کامل اسلام پر عمل فرض ہے ورنہ ذلت و رسوائی مقدر ہے ۔ پہلی قسط


  کامل اسلام پر عمل کا الہی حکم  اور ہم مسلمانوں  کی لاپرواہی  وغفلت
                     اور اس کا بھیانک انجام                   
                                                       پہلی قسط

اسلام  ایک کامل دین ہے جو ہماری زندگی کے دینی, أخلاقی,  سیاسی, معاشی, فوجی, تعلیمی, سماجی , صنعتی و تجارتی وغیرہ  ہر پہلو کو شامل ہے ۔ جیسا کہ اس سے  قبل  میں أپنے مضمون " اسلام کیا ہے" اس میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں۔اور  اسلام میں ہر پہلو کی أپنی جگہ  پر بہت زیادہ اہمیت  و افادیت ہے جس کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اورشریعت میں  ایک مسلمان -  فرد, جماعت و حکومت  -کو  اپنے دائرہ کار کے اندر   ان تمام پہلؤوں کو نافذ کرنے اور ان پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اور  ایسا کرنا تمام مسلمانوں, جماعتوں اور حکومتوں  پر  فرض ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یا ایہا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا خطوات الشیطان انہ لکم عدو مبین ( بقرہ/208) یعنی اے مسلمانو اسلام میں مکمل طور سے داخل ہوجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ یقینا وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالى نے مسلمانو کو اسلام میں کامل طور سے داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔ جس کا واضح مطلب  اور صاف مفہوم یہی ہے کہ ہم اسلام کے دینی, سیاسی, سماجی,  معاشی وغیرہ ہر پہلو پر عمل کریں۔اس کے کسی جانب میں کوتاہی نہ برتیں۔کسی پہلو کو دوسرے پہلو کی قیمت پر نظر انداز نہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم دین کو صرف عبادات میں محدود کردیں اور معاشیات و اخلاقیات کو چھوڑ دیں۔یا جو حکم ہمیں پسند آئے اور اس میں ہماری مصلحت ہو اس پر عمل کرلیں اور جو جکم ہمارے اوپر شاق ہو یا ہماری خواہش کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دیں۔اور جو ایسا کرتا ہے تو وہ اللہ کی نہیں بلکہ شیطان کی اتباع کرتا ہے۔وہ اللہ کے بجائے شیطان کا حکم مانتا ہے جو انسان کا کھلا دشمن ہے۔
 حضرات :اسلام نے  تمام پہلؤوں پر عمل کو اسی لیے لازم قرار دیا ہے کیونکہ اسلام کے تمام پہلو ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ ہر پہلو کی أپنی جگہ پر بہت زیادہ  اہمیت و افادیت  ہے۔ان میں سے کسی بھی پہلو کو نظر انداز کرنا گویا اسلام کو نظر انداز کرنا ہے۔اور ناقص اسلام پر عمل کرنا ہے۔اور ناقص اسلام پر عمل کرکے ہم قطعا دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔اس کے برعکس  کامل اسلام پر عمل کرنے میں ہی ہماری عزت و سرفرازی ,  کامیابی و کامرانی ہے اور یہی راہ نجات ہے۔
علاوہ أزیں   اسلام کے کسی  ایک  پہلو پر عمل کرنا اور دوسرے پر عمل نہ کرنا یہ کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ یہود و نصارى کا شیوہ ہے  اور اس کا انجام بہت ہی بھیانک ہوتا ہے۔ اللہ عزو جل کا فرمان ہے:و إذ أخذنا میثاقکم لا تسفکون دماءکم و لا تخرجون أنفسکم من دیارکم ثم أقررتم و انتم تشہدون, ثم أنتم ہولاء تقتلون أنفسکم و تخرجون فریقا منکم من دیارہم  تظاہرون علیہم بالاثم و العدوان و ان یاتوکم اسارى تفادوہم وہو محرم علیکم إخراجہم  أفتؤمنون ببعض الکتاب  وتکفرون ببعض فما جزاء من یفعل ذلک منکم الا خزی فی الحیاۃ الدنیا, ویوم القیامۃ یردون إلى أشد العذاب, ومااللہ بغافل عما تعملون(بقرہ/84-85)
ترجمہ: اور یاد کرو کہ ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے نکالنا۔پھر تم نے اس کا اقرار کیا تھا ۔ تم خود اس کے گوا ہ ہو۔پھر وہی تم ہو کہ آپس میں قتل کرتے ہو , أپنی برادری کے کچھ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال دیتے ہو۔ ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف دوسروں کی مدد کرتے ہو۔اور اگر وہ تمھارے پاس قیدی ہو کر آتے ہیں تو تم ان کا فدیہ ادا کرتے ہو, حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی  تمھارے اوپر حرام تھا۔تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہوں  اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب کی طرف لوٹا دئیے جائیں۔ اور اللہ تمھارے اعمال سے غافل نہیں ہے۔
ان دو آیتوں میں اللہ تعالى نے یہود کی حالت اور کردار کو واضح کیا ہے کہ انہوں  نے اللہ کی شریعت کو گھر کی لونڈی بنا لیا تھا۔أپنی من مانی کرتے, لاپرواہی برتتے , بعض چیزوں پر ایمان لاتے اور بعض کو چھوڑ دیتے۔کسی حکم پر عمل کر لیتے اور بسا اوقات شریعت کے  کسی حکم کو کوئی اہمیت ہی نہ دیتے ۔ قتل کرنا, جلاوطن کرنا اور ایک دوسرے کے خلاف مدد کرنا ان کی شریعت میں حرام تھالیکن  ان امور کا بنا کسی خوف و خطر کے بے دریغ ارتکاب کیا اور فدیہ دے کر چھڑانے کا جو حکم تھا اس پر عمل کر لیا حالانکہ تمام امور پر عمل کرنا فرض تھا۔چنانچہ اس کی وجہ سے دنیا میں  ان کے اوپر ذلت و رسوائی مسلط کردی گئی اور آخرت میں سخت عذاب کی دھمکی دی گئی۔  
معلوم ہوا  کہ شریعت کے کسی حکم کو مان لینا اور دوسرے کو نظر انداز کردینا اللہ تعالى کی نگاہ میں بہت ہی بڑا جرم اور نہایت قبیح گنا ہ ہے ۔ جس کی سزا دنیا میں عزت و سرفرازی کی جگہ ذلت و رسوائی  اور آخرت میں ابدی نعمتوں کے بجائے سخت عذاب ہے۔
اسی طرح معلوم ہوا کہ اللہ کے یہاں وہ اطاعت مقبول ہے جو مکمل ہو , شریعت کے تمام پہلؤوں پر مشتمل ہو ۔ بعض بعض باتوں کا مان لینا یا ان پر عمل کر لینا اللہ تعالى کے یہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اور اس سے دنیا و آخرت دونوں تباہ ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر کوئی شخص نماز کا بہت زیادہ پابند ہے ۔ ہمیشہ صف اول میں رہتا ہے۔ تکبیر تحریمہ بھی  فوت نہیں ہوتی  ہے لیکن ساتھ ہی حرام کمائی کرتا ہے۔یا سود کھاتا ہے ۔ایسی صورت میں اس کی یہ عبادت عند اللہ غیر مقبول  ہے۔اس کو اس عبادت کا کوئی صلہ ملنے والا نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالى پاک ہے اور صرف پاک کو قبول فرماتا ہے۔اور یہ ناقص شریعت پر عمل ہےکامل پر عمل نہیں ہے۔
 یہ آیت ہم مسلمانو کوبھی دعوت غور و فکر دے رہی ہے کہ کہیں آج کے دور میں ہم مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کی وجہ بھی ہمارا وہی کردار تو نہیں جو ان دو آیتوں میں یہودیوں کابیان کیا گیا ہے۔
  لہذا تمام مسلمان بھائیو سے گذارش ہے کہ اس آیت کو غور و تدبر کے ساتھ پڑھیں  اور بار بار پڑھیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کوئی بھی مسلمان جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے وہ اس آیت  میں  دنیا و آخرت دونوں کے لیے بیان کردہ  سخت سزا  کو پڑھ کے کانپ اٹھے گا۔ کامل اسلام پر عمل نہ کرنا اللہ کی نگاہ میں اتنا بڑا جرم اور قبیح گناہ  ہے کہ دنیا میں اس کے لیے رسوائی ہے ۔ اور صرف دنیا کی سزا اس کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کے لیے شدید ترین عذاب ہے ۔آپ اسلوب و لہجہ کو دیکھیے ۔ کس قدر سخت اسلوب میں اللہ نے دھمکی دی ہے۔اور سزا بھی بہت ہی خوفناک و بھیانک ہے۔ذلت و رسوائی ۔ اس  سزا سے کسی بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔
 بلا شبہ یہ آیت آج کے مسلمانوکے لیے  سچا آئینہ ہے جن میں  ان کو اپنا چہرہ صاف صاف نظر آتا ہے ۔ اور یہ ان کی حقیت کی بہت صحیح عکاسی کرتی ہے۔اس امر میں  کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہود کے بارے میں نازل یہ آیت  آج کے مسلمانوں پر پوری طرح سے فٹ ہوتی ہے۔ اپنے دین کے بارے میں جو ان  کا طرز عمل تھا وہی طرز عمل ہم مسلمان- افراد, جماعتوں, حکومتوں- کا ہے۔ ہم دونوں کے طرز عمل میں  کوئی  فرق نہیں ہے۔ہم مسلمان افراد ہوں یا ہمارا سماج ہو یا حکومتیں ہوں سب ناقص اسلام پر عمل پیرا ہیں۔کوئی ایسی حکومت یا سماج و معاشرہ نہیں ہے جو کامل طور سے صد فیصد اسلام پر عمل پیرا ہو۔مسلمان عوام کی اکثریت بھی اس سے الگ نہیں ہے۔لہذا جیسا عمل ہے ویسا  نتیجہ  ہے۔ ذلت و رسوائی ہم مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے۔
لیکن اس کے باوجود  ہم مسلمانوں کی شدید غفلت  دیکھیے ۔ ہماری حد درجہ کی  لاپرواہی ملاحظہ کیجیے۔منمانی رویہ مشاہدہ کیجیےکہ جس مصیبت و بلا سے ہم کو روکا گیا تھا اسی میں آج ہم بھی بری طرح سے گرفتار ہیں۔ اور ہم  نے بھی اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے ۔ا ور ہر جماعت, گروہ , ملک , حکومت أپنی سمجھ کے مطابق اس پر عمل کر رہا ہے۔جو سراسر غلط ہے ۔ کیونکہ اسلام ہر پہلو کو اہمیت دیتا ہے اوروہ کسی بھی پہلو کوکسی دوسرے پہلو کی قیمت پر نظر انداز نہیں کرتا ہے۔اور ہر ایک کی أپنی جگہ پر قیمت و اہمیت ہےوغیرہ  جیسا کہ اوپر  گذر چکا۔
اس کو مثال کے ذریعہ   اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ بلاشبہ اسلا م میں عقیدہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے  کیونکہ اعمال کی قبولیت کا دارومدار صحیح عقیدہ پر ہےلیکن یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ عقیدہ ہی اسلام میں سب کچھ نہیں ہے۔اسی کے مثل  عبادات کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے  کیونکہ عبادت کے بغیر ایمان ناقص ہے لیکن عبادات ہی سب کچھ نہیں ہیں۔اسی طرح   سماجیات, معاشیات, اخلاقیات, و معاملات وغیرہ کا بھی مسئلہ ہے۔ان میں سے ہر ایک  کی أپنی جگہ پر اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے لیکن وہی کل اسلام نہیں ہے۔
 کیونکہ أگر عقیدہ یا عبادت ہی اسلام میں سب کچھ ہوتا  تو  آپ مدینہ میں اسلامی حکومت قائم نہ کرتے,  اور آپ اہل مدینہ سے کہہ دیتے کہ تم عبد اللہ بن سبا کو اپنا قائد بنا لو جیسا تمھارا ارادہ تھا۔کیونکہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب آپ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والے عبد اللہ بن ابی کی زعامت  اور سرداری پر متفق ہوچکے تھے اور اس کی تاج پوشی ہونے والی تھی لیکن آپ کی وجہ سے وہ قیادت و سیادت سے محروم ہوگیا۔ جس کی وجہ سے وہ منافق بن گیا۔اسی طرح آپ  جہاد کا حکم نہیں دیتے۔اقتصاد کی تنظیم نہ کرتے۔اس کے اصول و ضوابط متعین نہ کرتے۔تجارت کے آداب  نہ سکھاتے ۔ صنعت و حرفت کو بڑھاوا نہ دیتے۔سماج کی اصلاح نہیں فرماتے  , طب کی طرف رہنمائی نہ فرماتے, تعلیم کی طرف توجہ نہ دلاتےوغیرہ۔ بلکہ صرف عقیدہ و عبادت ہی آپ کی  دعوت و تبلیغ کا محور و مرکز ہوتا۔لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا  بلکہ  ہر چیز پر اس کی اہمیت و حاجت کے بقدر کامل توجہ کی۔
معلوم ہوا  کہ اسلام میں عقیدہ  و عبادت کے علاوہ تعلیم, صنعت و حرفت, تجارت,  عمل , جہاد, سیاست, حکومت, اقتصاد, سماج  وغیرہ  امور بھی   آتے ہیں جن پر اسلام نے مناسب  اور کامل توجہ دی ہے۔اسلام نے قطعا کسی ایک جانب کو نظر انداز کرکے کسی دوسرے جانب پر  اپنی پوری توجہ مرکوز نہیں کی ہے۔یا کسی  پہلو کی قیمت پر کسی دوسرے پہلو  کو فضیلت نہیں دی ہے۔بلکہ اسلام نے ہر ایک کو مناسب اہمیت دی ہے ۔ ہر ایک کو اس کی جائز جگہ دی ہے۔جس کا جو مقام و مرتبہ تھا وہ اس کو عطا کیا ہے ۔اور سب پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ  اسلام   بذات  خود افراط و تفریط,زیادتی و کمی سے پاک  ایک متوازن و معتدل مذہب ہے اور یہی توازن و اعتدال اس کی وہ خوبی ہے جو اس کے ہر شعبہ و  پہلو میں بدرجہ اتم نمایاں و موجود ہے۔ اور پھر خود ہمارے نبی  و خلفاء راشدین  نے اسلام کے ان تمام پہلؤوں پر عمل کیا ہے  اور عملا ان کو نافذ کیا  ہے۔اور یہ بتلادیا ہے کہ ہماری کامیابی  و کامرانی, عزت و سرفرازی اسلام کے تمام پہلؤوں پر مناسب توجہ دینے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی  اس کے نزدیک  مطلوب و مقبول ہے۔ان میں سے کسی بھی پہلو کو نظر انداز کرکے ہم قطعا کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں اور أگر ہم کو کوئی کامیابی حاصل بھی ہوگی تو وہ ناقص اور نامکمل ہوگی۔بلکہ ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ہوگی۔
علاوہ أزیں  اسلام کے زندگی کے  تمام امور و پہلؤوںپر مناسب توجہ دینے  اوران   میں صحیح  توازن و اعتدال قائم رکھنے کی ایک وجہ یہ  بھی ہے  کہ  اس  کے بغیر انسانی زندگی  سدھر سکتی ہےاور نہ   ہی پٹری پر آسکتی ہے بلکہ قائم  و جاری ہی نہیں رہ سکتی ہے۔ زندگی میں توازن مفقود ہوجائے گا۔ہر طرف  افراتفری , بد امنی , بے اطمینانی ہوگی۔لوگوں کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی۔جیسا کہ آج کل ہم مسلمان ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔
                                                                                                جاری




التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

2 التعليقات:

avatar

اسلام پر عمل مکمل نظام کی حیثیت سے ضروری ہے۔... ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ ڈاکٹر شبیر پرے ۲۲ مئی ۲۰۲۰

avatar

اضل محترم جناب مکی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حسب سابق آپ کا یہ مضمون بھی کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں جن جن باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کی آج کے ڈیٹ میں بڑی کمیاں اور خامیاں محسوس کی جا تی ہے عام انسان تو دور کی بات ہے خاص طور سے مسلمانوں کی اکثریت مفاد پرست بنے بیٹھے ہیں جہاں اپنا مفاد دیکھا وہاں قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پس پست ڈال کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جایز اور ناجائز کی پرواہ کرنا تو دور کی بات ہے موت تک کو بھول ہی جاتے ہیں بس اللہ تعالیٰ رحم کرے اور ہمارے معاشرے کو مکمل طور پر مذہب اسلام میں داخل ہونے کی سعادت نصیب کرے آمین یارب شکریہ وجزاکم اللہ تعالیٰ(شیخ اکرام الحق, واٹسپ میسیج بتاریخ 22 مئی 2020ع بوقت 6:49 ص)