فیصلہ نوٹ بندی: مودی پر اللہ کی مار

                                    فیصلہ نوٹ بندی: مودی پر اللہ کی مار


      آج کل ہندستان میں ہر جگہ نوٹ بندی کا چرچا ہے ۔ یہی ہر محفل کا موضوع ہے۔میں اس کے متعلق بہت زیادہ لکھنا نہیں چاہتا ہوں۔ اس کے فوائد و نقصانات پر بھی تفصیل سے  بحث نہیں کرنا چاہتاا ہوں۔ لیکن حقیقت وہی ہے جو آج کل انڈیا میں ہر جگہ دکھائی دے رہا ہے۔اور میرے خیال میں نوٹ بندی سے نقصان کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید ہے۔دنیا کے بہت سارےماہرین اقتصاد  مثلا امرتا سین, میرا سانیال , رگھورام راجن, ڈاکٹر من موہن سنگھ , کوشک باسو, پربھات پٹنائک, لیری سمرس, جین ڈریز  وغیرہ نے نوٹ بندی کی مخالفت کی ہے۔ در اصل یہ ایک  سازش ہے جس کا مقصد سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے نوٹ بندی کا اعلان کرتے وقت جتنے بھی وجوہات و اسباب کا تذکرہ کیا تھا وہ سب ناکام ہو چکے ہیں۔ کرپشن  ختم ہونے یا کم ہونے کے بجائے زیادہ ہوگیا ہے۔بلیک منی کا کہیں کوئی پتہ نہیں ہے۔ فیک کرنسی یعنی نقلی نوٹ پاکستان سے پہلے خود انڈیا والوں نے کثیر تعداد میں چھاپ کے مارکیٹ میں اتار دی ۔ دہشت گردی اور نکسل واد کا مسئلہ  جوں کا توں بنا ہوا ہے۔ در اصل مودی نے جو اسباب گنائے تھے وہ سب نہایت ہی بودے او رکمزور تھے ۔ نوٹ بندی سے ان پر کوئی  خاص فرق پڑنے والا نہیں تھا اور اگر پڑتا بھی تو وہ عارضی ہوتا جیسا کہ ایک مہینہ کے دوران ثابت ہو چکا ہے۔ غرضیکہ مودی بری طرح اپنے منصوبہ میں ناکام ہوچکا ہےاور اس نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار لی ہے۔
        در اصل نوٹ بندی کے ذریعہ ان مقاصد کو حاصل کرنا نا ممکن ہے۔اور نوٹ بندی اس کا حل بالکل نہیں ہے ۔ اس کا حل تو لوگوں کو بدلنا, ان کی صحیح تربیت کرنا , عدل و انصاف پھیلانا اور ظلم کو ختم کرنا ہے۔اس کے علاوہ ٹیکس کو کم کرنا,ٹیکس چوروں کو سزا دینا, اور ایک ایماندار حکومت کا قیام ہے۔ جو لوگ خود ہی چور, لٹیرے اور کرپٹ ہیں وہ  چوری , کرپشن کو کیسے ختم کر سکتے ہیں۔لوگ تو  بدلے نہیں تو کیا صرف نوٹ بدل دینے سے مسائل ختم ہوجائیں گے؟نوٹ بندی سے نوٹ تو بدل جائے گا۔ سماج و معاشرہ میں پرانے نوٹ کی جگہ نیا نوٹ تو آجائے گا لیکن اس سے سماج و معاشرہ  نیا نہیں ہوگا۔ سماج و معاشرہ تو جوں کا توں باقی رہے گا ۔آخر نئے نوٹ میں کون سی ایسی تاثیر یا خصوصیت یا جادو و کرشمہ  ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں موجود کرپشن غائب ہو جائیگا ؟نقلی نوٹ چھو منتر ہو جائیگا۔ کالا بازاری ختم ہوجائیگی۔ دھشت گردی اور نکسل واد خود أپنی موت مرجائے گی؟
  لہذا نوٹ بندی سے دھشت گردی , بليك مني , کرپشن, نقلی نوٹ, کالا بازاری و ٹیکس چوری  وغیرہ کے ختم ہونے کی توقع رکھنا عبث و فضول ہے ۔ اور ایک پاگل کے بڑ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔لیکن افسوس ہے کہ مودی کو یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
      یہی وجہ ہے کہ اب مودی اور اس کی حکومت کیش لیس اکانومی یعنی بلا نقدی معیشت کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اور وہ بھی بہت زور و شور سے۔ حالانکہ اس کا نوٹ بندی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اور بلا نقدی معیشت نوٹ بندی کے بغیر بھی عمل میں لایا جا سکتا تھا۔ اور یہ کوئی ایک دو دن کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے انڈیا کی آبادی اور وہاں کے دیگر حالات کو دیکھتے  ہوئےچھ مہینہ یا سال بھر ناکافی ہے ۔ اور پھر اس کے لیے پہلے سے تیاری کی ضرورت ہے۔

       حقیقت تو یہ ہے کہ نوٹ بندی کی آڑ میں یہ ایک بہت بڑا گیم ہے جس کا واضح مقصد مودی کا اپنے متروں کو بچانا اور ان کو نوازنا ہے ۔غریبوں سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔خیر میں تفصیل میں نہ جاتے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ نوٹ بندی کا فیصلہ اللہ کی طرف سے        مودی پر عذاب ہے ۔ یہ اس پر اللہ کی مار ہے۔کیونکہ مودی اس کی وجہ سے جتنا ذلیل و رسوا ہوا ہے اور جس قدر عوام تنگ و پریشان ہو کر اس کو گالیاں دے رہے ہیں - اور یہ سب کچھ یوٹیوب پر موجود ہے جو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے ۔نوٹ بندی کے علاوہ کسی اور چیز سے ممکن نہیں تھا ۔لہذا اس نے عجلت اور بنا کسی تیاری کے یہ فیصلہ لیا۔اور اللہ نے اس کو ذلیل و رسوا کیا کیونکہ وزرات عظمی کی کرسی پر براجمان ہوتے ہی اس کے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے بلکہ ہمیشہ اس کے پاؤں آسمان پر ہی رہتے تھے۔کبر و غرور اور گھمنڈ اس کا شیوہ بن گیا تھا اور اب بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سو سے زائد اموات,تجارت میں مندی, نقدی کی قلت, جی ڈی پی میں گراوٹ ,بے روزگاری , اوقات کی بربادی  وغیرہ  عام لوگوں کی  پریشانیاں  اس کو نظر نہیں آرہی ہیں۔ اور کبر و غرور ایک ایسی چیز ہے جو اللہ کو ہرگز پسند نہیں ہے اور جس کی سزا اللہ جلد ہی  دنیا میں  دیتا ہے۔

      اسی طرح میرے خیال میں اس کا یہ فیصلہ اس کے زوال کی علامت اور ابتدا ہے جو ان شاء اللہ جلد ہی پورا ہوگا۔کیونکہ ایک تو دنیا کا قانون ہے کہ ہر عروج کا زوال ہوتا ہے ۔ مودی کا جو عروج ہونا تھا وہ ہوچکا۔ اب اس کا زوال شروع ہوچکا ہے۔ اور اس کا انجام ان شاء اللہ بہت ہی برا ہوگا۔سچ ہے  کہ اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی ہے۔


     اس مناسبت سے یہ ذکر کردینا بہت ہی مناسب و بہتر  ہے کہ موجودہ بی جی پی حکومت نے مودی کی قیادت میں آر ایس ایس کے ایجنڈہ کو نافذ کرتے ہوئے بہت ساری بڑی اور فاش غلطیاں کی ہیں جن کے نتیجہ میں ملک کی بہت ساری پارٹیاں, جماعتیں , شخصیات و افراد آر ایس ایس و اس کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انھوں نے ان کے خلاف بہت زور و شور سے  تحریک چلارکھی ہے۔جن میں سب سے نمایاں شخصیت آج کل جواہر لال  یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس لیڈر  کنہیا کمار کی ہے ۔یہ نوجوان شخص آر ایس ایس کے خلاف میدان جنگ میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ سرگرم ہے۔ ایسی صورت میں ہندستانی مسلمانوں کے لیے  یہ وقت غنیمت جان کر باطل طاقتوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر میدان عمل میں کود پڑنے کا ہے۔ اور ان تمام طاقتوں کا ساتھ دینے , مدد کرنے اور ان  کو تقویت دینے کا ہے جو باطل و شر کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ اب بھی اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوئے بیٹھے رہے اور صرف تماشہ دیکھتے رہےتو ہماری  تباہی و بربادی یقینی ہے ۔یاد رکھیے وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے اور وقت گزرنے کے بعد کف افسوس ملنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔یہ ایک بہت ہی مناسب اور موزوں  وقت ہے۔لہذا مسلمانوں کے مفاد و مصلحت میں ہے کہ وہ اپنے کو منظم کریں۔ فرقہ واریت سے اوپر اٹھیں۔پارٹی بندی سے اوپر اٹھ کر سیکولر و مسلمانوں کے حمایتی غیر مسلم طاقتوں کا ساتھ دیں اور اپنی بقاء کی خاطر میدان عمل میں بنا کسی تاخیر کے کود پڑیں اور باطل و شر کی قوتوں کو شکست دینے کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کریں تبھی ہم حالات کو سازگار اور اپنے موافق بنا سکتے ہیں اور مستقبل میں سکھ و چین کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: