تلبیہ حج : توحید کا اقرار و شرک کی نفی

 


                      تلبیہ حج : توحید کا اقرار     و شرک کی نفی

                                         drmannan.com   /   islahotaraqqi.com 

    حدیث: عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما : «أن تَلْبِيَةَ رسول الله صلى الله عليه وسلم : لَبَّيْكَ اللهم لَبَّيْكَ، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك». قالوكان عبد الله بن عمر يزيد فيها: «لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، والخير بيديك، وَالرَّغْبَاءُ إليك والعمل"۔

   تخریج:بخاری, کتاب الحج , باب التلبیۃ /1549, 1550, 5915, مسلم/ 2811, 2812, 2814  ترمذی/825, ابن ماجہ/2918 وغیرہ

    ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  کی روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ تھا " لبيك اللهم لبيك،‏‏‏‏ لبيك لا شريك لك لبيك،‏‏‏‏ إن الحمد والنعمۃ لك والملك،‏‏‏‏ لا شريك لك‏» "حاضر ہوں اے اللہ! حاضر ہوں میں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ حاضر ہوں، تمام حمدو ثناء  تیرے ہی لیے ہے اور تمام نعمتیں تیری ہی طرف سے ہیں، بادشاہت تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔۔  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس میں کچھ اور اضافہ کر لیتے تھے  جو اس طرح تھے : ”لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ“ یعنی میں حاضر ہوں، تیری خدمت میں، میری سعادت ہے تیرے پاس آنے میں، بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، رغبت تیری ہی طرف ہے، اورعمل بھی تیرے ہی لیے ہے۔  

    معانی کلمات:

     تلبیۃ:  یہ لبى کا مصدر ہے , اس کا ایک معنى قبول کرنا ہے , کہا جاتا ہے: حضر تلبیۃ لرغبتہ یعنی استجابۃ لھا یعنی اس کی خواہش کو پوری کرتے ہوئے حاضر ہوا , اس کا دوسرا معنى لبیک اللہم لبیک پکارنا ہے, بولا جاتا ہے :لبى بالحج  یعنی لبیک اللہم لبیک کہا , اس کا ایک اور معنى جواب دینا ہے  لباہ یعنی  اس کو جواب دیا اور لبیک کہا ۔پورا کرنا لبى طلبہ یعنی اس کی درخواست کو پوری کیا۔الب بامکان یعنی اس جگہ پر قیام کیا  وغیرہ۔

    لبیک:مصدر مضاف منصوب تثنیہ(الباب و الباب = البابین )ہے, یہ کئی معانی کے لیے آتا ہے, مثلا : لزوما لطاعتک میں تیری اطاعت کے فرض ہونے کی وجہ سے حاضر ہوں , او البابا بعد الباب  و اقامۃ بعد اقامۃ و اجابۃ بعد اجابۃ  میں مسلسل مقیم ہوں  یا میں برابر تیری  پکار کو سن رہا ہوں , یا اتجاھی الیک و قصدی و اقبالی على امرک میرا رخ تیری طرف ہے اور میں تیرے حکم پر اپنی توجہ و ارادہ کیے ہوئے ہوں۔

   شریک:ساجھی , شریک , ج شرکاء  و اشراک , مؤنث شریکۃ ج شرائک , یہ شرک سے بنا ہے  شریک ہونا, اشرک باللہ شریک ٹہرانا, شرک کرنا , شریکۃ الحیاۃ  بیوی ۔

   حمد: یہ مصدر ہے, تعریف و ثنا , تعریف کیا ہوا, حمد در اصل محبت, تعظیم  اور احترام کے ساتھ فضیلت کی بنا پر تعریف کرنا ہوتا ہے اور کمال کی خوبیوں کو بیان کرنا ہوتا ہے , بنا محبت و تعظیم کے تعریف حمد کے بجائے مدح ہے ,حسن فعل کی ستائش, قابل تعریف , اسی سے احمد ہے جو قابل تعریف ہو ۔

   نعمۃ: فضل اور احسان, انعام , دولت , رزق , قابل قدر چیز, آسودگی , خوشحالی, عیش و آرام , , خوشی خوشگوار حالت ج نعم, انعم, نعمات

 سَعْدَيْكَ: یہ سعد سے ہے  جس کا معنى  برکت, خوش بختی ہے , ج اسعد و سعود, اور جو قول  لبیک کے بارے میں ہے وہی قول سعدیک کے بارے میں ہے , مطلب ہے کہ میری سعادت  در سعادت  تیرے حکم و ممانعت کی پابندی کرکے, تیرے خبر کی تصدیق کرکے , بار بار تیری متابعت اور  پیروی کرنے میں ہے ۔ لبيك اور سعدیک در اصل تکرار اور کثرت کے لیے استعمال ہوتے ہیں،مقصد یہ ہے کہ تیری اطاعت وعبادت کے لیے ہر وقت تیار اور حاضر ہوں۔

الرَّغْبَاءُ:  رغبت, خواہش,سؤال   اور گذارش ,  ثواب کا ارادہ۔(موقع المعانی, موقع  موسوعۃ  الاحادیث النبویۃ, موقع الوکۃ:  لبیک لللہم لبیک, موقع : موسوعۃ  القرآن و الحديث و مصباح اللغات )

شرح:

   قارئین کرام: حج فرض کرنے کا سب سے بڑا مقصد اور اصول  اللہ کے لئے خالص وحدانیت , شرک سے برأت اور چھٹکارے کا اعلان ہے , اللہ تعالی کا فرمان ہے : {وَأَذَٰن مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦٓ إِلَى ٱلنَّاسِ يَومَ ٱلحَجِّ ٱلأَكبَرِ أَنَّ ٱللَّهَ بَرِيٓء مِّنَ ٱلمُشرِكِينَ وَرَسُولُهُۥ}اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لئے اطلاع عام ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہے ( توبہ / ۳ ), لہذا تلبیہ سمیت حج کی مکمل عبادت ہی توحید کی دلیل و برہان ہے , چنانچہ ایک حاجی احرام باندھتے ہی تلبیہ میں توحید کا اعلان و احساس کرنے لگتا ہے۔(حج کے اغراض و مقاصد,خطبہ وتحریر:  ڈاکٹرخالد الغامدی,مسجد حرام کے خطبہ عید  الاضحى بتاریخ: 10-12-1436ھ/24-9-2015ع کا  اردو ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق مکی)  اورتلبیہ میں توحید کا بار بار اقرار دل میں عقیدہ توحید کو پختہ کرنے کے لیے ہے۔۔(سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2918, از موقع  موسوعۃ القرآن و الحدیث: سنن ابن ماجہ, کتاب المناسک, باب التلبیۃ, حدیث نمبر 2918)  چنانچہ حج کے دنوں میں لوگوں کی تربیت قولی , عملی اور ارادی طور پر توحید پر ہوتی ہے ۔  بیشک توحید سب سے زیادہ حج میں ظاہر و نمایاں ہوتی ہے ۔ (حج کے اغراض و مقاصد  اردو ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق مکی)

    حج چونکہ شعارِ توحید ہے اس لیے جس وقت سے انسان حج کی ابتدا کرتا ہے اسی لمحے سے نعرۂ توحید بلند کرنا شروع کر دیتا ہے، اس طرح سے تلبیہ میں حاجی کے دل کی عقیدہ توحید اور اخلاص  پر تربیت کی جاتی  ہے۔کیونکہ ایک حاجی اپنا حج عقیدہ توحید سے شروع کرتا ہے اور عقیدہ توحید پر مشتمل  ہی تلبیہ کہتا ہے ، بلکہ حج کے دیگر اعمال کرتے ہوئے چلتے پھرتے بھی عقیدہ توحید گنگناتا ہے۔(موقع الاسلام سؤال و جواب,  لبیک اللہم لبیک  معنى اور اس سے کیا مراد ہے؟سوال نمبر 21617, 3-9-2016ع)

تلبیہ حج کی  ایک اہم علامت و شناخت ہے ۔ اس کو بآواز بلند کہنا  اس عظیم شناخت کو ظاہر کرنا ہے,  اور اس میں اللہ تعالى کی وحدانیت کا اعلان ہے۔جب کوئی مسلمان تلبیہ پڑھتا ہے تو اس کے ساتھ پودے اور بے جان چیزیں بھی تلبیہ  پڑھتی ہیں ۔(موقع الدرر السنیۃ: الموسوعۃ الحدیثیۃ, شروح الاحادیث, تلبیۃ رسول اللہ....)

مذکورہ بالا حدیث میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کر رہے ہیں کہ حج و عمرہ میں  نبی ﷺ  کے تلبیہ کے الفاظ  اور اس کی عبارت ہوتی تھی: ”لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ...“۔ یہی  تلبیہ مسلمانوں کے نزدیک متفقہ طور پر نبی کریم کا تلبیہ ہے اور یہ حج و عمرہ کا تلبیہ ہے ۔

 شارحین حدیث کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ا پنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اپنے بندوں کو حج کے لیے بلایا  تھا اور منادی کرائی تھی ۔اللہ تبارک و تعالى کا فرمان ہے: و اذن فی الناس بالحج (حج/27) اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دیجیے ۔  تو حج کےلیے جانے والا بندہ جب احرام باندھ کر یہ تلبیہ پڑھتا ہے تو گویا وہ ابراہیم علیہ السلام کی پکار اوراللہ تعالیٰ کے بلاوے کے جواب میں عرض کرتا ہے کہ ”اے اللہ! تو نے اپنے گھر کی حاضری کے لیے اپنے خلیل سے ندا دلوائی تھی تو میں حاضر ہوں, حاضر ہوں اور اس حاضری کے لیے باربار تیار ہوں۔ یہ اس منادی کا جواب ہے بلکہ بار بار جواب ہے ۔

اس لیے جب کوئی محرم  لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کہہ رہا ہے کہ ہم ایک جواب کے بعد دوسرا جواب دے رہے ہیں یعنی  ہم تیری ندا کو بار بار قبول کررہے ہیں ۔اس سے مراد عدد نہیں ہے بلکہ کثرت مراد ہے ۔اس لیے ایک حاجی اللہ تبارک و تعالى کو بنا کسی ہچکچاہٹ , توقف, تردد یا تاخیر کے بغیر مکمل و لامتناہی جواب دیتا ہے , ۔ ہم ہر اس چیز کا جواب دیتے ہیں جو تو حکم دیتا ہے، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اور یہ دیکھے ہوئے کہ آیا یہ واجب ہے یا مستحب۔(موقع الشیخ د/عثمان بن خالد السبت, (21) لبیک اللھم لبیک...,ج1, تاریخ النشر:1-12-1434ھ)  

 لبیک اللھم لبیک کہنے والا گویا کہہ رہا ہے  کہ میں دنیا کی کششوں، محرکات، خلفشار اور مشاغل سے بالاتر ہو کر تیری پکار کو قبول کرنے میں سبقت کرنے والا ہوں ، تیری طرف متوجہ ہوں، تیرے سوا کسی چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوں، تیرے حکم کے علاوہ کسی چیز  میں اور تیرے قانون کے علاوہ کسی کام میں مشغول نہیں ہوں۔

پھر اس تلبیہ پر غور کریں  جو شروع سے آخر تک توحید ہے، تلبیہ  جو حج کا نعرہ ہے، پہلے لمحے سے حاجی اس کو پکارنا شروع کردیتا ہے  ، جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:آپ نے وحدانیت کا تلبیہ پکارنا شروع کیا "لبیک اللھم لبیک...."(مسلم/1218, ابوداؤد/1905, ابن ماجہ/3074) یہی توحید ہے اور اسی توحید کی آپ نے صدا بلند کی ۔(موقع الشیخ د/عثمان السبت, (21) لبیک اللھم لبیک...,)  

جب تلبیہ کہنے والا کہتا ہے: "میں حاضر ہوں، اے اللہ ، میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں" تو وہ  اپنے اس اعلان سے  وحدانیت کا اقرار کر رہا ہے۔ وہ اللہ تبارک و تعالى   کی وحدانیت کو ثابت  کر رہا ہے - وہ اس کا اعلان کرتا ہے، اور وہ اسے بلند آواز سے بصد   شوق پکارتا  رہتا ہے  یہاں تک کہ اس کی آواز بیٹھ  جاتی ہے۔

صحیح روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا حج افضل ہے؟ فرمایا: "العج و الثج" ۔(ترمذی/827, ابن ماجہ/2924, صحیح الجامع/1101) العج بلند آواز سے تلبیہ کہتے ہوئے  توحید کا اعلان کر نا ہے اور شرک کی تمام شکلوں اور صورتوں  کا انکار کرنا ہے ۔

وہ کہتا ہے: اے میرے  رب، اگر ہم اس گھر اور ان مشاعر  کی تعظیم کے لیے آئے ہیں  تو یہ صرف تیرے حکم، تیری بندگی اور تیری اطاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے ہے۔ جب تو نے ہمیں حکم دیا تو  ہم اس کو قبول کرکے حاضر ہوئے اور جب تو نے ہمیں پکارا تو ہم فرمانبرداری اورتابعداری  کے ساتھ آئے۔ ہم یہ صرف تیرے حکم کی  تعمیل، بندگی، اور تیری  قربت کی تلاش میں کرتے ہیں۔ ہمارے دل تیری وحدانیت سے معمور ہیں اور ہم  کسی اور کے علاوہ  صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ ہماری زبانیں اس اقرار اور شریکوں کے انکار سے  پر ہیں ۔(موقع الشیخ د/عثمان بن خالد السبت, (22) لبیک اللھم لبیک...,ج2, تاریخ النشر:2-12-1434ھ)

یہ تلبیہ اللہ  کے لیے اخلاص اور اس کی طرف متوجہ ہونے کا اظہار ہے, اس  کی حمد و ثنا اور فضل و کرم  کا اعتراف و اقرار ہے  اور وہی اس میں منفرد و تنہا ہے , تمام مخلوقات کا مالک ہے ۔ ان سب میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے۔ صرف  تو ہی تنہا  شکر اور تعریف کا مستحق ہے۔ کیونکہ تو ہی مطلق  کمال  میں منفرد ہے، اور اس لیے کہ تو ہی حقیقی عطا کرنے والا ہے، اور کوئی نعمت نہیں ہے سوائے اس کے کہ تو اس کا سرچشمہ ہے، اور تو ہی ہے جو ابدی بادشاہی میں منفرد ہے، اور تیرے سوا ہر سلطنت فنا ہے۔۔(موقع الدرر السنیۃ: الموسوعۃ الحدیثیۃ, شروح الاحادیث, تلبیۃ رسول اللہ....)

تلبیہ میں پہلے حمد و نعمت کابیان ہے اس کے بعد  ملک یعنی سلطنت و بادشاہت کا ذکر ہے  تاکہ یہ بتایا جائے کہ اطاعت و فرماں برداری کے اسبا ب عمومی ہیں  اور ایسا  تابعداری و عبادت کے وجوہات کو واضح کرنے کے لیے کیا گیا ہے ۔اس کے بعد لا شریک لک آیا ہے تاکہ اس سے مشابہت کی نفی  ہو اور وہ   ختم ہوجائے  اور وہی تنہا بادشاہت , تعریف و ثنا  اور نعمت کے ساتھ مستقل  ہے ۔(موقع الدرر السنیۃ: الموسوعۃ الحدیثیۃ, شروح الاحادیث, سمعت رسول اللہ یھل ملبدا....)

حضرات گرامی: یہ تلبیہ شروع سے لے کر آخر تک ہر جملے میں، بلکہ  ہر لفظ میں توحید کا اعلان ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا تلبیہ پکارا ۔

اسی طرح یہ بھی ملاحظہ کریں  کہ یہ تلبیہ  جو توحید کا نعرہ ہے، جو ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے، اور حج کی روح، اس کا سب سے بڑا مقصد اور دیگر تمام عبادات کی روح ہے۔ اس لیے  یہ تلبیہ اس عبادت کی کلید ہے  جس کے ذریعہ انسان اس میں داخل ہوتا ہے ۔ وہ طواف کرنے سے پہلے اور کسی بھی چیز سے پہلے "لبیک اللہم لبیک" کہہ کر شروع کرتا ہے۔ اس کے بعد، جس طرح نمازی "اللہ اکبر" کہہ کر شروع کرتا ہے، اور وہ مناسک کے درمیان اپنی  نقل و حرکت , حرکات و سکنات  اور  اپنی تبدیلیوںمیں  تلبیہ پڑھتا ہے۔  تو  یہ نماز میں منتقلی کی تکبیروں کی طرح ہے۔ اگر وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے  تو تلبیہ پڑھتا ہے، وغیرہ۔

تو یہ سب کچھ اس کو  ہر تبدیلی اور ہر موڑ پر  توحید کی یاد دلاتا ہے، احرام باندھنے سے لے کر طواف شروع کرنے تک، اس قول کے مطابق کہ طواف شروع کرتے ہی تلبیہ  بند ہوجاتا ہے ۔(موقع الشیخ د/عثمان بن خالد السبت, (22) لبیک اللھم لبیک...)

   تلبیہ کئی اہم  معانی و مفاہیم پر مشتمل ہے  جن میں سے کچھ کا  ذکر اوپر مختصرا ہوچکا ہے ، یہاں ان کو الگ الگ چند نقاط میں بیان کیا جا رہا ہے:

  1-"لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ" کا مطلب ہے کہ میں اللہ تعالی کے سامنے بار بار حاضر ہوں، "لَبَّيْكَ" کا لفظ تکرار کے ساتھ یہ واضح کرنے کے لیے  ہے کہ اللہ کے سامنے حاضری  ہمیشہ اور مسلسل  ہوگی۔

2- "لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ" یعنی میں اللہ تعالی کی اطاعت گزاری  و فرماں برداری میں آنے کے بعد بھی مزید اطاعت گزاری کے لیے  تیار ہوں۔

3- تلبیہ کا لفظ عربی زبان میں " لَبَّ بِالْمَكَانِ" سے ماخوذ ہے اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی کسی جگہ  پر ٹھہرے  تو وہیں کا ہو جائے، تو اس اعتبار سے معنی یہ ہو گا کہ : اے اللہ! میری تیری اطاعت پر قائم ہوں اور اسی پر دائم رہوں گا، چنانچہ تلبیہ میں اللہ کی بندگی پر قیام اور پھر اسی پر گامزن رہنے کا  عزم ہے۔

4- تلبیہ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ : یا اللہ! میں تجھ سے بڑھ  چڑھ کر محبت کرتا ہوں، یہ معنی عربی زبان کے مقولے : "امرأة لبۃ  " سے ماخوذ ہے ، یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب عورت اپنے بچوں سے خوب محبت کرے، اس معنی کے مطابق کسی کو" لَبَّيْكَ" اسی وقت کہا جائے گا جب محبت کے ساتھ تعظیم بھی شامل ہو۔

  5- تلبیہ میں  اخلاص کے معانی بھی شامل ہیں، اس معنی کے مطابق " لَبَّيْكَ" کا لفظ : " لُبّ الشيء" سے ماخوذ ہو گا ، یہ لفظ کسی بھی چیز کی ملاوٹ سے پاک  خالص صورت  پر بولا جاتا ہے، اسی طرح عربی زبان میں " لُبّ الرجل" آدمی کی عقل اور دل  مراد لیتے ہوئے بھی بولتے ہیں۔

 6- تلبیہ میں قربت  کا معنی بھی ہے اس صوت میں یہ " الإلباب" سے ماخوذ ہو گا جو کہ قربت  کے معنی میں ہے، تو مطلب یہ ہو گا کہ میں اللہ تعالی کے انتہائی قریب ترین ہوتا ہوں۔

 7- تلبیہ  ملتِ ابراہیمی میں عقیدہ توحید کا شعار اور سلوگن ہے، یہ عقیدہ توحید ہی حج کا مقصد اور حج کی روح ہے، بلکہ صرف حج ہی نہیں تمام عبادات کی روح اور ان کا ہدف بھی عقیدہ توحید ہی ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ تلبیہ کو عبادتِ حج میں داخلے کیلیے کنجی کی حیثیت حاصل ہے۔

      علاوہ ازیں تلبیہ میں درج ذیل امور بھی  پائے جاتے ہیں:

 - اللہ کے لیے حمد جو کہ قرب الہی حاصل کرنے کیلیے اہم ترین مقام  کی حامل ہے۔

 - تمام نعمتوں کا اعتراف کہ سب نعمتیں اللہ تعالی کی طرف سے ہیں یہی وجہ ہے کہ "النعمۃ " میں الف لام استغراقی ہے، یعنی تمام قسم کی نعمتیں اللہ تعالی کی طرف سے ہیں، اور اللہ تعالی نے ہی یہ نعمتیں عطا کی ہیں۔

- تلبیہ میں اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ  سارے جہانوں میں بادشاہی صرف اللہ تعالی کی ہے، ظاہری ملکیت کسی کی بھی ہو لیکن حقیقت میں اس کا مالک اللہ تعالی ہی ہے۔

  -حاجی تلبیہ کہتے ہوئے تمام مخلوقات  کو  اللہ تعالی کی بندگی اور نعرۂ توحید  لگانے میں اپنے ساتھ گنگناتا ہوا محسوس کرتا ہے، اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کوئی بھی مسلمان تلبیہ کہے تو اس کے دائیں بائیں حجر و شجر  اور مٹی سے بنی ہر چیز یہاں [دائیں] سے  یہاں [بائیں]تک پوری زمین تلبیہ سے گونج اٹھتی ہے) ترمذی (828) ابن خزیمہ  اور بیہقی نے اسے صحیح سند سے بیان کیا ہے۔

(موقع الاسلام سؤال و جواب,  لبیک اللہم لبیک  معنى اور اس سے کیا مراد ہے؟سوال نمبر 21617, 3-9-2016ع)

  غرضیکہ  تلبیہ حج کے عظیم مظاہر, اس کی شناخت اور شعار  میں سے ہے جس سے اللہ کی محبت اس کی لگن اور اس کے لیے ہر قسم کی مشکلات برداشت کرنے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے،نماز کے بعد سواری پر سوار ہوتے وقت اور بلندی پر چڑھتے وقت لبیک کا اہتمام زیادہ ہونا چاہیے۔تمام مسلمانوں کا بیک وقت لبیک کہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کے سامنے سب برابر ہیں, سب اللہ کی رضا کے طالب ہیں ,رنگ نسل زبان اور علاقے کے امتیازات اسلام کے عالمی تعارف کے مقابلے میں سب ہیچ ہیں۔اس میں بھی یہ سبق ہے کہ عام زندگی میں مسلمانوں کو اس طرح اتحاد واتفاق سے کام لینا چاہیے اور کسی مسلمان کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ (سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 918 , از موقع : موسوعۃ  القرآن و الحديث , سنن ترمذي, كتاب الحج,باب ما جاء في التلبیۃ, حديث نمبر825 (

تلبیہ کا حکم :

  امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تلبیہ کہنا اور پکارنا سنت وفضیلت ہے،اس کے چھوڑ دینے سے کچھ لازم نہیں آتا۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تلبیہ واجب ہے۔اس کے ترک سے دم لازم آئےگا۔

  بعض حضرات کے نزدیک تلبیہ واجب ہے لیکن اگر احرام کی نیت سے تکبیر وتہلیل اور تسبیح کہہ لے تو کفایت ہو جائے گی۔امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ۔اہل ظاہر اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول کی رو سے تلبیہ احرام کا رکن ہے۔جس طرح تکبیر تحریمہ نماز کا رکن ہے،اس کے بغیر احرام نہیں ہو گا۔( تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2811, موقع : موسوعۃ  القرآن و الحديث , سنن ترمذي, كتاب الحج,باب ما جاء في التلبية, حديث نمبر825)

بآواز بلند تلبیہ پڑھنے کا حکم :

   بآواز بلند تلبیہ پڑھنا سنت ہے , اس پر ائمہ کا اتفاق ہے  کیونکہ اہلال کا مطلب ہوتا ہے کہ احرام کی نیت کرتے وقت زور سے تلبیہ پکارنا ۔صرف ظاہریہ کے نزدیک زور سے تلبیہ کہنا واجب ہے ۔ ابن حزم کا کہنا ہے  کہ مرد اور عورت دونوں بآاوز بلند تلبیہ کہیں گے ۔ یہ ضروری اور فرض ہے گرچہ ایک ہی بار ہو ۔جمہور کا مسلک اس کے برخلاف ہے ۔ان کے یہاں آواز بلند کرنا صرف مردوں کے لیے  ہے عورتیں اپنی آواز پست رکھیں گی۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: موقع الالوکۃ:  لبیک اللہم لبیک, د/عبد اللہ بن حمود الفریح)

تلبیہ کے الفاظ میں اضافہ :

   جمہور کے نزدیک تلبیہ کے انہیں الفاظ پر کفایت کرنا بہتر ہے جو آپﷺ سے ثابت ہیں،اگرچہ ان پر دعائیہ اور تعظیم کے کلمات کا اضافہ جائز ہے کیونکہ آپﷺ کے سامنے کچھ کلمات کا اضافہ کیا گیا تو آپﷺ نے ان پراعتراض نہیں کیا۔لیکن خود ان کلمات پر اضافہ نہیں فرمایا۔۔( تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2811, از موقع : موسوعۃ  القرآن و الحديث , سنن ترمذي, كتاب الحج, باب ما جاء في التلبية, حديث نمبر825)

   علامہ زبیر عل زئی کا کہنا ہے کہ  ایسی دعا اور دم جس میں شرکیہ الفاظ یا مبالغہ نہ ہو، جائز ہے لیکن اسے سنت نہیں سمجھا جائے گا۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ مسنون اذکار وادعیہ کو اختیار کیا جائے۔ الفاظ تلبیہ میں افضل یہی ہے کہ رسول اللہﷺ کے تلبیے پر اقتصار کیا جائے لیکن اگر کوئی اس میں اضافہ کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

   لوگوں نے جب لبیک میں اضافہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سننے کے باوجود ان کا کوئی رد نہیں کیا۔ [سنن ابي داؤد: 1813، وسنده صحيح وصححہ ابن خزیمۃ: 2626] تاہم بہتر یہی ہے کہ وہی الفاظ کہے جائیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ (موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 221, از موقع : موسوعۃ  القرآن و الحديث , حديث نمبر825 (

    علاوہ ازیں جابر بن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے تلبیہ میں اپنی طرف سے " ذَا الْمَعَارِجاور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم ﷺ سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے،اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائز ہے،اگر جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے،آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے،ابن عمر رضی اللہ عنہا کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے۔(سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 825 از موقع : موسوعۃ  القرآن و الحديث , حديث نمبر825 (  تو ثابت ہوا کہ تلبیہ کے الفاظ میں ایسا اضافہ کیا جا سکتا ہے جو اللہ کی تعظیم پر مبنی ہو، یہی قول جمہور علماء کا ہے۔(سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2751 از موقع : موسوعۃ  القرآن و الحديث , حديث نمبر825 (  

  تلبیہ کے مختلف الفاظ مروی ہیں مثلا: جو اوپر حدیث میں مذکور ہے اس کے علاوہ  لبیک الہ الحق , لبیک حقا حقا تعبدا  و  رقا  یا   لبيك وسعديك ، والخير بيديك ، والشر ليس إليك ، نحن عبادك الوافدون إليك ، الراغبون فيما لديك وغیرہ ۔ان میں سے جو الفاظ چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔اور یہ بھی درست ہے کہ کبھی ایک روایت کے مطابق تلبیہ پڑھا جائے اور کبھی دوسری حدیث کے مطابق۔(سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2918, از موقع  موسوعۃ القرآن و الحدیث: سنن ابن ماجہ, کتاب المناسک, باب التلبیۃ, حدیث نمبر 2918,  موقع الاسلام سؤال و جواب: حکم الزیادۃ فی التلبیۃ, سوال نمبر 220989, تاریخ:5/جولائی 2014ع)

 فوائد و مسائل:

تلبیہ حج کا شعار, اس کی علامت اور شناخت ہے ۔

تلبیہ از اول تا آخر توحید پر مشتمل ہے ۔

تلبیہ میں حکمت یہ ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی عزت و اکرام پر تنبیہ کرتی ہے  کہ اس کے گھر کی زیارت کے لیے ان کا آنا اس کی دعوت پر تھا ۔

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول شرعی  تلبیہ کی  وضاحت ہے ۔

  حج اور عمرہ میں تلبیہ کا جواز اور اس پر تاکید اس لیے کہ یہ اس کی خاص علامت ہے جس طرح تکبیر نماز کی علامت ہے۔

حدیث میں مذکور عبارت اور فارمولے کے مطابق تلبیہ کا جواز۔

عند الضرورت اجتہاد کرنا جائز ہے بشرطیکہ نص (کتاب و سننت و اجماع) کے خلاف نہ ہو۔

تلبیہ میں مناسب اضافہ جائز ہےبشرطیکہ وہ تعظیم پر مبنی ہو اور خلاف شریعت نہ ہو   ۔

تلبیہ کئی عظیم معانی و مفاہیم پر مشتمل ہے  مثلا توحید, اخلاص , اطاعت الہی, شرک کا   انکار  وغیرہ ۔

تلبیہ پڑھتے وقت آواز بلند کرنا مستحب ہے۔ یہ مردوں کے لیے ہے، جبکہ عورتیں فتنہ کے خوف سے اپنی آوازیں نیچی رکھیں۔ (سابقہ مآخذ)

    آخر میں اللہ تبارک و تعالى سے دعا ہے  کہ وہ پوری دنیا کے تمام مسلمانوں  خصوصا حاجیوں کو تلبیہ کو ازبر کرنے , اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے اور اس کے مطابق توحید پر عمل پیرا ہونے, شرک سے بچنے  اور اس سے منع کرنے  اورتوحید  کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: