مسلمانوں کے لیے ذلت و رسوائی, زوال اور پستی سے نکلنے کی واحد راہ


                                 بسم اللہ الرحمن الرحیم
                مسلمانوں  کے لیے ذلت و رسوائی, زوال اور پستی سے نکلنے کی واحد راہ


عصر حاضر کے تمام مسلمان اگر دنیا میں عزت و کرامت , امن و امان ,  سکون و اطمینان , خوشحالی و فارغ البالی کے ساتھ زندگی بسر کرنا  چاہتے ہیں ۔ اور موجودہ زوال اور  پستی ,  پریشانی اور مصیبت , ذلت او رخواری سے نکلنا چاہتے ہیں تو درج ذیل امور پر عمل کرنا  از حد ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے جو ان کو موجودہ ذلت و رسوائی سے نجات دلا سکے۔ کوئی  اور دوسری صورت نہیں ہے  خواہ وہ لاکھ جتن کرلیں جو ان کو زوال اور پستی سے ابھار سکے۔ دن رات  محنت کرتے رہیں۔احتجاج پر احتجاج کرتے رہیں,حکومتوں کے آگے روتے و گڑگڑاتے رہیں لیکن ان سب سے کچھ ہونے والا نہیں ہے جب تک کہ ہم مسلمان درج ذیل امور کو نافذ نہیں کریں گے :---
1-      مسلمانوں کوصحیح  اسلام پر عمل کرنا ہوگا۔ اس کو مضبوطی سے پکڑنا ہوگا۔ احکام کو بجا لانا ہوگا۔ حرام کاموں کو چھوڑنا ہوگا۔ غیر اسلامی رسوم رواج کو خیرباد کہنا ہوگا۔اور یہ کام انفرادی, اجتماعی اور حکومتی  تینوں سطح پر کرنا ہوگا۔
2-     اسلام پر اس کے ہر گوشہ و ناحیہ سے عمل کرنا ہوگا۔ یعنی اس کو دینی, سیاسی, سماجی, اخلاقی, معاشی, صنعتی, تجارتی, تعلیمی وغیرہ  ہر اعتبار سے نافذ کرنا ہوگا۔صرف ایک جانب پر عمل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔اسلام صرف کسی ایک گوشہ کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام زندگی اور دنیا کے تمام گوشوں کو شامل ہے۔وہ ایک کامل دین اور مکمل نظام حیات ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اس  کے دائرہ سے خارج نہیں ہے۔اور آج ہماری ذلت کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے اسلام کے بہت سارے گوشوں کو مکمل طور سے نظر انداز کردیا ہے۔
3-    مسلمانوں کو ہرجگہ أپنے ہر قسم کے  اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے  اتفاق و اتحاد کامظاہرہ کرنا ہوگا۔تمام مسلمان ممالک یا اکثر کو حقیقی طور پر متفق ہونا ہوگا۔بنا اتفاق و اتحاد کے ہم اس دنیا میں کامیابی نہیں حاصل کر سکتے ہیں اور ہم ہمیشہ ذلیل و خوار رہیں گے۔
     مسلمانوں کی موجودہ دینی و سیاسی, عقائدی و سماجی  صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ ایک  بہت ہی مشکل ہدف ہے لیکن محال نہیں ہے۔اور اگر اس کے لیے بڑے پیمانہ پر کوشس کی جائے تو  کامیابی ان شاء اللہ ضرور با ضرور ملے گی۔اور اس میں سب سے بڑا کردار ہمارے علماء کرام, مساجد و مدارس ادا کر سکتے ہیں۔لیکن ان سب کو مسلک کے خول سے باہر آنا ہوگا۔تعصب , تشدد اور نفرت کو خیرباد کہنا ہوگا۔ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا۔اور یہ کام کسی ایک فرقہ یا مسلک کا نہیں ہے بلکہ تمام فرقوں و مسلکوں کو "لکم دینکم و لی دین" کے اصول پر عمل کرتے ہوئے  یہ روش اختیار کرنی ہوگی۔تب یہ مسئلہ حل ہوگا۔اور اگر ہم اس دنیا میں باعزت زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ اتفاق و اتحاد کریں۔ اور ہمارے علماء, مدارس و مساجد پر ضروری ہے کہ وہ اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ایک جماعت و گروہ  کے علماء دوسری جماعت و گروہ کے علماء سے ملاقات کریں۔ مدارس کے طلباء و منتظمین آپس میں ایک دوسرے کی زیارت کریں۔مسلمانوں کے مسائل پربڑے پیمانہ پر گفت و شنید اور بحث و مناقشہ ہو۔مدارس و علماء  طلباء میں تعصب و نفرت کے بجائے الفت, محبت,  اخوت اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تعلیم دیں۔تو ان شاء اللہ چند سالوں میں بہترین نتائج برآمد ہونگے۔ لیکن یہاں بر صغیر میں یہ ماحول  عنقا ہے ۔ یہاں تو ایک ہی  مسلک  کے مدارس والے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور وہ خود بھی آپس میں یکجا طور پر بہت کم ملتے ہیں یا ملتے ہی نہیں ہیں۔تو پھر تمام مسلک والوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔اور اس کا امکان بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔

        اور پھر  سوال  یہ  بھی ہے کہ جن  علماء نے صدیوں سے مدارس و مساجد میں  مسلکی تعصب , گروہی تشدد اور جماعتی نفرت کو صرف أپنے ذاتی مفاد کے لیے  پالا پوسا ہے۔أپنی شخصی مصلحت کے لیے اس کو ہمیشہ بڑھایا ہے۔حصول منصب و مال و زر کے لیے اس کی آبیاری کی ہے ۔صرف أپنی أنا  کی تسکین کی خاطر مسلمانوں کو آپس میں لڑایا ہے۔ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیا ہے۔اپنے مسلک و فرقہ کی حمایت میں جھوٹی احادیث گڑھنے و پھیلانے سے باز نہیں رہے ہیں۔اور اس دور میں بھی  على الاعلان ہزار رسوائیوں و ذلتوں کے باوجود   أپنی مسلکی  غلطی ماننے کو تیار نہ ہوں۔ اور بے حیائی و ڈھٹائی کے ساتھ باطل موقف پر قائم ہوں کیا  ایسے علماء سے  توقع کی جاتی ہے کہ عظیم تر امت کے مفادات کومقدم کرتے ہوئے مسلکی و جماعتی خول سے باہر نکلیں گے اور اتفاق و اتحاد کے لیے کام کریں گے۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر یہ امت أپنی عظمت رفتہ کو ایک بار پھر بحال کر سکتی ہے۔
4-    بعد ازاں ہر قسم کے وسائل و أسباب کو اختیار کرنا ہوگا۔ مثلا احتجاج کرنا, کورٹ میں مقدمہ درج کرنا, پولس میں شکایت کرنا, چینل کھولنا, ٹویٹر یا شوسل میڈیا میں مہم چلانا اور سیاست میں حصہ لینا وغیرہ کیونکہ یہ دنیا ہے جو اللہ کے قوانین کے مطابق جاری و ساری ہے۔اور یہاں  پر وسائل و اسباب کا اختیار کرنا ضروری ہے۔اسلام اس سے منع نہیں کرتا ہے بلکہ اس کا حکم دیتا ہے۔
ان مذکورہ بالا چیزوں پر عمل کرنا  نہایت ضروری ہے ۔ اس کے بغیر ہم کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی موجودہ ذلت و پستی سے باہر نکل سکتے ہیں۔ پہلےنمبر پر  اسلام کی طرف واپسی اور اس کو نافذ کرناہے۔ اس کے بعد وسائل و ذرائع  کا نمبر آتا ہے۔ لیکن آج ہم مسلمانوں نے ترتیب الٹی کردی ہے۔آج ہماری پوری توجہ وسائل و ذرائع پر ہے۔ اسی پر ہمارا اعتماد ہےاور اسلام کی طرف واپسی و عمل پر کوئی دھیان نہیں ہے۔آج کے دور میں ہمارے بہت سارے دانشور بہت ساری تجاویز پیش کرتے ہیں لیکن جان لیجیے کہ یہ تمام بہترین تجاویز اسلام کی طرف واپسی کے بغیر ہمارے کسی کام کے نہیں  ہیں اور نہ ہمیں موجودہ ذلت و پستی سے نکال سکتے ہیں۔
کیونکہ یاد رکھیے:--
1-      اللہ تعالى نے  أپنی کتاب قرآن مجید میں جو بھی وعدہ کیا ہے وہ باعمل مسلمانوں سے کیا ہے۔ بے عمل مسلمانوں سے نہیں کیا ہے۔تفصیل کے لیے آپ دیکھ سکتے ہیں: عمل صالح سے متعلق میرے چار مضامین میرے ویب سائٹ پر   www.drmannan.com   
2-     ہمارے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا تھا : ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کو اللہ نے اسلام کے ذریعہ  غلبہ دیا ہےلہذا اگر ہم اس کو چھوڑ کے کسی دوسری چیز سے عزت و غلبہ چاہیں گے تو اللہ تعالى ہم کو مزید ذلیل  و رسوا کرے گا۔
3-    اور حضرت امام مالک نے فرمایا تھا: اس امت کے بعد کے لوگوں کی صلاح و فلاح , خیرا و ر بہتری اسی چیز میں ہے جس میں اس امت کےپہلے کے لوگوں کی تھی۔  
لہذا اے مسلمانو: اگر اس ذلت, رسوائی, پستی و خواری سے نکلنا چاہتے ہو تو اسلام کو مکمل طور سے أپناؤ اس کے علاوہ اور کوئی دوسری صورت نہیں ہے۔  یقین مانو کہ کامل اسلام پر عمل  کرنے کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی طریقہ  تمھارے کسی کام کا نہیں ہے۔
اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کیجئے۔اللہ تعالى ہم مسلمانوں کو اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
  

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: