غیروں
پہ کرم اپنوں پہ ستم (قسط 2)
islahotaraqqi.com
( شیعیت کو بے نقاب کرتی ایک
زبردست تحریر )
تحریر: ڈاکٹر محمد امحزون :
الدولۃ الصفویۃ فی ایران التاریخ و
المنھاج
ترجمہ: ڈاکٹر عبد المنان محمد
شفیق مکی
شاہ عباس اول ہر موقع پر عیسائیوں کے ساتھ ہمدردی کا خواہش مند رہتا تھا، اور ان کی مذہبی تقریبات میں ان کے ساتھ شامل ہونے کا خواہاں ہوتا تھا، خواہ اس کے نتیجے میں ایسے اعمال کا ارتکاب کیا جائے جو اسلامی عقیدے کی روح سے متصادم ہوں۔
سنہ
1018 ھ/ 1609ع کا واقعہ ہے کہ اس نے جارجیا سے بہت سے سور منگائے تاکہ جولفہ کے نصرانیوں کو عید کے موقع پر ان
کو بطور ہدیہ دے ۔پھر وہ خود ان کو عید کی مبارکباد دینے کے لیے جولفہ گیا اور ان کے ساتھ شراب پینے میں شریک ہوا ,
اور صفوی دربار کے اپنے تمام مصاحبین کو شراب پینے کا حکم دیا تاکہ اس مناسبت سے وہ بھی نصرانیوں کے ساتھ
شریک ہوں حالانکہ نصرانی تہوار کا وہ دن 15/ویں رمضان کا تھا ۔ پھر اس نے ان کے ایک
پادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:"جب تم روم جانا اور پوپ کے سامنے پیش
ہونا تو اس کو بتادینا کہ کس طرح میں نے رمضان کے دن میں شراب پی اور
یہ سب قاضی و مفتی کی موجودگی میں ہوا
اور کس طرح میں نے سب کو شراب
پلایا , اور اس سے یہ بھی کہنا کہ اگر چہ میں عیسائی نہیں ہوں پھر بھی عزت
اور احترام کے لائق ہوں "۔ [23]
اس
طرح، شاہ نے کئی عقائدی خلاف ورزیاں کیں، جیسے
: مشرکین کو ان کے تہوار کی مبارکباد دینا،
ان کے جشن میں شرکت کرنا، نشہ آور چیز پینا، روزے کی حرمت کو پامال کرنا، کھلے عام
برائی کا ارتکاب کرنا، اور اپنے ساتھیوں کو
گناہ کے ارتکاب پر مجبور کرکے اس پر فخر کرنا۔
یہ
ایک ظاہر و واضح بات ہے کہ ظاہری طریقہ میں مماثلت باطن میں ایک طرح کی الفت، محبت اور وفاداری
پیدا کرتی ہے، جس طرح باطنی محبت ظاہری صورت میں مماثلت پیدا کرتی ہے [24]۔
اسی
لیے حدیث شریف میں کافروں کی مشابہت سے روکا گیا ہے ۔ نبی کریم کا فرمان ہے: من
تشبہ بقوم فہو منھم[25] یعنی جس نے کسی
قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں
سے ہے ۔ اور حضرت عمر بن خطاب کا قول ہے : اجتنبوا اعداء اللہ فی دینھم یعنی اللہ کے دشمنوں کے دین سے دور رہو۔[26]
اور
یہ معلوم ہے کہ اعیاد اور تہواریں مذاہب اورشریعتوں
کی سب سے امتیازی خصوصیات میں سے ہوتے ہیں، اس لیے ان میں کافروں سے اتفاق کرنا
اور راضی
ہونا کفر کے شرائط کے مطابق عام طور پراس کا باعث بن سکتا ہے [27]۔
عیسائیوں
کے ساتھ شاہ عباس کی ہمدردی کے مظاہر میں سے: اس کا
گرجا گھروں کی زیارت کا حریص ہونا اور اس میں دلچسپی لینا ، پادریوں سے ملاقات
کرنا، ان سےان کے مذہب کے معاملات پر گفتگو
کرنا، ان کی مذہبی تقریبات کو دیکھنا اور ان کے دینی خطبات و نغمات کو سننا تھا، یہاں تک کہ وہ عیسائیت
کی بہت سی تعلیمات سے واقف ہو گیا ۔ [28]۔
اس
وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاہ عباس نے ایران کے عیسائیوں کے ساتھ اپنی مبالغہ آمیز
ہمدردی کی وجہ سے یہ گھناؤنے کام کیے، یہاں تک کہ اس کا دور ان کے لیے سنہری دور شمار
کیا جاتا تھا، اور دوسری وجہ یورپ کے عیسائیوں کو خوش کرنے کی اس کی شدید خواہش تھی جن کی قربت کے پیچھے وہ دیوانہ وار بھاگ رہا
تھا ، اس امید پر کہ وہ سنی عثمانیوں کے خلاف
جنگ میں اس کی مدد کریں گے۔
عیسائیوں
کے ساتھ اس کی شدید ہمدردی کے نتیجے میں؛ کیتھولک
چرچ نے اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کے پادریوں کو ان عیسائیوں کو دوبارہ نصرانی مذہب
میں داخل کرنے کی اجازت دے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ شاہ عباس نے یہ درخواست
قبول کر لی۔ اور اس کی مثال یہ ہے جو اس
کے ایک
غلام کے ساتھ پیش آیا جس کا نام سکندر
تھا۔ تنصیری گروپس اسے عیسائیت میں واپس لانے
میں کامیاب ہوئے جب کہ اس سے پہلے اس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا [29]۔
عباس
نے یہ درخواست کیسے قبول کرلی جب کہ اس نے
خود اسپین کے بادشاہ سے ان تینوں مرتدوں کو
واپس کرنے کا مطالبہ بھی نہیں کیا جو یورپ میں اس کے سفارتی مشن کا حصہ تھے؟! لیکن
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس صفوی سلطان کی عیسائیوں کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی اس کے دربار کے بعض آدمیوں کے ارتداد کا اہم و
بڑا سبب بنی۔
عباس
عیسائیوں کے ساتھ اپنی دلی ہمدردی اور ان کی طرف مائل ہونے و بھروسہ کرنے کی حد تک نہیں رکا ، بلکہ وہ عثمانی سرزمین کی تمام مساجد
کو گرجا گھروں میں تبدیل ہوتے دیکھنا چاہتا تھا ۔اپنے ایک بیان میں جو اس نے
ہسپانوی ایلچی (انتھونی ڈی گووا) کو بھیجا تھا اور جس میں وہ اس کو عثمانیوں کے
خلاف جنگ پر ابھار رہا ہے لکھتا ہے :
"میری کتنی تمنا ہے کہ میں دیکھنا چاہتا
ہوں کہ کم سے کم وقت میں ترکوں کی تمام مساجد گرجا گھروں میں تبدیل ہو جائیں!"
میری کل آرزو یہی ہے کہ میں صرف خلافت عثمانیہ
کا زوال اور تباہی دیکھنا چاہتا ہوں ! »
[30]۔
خود اس کی وضاحت کے مطابق اس کی سب سے بڑی خواہش
یہ تھی کہ وہ دیکھے کہ یورپین صلیبیوں نے مسلمان ممالک پر
حملہ کیا, ان پر قبضہ کرلیا , ان کو مسلمانوں پر جیت حاصل ہوئی اور ان کی
مسجدوں کو گرجا گھروں میں تبدیل کردیا
گیا جس کا مطلب ہے کہ صلیبی دین کا غلبہ
ہو اور اسلام کا ستارہ غروب ہوجائے ۔
یہ
موقف واضح طور پر دلالت کرتا ہے کہ وہ
مسلمانوں کے خلاف کافروں کے ساتھ تعاون و مدد کرتا تھا
اور دین اسلام کے زوال پر خوشی کا اظہار کرتا تھا ۔ اور یہ منافقین و
مرتدین کی خصوصی صفات میں سے ہیں اور یہ ان کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ۔
یہ بالکل واضح ہے کہ رافضیوں کو پوری تاریخ میں سنیوں
اور ان کے لوگوں کے خلاف سازش کرنے، ان کے خلاف دشمنوں کا ساتھ دینے، سنیوں کے ظہور
اور بالادستی پر غمگین ہونے اور ان کی شکست و ریخت پر خوش ہونے کے لیے جانا جاتا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ نے ان کے اس موقف کا اپنے اس قول سے انکشاف کیا ہے: "... رافضی ان
لوگوں کے دوست و وفادار ہیں جو اہل سنت اور جماعت سے لڑتے ہیں، وہ تاتاریوں کے دوست اور ان کے وفادار ہیں، وہ عیسائیوں کے وفادار ہیں۔ ساحل پر
رافضیوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ بندی ہو گئی، تو رافضہ مسلمانوں
کے گھوڑے اور ہتھیار، سلطان کے نوکروں اور دوسرے سپاہیوں اور بچوں کو قبرص لے جانے
لگے۔ اگر مسلمان تاتاریوں پر فتح یاب ہوتے ہیں تو وہ غمگین ہوتے اور
ماتم کرتے ہیں اور اگر تاتاری مسلمانوں پر
جیت حاصل کرتے ہیں تو وہ خوشی اور مسرت مناتے
ہیں ... [31]۔
لیکن
اس کی عظیم لغزشوں, ٹھوکروں اور سنگین غلطیوں
کے باوجود؛ آج تک ایرانی شاہ عباس اوّل کو
ایک قومی ہیرو مانتے ہیں جس نے اپنے ملک کا
رتبہ بلند کیا ، ایرانیوں کی امیدوں کو بر لایا,
ان کے اغراض و مقاصد کو پورا کیا
اور خاص طور پر جو اپنے سب
سے بڑے دشمن
سنی عثمانیوں پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب
رہا ۔
کیا
ایسی صورت میں عصر حاضر کے ایرانیوں کو نئے
صفوی کہنا مناسب نہیں ہے؟ کیونکہ وہی نظریات
اور مواقف جن کا سابقین پر غلبہ و
تسلط تھا ۔ بعینہ وہی حاضرین کا بھی محرک و مرشد ہے !
اس
لیے شیعہ مذہب فارسی عنصر کی بنیاد پر اپنے قوم پرست اہداف کے حصول کے لیے ایک مکھوٹا
ہے۔ بصورت دیگر، ہم ایران میں آذربائیجانی
شیعوں کی ان کے ثقافتی اور سیاسی حقوق سے محرومی اور جمہوریہ آذربائیجان کے 20% علاقے
پر قابض عیسائی آرمینیائی باشندوں کے لیے ایرانی حکومت کی حمایت کو کیسے بیان کریں؟!
یہ قبضہ جس نے تقریباً دس لاکھ آذربائیجانی مسلمانوں کو بے گھر کر دیا ہے، وہ صرف ایران کی حمایت کا انتظار نہیں کر رہے ہیں ، بلکہ
اسلام کے نام پر اس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ
وہ ان کی زمینوں پر آرمینیائی قابضین کی حمایت بند کرے۔ اسی طرح، ہم طالبان کے خلاف
اسلامی جمہوریہ ایران کی سازش اور کابل میں ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے امریکیوں
کے ساتھ اس کی ملی بھگت کو کیسے بیان کریں، جب کہ یہ افغانستان میں دوسرے سنی مسلمانوں کو چھوڑ کر صرف فارسیوں کو مدد فراہم کرتا ہے جب کہ وہ بھی سنی
ہیں ! یہ ایک ایسا موقف ہے جس کی وضاحت صرف ایک چیز سے کی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ
ایران میں آیت اللہ یا ملالی کی حکومت کے لیے
جو چیز اہم ہے وہ فارسی عنصر ہے، نہ کہ دین یا مسلک جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے۔ یہ اس کے نعروں اور دعووں کے جھوٹ کو بے نقاب کرتا ہے۔
آخر
میں، موجودہ عراقی حکومت جس کا غاصب و قابض
امریکہ کے ساتھ اتحاد ہے، اور جو اپنے حفاظتی و امنی اداروں کے
ذریعے عراق میں سنیوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اور رافضی ملیشیا اس میں اس کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے، جو عراقی حکومت کی تشکیل میں بھی شامل ہے ، جیسے:بدر کور، دعوہ پارٹی،
اور مہدی فوج کا بیشتر حصہ؛ یہ سب ہمیں صفوی ریاست کی یاد دلاتا ہے، جس کا قیام ایران
میں سنی مسلک کے خاتمے کے ساتھ مربوط ہے
جب کہ اس ملک کے زیادہ تر لوگ سنی تھے۔
اور
صفوی سلطنت کے بارے میں تاریخ میں مشہور ہے کہ اس کے بادشاہوں میں سے اسماعیل اول نے اپنے زمانہ میں سنیوں کا اتنا قتل عام کیا ہے
جس پر سر شرم سے جھک جاتا ہے اور انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے اور ان کے متعصب سلاطین
نے اپنے پورے دور سلطنت میں مسلمانوں کے
ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے ۔جب کہ اس کے برخلاف انہوں نے نصرانی کافروں کی عزت, توقیر اور تعظیم کی , ان کے بادشاہوں نے
عیسائی سوداگروں کو دل کھول کر انعامات
اور تحائف دئیے اور پیسے لٹائے, یہی نہیں بلکہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ
وہ اپنی مذہبی رسومات کو آزادی سے ادا کر سکیں، اور انہوں نے قصدا سنی عثمانی سلطنت کے خلاف یورپی ملکوں سے اتحاد
کیا ۔اس امید کے ساتھ کہ اس سے عثمانی سلطنت ختم ہوجائے گی اور یورپ میں اسلامی
فتوحات کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔
اور
اب تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ کیونکہ ہم
دیکھ رہے ہیں کہ عراق میں رافضی حکومت نے اپنا
ملک ایران کے پاس گروی رکھا ہوا ہے، جس کے حکمرانوں نے شاہ کے خلاف انقلاب کے بعد صفویوں
کے ہر کام کو زندہ کیا، اور اپنا ہاتھ قدامت پسندوں یا نئے صلیبیوں کے ہاتھ میں رکھ
دیا، اور وہ سب کچھ کیا جو ماضی بعید میں ان کے صفوی آباء و اجداد نے کیا تھا مثلا: خیانت, غداری, جاسوسی , دلالی, ظلم, بے گناہوں کا نا حق قتل
اور سنی خاندانوں اور قبیلوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنا وغیرہ ۔
مسلمان
ملک عراق پر امریکی حملے کے بعد بلا شبہ اس کے نئے حکمرانوں نے امریکی
افواج کی تائیید و مدد سے ملک عراق کے مفاصل کا کنٹرول سنبھال لیا ہے یعنی اس پر اپنی گرفت
مضبوط کرلی ہے ، اور وہ دین و مذہب کے پیچھے
چھپ کر اپنے فارسی صفوی قومی منصوبےکے
مطابق عراق میں سنی عقیدہ، ان کے وجود، مقدسات
اور مال و دولت کو نشانہ بناتے ہیں۔
تاہم
عراق کے بہت سے شہروں، دیہاتوں اور صحراؤں میں سنیوں کی ہلاکت و بربادی کے لیے کیے
جانے والے خوفناک حملوں کا مقصد بلاد الرافدین (میسوپوٹیمیا) میں سنیوں
کی موجودگی کو ختم کرنا ہے اور ان کے وجود کا صفایا کرنا ہے ۔ یہ ان کے صفوی آباء و اجداد
کے طرز عمل سے میل کھاتا ہے، جو فارسی نسل
کے لیے انتہائی متعصب تھے اور جنہوں نے سنیوں - جن کی اس سلطنت کے قیام سے قبل ایران میں اکثریت تھی ۔ کی قیمت پر
ایران میں اپنی فارسی قومی شناخت کو مسلط کرنے
کی کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب ہوئے ۔
: البیان نے شائع کیا - خصوصی فائل -
( الخطر الایرانی یتمددایرانی خطرہ پھیل رہا ہے)اس کا لنک ہے: https://www.albayan.co.uk/article2.aspx?id=2983
(1)عبداللہ الغریب:جاء دور الجوس ( اور مجوس کی باری
آئی)، صفحہ 80، (بتصرف )۔
(2)
احمد الخولی: الدولۃ الصفویۃ( صفوی ریاست)، ص 51۔
(3)
فوزی ٹوکر: الصفویون، بین الاقوامی معلوماتی نیٹ ورک، گوگل۔
(4)
بدیع محمد جمعہ: الشاہ عباس الکبیر (شاہ عباس عظیم)، صفحہ 101، (بتصرف )
(5)
16ویں اور 17ویں صدی عیسوی تاریخ الحضارات العام (جنرل ہسٹری آف سولائزیشن) موریس کروزر،
جلد 4، صفحہ 574۔
(6)
بدیع محمد جمعہ: الشاہ عباس الکبیر (شاہ عباس عظیم)، ص 102۔
(7) Roland Mussinier:
The 16th - 17th Centuries AD (General History of Civilizations,
Vol 4, P 574.
(8)
محمد امین ذکی: تاریخ الکرد و کردستان ( کردوں اور کردستان کی تاریخ)، ص 102۔
(9)
محمد بدیع جمعہ: الشاہ عباس الکبیر (شاہ عباس عظیم)، صفحہ 103 ۔
(10)
سابقہ ماخذ، صفحہ 102 (حوالہ عباسی
تاریخ، ص 37 اور اس کے بعد )۔
(11)
سابقہ ماخذ، صفحہ 104 (حوالہ عباسی
تاریخ، ص 37 اور اس کے بعد )۔
(12)
سابقہ ماخذ، صفحہ 104 (حوالہ عباسی
تاریخ، ص 37 اور اس کے بعد )۔
(13)
زکریا بیومی سلیمان:قرءاۃ جدیدۃ فی تاریخ العثمانیین (عثمانی تاریخ کا ایک نیا مطالعہ)، صفحہ 63۔
(14)
شاہین ماکاریوس: تاریخ ایران، صفحہ 154-156
(15) سابقہ حوالہ،
صفحہ 154۔
(16)
محمد بدیع جمعہ: الشاہ عباس الکبیر ، ص 216۔
(17)
عباس اقبال:تاریخ ایران قبل الاسلام (اسلام
سے پہلے ایران کی تاریخ )، ص 671، اور محمد بدیع جمعہ: الشاہ عباس الکبیر ، ص 250،
(ماخذ: رضا پازوکی: تاریخ ایران ازمغول تا افشاریہ، ص 320، تہران، 1334ھ)۔
(18)
شاہین ماکاریوس، تاریخ ایران، صفحہ 154-156۔
(19)
سابقہ حوالہ، صفحہ 158۔
(20)
محمد بدیع جمعہ: الشاہ عباس الکبیر ، صفحہ 271-272، (ماخوذ: احمد تاج بخش: ایران درزمان
صفویہ، صفحہ 220-241، تبریز، 1340ھ)۔
(21)
سابقہ حوالہ، صفحہ 107، (ماخوذ:
احمد تاج بخش: ایران درزمان صفویہ، صفحہ 254-255)۔
(22)
سابقہ حوالہ، صفحہ 276-277
(23)
سابقہ حوالہ، ص 294 (ماخوذ: نصراللہ
فلسفی: زندگانی شاہ عباس، جلد 2، ص 264)۔
(24)
شاہین ماکاریوس، تاریخ ایران، صفحہ 154-156۔
(25)
اسے ابوداؤد نے سنن جلد 4، صفحہ 314، نمبر 4031 میں روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح
الجامع الصغیر میں کہا ہے: یہ صحیح ہے۔ جلد 2، صفحہ 1059، نمبر 6149۔
(26)
ابن تیمیہ: اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ اھل الجحیم، جلد 1، صفحہ 513۔
(27)
سابقہ ماخذ، جلد 1، صفحہ 528۔
(28)
محمد بدیع جمعہ: الشاہ عباس الکبیر ، صفحہ 107، (ماخوذ: نصر اللہ فلسفی: زندگانی شاہ
عباس اول، جلد 3، صفحہ 72)۔
(29)
سابقہ حوالہ، صفحہ 294، (ماخذ نصراللہ
فلسفی: زندگانی شاہ عباس اول ، جلد 3، صفحہ 81-84)۔
(30)
سابقہ حوالہ، ص 295، (ماخذ: نصراللہ
فلسفی: زندگانی شاہ عباس اول ، جلد 4، صفحہ 15)۔
0 التعليقات: