ایران اسرائیل جنگ کے مختلف زاویوں پر ایک نظر

  

       ایران اسرائیل جنگ کے مختلف زاویوں پر ایک نظر

drmannan.com/islahotaraqqi.com             

   7تا 10/مئی 2025ع کے درمیان  ہندو پاک کے درمیان چار روزہ جنگ کے اخبار کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی تھی  کہ13/جون 2025ع کو  ایران و اسرائیل کے مابین  جنگ کی خبر آئی ۔یہ جنگ بھی کل 12/دن جاری رہی اور 24/جون کو ختم ہوگئی ۔ان دونوں جنگوں میں کئی چیزیں  مشترک ہیں  جیسے  کہ ان دونوں کا خاتمہ  بنا کسی واضح ہار جیت کے جنگ بندی پر ہوا اور دونوں کی جنگ بندی  صدر امریکہ ٹرمپ کی کوششوں یا زیادہ بہتر کہنا ہے کہ  دھمکیوں  سے ہوئی  ۔اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان دونوں جنگوں کے فریقوں نے نہ صرف اپنی جیت کا دعوى کیا بلکہ جشن  بھی منایا ۔انڈیا و پاکستان , ایران و اسرائیل میں خوب جشن منائے گئے اور ہرایک نے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کا دعوى کیا ۔ اسرائیلی صدر نے تو اسے ٹرمپ کا  تاریخ ساز انتہائی بہادرانہ و دلیرانہ  کارنامہ قرار  دیا , اس  کی تعریف میں خوب  قصیدے پڑھے  اور اسے دانشمندی و عقلمندی سے بھر پور  قدم قرار دیا حالانکہ دونوں جنگوں کا خاتمہ جنگ بندی پر ہوا اور جنگ بندی کا مطلب کسی فریق کی واضح و فیصلہ کن  جیت نہیں ہے بلکہ درمیان ہی میں جنگ روک دی  جاتی ہے ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ایک فریق کا زیادہ نقصان ہو اور دوسرے فریق کا کم نقصان ہو ۔

خیر اس تحریر کا مقصد جنگ کی خبروں اور اس میں ہوئے نقصانات کا جائزہ لینا نہیں  ہے ۔ یہ تمام چیزیں انٹرنٹ پر دستیاب  ہیں جہاں ہمارے قارئین بسہولت اس سے مطلع ہوسکتے ہیں۔ اس اداریہ کا مقصد ایک مختلف انداز میں  اس جنگ کے مختلف ناحیوں اور گوشوں کا جائزہ لینا ہے ۔بقول شاعر مشرق علامہ اقبال :   

        اَوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے           عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے          

 بلا شبہ اس جنگ پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور صفحات کے صفحات  سیاہ کیے جا سکتے ہیں لیکن یہاں پر صرف 5/ ناحیوں و زاویوں سے  روشنی ڈالی جا رہی ہے اور ان کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے  ۔

آئینی اور قانونی زاویہ  سے:

اسرائیل اور کئی مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ایران نے  خفیہ طور پر یورینیم افزودگی میں اتنی صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ  وہ ایٹم بم بنانے  کے قریب ہے , وہ جوہری عدم پھیلاؤ (این پی ٹی)سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کر رہا ہے اور اس نے  اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اور اگر اسے  ابھی روکا نہیں گیا تو پھر  بعدمیں  جوہری ہتھیار بنانے سے اسے  کوئی نہیں روک سکے گا۔ایران اس کی تردید کرتا ہے اور اس بات زور دیتا ہے کہ یہ ایک سویلین جوہری پروگرام ہے اور یہ پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اس پروگرام کو روس سے بھی مدد ملی ہے۔

در اصل اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ ایران  کا ایٹمی پروگرام  مشرق وسطی میں جوہری ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع کرسکتی ہے  ۔ دونوں ممالک اس سے قبل اپریل اور اکتوبر 2024ء میں محدود پیمانے پر حملے کر چکے تھے۔جون 2025ء میں اسرائیل کے حملے اس وقت شروع ہوئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران کو دیا گیا دو ماہ کا مہلت نامہ ختم ہو گیا جس کا مقصد ایران کو جوہری معاہدے پر آمادہ کرنا تھا۔

اس جنگ کا آغاز 13/جون کو اس وقت  ہوا جب اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کو وسعت دینے سے روکنے اور جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت کو ناکارہ بنانے  کے دعوے کے ساتھ ایران کی متعدد تنصیبات پر ناگہانی حملے کیے۔ ان حملوں کوآپریشن شیرِ برخاستہ“ کا نام دیا گیا، جن کے دوران اسرائیلی دفاعی افواج اور موساد نے ایران کے جوہری مراکز، عسکری تنصیبات اور شہری علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا۔اسی شب ایران نےآپریشن وعدۂ صادق سومکے تحت جوابی کارروائی کی، جس میں ایران نے بیلسٹک میزائلوں اور خودکار ڈرونوں کے ذریعے اسرائیل کے فوجی اور انٹیلی جنس مراکز کے ساتھ ساتھ بعض رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا۔

ہم میں سے ہرکوئی اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل یا مغربی ممالک  کے دعوى و  الزام میں کتنی صداقت ہوتی  ہے ۔ اس سے پہلے عراق پر پڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیارMass Destruction Weapons رکھنے کا الزام لگاکر امریکہ نے مارچ 2003ع  حملہ کیا تھا  اور صدام  حسین کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھا اورپھر اس کو گرفتار کرکے  پھانسی کے پھندا پر لٹکا دیا تھا  لیکن یہ الزام بعد میں سراسر  جھوٹ ثابت ہوا  اور وہاں کوئی ہتھیار نہیں ملا ۔اسی طرح لیبیا پر مغربی ممالک نے کیمیائی ہتھیارChemical Weapons رکھنے کا الزام گڑھ کر  مارچ 2011ع میں  حملہ کیا اور وہاں کی حکومت  کو ختم کردیا ۔لیکن یہ الزام بھی پہلے کی طرح سراسر جھوٹا نکلا ۔

خیر اگر قومی و بین الاقوامی آئین کی روشنی میں اس حملہ  کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہے  کہ بلا شبہ اسرائیل کا ایران پر حملہ  قومی و بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھی اور یہ علانیہ جارحیت اور زیادتی تھی  اور ایک ملک کا دوسرے  آزاد ملک کی خود مختاری, آزادی اور سالمیت پر براہ راست حملہ تھا۔

سب سے  پہلے یہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی تھی کیونکہ انٹرنیشنل  قانون کسی ملک کو  اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ کسی دوسرے آزاد و خود مختار  ملک پر  حملہ کرے ۔

علاوہ ازیں یہ اقوام متحدہ اور دیگر کئی اہم  بین الاقوامی تنظیموں کےمیثاق و منشور  کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی کیونکہ  اس کے تحت کسی ملک  کو دوسرے ملک پر حملہ کی اجازت نہیں ہے ۔

یہ کسی بھی ملک کی سالمیت, خود مختاری اور آزادی قوانین کی خلاف ورزی تھی ۔

یہ جوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ NPT) )کی خلاف ورزی تھی  کیونکہ  بقول ایران وہ  اس کی مکمل پابندی کر رہا تھا  اور ایٹمی ہتھیار نہیں تیار کر رہا تھأ ۔اور اس معاہدہ کے تحت ہر ملک کو اختیار ہے کہ وہ سویلین مقاصد کے لیے ایٹمی انرجی کا استعمال کرسکتا ہے ۔

یہ  انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی قانون( IAEA) کی مخالفت تھی کیونکہ بعض مبصرین کے خیال میں  ایجنسی  کے رپورٹ کے مطابق ایران ایٹم بم نہیں تیار کر رہا تھا بلکہ  ایجنسی تفتیشی   ٹیم  کو ایرانی  نیوکلیر پلانٹس تک جانے اور جانچ کرنے کی پوری آزادی تھی ۔لیکن بعد میں اس ایجنسی نے این پی ٹی کی مخالفت کا الزام لگایا ۔

امریکہ کا حملہ میں شمولیت وہاں کے قانون کی خلاف ورزی تھی کیونکہ امریکی صدر ٹرمپ نے حملہ کی منظوری کانگریس سے نہیں لی تھی ۔

تلسی گابارڈ  جو امریکی قومی   انٹلیجنس خفیہ ادارہ  کی سربراہ ہیں انہوں نے پہلے بیان دیا تھا کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا ہے لیکن جب ٹرمپ نے ان کے دعوى کو جھوٹا بتایا تو وہ اپنے بیان سے پلٹ گئیں ۔

ان سب سے واضح ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسرائیل و امریکہ کا  مشترکہ حملہ بہت سارے قومی و بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھی اور اسی اعتبار سے دنیا کے تقریبا تمام  اسلامی ممالک  نے اس کی پرزور مذمت کی اور اسے جارحیت قرار دیا ۔ لیکن فوجی  طاقت و قوت کے نشہ میں چور ممالک نے کب ان قوانین کی پاسداری ہے ۔ان کی نظر میں ان کا ہی موقف و عمل ہمیشہ درست و صحیح ہوتا ہے اور دوسروں کا ہمیشہ غلط ہوتا ہے ۔ وہی صرف حق پر ہوتے ہیں اور دوسرے ناحق ہوتے ہیں ۔یہ دنیا میں جنگل راج اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی واضح مثال ہے ۔ 

دینی و تاریخی پس منظر میں :

دینی اعتبار سے  اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایران ایک شیعی ملک ہے  اور شیعی اسلام سنی اسلام سے بالکل مختلف ہے ۔ دونوں میں کسی طرح کی کوئی مماثلت و مشابہت نہیں پائی جاتی ہے ۔ عقیدہ سے لے کر احکام, عبادات , احادیث,  فقہ حتى کہ قرآن تک میں اختلاف ہے کیونکہ وہ قرآن میں نعوذ باللہ تحریف کے قائل ہیں ۔صحابہ کرام کے بارے میں ان کا نظریہ کتاب و سنت کے بالکل برعکس ہے ۔ وہ چند صحابہ کو چھوڑ کر باقی سب کو مرتد مانتے ہیں ۔  حضرت ابو بکر و عمر کو طاغوت و غاصب کہتے ہیں ۔ اللہ تعالى کی طرف سے براءت کے باوجود ام المؤمنین صدیقہ بنت الصدیق  حضرت عائشہ پر تہمت لگاتے ہیں , ان کے یہاں ائمہ کا درجہ انبیاء سے بڑھ کرہے, ان کے نزدیک سنی کافر ہیں اسی وجہ سے ان کا خون و مال ان کے لیے حلال ہے وغیرہ۔معلوم ہوا کہ  ان کا دین و مذہب, عقیدہ و فکر  سنی دین سے بالکل الگ و جدا  ہے۔اسی بنیاد پر ان کی نفرت و عداوت سنیوں سے ہے اور وہ ان کے کٹر وجانی دشمن ہیں اور ہمیشہ ان کو نقصان پہنچایا ہے ۔یہ تاریخی اعتبار سے ثابت ہے جیسا کہ نیچے ذکر کیا جا رہا ہے ۔ 

اگر تاریخی پس منظر میں  دیکھا جائے تو اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے کہ شیعہ نے ہمیشہ اسلام و مسلمان دشمنوں کا ساتھ دیا  ہے, ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے  ۔ جہاں بھی ان کو حکومت ملی ہے  سنیوں پربرابر  ظلم ڈھایا ہے اور ان کو تباہ و برباد کرنے کی پوری کوشش کی ہے ۔فاطمی, بویہی, صفوی اور نصیری   وغیرہ شیعی حکومتوں نے اسلام و مسلمانوں کو زبردست و ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔پوری تاریخ ان کے کالے کارناموں سے بھری پڑی ہے ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے ۔مزید تفصیل کے لیے پڑھیے  اسی شمارہ میں  :غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم ,یا میرے ویب سائٹdrmannan.com پر گوگل پر سرچ کرکے پڑھیے : شیعہ : اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن یا  ایران و عراق میں صفوی سلطنت کے مظالم  کی مختصر داستان۔ اور اگر مزید  تفصیل سے جاننا چاہتے ہیں  تو کتاب " خیانات الشیعۃ و أثرھا فی ھزائم الامۃ الاسلامیۃ" تالیف عماد علی حسین  کا مطالعہ کیجیے۔

معلوم ہوا کہ شیعہ دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے  سنی مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں اور یہ کسی معنى میں یہودیوں و نصرانیوں سے کم نہیں ہیں بلکہ ان سے بڑھ کے ہیں کیونکہ یہ آستین کے سانپ ہیں اور چھپے ہوئے دشمن ہیں ۔ اور بلا شبہ ایک چھپا ہوا دشمن ایک ظاہری دشمن سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔

حالیہ برسوں میں شیعی ایران اور اس کے ہم نوا نصیریوں, حزب اللہ و حوثیوں نے شام , عراق , یمن وغیرہ میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا ہے , ان کے املاک کو تباہ و برباد کیا ہے, ان کی عزت و ناموس سے کھلواڑ کیا ہے ۔ اور آج جو اسلامی دنیا کے کئی ممالک میں بد امنی پائی جاتی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ شیعہ بھی ہیں ۔

اب غور  کرنے کی بات  ہے کہ اس زاویہ سے کوئی سنی کسی شیعہ کی حمایت کیوں کرے گا ؟ ایسا وہی سنی  کرسکتا ہے جو اپنی تاریخ سے جاہل اور شیعہ کے کالے کارناموں سے ناواقف ہے ۔بلا شبہ  شیعہ سنیوں کی تائیید و حمایت کے قطعی طور پر حقدار نہیں ہیں۔ کوئی سنی ان کی حمایت  اس وقت کرتا ہے نہ آئندہ کوئی کرے گا ۔ نہ ان کی کامیابی کی تمنا اب  کرتا  ہے نہ کبھی مستقبل میں  کرے گا کیونکہ ان کی کامیابی سنیوں کی ہلاکت و بربادی ہے خصوصا آج کے دور میں جب کہ  اکثر سنی ممالک انتہائی کمزور ہیں ۔

جنگی ساز و سامان  و ٹکنالوجی کے   اعتبار سے :

ایران و اسرائیل جنگ نے بہت سارے گوشوں سے پردہ اٹھا یا ہے جن میں سے ایک ایران کی روز بروز بڑھتی ہوئی جنگی طاقت اور سازوسامان بنانے کی صلاحیت ہے ۔ بلا شبہ ایران نے جنگی ساز وسامان اور ٹکنالوجی خصوصا میزائل اور ڈرون ٹکنالوجی  میں کافی ترقی کی ہے ۔اس کا   بیلسٹک میزائل پروگرام 1970ع کی دہائی میں شروع  ہوا تھا, اس نے شروع میں  روس اور شمالی کوریا وغیرہ سے میزائل خریدا,  اس کی ٹکنالوجی حاصل کی , پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی کی اور آخر میں  خود اپنی مقامی ٹکنالوجی سے مختلف اقسام کے  میزائل بنانے میں کامیاب رہا ۔جس کے نتیجہ میں  آج وہ  غدر, عماد , خیبر شکن , حاج قاسم میزائل وغیرہ نامی کئی قسم کے کروز, بیلسٹک اور سپر سونک  مہلک میزائل تیار کر رہا ہے   جو 2000/کلو میٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے  ہیں ۔اس کے پاس 3000/سے زائد میزائلوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔انہیں میزائلوں اور ڈرون کے ذریعہ ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا اور حالیہ جنگ کے دوران تقریبا 550/بیلسٹک میزائل اور تقریبا 1000/ڈرون داغےجن میں سے زیادہ تر کو فضائی  دفاعی نظام نے ناکارہ بنا دیا  تاہم متعدد میزائل اپنے اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے    اور اسرائیل میں تباہی مچائی  اور اس کو ہلا کر رکھ دیا ۔ وہاں کئی بلڈنگیں تباہ ہوئیں اور28/افراد لقمہ اجل بنے۔

 بلا شبہ یہ ایران کا ایک نہایت  بڑا  و قابل فخر کارنامہ ہے  جو اس  کے لیے انتہائی  کارآمد و مفید ہے لیکن سنیوں کے لیے باعث تشویش  و خطر ضرور ہے ۔

اس جنگ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایران فضائی طاقت میں بہت کمزور ہے اور اس کی فضائیہ مکمل طور پر مقابلے سے باہر ہے ۔پہلی بار 200/اسرائیلی جنگی جہازوں نے ایران کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد بھی  حسب خواہش نشانہ بناتے رہے لیکن کسی بھی جہاز کو گرانے کی کوئی موثوق اطلاع نہیں ہے, اس کے بارے میں متضاد خبریں ہیں  ۔ یہ اس کی ایک بڑی کمزوری ہے ۔ بلکہ تقریبا تمام مسلمان ممالک کی انتہائی بڑی کمزوری ہے ۔ اس میدان میں ترکی اور پاکستان نے کافی ترقی ہے ۔ ترکی نے اپنے یہاں" کان  KAAN"جنگی جہاز بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے جو راڈار پر بھی نہیں آتا ہے اور 2024ع میں اس کا کامیاب تجربہ بھی ہو چکا ہے اور2025ع میں  انڈونیسیا نے اس کے خریدنے کا آرڈر بھی دیدیا ہے ۔  

ایٹمی طاقت کےلحاظ  سے :

امریکہ, اسرائیل اور دیگر کئی مغربی ممالک کے نقطہ نظر سے  بلاشبہ ایران کا خفیہ ارادہ  ایٹم بم بنانے کا ہے ,وہ یقینا  ایک ایٹمی پاور  بننا چاہتا ہےاگر چہ وہ اس کو علانیہ طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ 1991ع سے ہی کوشاں ہے اور اس نے یورینیم افزودگی میں مطلوبہ معیار کی   کامیابی حاصل کرلی ہے اورکئی تبصرہ نگاروں کا ماننا ہے  کہ اس نے مطلوبہ معیار  میں  یورینیم   کو افزودہ  بھی کرلیا ہے جس کے ذریعہ وہ ایٹم  بم تیار کرنے کے بہت قریب  ہے ۔  یہ الزام تو اسرائیل پچھلے 34/سالوں سے اس کے اوپر  لگا رہا ہے  حالانکہ ایران اس سے برابر انکار کرتا رہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایٹم بنانا ہر آزاد خودمختار ملک کا حق ہے ۔ ایران بھی ایک خودمحتار آزاد ملک ہےاس لیے  یہ اس کا بھی حق ہے۔ جس طرح دنیا کے کل  9/ ممالک: امریکہ, چین, روس, انڈیا, پاکستان , بریطانیہ ,فرانس, اسرائیل , شمالی کوریا  نے اپنی حفاظت کے لیے ایٹم بم بنائے ہیں اسی طرح ایران بھی اپنی حفاظت کے لیے ایٹم بنانے کا حقدار ہے  ۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس سے چشم پوشی کرنا گناہ کبیرہ ہے کہ ایٹم بم ایک بہت ہی خطرناک و مہلک ہتھیار ہے اور یہ دنیا کی امن و سلامتی کے لیے بہت زبردست بلکہ سب سے بڑا خطرہ ہے ۔  اس سے دنیا و انسانیت کا وجود بھی خطرہ میں پڑسکتا ہے لہذا ہر ملک کا ایٹمی  پاور بننا بہر حال تشویش و پریشانی  کا باعث ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی طور پر جوہری عدم پھیلاؤ ( این پی ٹی )معاہدہ نافذ کیا گیا  جس کا مقصد دنیا میں ایٹمی ہتھیار کےپھیلاؤ کو روکنا ہے ۔ بلا شبہ یہ ایک مستحسن قدم ہے کیونکہ ہر ملک یا بہت سارے ملکوں کا ایٹمی پاور بننا بہر حال دنیا کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خظرہ ہے اور اس کو کنٹرول میں رکھنا بہت ضروری ہے ۔ لیکن اس کا غلط الزام لگاکر کسی ملک پر حملہ کرنا بہر صورت  صحیح نہیں ہے ۔ یہ قابل مذمت ہے ۔ ایران نے اس معاہدہ پر باقاعدہ دستخط کیا ہے  اور وہ اس کی پاسداری بھی کرتا ہے  ۔ وہ آئی اے ای اے کا بھی رکن ہے اور اس کی ٹیم ایرانی نیوکلیر پلانٹس کی  جانچ لیے برابر ایران  آتی ہےجس کا  کہنا تھا کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا ہے ۔ ان سب کے باوجود  حملہ کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔لیکن بقول شاعر:

      بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت    *******  نہیں کام آتی دلیل و حجت

اس کا ایک زاویہ اور ہے وہ  یہ ہے کہ اگر ایران ایٹمی طاقت بن جاتا ہے تو وہ علاقہ کا  بنا کسی ادنى شک کے چودھری بن جائے گا ۔ اور  اسرائیل یہی نہیں چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا ملک اس علاقہ میں ایٹمی طاقت بنے جس سے اس کی چودھراہٹ کو خطرہ لاحق ہو اور اسی لیے وہ ایران کو اپنی سالمیت و بقا کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے ۔جب کہ یہ قطعا غلط و سراسر جھوٹ و بکواس  ہے ۔ تاریخ میں  ایران کبھی بھی  اسرائیل کے لیے نہ خطرہ رہا ہے اور نہ کبھی آئندہ رہے گا ۔ اس کی وجہ ان دونوں کےنہایت گہرے , مضبوط دوستانہ تعلقات ہیں  جو اہل  فکر و نظر پر پوشیدہ نہیں ہیں ۔ البتہ ایران کا ایٹمی پاوربننا  یہ سنیوں اور ان کے ممالک کے لیے بلا شبہ انتہائی  بڑا خطرہ ہے کیونکہ شیعہ کی سنی  سے عداوت و نفرت ایک حقیقت ہے  اور وہ سنیوں کے ازلی و ابدی دشمن ہیں   جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے ۔ بلا شبہ اس سے اس کی جنگی طاقت میں بے تحاشا اضافہ ہوگا ۔جس کے نتیجہ میں وہ آج سے کہیں زیاد ہ ظالم, جابر, خونخوار و بے رحم بن جائے گا اور علاقہ کے تمام سنی ممالک کو یرغمال بنالے  گا اور وہ  اس کے رحم و کرم پر ہوں گےاوروہ خوب  منمانی کرے گا ۔ لہذا ہم  بالکل نہیں چاہتے ہیں کہ ایران کبھی بھی ایٹمی پاور بنے  اور یہ  قطعی طور پر سنی مسلمانوں کے حق میں بھی  نہیں ہے ۔

آج کی دنیا میں سنی مسلمان ممالک کی پوزیشن :

آج کی دنیا میں سنی مسلمان ممالک کی پوزیشن  افراد , وسائل و سرمایہ کی فراہمی اور  کثرت کے باوجود نہایت کمزو ر ہے اور اس کی سب سے  اہم وجہ ان کی  باہمی نااتفاقی , عدم اتفاق و اتحاد, آپسی  تنازعہ و اختلاف ہے اور ساتھ ہی سائنس و ٹکنالوجی  خصوصا جنگی ساز و سامان کے میدان میں ان کا انتہائی  پیچھے رہنا ہے ۔ حالانکہ ہر میدان میں  آگے بڑھنے, خوب ترقی کرنے اور سپر پاور بننے کے تمام اوصاف و خوبیاں ان ممالک میں موجود ہیں ۔ کام کرنے والے  افراد, وسائل, سرمایہ   اور عقول غرضیکہ کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے ۔

لیکن ان سب کے باوجودآج کے ایام میں ہمارا  محبوب مشغلہ اور کام صرف عورتوں کی طرح  رونا اور آنسو بہانا ہے اور دشمنوں کو کوسنا اور ان کی  شکایت کرنا ہے , ان کے ذریعہ کیے جا رہے مظالم کا  صرف بکھان کرنا ہے اور ان کے مظالم کو طاقت کے زور پر روکنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ایک  دشمن اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا کرتا ہے ؟ جب ہم  ایران و مغربی ممالک کو اپنا دشمن تسلیم کرتے ہیں اور وہ بلا شبہ دینی, سیاسی, تاریخی, سماجی , تہذیبی و اقتصادی ہر اعتبار سے ہمارے  دشمن ہیں تو وہ وہی کر رہے ہیں جو ایک دشمن اپنے دشمنوں کے ساتھ کرتا ہے اور ایسا انہوں نے تاریخ کے ہر دور میں کیا ہےیہ اس زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے   ۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ہم کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوئے بیٹھے ہیں ؟ ہم بزور طاقت اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفاع کیوں نہیں کرتے ہیں ؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟  کیا ہماری سیاسی و جنگی کمزوری اس کی وجہ  ہے یا  کچھ اور ؟ اگر ہماری کمزوریاں اس کی وجہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری کمزوریاں, خرابیاں  و خامیاں ہی اس کی اصل وجہ ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں اپنی غلطیوں و خامیوں کا جائزہ لے کر ان  کو دور کرتے ہیں ؟غور کرنے کی بات ہے کہ  اگر تنہا  ایران مغربی پابندیوں کے باوجود  جنگی ساز و سامان کی صنعت  میں اس قدر ترقی کرسکتا ہے تو ہم سنی مسلمان کیوں نہیں کرسکتے ہیں ؟آخر سنی مسلمان ممالک  آپس میں اتفاق و اتحادکیوں نہیں کرتے ہیں ؟آخر ہم سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ماضی کی طرح دوسری قوموں سے آگے کیوں نہیں نکل سکتے ہیں ؟   آخر ہم کو کس نے قید کر رکھا ہے یا ہمارے اوپر کس کا دباؤ ہے؟ضروری ہے کہ ہم اپناجائزہ لے کر  ان وجوہات و اسباب کا پتہ لگائیں, ہم اپنی خرابیوں و خامیوں کو جانیں  اور ان کو دور کریں , ہر میدان میں خود کفیل بنیں اور دوسروں پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں ۔

 ورنہ ہم دنیا میں اسی طرح بے وقار و بے وزن رہ کرذلت اور رسوائی کی   زندگی گذارتے رہیں  گے , اور اپنے دشمنوں کو کوستے رہیں  گےاور بزدلوں کی طرح آنسو بہاتے رہیں گے  ۔ہمیشہ یاد رکھیے کہ ظلم اور ظالم پر قابو پانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ظالم سے طاقت و قوت میں آگے بڑھ جانا ہے ۔ ظالم صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز اس کے لیے بیکار ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے اور تاریخ سے بھی یہی درس ملتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنا محاسبہ کریں گے اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں گے اور کب کریں گے ؟

یہ ہے ایران اسرائیل جنگ کے مختلف زاویوں پر ایک نظر, اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اور بھی کئی  زاویوں سے جیسے ایران اسرائیل جنگ: ڈرامہ یا حقیقت, دوران جنگ خبریں : افسانہ یا صداقت , جنگ کے مقاصد, جنگ کے نقصانات, اسرائیل کا وجود امریکہ کا مرہون منت ہے, امریکہ پر یہودی لابی کا اثر  وغیرہ   اس پر بحث ہو سکتی ہے لیکن طوالت سے بچنے کے لیے  ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالى سنی مسلمان ممالک کے حکمرانوں و علماء کو خواب غفلت سے بیدار ہونے اور ہوش کے ناخن لینے کی توفیق بخشے ۔ آمین  و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: