احتساب نفس (خطبہ حرم)



بسم الله الرحمن الرحيم

مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ

بتاریخ: 21-9-1435ھ / 18-7-2014ع

خطبہ وتحریر:عالی جناب ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید
امام وخطیب مسجد حرام وسابق صدر مجلس شوری،سعودی عرب


ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ


احتساب نفس
          پہلاخطبہ
          سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے پیدا کیا، عدم سے وجود بخشا اور جو ہر چیز کا موجد وخالق ہے۔”اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے،جو کچھ زمین میں ہے،جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اور جو کچھ مٹی کے نیچے ہے“(طہ:۶)۔میں اس کی تعریف کرتا ہوں،وہ پاک ہے اور میں اس کا شکر گزار ہوں ان نعمتوں پر جو لگاتار جاری ہیں اور ان بخششوں پر جو یکے بعد دیگرے مل رہی ہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔شک وشبہ سے خالی یہ گواہی حق ویقین کی گواہی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جن کو دین برحق کے ساتھ بھیجا گیا اور یہ دین برحق کوئی گھڑی ہوئی بات نہیں ہے۔اللہ کی رحمت اور برکت نازل ہو آپ پر،آپ کے خاندان پر،آپ کے صحابیوں پر جو مخلوق کے سردار اور نہایت جری اور بہادر تھے،تابعین پر اور ہر اس شخص پر جو اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کرے اور آپ پر بہت بہت اور کثرت سے سلامتی ہو۔
       امابعد:اے لوگو!میں آپ سب کو اور اپنی ذات کو اللہ سے ڈرنے اور خوف کھانے کی نصیحت کرتا ہوں۔لہذا للہ سے ڈرو۔اللہ آپ سب پر رحم فرمائے۔یاد رکھو!بندہ مطلوب ہے،عمل لکھا ہوا ہے اور سورج ڈوبنے کے قریب ہے لہذا گناہوں سے دور رہو اور دلوں کی سختی سے بچو۔یقیناً تم یہاں بے کار پیدا نہیں کیے گئے ہواور نہ بے کار میں چھوڑے جاؤ گے۔دنیا کی تخلیق تمھارے لیے ہوئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔آخرت میں صرف دو چیزیں ہیں:جنت یاجہنم۔موت کے بعد اللہ کی رضامندی طلب کرنے کاکوئی موقع نہیں۔فرمان الٰہی ہے:”جس دن ہر شخص اپنی کی ہوئی نیکیوں اور برائیوں کو اپنے سامنے موجود پائے گاتو آرزو کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کی برائیوں کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی۔اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔“(آل عمران:۳۰(
       اے مسلمانوں کی جماعت!اللہ تعالیٰ ہمارے اور آپ کے روزوں،شب بیداری اور دوسری تمام طاعتوں اور قربتوں کو قبول فرمائے۔دیکھو!یہ معزز مہینہ اپنے فضائل،خصوصیات،فرحتوں اور طاعات کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے بلکہ تم اس کے آخری عشرے میں ہو جو اس ماہ کے سب سے افضل روز وشب پر مشتمل ہے۔یہ اس ماہ کے آخری دس دن ہیں۔تمھیں علم ہونا چاہئے کہ تمھارے نبی محمدﷺ ان آخری دس دنوں میں اور زیادہ اطاعت،عبادت اور محنت کیا کرتے تھے،رات کو نہ صرف خود بیدار رہتے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے تھے۔لہذا اے لوگو!تم بھی محنت کرو،مشقت اٹھاؤ،زیادہ سے زیادہ عمل کرو اور خوش ہوجاؤ،امید رکھو،اپنے رب کی عطایا کے درپے ہو،اور اطاعت میں خود پسندی اور غرور وتکبر سے بچو۔اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جس نے غوروفکر کیا اور نصیحت حاصل کی،جس نے سوچا تو عبرت پکڑی اور اپنے نفس کو خواہشات سے بازرکھا۔
       اے روزہ دار اور شب بیدار بھائیو!آئیے مزید احتساب نفس،علوہمت اور عزیمت پر عمل کرنے کے لیے قرآن کریم کی ایک آیت پر غور وفکر کرتے ہیں۔بلاشبہ یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہے۔قرآن میں ایک آیت ایسی ہے جو سخت دلوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے اور غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو بیدار کردیتی ہے۔یہ آیت غوروفکر کی متقاضی ہے اور سوچ بچار کی طرف دعوت دیتی ہے۔یہ قرآن کی ایسی آیت ہے جس سے متقیوں کے بال سفید ہوگئے،اولیاء کے دل خوف زدہ ہوگئے،ڈرنے والوں کے آنسو رواں ہوگئے،خوف کھانے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔تمام خوبی اور کمال اللہ کے لیے ہے،ان کا تدبر قرآن کتنا عظیم تھا،وہ اس کی نصیحتوں سے کس قدر متاثر ہوتے تھے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے وہ کتنی شدت کے ساتھ باز رہنے والے تھے۔وہ آیت یہ ہے:
       ان کے لیے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوا جس کا انھیں وہم وگمان بھی نہیں تھا۔“(الزمر:۴۷(
       حضرات!ہمارے اسلاف اس آیت سے بہت زیادہ ڈرتے تھے۔مثال کے طور پر محمد بن منکدر رحمہ اللہ کو لیجیے۔جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو وہ بہت زیادہ گھبراگئے۔لوگوں نے ابوحازم رحمہ اللہ کو بلایا تاکہ وہ ان کی گھبراہٹ کچھ کم کردیں۔لیکن جب وہ آئے تو ابن منکدر نے ان سے کہا:اللہ کا فرمان ہے:”ان کے لیے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوا جس کا انھیں وہم وگمان بھی نہیں تھا۔“(الزمر:۴۷)مجھے خوف ہے کہ کہیں میرے لیے بھی اللہ کی طرف سے کوئی ایسی چیز ظاہر نہ ہو جس کا مجھے گمان بھی نہیں ہے۔یہ سن کر دونوں رونے لگے۔یہ منظر دیکھ کر ابن منکدر کے گھر والوں نے ابوحازم سے کہا کہ ہم نے آپ کو ان کی گھبراہٹ کم کرنے کے لیے بلایا تھا لیکن آپ نے تو ان کی گھبراہٹ میں اضافہ کردیا۔
       ایک مرتبہ سلیمان تیمی سے کہاگیا کہ آپ تو آپ ہیں،آپ جیسا بھلا کون ہے؟یہ سن کر انھوں نے کہا:زبان بند رکھو،ایسا مت کہو کیوں کہ مجھے خود نہیں معلوم کہ میرے لیے اللہ کی طرف سے کیا ظاہر ہوگا کیوں کہ فرمان الٰہی ہے:”ان کے لیے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوا جس کا انھیں وہم وگمان بھی نہیں تھا۔“(الزمر:۴۷(
       حضرت سفیان سے مروی ہے کہ انھوں نے یہ آیت پڑھی اور فرمایاکہ ریاء ونمو د والوں کے لیے تباہی وبربادی ہے،دکھاوا کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔یہ آیت انھیں کے بارے میں ہے اوریہ انھیں کا قصہ ہے۔حضرت مقاتل نے فرمایا:قبروں سے اٹھائے جانے کے وقت ان کے لیے وہ چیزیں ظاہر ہوئیں جن کے بارے میں دنیا کے اندر ان کو خیال بھی نہیں تھا کہ وہ آخرت میں ان پر نازل ہوں گی۔
       سدی کا کہنا ہے کہ ان کے گمان کے مطابق ان کے اعمال نیک تھے لیکن وہ برائیوں کی شکل میں ظاہر ہوئے۔
       علماء نے اس آیت ”ان کے لیے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوا جس کا انھیں وہم وگمان بھی نہیں تھا۔“(الزمر:۴۷)کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے بہت سارے نیک کام کیے لیکن ساتھ ہی انھوں نے ظلم بھی کیا تھا اور ان کا خیال تھا کہ ان کے نیک اعمال سے ان کی نجات ہوجائے گی لیکن حساب کے دن ان کے لیے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوا جس کی انھیں کوئی امید نہیں تھی۔
       ابن عطیہ نے لکھا ہے کہ دنیا میں ان کے خیالات،ان کے عقیدہ کی گمراہی اور افکار کے حساب سے جداجدا تھے۔جب وہ قیامت کے دن عذاب کو دیکھیں گے اور ان کے احوال ان کا ساتھ نہیں دیں گے تو ہر ایک کے لیے وہ ظاہر ہوگا جس کی اسے امید نہیں تھی۔
       اللہ تم پر رحم فرمائے!ذرا یاد کرو اس حدیث کو جس میں اس مفلس کا بیان ہے جو پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئے گا لیکن ساتھ ہی اس نے کسی کو مارا ہوگا،کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی کا مال ہڑپ کیا ہوگا،وہ اپنے ساتھ ان گناہوں کو بھی لے کر حاضر ہوگا۔
       بعض سلف کا کہنا ہے کہ قیامت کے دن رسوائی کے کتنے ایسے مواقع آئیں گے جو تمھارے دل میں کبھی کھٹکے بھی نہ ہوں گے۔اللہ کا ارشاد ہے:”اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا،ہم نے وہ پردہ ہٹادیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا۔“(ق:۲۲(
       اللہ کے بندو!تمھارا کیا خیال ہے اس انسان کے بارے میں جس نے اپنے گمان کے مطابق بہت سے نیک کام کیے اور اپنے کیے ہوئے گناہوں کو بھول گیا اور ان کی کوئی پرواہ نہیں کی لہذا اس کے لیے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوا جس کی اسے امید نہیں تھی۔
       ابوحذیفہ کے غلام سالم کی مرفوع حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایسے لوگ آئیں گے جن کے ساتھ تہامہ پہاڑوں کے برابر نیکیاں ہوں گی یہاں تک کہ جب ان کو اللہ کے سامنے حاضر کیا جائے گا تو وہ ان کے اعمال کو برباد کردے گا اور پھر انھیں جہنم میں دھکیل دے گا۔پھر حضرت سالم گویا ہوئے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میں بھی انھیں میں سے نہ ہوں۔پھر مزید فرمایا کہ سنو! وہ روزہ دار اور نمازی تھے،راتوں کو کم سوتے تھے لیکن جب کبھی انھیں حرام کام کرنے کا موقع ملتا تھا تو کر گزرتے تھے۔اسی لیے اللہ نے ان کے اعمال برباد کردیے۔
       برادران اسلام!اے روزہ دار مردو اور عورتو!تنہائیوں کے گناہوں سے دور رہو۔سنن ابن ماجہ میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:میری امت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو پہاڑ جیسے اعمال لے کر آئیں گے لیکن اللہ ان کو ضائع کردے گا۔اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ لوگ تمھاری ہی نسل کے ہوں گے،تمھاری زبان میں بات کریں گے،راتوں کو اسی قدر عبادت کریں گے جس قدر تم کرتے ہولیکن جب وہ تنہائی میں ہوں گے تو اللہ کی حرمتوں کو پامال کریں گے۔
       اے لوگو!کبروغرور اور تمناؤں سے بچو،گناہوں کی رسی دراز نہ کرو،گناہوں کو حقیر مت سمجھواورگناہوں کو چھوٹا مت جانو۔ارشاد الٰہی ہے:”اور تم لوگ اس کو معمولی سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی تھی۔“(نور:۱۵(
       انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ تم لوگ ایسا کام کرتے ہو جو تمھاری نگاہوں میں بال سے زیادہ باریک ہے لیکن ہم لوگ اسے نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ہلاک کرنے والے گناہوں میں شمار کرتے تھے۔
       اللہ آپ سب کی حفاظت فرمائے۔ان چیزوں کے بارے میں فکرکرو جو اعمال کو رائیگاں کردیتی ہیں اور نیکیوں کو کھاجاتی ہیں۔مثال کے طور پر ان میں سے چند یہ ہیں:حسد،ریاونمود،شہرت طلبی،غیبت،چغل خوری،تکبر،ظلم،خود پسندی،مال حرام کا کھانا،رشتہ داری کو توڑنا،خورد ونوش،ولیموں اور دعوتوں میں فضول خرچی اور اللہ کی طاعت وبندگی کے علاوہ میں شب بیداری کی لت،غیر مفید کاموں کے اندر ذرائع ابلاغ اور سماجی ویب سائٹس میں ڈوبے رہنا،ایسی عادتوں کی لت لگانا جو جسموں کو بیمارکردیں،دلوں کو ہلاک کردیں،عقلوں کو ناکارہ کردیں،نفسوں کو بدبخت بنادیں،اطاعت وبندگی سے پھیر دیں،مفید چیزوں سے روک دیں،سیدھی راہ سے دور کردیں اور ذمہ داریوں سے بھٹکادیں۔
       اے روزہ داروں اور شب بیداروں کی جماعت!یقیناً یہ عقل مندی،دانش مندی،عقل کی پختگی اور بہترین احتساب نفس ہے کہ ہر انسان اس زمانے اور اس میں پیش آنے والی نئی چیزوں کے بارے میں سنجیدگی سے غوروفکر کرے۔اللہ کا ارشاد ہے:”اور ان کے لیے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوا جس کی انھیں امید نہیں تھی۔“(الزمر:۴۷(
       یہ ایسا زمانہ ہے جس میں مشغول کرنے والی چیزوں کی کثرت ہے،جس میں راہ حق سے پھیرنے اور ہٹانے والی متنوع چیزیں ہیں اور غفلت میں ڈال دینے والی اشیاء کی بہتات ہے بلکہ بعض جماعتوں کی نظر میں تو حق اور باطل گڈ مڈ ہوگیا ہے،خاص طور پر فکر اور ثقافت کے میدان میں۔
       اللہ آپ کی حفاظت فرمائے۔ہاں بات کچھ ایسی ہی ہے کہ آج کا زمانہ نوع بہ نوع مخالفتوں سے بھرا ہوا ہے۔اسی طرح ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عقیدہ واخلاق میں طرح طرح کی حرام چیزیں،اختلافات،قسم قسم کے جرائم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پھیلائے جارہے ہیں۔اس دور میں گویا ان سب باتوں کی لہریں بہہ رہی ہیں۔جن کے لیے ان کا برا عمل خوش نما بنادیا گیا ہو اور جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئی ہوں اور وہ اسی گمان میں رہیں کہ وہ بہت اچھا عمل کررہے ہیں۔اس زمانہ میں انسان کو حق سے پھیرنے،روکنے اور ہٹانے کا سب سے بڑا مظہر مادیت اور آبادکاری کے مظاہر سے مرعوب ومغلوب ہونا ہے اور ایمان کی حقیقتوں نیز علوم کتاب وسنت سے بے رغبتی اور بے توجہی برتنا ہے۔تمدنی غلو اور مبالغہ ہی ثقافتی اور فکری بگاڑ وانحراف کا سرچشمہ ہے۔جو بھی اللہ کی وحی سے منہ موڑے گا وہ تاریکیوں میں اوندھے منہ گرا پڑا رہے گا خواہ وہ علوم وفنون اور تمدن وثقافت میں کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو۔ارشاد ربانی ہے:”اور جو لوگ ہماری نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں،وہ بہرے اور گونگے ہیں،تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔“(الانعام:۳۹(
       اسی بگاڑ اور غلو کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ نئی ایجادات،اختراعات اور تمدنی وسائل وذرائع سے مرعوب کچھ معاصرین کو جب گمراہی،بگاڑ،بدخلقی،فسق وفجور اور فحاشی کی صورتوں میں کمزوری اور کمی کی جگہوں کے بارے میں خبر دار کیا جاتا ہے تو ان کی ناک پھول جاتی ہے،سینہ تنگ ہوجاتا ہے اور وہ پریشانی میں ڈوب جاتے ہیں لیکن اللہ کو یہ منظور نہیں ہے کہ رذالت اور کمینہ پن فضیلت کا عنوان بن جائے اور بدچلنی پاکیزگی کی راہ بن جائے۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن نے یہ واضح کردیا ہے کہ اللہ کی آیتوں کے انکار کی صورت میں مادی غلبہ اور کامیابی ان کے کام نہیں آئے گی۔فرمان باری تعالیٰ ہے:”ان کو ہم نے وہ کچھ دیا جو تم لوگوں کو نہیں دیا ہے،ان کو ہم نے کان،آنکھیں اور دل سب کچھ دے رکھا تھا لیکن نہ کان ان کے کسی کام آئے،نہ آنکھیں اور نہ دل،کیوں کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے،آخر جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے تھے،اسی نے ان کو گھیر لیا۔“(الاحقاف:۲۶(
       ایک دوسری آیت میں ہے:”قوم عاد کا حال یہ تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے کہ کون ہے ہم سے زیادہ طاقت ور۔ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے،وہ ان سے زیادہ زور آور ہے۔وہ ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے۔“ (فصلت:۱۵(
       اے روزہ دارو اور شب بیدارو!اصل چیز نفسوں اور دلوں کو اللہ اور اس کی توحید،ذکر،شکر اور بہترین عبادت سے آباد کرنا ہے لیکن سب سے زبردست اقتدار تو وہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول دلالت کرتا ہے:”یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے،زکوۃ دیں گے،نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔“(حج:۴۱)اور اللہ کا یہ فرمان:”ایسے لوگ جنھیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز اور ادائے زکوۃ سے غافل نہیں کردیتی۔وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آجائے گی۔
       اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی حفاظت فرمائے۔دنیاوی زندگی کی زینت اور اس کی مادیت سے کیا فائدہ ہوگا اگر نفس اللہ سے عاجزی اور عزت وجلال والے رب کی فروتنی سے آباد نہ ہو۔اسی طرح اللہ کے بارے میں علم،اس کی توحید،اس سے بہترین معاملہ،اس سے تعلق اور اس پر توکل کے ذریعے اس کا تزکیہ نہ ہوسکے۔اس شخص نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔اس نے اللہ کے حکم کو معمولی سمجھتے ہوئے اس کی نافرمانی کی اور اس کی حرام کی ہوئی چیز سے لاپرواہی برتتے ہوئے اس کا ارتکاب کیا،جس نے اپنی خواہشات کو اللہ کی رضامندی پر ترجیح دیا،جس نے اپنے دل،اپنے علم،اپنے عمل اور اپنے مال میں سے زائد اور بے کار چیز کو اللہ کے لیے مختص کیا۔میں اللہ کے ذریعے شیطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں۔پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف اور اس کے مطیع بن جاؤ،اس سے پہلے کہ تمھارے اوپر عذاب آئے،پھر تمھاری مدد نہ کی جائے۔تمھارے رب کی طرف سے جو بہترین چیز تمھاری جانب نازل کی گئی ہے،اس کی پیروی کرو اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی شخص کہے کہ افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہا بلکہ میں تو الٹا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا یا کہے کہ کاش!اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو میں بھی پارسا لوگوں میں ہوتا،یاعذاب دیکھ کر کہے کہ کاش مجھے ایک موقع اور مل جائے اور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں۔(الزمر:۵۴۔۵۷(
       دوسرا خطبہ
       ہر تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو تمام مخلوقات کا خالق ہے،جس نے پہاڑوں کے ذریعے زمین کو قرار بخشا اور سات آسمان بلند کیے۔میں اس کی تعریف کرتا ہوں،وہ پاک ذات ہے اور میں اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔میں گواہ ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی ہم سر نہیں ہے اور اس کی وحدانیت پر دلائل اور حقائق قائم ہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں،امانت دار اور سچے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی رحمت،سلامتی اور برکت ہو آپ پر،آپ کے خاندان پر،آپ کے صحابیوں پر جو ہر فضل میں ہر قسم کی سبقت لے گئے اور بعد میں جن تک کوئی نہیں پہنچ سکا اور تابعین پر اور احسان کے ساتھ جو ان کی اتباع کریں ان سب پر رحمت ہو اور بہت زیادہ سلامتی ہو جب تک لیل ونہار کی گردش قائم رہے۔
       امابعد:اے مسلمانو!جس کا خیال اللہ کے بارے میں اچھا ہوتا ہے تو اس کا عمل بھی اچھا ہوتا ہے۔ابن عون رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ کثرت عمل پر بھروسہ نہ کرو کیوں کہ تم کو اس کا علم نہیں ہے کہ آیا وہ مقبول ہیں یا نہیں۔اپنے گناہوں سے بے خوف نہ رہو کیوں کہ تمھیں نہیں معلوم کہ تمھارے گناہ بخشے گئے یا نہیں۔تمھارا سارا عمل تم سے پوشیدہ ہے۔تمھیں نہیں معلوم کہ اللہ ان کے بارے میں کیا کرے گا۔عاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں لگا ہے۔توبہ اور مغفرت کا سامان کیے بغیر بخشش کا طالب ہے۔
       معروف کرخی کہتے ہیں کہ اس ذات سے تمھارا رحمت کی امید رکھنا جس کی تم اطاعت نہیں کرتے،ایک طرح سے اس سے خود کو کاٹ لینا ہے اور معصیت کا ارتکاب کرتے ہوئے اس سے رحمت کی امید رکھنا توفیق الٰہی کو کمزور بنادیتا ہے۔
       بعض اسلاف نے لکھا ہے کہ بہت سے لوگ جن کو اللہ اپنی نعمتیں دے کر دھیرے دھیرے پکڑتا ہے حالانکہ ان کو اس کا علم نہیں ہوتا ہے،بہت سے لوگ اللہ کی پردہ پوشی کی وجہ سے کبروغرور کا شکار ہوجاتے ہیں حالانکہ انھیں اس کا ادراک نہیں ہوتا،اسی طرح بہت سے لوگ دوسروں کے تعریفی کلمات سے فتنہ میں پڑجاتے ہیں اور انھیں اس کی خبر بھی نہیں ہوتی،تو ظالموں کے بارے میں کیا خیال ہے جب وہ اپنے رب سے اس حال میں ملیں گے کہ بندوں پر کیے گئے مظالم ان کی گردنوں کا طوق ہوں گے۔
       اسی وجہ سے جو شخص اپنی ذات کے لیے نجات چاہتا ہے،اسے خواہشات نفس اور لذتوں کی پیروی سے دور رہنا چاہئے اور خواہشات کے دستر خوان پر ہمہ تن مشغول ہونے سے بچنا چاہئے،جس میں داخل ہونے،نکلنے اور اس کے بھلے برے کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے۔
       اے لوگو!اللہ سب پر رحم فرمائے۔اللہ سے ڈرو،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی مخالفت کرنے سے بچو۔اس ماہ مبارک کے باقی ایام سے اچھی طرح فائدہ اٹھاؤ،محنت کرو اور شب قدر کی تلاش کرو جس رات اللہ دروازہ کھولتا ہے،اپنے محبوب بندوں کو قریب کرتا ہے،ایسی رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،جس رات عمل کرنے والوں کے لیے بہت زیادہ ثواب ہے اور بہت بڑا اجر لکھا جاتا ہے۔یہ سب کو ملتا ہے خواہ اس کا اسے علم ہو یا نہ ہو کیوں کہ حصول اجر کے لیے علم کی شرط نہیں ہے۔اللہ آپ سب پر مہربان ہو،محنت کرو کیوں کہ یہی اصل کمائی کا وقت ہے۔غفلت سے ہوشیار رہو کیوں کہ غفلت بربادی کا راستہ ہے۔اب درود وسلام بھیجو۔






التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: