عبادات اور گناہوں کی مغفرت

 

عبادات اور گناہوں کی مغفرت  



                                           ابو میمونہ

  حدیث: عن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «الصلوات الخمس، والجمعة إلى الجمعة، ورمضان إلى رمضان مُكَفِّراتٌ لما بينهنَّ إذا اجتُنبَت الكبائر (مسلم) وفي رواية أخرى عند مسلم ( ما لم تغش كبيرة )

معانی کلمات:

      مکفرات: یہ کفر(ف پر تشدید) سے  اسم فاعل ہے, اس کا ایک معنى  کسی کی تعظیم میں سر کو جھکانا اور سینہ پر  ہاتھ رکھنا ہے , دوسرا معنى کفارہ دینا ہے , تیسرا معنى کسی چیز کو ڈھکنا اور چھپانا ہے اور چوتھا معنى گناہ کو مٹانا ہے, بولا جاتا ہے : کفر اللہ عنہ الذنب اى غفرہ, اس کی مغفرت فرمادی, معاف کر دیا , اور اس کا ایک معنى کسی کو کافر کہنا ہے ۔ یہاں مراد معاف کرنا ہے, بخش دینا ہے ۔

اجتنب: اس کا ایک معنى جنبی یعنی ناپاک ہونا ہے اور دوسرا معنى گناہوں سے بچنا, دور رہنا ہے , احتیاط کرنا ہے وغیرہ ۔

کبائر: یہ کبیرہ کی جمع ہے , اور کبیر اللہ کے ناموں میں سے ایک ہے , اس کا معنى بڑا, بزرگ , سردار, بلند مقام والا , زیادہ وغیرہ ہے , یہاں مراد بڑے گناہ ہیں ۔  ( موقع المعانی: المعجم الوسیط)

ترجمہ:  حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں,  اور جمعہ سے جمعہ تک  اور رمضان سے رمضان  تک ان کے درمیان کے گناہوں کے کفارہ ہوجاتے ہیں  اگر بڑے گناہوں سے بچا جائے ۔(مسلم) اور مسلم  ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے  کہ جب تک وہ بڑے گناہ کا مرتکب نہ ہو۔

شرح:  انسان فطری طور پر بہت کمزور ہے , اس سے مختلف اقسام کے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں , غلطی کرنا اس کی فطرت ہے , شیطان بھی اس کو بہکاتا رہتا ہے اور بسا اوقات شہوانی نفس کا اس کے اوپر غلبہ ہوجاتا ہے , اور یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے بہت ساری ایسی عبادات مقر رکی   ہیں جن سے گناہ مٹ جاتے ہیں بشرطیکہ  انسان بڑے گناہوں سے دور رہتا ہے, اور انہیں میں سے ایک چیز عبادات کو ان کے شروط  و ارکان کے ساتھ صحیح طریقے سے  ادا کرنا ہے ۔

اور اس حدیث میں نبی کریم نے مسلمانوں کو بتایا ہے کہ ہردن پنج وقتہ فرض نمازوں کی ادائیگی  کرنا , اور ایک جمعہ کے بعد آنے والے  دوسرے  جمعہ کو ادا کرنا , اور ایک رمضان کے بعد  آئندہ  اس سے متصل دوسرے رمضان کا روزہ رکھنا,  یعنی ان تمام عبادات کا ان کے ارکان و شروط کے ساتھ ادا کرنا  چھوٹے گناہوں کی مغفرت کا سبب  ہے , اس  سے چھوٹے گناہ مٹ جاتے ہیں لیکن بڑے گناہوں کی معافی کے لیے توبہ شرط ہے , اور کبائر سے مراد بڑے گناہ ہیں اور  ہر وہ گناہ بڑا گناہ  ہوتا ہے جس کو قرآن یا صحیح احادیث یا اجماع میں  کبیرہ یعنی بڑا  یا ذنب عظیم یعنی بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے یا اس میں سخت سزا کی خبر دی گئی ہے یا اس میں حد ہو یا اس کے مرتکب کی سخت نکیر کی گئی ہے یا اس کے کرنے والے کو لعنت کی گئی ہے ۔ (موقع الدر رالسنیہ: الموسوعۃ الحدیثیۃ, شروح الاحادیث)

اذا اجتنب الکبائر  میں حرف  اذا کے بارے میں شارحین کے دواقوال ہیں :--

پہلا قول یہ ہے کہ اذا شرطیہ ہے , اس کا مطلب ہے کہ کسی انسان کے چھوٹے گناہ اس وقت معاف ہوں گے جب وہ بڑے گناہوں سے دور رہتا ہے, ان سے بچتا ہے , چھوٹے گناہوں کی معافی کے لیے بڑے گناہوں سے بچنا شرط ہے, اگر نہیں بچتا ہے تو چھوٹے گناہ معاف نہیں ہوں گے ۔اور یہی شرط اللہ تعالى کے اس قول میں بھی ہے: : ﴿ إِن تَجْتَنِبُواْ كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ ﴾ [سورة النساء: 31]، اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے گناہوں کو مٹا دیں گے ۔ اور یہی شرط اس حدیث میں بھی ہے : " ما من مسلم تحضره صلاة مكتوبة فيحسن وضوؤها وخشوعها وركوعها إلا كانت كفارة لما قبلها من الذنوب ما لم تؤت كبيرة وذلك الدهر كله "(مسلم) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی فرض نماز کا وقت ہونے پر اس کے  وضو , خشوع و رکوع میں احسان کرتا ہے یعنی اس کو اس کے  فرائض سنن و مستحبات کے ساتھ اچھی طرح  ادا کرتا ہے  تو وہ اس کے سابقہ گناہوں کے لیے کفارہ ہو جاتا ہے اگر وہ کبیرہ یعنی بڑے گناہ کا ارتکاب نہیں کرتا ہے , اور یہ ہر زمانہ کے لیے ہے (مسلم)

اس قول کی بنیاد پر حدیث میں اذا کا حرف شرطیہ ہے ۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اذا استثناء کے لیے ہے , اس کا مطلب ہے کہ ان عبادات سے بڑے گناہوں کے علاوہ تمام چھوٹے گناہ معاف ہوجائیں گے ۔ امام نووی نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔(شرح مسلم) ۔ (موقع  الوکہ: شرح حدیث: الصلوات الخمس...)

بعض علماء نے صحیح مسلم میں وارد  حضرت عمرو بن العاص کی  بیعت والی روایت جس میں آیا ہے :" أما علمت ان الاسلام یہدم ما کان قبلہ و ان الہجرۃ تہدم  ما کان قبلہا و ان الحج یہدم ما کان قبلہ" کی بنیاد پر  یہ لکھا ہے کہ  عبادات میں کچھ شروط کے ساتھ  صرف حج مبرورسے چھوٹے بڑے ہر قسم کے  گناہ معاف ہوجاتے ہیں  لیکن حقوق العباد کے بارے میں اجماع ہے کہ یہ کسی بھی قسم کی  عبادت سے معاف نہیں ہوں گے ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: اسلام ویب, المقالات, الاسلام یہدم ما قبلہ)

یہاں پر ایک اعتراض یہ ہے کہ جب پنج وقتہ نمازیں گناہوں کو مٹادیتی ہیں تو پھر کیوں کہا گیا ہے کہ جمعہ و رمضان بھی گناہوں کو مٹا دیتے ہیں, اس کے بعد ان کے  ذکر کرنے کا کیا فائدہ ہے؟

تو اس کا جواب امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح صحیح مسلم میں اس قسم کی احادیث پر گفتگو کرتے ہوئے یہ دیا ہے: اور یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب وضو گناہوں کو مٹادیتا ہے تو نماز گناہوں کو کیا مٹائے گا اور جب نماز گناہوں کو مٹا دیتا ہے تو پھر جمعہ اور رمضان گناہوں کو کیا مٹائے گا, اسی طرح عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کا کفارہ ہے اور عاشوراء کا روزہ ایک سال کا کفارہ ہے  اور جب مقتدی کا آمین کہنا امام کے آمین کہنے کے موافق ہو تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں ؟ تو اس کا کیا مطلب ہے اور اس میں کیا حکمت ہے؟

تو اس  اعتراض کا جواب علماء نے یہ دیا ہے کہ یہ تمام عبادات  گناہوں کو مٹانے کے قابل ہیں , اب اگر کسی کے پاس چھوٹے گناہ ہیں تو وہ معاف ہوجاتے ہیں , اور اگر کسی کے پاس نہ چھوٹے گناہ ہیں اور نہ بڑے گناہ تو اس کو اس کے بدلے میں نیکیاں ملتی ہیں اور درجات بلند ہوتے ہیں اور اگر بڑے گناہ ہیں چھوٹے گناہ نہیں ہیں تو امید ہے کہ اللہ تعالى بڑے گناہوں میں تخفیف کردےاور ان میں کمی کردے۔ واللہ اعلم ۔(اسلام ویب , شرح حدیث : الصلوات الخمس و الجمعۃ الى الجمعۃ)

یہ اہل سنت و جماعت کا مسلک ہے کہ حدیث میں مذکور گناہوں کی مغفرت سے مراد چھوٹے گناہوں کی مغفرت ہے جب تک انسان بڑے گناہوں سے دور رہتا ہے اور بڑے گناہ صرف توبہ یا اللہ کی رحمت و فضل سے سے معاف ہوتے ہیں ۔(اسلام ویب: شرح حدیث: الصلوات الخمس ....)

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف رمضان کہنا جائز ہے ضروری نہیں ہے کہ ماہ رمضان کہا جائے ۔ اور یہی جمہور علماء کا مسلک ہے جب کہ بعض نے اس کا انکار کیا ہے اور ان کی دلیل حضرت ابو ہریرہ کی مرفوع روایت ہے جس کے الفاظ ہیں : لا تقولوا رمضان فان رمضان اسم من أسماء اللہ و لکن قولوا شہر رمضان یعنی رمضان مت کہو کیونکہ یہ اللہ کا ایک نام ہے اور لیکن ماہ رمضان کہو ۔

یہ روایت بیہقی کی ہے اور اس کا علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ ضعیف روایت ہے کیونکہ اس کی سند میں ابو معشر ہیں ۔ (موقع  الوکہ: شرح حدیث: الصلوات الخمس...)

اس حدیث سے یہ بھی  معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالى کی رحمت بہت وسیع ہے اور وہ اپنے فضل و کرم سے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور کم عمل پر بہت زیادہ اجر دیتا ہے۔ اور اس سے گناہوں کے مٹانے میں نماز و روزہ کی فضیلت کا علم ہوتا ہے۔(موقع  الدرر السنیۃ ) اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہ چھوٹے و بڑے دو قسم کے ہوتے ہیں ۔

آخر میں اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے کہ وہ دور حاضر کے مسلمانوں کو رمضان کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے مغفرت کا سبب بنائے اور ہرقسم کے گناہوں سے محفوظ رکھے آمین و ماعلینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمینز

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: