غیروں
پہ کرم اپنوں پہ ستم (قسط 1)
islahotaraqqi.com
( شیعیت کو بے نقاب کرتی ایک
زبردست تحریر )
تحریر: ڈاکٹر محمد امحزون :
الدولۃ الصفویۃ فی ایران التاریخ و
المنھاج
ترجمہ: ڈاکٹر عبد المنان محمد
شفیق مکی
یہ
کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ ایران میں صفوی سلطنت (907-1148ھ/ 1501-1736ع ) کا
قیام ایران اور عالم اسلام دونوں کے لیے تباہی
و بربادی کا باعث تھا، کیونکہ ایران تقریباً
9/صدیوں تک سنی عقیدہ و مسلک کی پیروی کرتا رہا اور سنی کردار وہاں کے باشندوں
کے تمام انسانی پہلوؤں
و سرگرمیوں میں واضح تھا۔ جس نے اس ملک کو
اس کے علماء جیسے: بخاری، مسلم، سیبویہ، فراہیدی، بیرونی وغیرہ کے واسطہ سے
اسلامی تہذیب و تمدن کی عمارت کو تعمیر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا۔
لیکن
ایران میں صفوی سلطنت کے قائم ہوتے ہی اس میں
انسانی سرگرمیوں کا رخ زندگی کے تمام شعبوں: نظریاتی، فکری، فنکارانہ، سیاسی، معاشی
اور سماجی، میں یکسر بدل گیا اور ایرانیوں کو ایک مختلف سمت کی طرف لے جایا گیا جس
کی خصوصیت سنیوں سے متعلق ہر چیز سے سخت دشمنی تھی۔
اس
ریاست و سلطنت کا قیام ایران میں سنی فرقے
کے خاتمے سے جڑا ہوا تھا، اور صفوی حکومت کے
بیشتر دور میں ان کے خلاف قتل عام , وحشیانہ ظلم و ستم اور ان کو تنگ و پریشان کرنے کے ساتھ منسلک تھا۔
اسی
طرح مسلکی تعصب و فرقہ وارانہ جنون نے صفویوں کو ایک عقائدی غلطی میں
ڈال دیا جو یورپ کے عیسائی ممالک کے ساتھ اتحاد
ہے۔ ان کو امید تھی کہ اس سے سنی عثمانی خلافت
کمزور ہوگی جو صلیبیوں کے خلاف جہاد کی قیادت کر رہی تھی۔
جس نے براعظم یورپ میں اسلام کا جھنڈا بلند
کیا ، قسطنطنیہ کو فتح کیا, اور جہاد کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اس معاہدہ و اتحاد نے اس
علاقے میں اسلامی فتوحات کو کمزور کردیا اور
اس میں رخنہ ڈال دیا ۔
اس
کے بدلے میں صفویوں نے عیسائیوں کا اپنے ملک میں خیرمقدم کیا اور ان کے ساتھ احترام
اور قدردانی کا برتاؤ کیا، انہوں نے یورپ کے عیسائی ممالک کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات
کو مضبوط کیا، غیر ملکی تاجروں کو ایرانی شہروں میں نقل و حرکت کی آزادی دی، اور انہیں
تجارتی مراعات دی، جس سے خلیجی خطے میں یورپی اثر و رسوخ میں اضافہ کی حوصلہ افزائی
ہوئی۔ اس کے لیے انہوں
نے پرتگالیوں، ڈچوں اور انگریزوں کے ساتھ فوجی اور تجارتی اتحاد کر کے راہ ہموار کی۔
اس لحاظ سے ان کا دور اس خطے میں نمایاں طور پر یورپی نوآبادیاتی و سامراجی طاقتوں کو داخل کرنے کا دور تھا۔
اس
طرح ہم دیکھتے ہیں کہ شیعوں کا اپنے ملک ایران
میں یا عثمانی سرزمین میں سنیوں کے خلاف ان کا موقف و رویہ کیسا رہا ہے کہ وہ ان کے لیے کسی بھی دوسرے دشمن سے زیادہ خطرناک
ہیں۔ اس لیے انھوں نے ایران میں سنیوں پر ظلم کیا، اور عثمانیوں کے ساتھ کھلم کھلا اپنی دشمنی کا اعلان کیا۔ جبکہ انہوں نے
عیسائی یورپی ممالک اور ایران میں رہنے والے عیسائیوں کے ساتھ دوستی اور وفاداری کا
مظاہرہ کیا۔ بلا شبہ صفوی پالیسی ان کے پورے
دور حکومت میں اسی بنیاد پر قائم تھی جو دو
صدیوں سے زیادہ یعنی 907ھ (1501ء) سے 1148ھ (1736ء) تک جاری رہی۔
اہل
سنت کے ساتھ برا سلوک:
صفوی
سلطنت کے بانی اسماعیل صفوی نے شہر تبریز میں قدم رکھتے ہی یہ اعلان کرادیا کہ جو
بھی شیعیت کی مخالفت کرے گا اور اس کو قبول نہیں کرے گا تو اس کو قتل کردیا جائے
گا ۔اور جب اس سے کہا گیا کہ تبریز میں سنی باشندوں کی تعداد دو تہائی(65%) [1] سے
کم نہیں ہے تو اس کا جواب تھا کہ جو ایک
لفظ بھی بولے گا تو وہ اپنی تلوار سونت لے
گا اور کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گا ۔بتایا جاتا ہے کہ تبریز کے قتل عام میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد
بیس ہزار سے تجاوز کر گئی تھی، اور سنی آبادی کے خلاف قتل و غارت اور تشدد کی انتہائی
گھناؤنی اقسام کو عمل میں لایا گیا ، مردوں، عورتوں اور بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے لاشوں
کو مسخ کر دیا گیا تھا۔[2]
اور
جب اسماعیل صفوی نے 916ھ/1510ع میں محمودآباد – ایک گاؤں جو مرو سے
تھوڑی دوری پر واقع ہے۔ میں ازبکوں کو
شکست سے دوچار کیا تو اس نے مرو کے لوگوں
کو قتل کیا اور موسم سرما ہرات میں گزارا،
جہاں اس نے رافضی دین کو سرکاری دین قرار دیا، حالانکہ ان علاقوں کے لوگ سنی تھے۔
اسی طرح اس نے تعصب میں اپنے دین کو سکھانے اور اسے لوگوں میں پھیلانے کے لیے متعدد
اسکول قائم کرنے کی کوشش کی [3]۔
شاہ
عباس اوّل بھی رافضی دین کی حمایت و
تائیید کا بہت زیادہ حریص اور خواہش مند تھا، جس کی وجہ سے وہ مخالفین خصوصاً سنیوں
پر بہت سختی کرتا تھا , ان کو تکلیف اور
نقصان پہنچاتا تھا اور ان کے ساتھ
وحشیانہ معاملہ کرتا تھا ۔
یہ
عباس جب بھی موقع ملتا سنیوں سے انتقام لیتا تھا۔ اس کی دشمنی اس حد تک پہنچ گئی کہ
اس نے ایرانیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ حج کے لیے مکہ جانا چھوڑ دیں اور مشہد
میں آٹھویں امام علی بن موسی الرضا کی قبر پر حاضری دینے پر راضی ہو جائیں اور صرف
اسی پر کفایت کریں ۔ اس کی رائے میں اس کی
وجہ یہ تھی کہ قومی فریضہ یہ تقاضا کرتا ہے
کہ ایرانی سنی عثمانیوں کی سرزمین سے مکہ کا سفر نہ کریں تاکہ وہ اس دشمن ملک کو ٹرانزٹ فیس ادا نہ کریں
[4]۔
رولینڈ
مسینیئر اس تصرف کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ سونا کو ملک کے باہر جانے سے روکا
جائے [5]۔ چنانچہ اپنے لوگوں کو اس خیال میں
رغبت دلانے اور دلچسپی پیدا کرنے کے لیے عباس
اول اکثر مشہد جایا کرتا تھا اور وہاں پر آٹھویں امام کی قبر کی زیارت کرتا تھا ۔ اور
اصفہان سے مشہد تک کا اس کا یہ سفر پیدل ہوتا تھا جو انہیں مکہ مکرمہ میں
واقع خانہ کعبہ کی طرف جانے کے بجائے
اس کی تقلید کرنے اور اس قبر کے مزار کی زیارت کرنے کی ترغیب دینے کا ایک ذریعہ تھا
[6]۔ اس لیے اہل فارس کی عادت ہوگئی تھی کہ وہ مکہ میں
حج کے بجائے مشہد میں حج کرتے تھے [7]۔
اس
نے ایرانی کردوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا اس کی بنیادی وجہ ان کردوں کا سنی فرقے سے وابستہ رہنا اور رافضی دین
میں داخل ہونے سے انکار
کرنا تھا، جس کی وجہ سے وہ اس کے غصے اور نفرت
کا نشانہ بن گئے۔ اور ان کے ساتھ اس کی سختی اور شدت اس حد تک پہنچ گئی کہ اس نے ان کو ملک ہی میں بے گھر بار کردیا, اور
اس نے ان کی ایک بڑی تعداد کو کردستان سے خراسان
منتقل کر دیا، اور ان کے اندر نفسیاتی درد, ناانصافی، بیگانگی اور ملک بدری کا
احساس پیدا کردیا ۔
شاہ
عباس اول سنّی عثمانی اور ازبک قیدیوں کے ساتھ بہت ہی ظالم اور سخت تھا۔ اگر انہیں قتل نہ کیا جاتا تو
سب سے کم سزا ان کی آنکھوں میں سلائی پھیرنا تھا ۔ وہ ان کے کسی قیدی کو اس وقت تک
معاف نہیں کرتا تھا جب تک کہ وہ سنی دین کو ترک کرنے اور رافضی دین میں داخل ہونے کا اعلان نہ کر دے [9]۔
جلال
الدین محمد یزیدی (شاہ عباس کے نجی نجومی) نے اپنی کتاب "تاریخ عباسی " میں سنیوں کے تئیں ان کی ہٹ دھرمی و تشددکے
بہت سے پہلوؤں کو بیان کیا ہےجن میں سے چند یہ ہیں :
-
یہ سنہ 1008 ھ/ 1599 ع میں سمنان کے قصبے میں نازل ہوا۔اور جب اس نے پایا کہ اس کے
حاکم نے اس کے خلاف کبر و غرور کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے باشندوں نے اس کے
قوانین سے تجاوز کیا ہے تو اس نے وہاں کے
سنیوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا اور حکم دیا
کہ عوام کو ان کے علماء کے کان اور ناک کھلائے جائیں اور پھر اس نے ان کے جرم کے کفارہ کے طور پر ان
سے 300 تومان وصول کیے! [10]
-
سنہ 1018 ھ/ 1609 ع میں اسے اطلاع ملی کہ ہمدان شہر کا گورنر محمود الدباغ سنی ہےاوروہاں
کے شیعوں کو تکلیف پہنچا رہا ہے، لہذا اس نے
اس کی گرفتاری اور قتل کا حکم دیا، لیکن محمود غائب ہو گیا، چنانچہ شاہ نے حکم جاری
کیا کہ: اگر محمود الدباغ تین دن کے اندر اندر حاضر نہ ہوا تو شہر کے تمام سنی قبائل
کو قتل کر دیا جائے گا، ان کے مال و دولت
عورتوں اور بچوں پر قبضہ کرلیا جائے گا، اور آخر کار محمود الدباغ کو گرفتار کرکے پھانسی دے دی گئی [11]۔
1020ھ/
1611ع میں عباس نے اپنے دادا صفی الدین اردبیلی
کے مرشد و رہنما شیخ زاہد جیلانی کی قبر پر حاضری دی اور بہت بڑی رقم صدقہ کی, اور
حکم دیا کہ یہ مال قبر کے خادموں اور اس کے
زائرین میں تقسیم کردی جائے ۔ اس شرط پر کہ اس میں سے کسی سنی کو کچھ نہ دیا جائے اور
اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ان کے اوپر لعنت بھی کی ۔ [12]۔
عام
طور پر، صفوی جنہوں نے ایران میں ایک متعصب جنونی شیعہ فارسی حکومت قائم کی۔ انہوں نے تمام دستیاب وسائل کا استعمال
کرتے ہوئے سنیوں کے خلاف جنگ کی جو ملک میں اکثریت میں تھے ۔
یورپ
کے عیسائی ممالک کے شہریوں کو ایران آنے کی ترغیب دینا اور ان کی عزت و تکریم کرنا:
یہ
سپورٹ اور حوصلہ افزائی اسماعیل اول کے دور میں شروع ہوا اور شاہ
عباس اول کے دور میں اپنے عروج کو پہنچا۔
ہندوستان
کا پرتگالی حاکم بوکرک اپنے ایک خط میں شاہ اسماعیل اول کو لکھتا ہے :
"میں
آپ کے اپنے ملک میں عیسائیوں کے احترام کی
قدر کرتا ہوں، اور میں آپ کو ہندوستان میں اتراک کے قلعوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بیڑے، فوجی
اور ہتھیار پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ عرب ممالک یا مکہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو مجھے اپنے
پاس بحر احمر میں جدہ کے سامنے، یا عدن، یا
بحرین، یا قطیف، یا بصرہ میں پائیں گے، اور
بادشاہ مجھے فارس کے تمام ساحل پر اپنے بغل
میں پائیں گے، اور اس کے ہر ارادہ کی میں
تنفیذ کروں گا۔ !" [13]۔
اس
طرح صفویوں نے، عباس اول کی شخصیت میں، پہلی بار کلیساؤں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی
کی، اور مشنریوں اور پادریوں کو مسلمانوں کی سرزمینوں میں فساد پھیلانے اور شرک اور
گمراہی کے جھنڈے اٹھانے کے لیے ان کو بے لگام چھوڑ دیا ۔
شاہ
عباس اوّل نے نصرانیوں کے ساتھ بہت نرمی و روادی برتی جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی
ہے، اس نے اپنی رعایا کے نام ایک فرمان جاری کیا
جس میں اس نے اس بات کی تاکید و تصدیق کی کہ وہ اس کے دوست اور اس کے ملک
کے حلیف ہیں , اور ان کو حکم دیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں ان کی عزت, احترام اور تکریم کریں ۔ اسی طرح اس
نے اپنا ملک یورپین ممالک کے تاجروں کے لیے کھول دیا اور یہ حکم دیا کہ ان کے سامانوں پر کوئی ٹیکس
نہ لیا جائے اور کوئی بھی حاکم یا مقامی
ان کو نقصان نہ پہنچائے ۔ یہ سلطان
تمام نسلوں کے عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک کے لیے مشہور تھا۔ [14]۔
شاہین
ماکاریوس کا خیال ہے کہ وہ بلاد ایران کا پہلا مسلمان سلطان تھا جس نے ایسا کام کیا
[15]۔
یورپ
کے بادشاہوں نے اپنے قاصدوں اور تاجروں کو ایران کا دورہ کرنے اور شاہ عباس اول کے
ساتھ سیاسی معاہدے اور تجارتی سودا کرنے کے
لیے بھیجا تاکہ یورپ کے باشندوں کے لیے سلامتی اور آرام , امن و راحت کی تمام ضروریات
کو فراہم کیا جا سکے [16]۔
اس
بادشاہ کے دور میں دو نامور انگریز: انتھونی شیرلی اور اس کے بھائی رابرٹ شیرلی پچاس
شہسواروں کے ساتھ ایران آئے۔ اس مناسبت سے عباس نے حکم دیا کہ ان کا استقبال کیا جائے، ان کا
احترام کیا جائے , اور اس نے ان کو اپنے سے قریب کیا اور ان کو خوب زیادہ عطیات سے
نوازا ۔
لہذا جب یہ انگریزی مشن قزوین پہنچا اور شاہ عباس
اس وقت خراسان میں تھا۔ اس نے قزوین کے اپنے
کارکنوں کو حکم دیا کہ اس کی قزوین واپسی تک وہ لوگ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور ان کی تکریم میں
کوئی کسر نہ چھوڑیں ۔ لہذا جب وہ قزوین
واپس ہوا تو اس نے مشن کے تمام ممبران کو اپنے استقبال کے لیے موجود صفوی ریاست کے اعلیٰ
عہدیداروں کے ساتھ کھڑا پایا۔ اس نے ان سے
مصافحہ کیا اور قزوین کے اندر تک ان کے ساتھ ساتھ
گیا اور انہیں بہت سے تحفے دیئے جن میں ایک سو چالیس گھوڑے، سو خچر, سو اونٹ اور ایک بڑی رقم تھی۔ پھر وہ اس مشن کے
افراد کو اپنے ساتھ دار السلطنت اصفہان تک لایا
جہاں انہوں نے کل چھ مہینے اس کی مہمان نوازی میں گذارے۔[17]
اس
دوران اس نے عثمانیوں کے ساتھ جنگ کے
بارے میں ان کے رہنما انتھونی شرلی سے مشورہ کیا جس نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنے سپاہیوں
کو فوجی کارروائی کے اصول سکھائے اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف یورپ کے ممالک کے ساتھ
اتحاد کرے، شاہ نے اس کی یہ بات مان لی۔ اور اس معاملے میں یورپ کی حکومتوں کے سامنے
اپنی نمائندگی کے لیے اسے ہی اپنا
سفیر مقرر کردیا ، اور اس بابت ایک حکم نامہ
جاری کیا جس میں اس نے اس انگریز پر مکمل اعتماد
کا اظہار کیا اور جو آگے چل کر اس کا سب
سے بڑا قریبی بن گیا [18]۔
شاہ
عباس ثانی نے اپنے دور حکومت (1642-1666) میں لوگوں کو مذہبی آزادی
دی، یورپیوں کو اس کے زمانے میں مکمل آزادی
ملی ہوئی تھی اور ان کے اوپر سلطان کا خصوصی فضل تھا، اس لیے ان کے تاجر اس کی مجلس
میں اس سے سب سے زیادہ قریب ہوتے تھے اور اس کے معاملات
کو بیان کرتے تھے [19]۔
اس
طرح ہم صفوی دور میں کافروں کے ساتھ ان کے
انتہائی مضبوط قریبی تعلقات، ان کے ساتھ ہم
آہنگی اور افہام و تفہیم، باہمی احترام، پیار اور محبت دیکھتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ
ولاء و براء (محبت و دوستی اور براءت) عقیدہ
کا ایک بنیادی اصول، توحید الوہیت کا ایک ستون، اور ایمان کا ایک کڑا و حلقہ ہے،
جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی نرمی نہیں ہونی چاہیے، خواہ سبب کچھ
بھی ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہودیوں اور عیسائیوں
کو اپنا جگری دوست بنانے سے منع کیا ہے۔اللہ
تعالى کا فرمان ہے : } يَاأَيُّهَا الَّذِينَ
ءَامَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ
أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ
لاَ يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ ) (مائدہ/51)
اے ایمان والو!تم یہود و نصارى کو دوست مت بناؤ, یہ آپس
ہی میں ایک دوسرے کے دوست ہیں , اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا دوست بناتا ہے
تو وہ بے شک انہیں میں سے ہے, یقینا اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے۔
بلکہ
اللہ سبحانہ و تعالى نے کافروں کو قلبی
دوست بنانے اور ان سے براءت کا اظہار نہ کرنے
کو منافقوں کی خوبی اور خصوصیت اور جہنم میں
داخل ہونے اور اس کے سب سے نچلے درجے میں رہنے کا سبب بتایا ہے۔فرمان باری تعالى ہے: } يَاأَيُّهَا الَّذِينَ
ءَامَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا الكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ المُؤْمِنِينَ
أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا * إِنَّ
المُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ
نَصِيرًا { (النساء: 144-145)
:
"اے ایمان والو! مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا جگری دوست مت بناؤ , کیا
تم چاہتے ہو کہ اپنے خلاف اللہ تعالی کی واضح حجت قائم کرلو۔یقین جانو کہ منافقین
جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور
تم کسی کو ان کا مددگار نہ پاؤ گے ۔
روم
کے کیتھولک چرچ کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا
اور ایران کے عیسائیوں کے ساتھ زیادہ ہمدردی:
شاہ
عباس صفوی نے جن لوگوں سے رابطہ کیا ان میں
روم کے پوپ بھی شامل تھے اور اس کے ذریعے اس نے یورپ کے عیسائی بادشاہوں پر زور دیا کہ سلطنت
عثمانیہ کے خاتمے کے لیے وہ آپس میں متحد ہوکر ایران کے ساتھ تعاون کریں۔اسی طرح
پوپ نے بھی ایران میں عیسائیوں کے موقف کی
حمایت کے لیے شاہ عباس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ۔
لہذا پوپ نے عباس کو متعدد خطوط بھیجے جن میں سفارش کی گئی کہ وہ ایران کے عیسائیوں
کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور انہیں گرجا گھر بنانے اور عیسائی رسومات ادا کرنے کی اجازت
دے ۔
ایک
اہم خط جس سے پوپ کی شاہ عباس اول اور عثمانیوں
کے درمیان اختلاف اور دشمنی کے دراڑ کو
مزید گہرا کرنے کے زبردست خواہش کا اظہار ہوتا ہے وہ ہے جو پوپ پال پنجم نے ایک وفد کے ساتھ بھیجا تھا
جس کا مقصد شاہ عباس کو سنی ازبکوں پر فتح
کی مبارکباد دینا اور عثمانیوں سے لڑنے پر ابھارنا اور آمادہ کرنا تھا ۔
اس
خط میں شامل اہم نکات درج ذیل ہیں:
1
- پوپ سلطنت عثمانیہ کو کمزور کرنے کی بہت زیادہ خواہش رکھتا ہے، اور وہ اس امیدو آرزو کو حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والی تمام طاقتوں سے
تعاون کی انتہائی امید رکھتا ہے۔ وہ تمام مسیحی
بادشاہوں کو آپس میں متحد کرنے کے لیے متحرک کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ تاکہ وہ مغرب
کی طرف سے سلطنت عثمانیہ کے خلاف مشترکہ حملہ
کر سکیں، جب کہ شاہ عباس مشرق کی جانب سے دوسرا حملہ کرے گا۔
2-
پوپ ایرانی افواج کو مضبوط کرنے کے لیے انجینئرز اور فوجی ماہرین بھیجنے کا وعدہ کرتا
ہے ۔
3
– طرفین کے درمیان تعلقات کے استحکام کی نگرانی
کے لیے پوپ اصفہان اور روم دونوں میں سفارت خانہ قائم کرنا چاہتا ہے۔۔
4
– پوپ شاہ ایران سے پوری امید
کرتا ہے کہ وہ ایران کے عیسائیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی عیسائیوں
سے بھی اچھا سلوک کرے گا ، اور عیسائیت قبول
کرنے والوں (یعنی مسلمانوں میں سے مرتد) کو سزا نہیں دے گا اور عیسائیوں کو اپنا مذہب چھوڑنے ( یعنی اسلام قبول
کرنے) پر مجبور نہیں کرے گا [20]۔
اس
طرح کیتھولک کلیسا شاہ عباس اول کو ایران کے عیسائیوں کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی کرنے
پر
ابھارنے میں کامیاب ہوا, اسی طرح
یورپ کے عیسائیوں کے ساتھ بھی جو اس وقت ایران
آ رہے تھے کیونکہ اس کے یہاں اس ہمدردی کی نفسیاتی استعداد اور اثر پذیری تھی ۔ علاوہ ازیں انہوں نے اسے اصفہان اور دیگر ایرانی شہروں میں گرجا
گھر بنانے پر بھی آمادہ و راضی کرلیا ، یہاں تک کہ اس نے اپنے خرچ پر جولفہ میں ایک
گرجا گھر کی تعمیر کا حکم دیا [21]۔
اس
نے تنصیری مشنوں کو ایران آنے کی بھی اجازت دی، اور انہیں نقل و حرکت اور نصرانی بنانے کی
مکمل آزادی دی۔ جس کے نتیجہ میں کچھ ایرانیوں
نے اسلام کو چھوڑ دیا، جن میں شاہ عباس کے متعدد مشیر بھی شامل تھے، یہاں تک کہ ان
میں سے کچھ نے خود شاہ عباس پر عیسائیت کی طرف مائل ہونے کا الزام لگایا۔ تنصیری مشنوں کے ساتھ اس کی بہت زیادہ ہمدردی بھی ایک پادری کی طرف سے اسے عیسائیت اختیار
کرنے کی پیشکش کرنے کا باعث بنی، جس پر شاہ نے جواب دیا: آئیے اسے کسی اور وقت کے لیے
چھوڑ یتے ہیں [22]!
0 التعليقات: