ناپ تول میں کمی کرنا گناہ کبیرہ اور باعث عذاب ہے

        ناپ تول میں کمی  کرنا گناہ کبیرہ اور باعث عذاب ہے

islahotaraqqi.com

آیات: {۞أَوۡفُواْ ٱلۡكَيۡلَ وَلَا تَكُونُواْ مِنَ ٱلۡمُخۡسِرِينَ ١٨١} {وَزِنُواْ بِٱلۡقِسۡطَاسِ ٱلۡمُسۡتَقِيمِ ١٨٢} {وَلَا تَبۡخَسُواْ ٱلنَّاسَ أَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡاْ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُفۡسِدِينَ ١٨٣} (شعراء/181-183)

معانی کلمات:

کیل: جمع اکیال , ناپنے کا برتن  یا پیمانہ یا آلہ

        قسطاس:(ق پر ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے) بالکل صحیح ترازو, ایک دم درست میزان,  ابن کثیر کے بقول بعض کے نزدیک یہ قبان ہے( جو بھاری چیزوں کو وزن کرنے کا آلہ ہے) ۔ بعض کے نزدیک یہ  رومی لفظ کی عربی ہے  جس کا معنى مجاہد کے نزدیک  رومی میں عدل ہوتا ہے, قتادہ نے بھی اس کی تفسیر عدل سے کی ہے  ۔(تفسیر ابن کثیر)

         تبخسوا: اس کا مادہ بخس ہے , یہ کئی معانی کے لیے آتا ہے ۔ اس کا ایک معنى کمی کرنا,  گھٹانا اور نقصان کرنا ہے, بولا جاتا ہے : لا تبخس اخاک حقہ یعنی اپنے بھائی کا حق مت گھٹاؤ, کم مت کرو, اس کا حق مت مارو وغیرہ,  اس کا دوسرا معنى ظلم کرنا ہے کہا جاتا ہے بخس فلانا ای ظلمہ یعنی اس پر ظلم کیا, اور اگر اس کا استعمال عین(آنکھ) کے ساتھ ہو تو معنى ہے آنکھ کا پھوڑ دینا بخس عینہ ای فقاھا یعنی اس کی آنکھ پھوڑ دی  اوراس کا ایک معنى برائی کرنا بھی ہے بخسہ ای عابہ یعنی اس کی   برائی کی, عیب جوئی کی   وغیرہ  

   تعثوا: اس کا اصل عثو ہے , معنى ہے فساد و بگاڑ میں انتہاء کو پہنچ جانا ,  کفر و فساد میں مبالغہ کرنا۔(موقع المعانی,  تفسیر ابن کثیر, الوسیط للطنطاوی و مصباح اللغات)

ترجمہ: ناپ پورا بھرا کرو اور  نقصان  دینے والوں میں سے نہ بنو,  صحیح ترازو سے وزن کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم مت دو اور زمین  میں بہت زیادہ فساد مت پھیلاؤ۔

تفسیر:  ان آیتوں کا تعلق حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم سے ہے  اور ان میں ان کی بعض اہم  خرابیوں  و بد اعمالیوں   کا تذکرہ ہے ۔اس لیے مناسب ہے کہ تفسیر سے پہلے انتہائی اختصار کے ساتھ حضرت شعیب اور ان کی قوم کا ذکر کردیا جائے تاکہ ایک واضح تصور قارئین  کے سامنے آجائے  ۔

حضرت شعیب علیہ السلام :آپ کا قرآنی نام شعیب  ہے جب کہ توریت میں آپ کو رعوئیل کے نام سے جانا جاتا ہے ۔آپ کی ولادت 16/ویں صدی  قبل عیسوی  میں مدین میں  ہوئی ۔ آپ  کے نسب کے بارے میں جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ  حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نسب سے ہیں لیکن  حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آباء و اجداد کے ناموں اور نسب کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ آپ کی دادی یا والدہ لوط علیہ السلام کی بیٹی تھی ۔(تفسیر قرطبی و ویکیبیدیا: شعیب )

بعض روایات میں مذکور  ہے کہ حضرت شعیب حضرت ابراہیم پر ایمان لائے تھے   اور ان کے ساتھ شام کی طرف ہجرت کی تھی اور ان کی شادی لوط کی لڑکی سے ہوئی تھی لیکن ان روایات کی صحت کے بارے میں علامہ ابن کثیر کو شک ہے ۔(قصص الانبیاء لابن کثیر:شعیب,  ص 186) یہ  بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ آپ کی ولادت مدین میں ہوئی تھی جیسا کہ اوپر ذکر کیا  گیا۔

آپ کو اللہ نے نبوت سے سرفراز کیا اور قوم مدین کی طرف مبعوث فرمایا ۔آپ کی وفات مدین میں 15/ویں صدی قبل عیسوی میں ہوئی ۔ آپ کی کل عمر تقریبا 242/ سال ہے ۔

قرآن حکیم میں حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ اعراف, ہود اور شعراء میں قدرے تفصیل سے کیا گیا ہے اور حجر اور عنکبوت میں مختصر ہے۔ ان سورتوں میں حجر کے علاوہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا نام گیارہ جگہ مذکور ہےلیکن آپ کے کسی معجزہ کا ذکر قرآن میں  نہیں ہے ۔

 آپ کا تعلق عربی نسل  سے ہے  اس لیے آپ ان چار  انبیاء میں سے ہیں جو عربوں میں مبعوث ہوئے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اربعۃ من العرب : ھود و صالح و شعیب و نبیک یا ابا ذر یعنی چار انبیاء عرب میں سے ہیں  ہود, صالح, شعیب اور اے ابوذر تمہارا نبی ۔(قصص الانبیاء : شعیب)

آپ کا لقب خطیب الانبیاء ہے , حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ کے پاس حضرت شعیب کا ذکر ہوتا تو آپ فرماتے : ذاک خطیب الانبیاء یعنی آپ خطیب الانبیاء ہیں ۔ اور یہ لقب آپ کو  آپ  کی پراثر تقاریر، پختہ دلائل اور ایمان افروز وعظ و نصیحت کی بنا پر دیا گیا ۔ آپ کی زبان  انتہائی  فصیح و بلیغ تھی اور آپ کا انداز خطاب نہایت شاندار تھا اور آپ  کو حجت و دلیل کے ذریعہ قائل و   مطمئن کرنے پر  قدرت حاصل تھی ۔(قصص الانبیاء : شعیب و ویکیبیدیا)

مدین:مدین حضرت ابراہیم کے بیٹے کا نام ہے جیسا کہاوپر  مذکور ہوا ۔ اسی کے نام پر قبیلہ اور اس علاقہ کا نام بھی مدین ہے , یہ قبیلہ اسی کی نسل سے تھا ۔ اس قوم و قبیلہ کا تعلق عرب سے ہے ۔یہ لوگ مدین شہر میں آباد تھے ۔ یہ لوگ بڑے آسودہ حال, صاحب ثروت اور بلند اقبال تھے۔  ان کا پیشہ تجارت تھا۔

 اہل مدین کی زمینیں حجاز کے شمالی کناروں سے شام  کے جنوبی کناروں تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کی رہائش گاہوں کے آثار موجود ہیں جو آج تک حجاز کے شمال مغرب میں سعودی عرب کے صوبہ  تبوک میں البدع کمشنری  میں موجود ہیں۔ (ویکیبیدیا: شعیب)

مدین علاقہ کی تحدید کے بارے میں اختلاف ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ علاقہ حجاز کے شمال اور شام کے جنوب میں واقع تھا ۔ اس کا کچھ حصہ آج کل سعودی عرب میں اور کچھ حصہ جنوب  اردن میں ہے خصوصا معان کا علاقہ ۔

راقم  نے یہ علاقہ دیکھا ہے ۔تبوک کے ایک سفر کے دوران البدع بھی جانا ہوا تھا ۔ ہمارے ساتھی مولانا ظفر عدیل نے  بتایا کہ یہ حضرت شعیب کا علاقہ ہے اور اس میدان میں قوم شعیب پر عذاب آیا تھا ۔ وہاں پر آثار قدیمہ کی طرف سے بورڈ بھی لگائے گئے ہیں ۔ 

قوم مدین کی برائیاں: قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم مدین میں بہت ساری برائیاں وخرابیاں تھیں جن  کا تعلق حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں سے تھا ۔حقوق اللہ سے متعلق  ان کی بداعمالیوں  میں سر فہرست کفر و شرک کرنا ہے ۔ یہ لوگ عبادت میں  اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے۔درختوں کو پوجتے تھے ۔اپنے نبی کو جھٹلایا, اللہ و اس کے رسول پر ایمان نہیں لائے وغیرہ ۔

حقوق العباد کے متعلق بد اعمالیاں:

جس طرح اس قوم نے حقوق اللہ میں سرکشی کی , اللہ و اس کے رسول سے اعراض کیا اسی طرح اس قوم میں حقوق العباد سے متعلق بہت ساری خرابیاں تھیں جن میں سے چند یہ ہیں:۔۔

ناپ تول میں کمی کرنا: یہ لوگ تجارت میں ہے ایمانی کرتے تھے اور لوگوں کو ان کا حق پورا نہیں دیتے تھے۔۔ دنیا میں سب سے پہلے ناپ تول میں کمی ان ہی لوگوں نے متعارف کروائی, یہ ان کی  سب سے  بڑی خرابی تھی جس کا تذکر بار بار ہوا ہے , تقریبا پوری قوم اس فساد میں مبتلا تھی ۔

راہزنی کرنا: یہ لوگ راستوں میں بیٹھ کر لوٹ مار کرتے، مسافروں کو لوٹتے اور انہیں تکلیف پہنچاتے تھے, لوگوں کے اموال چھینتے اور غنڈہ ٹیکس وصول کرتے۔

بعض تاریخی روایات کے مطابق  غریبوں سے بھتا وصول کرنا اور زبردستی ٹیکس لینا بھی پہلی بار قوم شعیب ہی نے متعارف کروایا۔ یہ لوگ راستوں میں گھات لگاکر بیٹھ جاتے اور ہر آنے جانے والے سے بھتا وصول کرتے۔ (قصص علامہ عبد الوہاب النجار المصری، صفحہ (249)۔

تکبر اور غرور: اپنی دولت اور طاقت کے نشے میں دھت تھے اور حق بات سننے کو تیار نہیں تھے۔

اس طرح یہ قوم نہ صرف کفر و شرک میں مبتلا ہوکر حقوق اللہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہی تھی بلکہ ناپ تول میں کمی کرکے حقوق العباد بھی پامال کررہی تھی۔مذکورہ بالا آیات میں صرف حقوق العباد کا ذکر ہوا ہے ۔

حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ان برائیوں سے باز رہنے اور ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔آپ  نے انہیں ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر برائیوں سے شدت کے ساتھ منع کیا لیکن تمام تر  کاوشوں کے باوجود وہ لوگ ایمان نہیں لائے اور اپنی گمراہی و نافرمانی پر مصر رہے جس سے ان کو ہلاک و برباد کردیا گیا ۔ ان کے عذاب کا تذکرہ قرآن مجید میں کئی جگہ  موجود ہے ۔

مذکورہ بالا آیتوں کی تفسیر درج ذیل ہے۔

  حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت اور رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا: اے میری قوم: ناپ مکمل کیا کرو یعنی اسے پورا کرو اور نقصان دینے والوں میں سے نہ  بنو  جو ناپ تول میں دھوکہ دے کر دوسروں کا حق کھاتے ہیں۔

پھر آپ نے اپنی اس نصیحت کی تاکید اپنی ایک دوسری  نصیحت سے کی  اور فرمایا: جن لوگوں سے تمہارا معاملہ ہوتا ہے  ان کو بالکل درست میزان سے وزن کرکے دو  یعنی  عدل  کے ساتھ بے انصافی و ظلم کے بغیر ۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی)

علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے :اللہ  تعالیٰ ان کو ناپ تول پورا کرنے کا حکم دیتا ہے اور ان میں کمی  کرنے  سے منع کرتا ہے۔ اس کا فرمان  ہے: (پورا ناپ دو اور نقصان  کرنے والوں میں شامل نہ ہو جاؤ۔) یعنی جب  تم لوگوں کو دو تو ان کو  پورا ناپ دو، اور ناپ تول میں کمی  نہ کرو، تو  ان کو اس سے کم دو جس کے وہ حقدار ہیں، اور اگر اس کا تعلق تم سے  ہو تو پورا کامل  لے لو۔ بلکہ جیسا دیتے ہو اسی طرح  لو  اور جیسا لو ویسا دو۔(تفسیر ابن کثیر)

پہلےحضرت شعیب  نے  امر کا صیغہ استعمال کرکے ان کو حکم دیا  پھر اس کے بعد نہی کا صیغہ استعمال کرکے ان کو روکا اور فرمایا: : اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم مت دو یعنی: لوگوں کے حقوق میں کسی بھی طرح کمی نہ کرو، خواہ اس حق کی مقدار کتنی بھی ہو۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی)

علامہ قرطبی نے بخس کی  تفسیر و تعریف میں لکھا ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ ولا تبخسوا الناس اشیاءھم " اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم مت دو  ‘‘۔ بخس  کا مطلب نقص یعنی کمی ہے۔ یہ کسی سامان  میں عیب نکالنے  یا اسے کم تر قرار دینے ، یا اس کی قیمت کے بارے میں دھوکہ دینے ، اور ناپ  میں اضافہ یا کمی کرکے دھوکہ دہی سے ہوتا ہے۔ یہ سب ناحق اور باطل طریقے سے   مال کھانا ہے، اور یہ تمام  سابقہ ​​اور قدیم امتوں میں ان کے رسولوں کی زبانوں حرام قرار دیا  گیا تھا ، ان سب پر خدا کی رحمتیں نازل ہوں۔ اور ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔(تفسیر قرطبی:اعراف /85)

شوکانی کا قول ہے کہ اس میں عمومی بخس سے روکا گیا ہے یعنی کسی بھی قسم کا بخس نہیں کرنا ہے ۔ اس بنیاد پر اب اگر کوئی شخص کسی بھی سامان کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے آدھا بتاتا ہے تو یہ بھی ناجائز و حرام  بخس میں داخل ہے۔اس پر عمل کرنا حلال نہیں ہے اور اس کو خرید و فروخت کا وسیلہ بنانا بھی درست نہیں ہے ۔(موقع اسلام ویب: الفتوى,  57806, 6-1-2025ع , تفسیر و لا تبخسوا الناس اشیاءہم)

 اور زمین  میں بہت زیادہ فساد مت پھیلاؤ۔ فساد کی شدید ترین  قسم  عثو ہے ۔بولا جاتا ہے  :عثا فلان فی الارض یعثو اذا اشتد فسادہ یعنی جب کسی  کا فساد بہت زیادہ بڑھ جائے اور  انتہائی شدید ہو ۔یعنی : زمین پر نہ پھیلو اس حال میں  کہ تم  اس  میں  قتل و غارت گری، راہزنی, لوٹ مار  اور بے گناہوں کو دھمکیاں دے کر فساد برپا کر رہے ہو۔ اللہ تعالى کا قول "مفسدین اس کے قول "  تعثوا میں ضمیر جمع کی حال مؤکدہ ہے یعنی اس معنى کی مزید تاکید کر رہی ہے  ۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی) جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے : و لاتقعدوا بکل صراط توعدون یعنی  ہر راستے پر ڈراتے و  دھمکیاں دیتے ہوئے نہ بیٹھو۔

معلوم ہوا کہ ناپ تول میں کمی کرنا, لوگوں کو ان کے حق سے کم دینا اور ان سے پور پورا لینا نہ صرف گناہ کبیرہ ہے بلکہ باعث عذاب اور تباہی و بربادی  ہے کیونکہ قوم شعیب کے ہلاکت و بربادی کی بہت ساری وجوہات ہیں جن میں ایک اہم وجہ یہ بھی ہے ۔اور یہ تمام شریعتوں و امتوں میں حرام رہا ہے ہماری امت میں بھی حرام ہے ۔ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے  اور یہ سراسر ظلم, خیانت, فساد  اور چوری ہے ۔اور یہ  بہت ساری مصیبوں و پریشانیوں کی اہم و بنیادی  وجہ  ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر کی  حدیث : خِصالٌ خَمْسٌ إذا ابتُلِيتُمْ بهِنَّ.. میں آیا ہے کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس حدیث کے بارے میں تفصیل سے  اسی شمارہ کے تدبر حدیث  میں پڑھئے۔

آج مسلمان جو پوری دنیا میں حیران و  پریشان ہیں , انواع و اقسام کے مصائب میں مبتلا ہیں اور ہر طرف سے ان کے اوپر حملے ہورہے ہیں اس کی اصل وجہ و بنیادی سبب  ان کا اسلام سے برائے نام تعلق ہے , اس کے اوپر عمل نہ کرنا اور اس کو نافذ کرنا نہیں ہے  اور ساتھ ہی ہرقسم کی برائیوں و گناہوں  میں مبتلا ہونا ہے جس کے نتائج و بھگت رہے ہیں ۔

اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے ہر مسلمان کو پرانی قوموں کی تاریخ سے سبق لیتے ہوئے اسلام پر عمل کرنے اور برائیوں سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین  و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔



 

 

 

 

 

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: