و بیہقی/7935, امام البانی نے ارواء الغلیل میں حسن قرار دیا ہے) یعنی رسول اللہ نے چھوٹے و  بڑے , آزاد و غلام جن کی تم کفالت کرتے ہو ان کا صدقہ فطر نکالنے کا حکم دیا ہے ۔

صحیح قول یہ ہے کہ صدقہ فطر خود بیوی پر واجب ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی بنا پر: ’’ و لا تزر وازرۃ وزر اخرى (فاطر/18) اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘۔ یہی بات والدین پر بھی لاگو ہوتی ہے اگر ان سب کے پاس مال و دولت ہے ۔اسی طرح علماء کے راجح قول کے مطابق قرض زکاۃ فطر کے واجب ہونے میں رکاوٹ نہیں ہے ۔  ۔(موقع اسلام ویب: احکام زکاۃ الفطر)

یہ کب واجب الادا ہے؟

عید الفطر کی رات کا سورج غروب ہوتے ہی زکاۃ الفطر واجب ہوجاتی ہے, اب اگر اس وقت کسی پر زکاۃ واجب ہے تو اس پر واجب ہوگی ورنہ نہیں, اس لیے اگر کسی کا انتقال سورج غروب ہونے سے چند منٹ پہلے ہوجاتا ہے تو اس کے اوپر واجب نہیں ہے ۔ لیکن اگر کسی کا انتقال سورج غروب ہونے کے چند منٹوں بعد ہوتا ہے تو اس کے اوپر زکاۃ فطر نکالنا واجب ہے, اور جو غروب کے بعد اسلام لائے اس کے اوپر فطرانہ نہیں ہے, اسی طرح جو بچہ غروب کے بعد پیدا ہوا ہے اس کے اوپر بھی فطرانہ نہیں ہے, لیکن اس کی طرف سے نکالنا مسنون ہے ۔ اس کے برخلاف اگر کسی کی ولادت غروب سے پہلے ہوتی ہے تو اس کی طرف سے نکالنا واجب ہے ۔(موقع اسلام ویب: احکام زکاۃ الفطر)

غلہ کی قسم:

اناج کی کون سی قسم فطرانہ میں ادا کی جائے گی اور کس قسم سے فطرانہ دینا واجب ہے تو اس کے بارے میں علماء کا کہنا ہے کہ فطرانہ ہر اس غلہ سے نکالنا جائز ہے جو عموما کسی علاقہ کے لوگوں کی غذا و خوراک ہے ۔ اس کی دلیل حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے جو اوپر گذر چکی ہے ۔ اور جو یقینا اس زمانہ کے لوگوں کا خوراک تھا جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ ہم لوگ زمانہ رسالت میں عید الفطر کے دن اپنے کھانے کا ایک صاع نکالتے تھے, اور ہم لوگوں کی غذا جو, کشمش , پنیر اور کجھور تھا۔(بخاری)

زکاۃ الفطر کی مقدار :

زکاۃ الفطر کی مقدار مذکورہ بالا اقسام  اناج یا اس کے علاوہ سے ایک صاع ہے ۔ اور ایک صاع نبوی چار مد کے برابر ہوتا ہے,  اور جہاں تک وزن کے حساب سے اس کے تخمینے کا تعلق ہے، تو یہ مکیل یعنی ناپے گئے  غلہ  کی قسم کے حساب سے مختلف ہوتا ہے۔

لہذا، اسے کلوگرام میں حساب  کرنے میں اختلاف ہے, کچھ نے اس کا تخمینہ 2040 /گرام لگایا۔اور کچھ نے اس کا تخمینہ 2176 /گرام لگایا۔ اور  کچھ نے اس کا تخمینہ 2751 /گرام لگایا ہے۔ اور سعودی عرب کی مستقل فتویٰ کمیٹی نے اس کا تخمینہ تقریباً تین کلو گرام لگایا ہے، جس کی طرف ہمارا رجحان اور انتخاب ہے۔ اللہ  ہی بہتر جانتا ہے۔(موقع اسلام ویب: الفتوی, الصاع النبوی بالرطل وبالکیلو, 26376,23-12-2002ع) گیہوں کا ایک صاع 2/کلو 40/غرام ہوتا ہے ۔افضل یہی ہے کہ کم ازکم ڈھائی کلو اناج نکالے ۔ 

کیا قیمت نکالنا جائز ہے :

اکثر علماء کے نزدیک صدقہ فطر غلہ ہی سے نکالا جائے گا ۔ قیمت میں ادا کرنا جائز نہیں ہے لیکن بعض نے قیمت میں نکالنا جائز قرار دیا ہے ۔ اس لیےاس کی قیمت کے برابر  نقد سے بھی نکال سکتے ہیں ۔(تفصیل کے لیے دیکھیے: موقع اسلام ویب: الفتوی, تفصیل کلام أہل العلم فی اخراج القیمۃ  فی الزکاۃ, 140294, 29-9-2010ع)

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ پوری دنیا کے تمام مسلمانوں کو اس فریضہ کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: