لوک سبھا جنرل الیکشن 2024 ع اور انڈیا کا جمہوری مستقبل داؤ پر

 


             لوک سبھا  جنرل الیکشن 2024 ع اور  انڈیا کا  جمہوری مستقبل  داؤ  پر



اداریہ مجلہ اصلاح و ترقی اپریل 2024ع 

(یہ تحریر 28/مارچ 2024ع کی ہے)

     انڈیا کے لوک سبھا  جنرل  الیکشن 2024 ع  کا بگل بج چکا ہے , 16/مارچ کو الیکشن کا اعلان کر دیاگیا جو انڈیا کی تاریخ میں پہلی بار سات مرحلوں میں مکمل  ہوگا ,  ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان 4/جون کو کیا جائے گا۔ اس اعلان  کے ساتھ ہی  برسر اقتدار پارٹی سمیٹ تمام پارٹیوں نے الیکشن کے لیے کمر کس لی ہے , انتخابی لڑائی کے  میدان میں اتر چکے ہیں اور اس میں کامیابی کے لیے اپنی پوری طاقت لگا رہے ہیں  ۔

     اور  ہم سب ہندوستانی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ حکمراں جماعت  بی جی پی  آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے۔اور آر ایس ایس نہ صرف اسلام و مسلمان دشمن تنظیم ہے بلکہ یہ دلتوں اور تمام نیچی ذات کے ہندووں کی بھی دشمن جماعت ہے ۔ یہ ایک فرقہ پرست منو وادی نظریہ کی حامل تنظیم ہے  جس کا مقصد  نہ صرف بڑی ذات کے ہندووں کے مفادات کی حفاظت کرنا  بلکہ  ان کی بالا دستی قائم کرنا ہے ۔سرمایہ داروں اور کارپوریٹ سیکٹر کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا اور عوام کو ان کا غلام بنانا ہے ۔ اور اس نے اپنے دس سالہ دور اقتدار میں جو فیصلے کیے ہیں وہ عام طور سے انہیں کے حق میں کیے ہیں ۔

اب ظاہر ہے کہ آر ایس ایس  اور  اس کا سیاسی بازو  حکمراں پارٹی تو ہر حال میں اس الیکشن کو جیتنا چاہتی ہے اور یہ اس کے سپریم ہیرو اور مہا مانو کا بہت بڑا خواب ہے تاکہ وہ أپنی شخصیت کو مزید نکھار سکیں اور عوام کو یقین دلا سکیں کہ وہ یقینا انڈیا کے سب سے کامیاب وزیر اعظم ہیں, ان کے جیسا لیڈر انڈیا میں پیدا نہیں ہوا ہے وہ ہندو ہردے سمراٹ کے علاوہ  سب کے مسیحا ہیں, ان کو اوتار کا درجہ مل ہی چکا ہے اور لوگ بھگوان مان کر ان کی  پوجا بھی رہے ہیں   اور انہیں کی بدولت انڈیا دن بدن ہر میدان میں دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے ۔

حالانکہ حقیت اس کے باکل برعکس ہے , اور اگر بی جی پی کے دس سالہ دور حکومت کے کالے کارناموں کو بیان کیا جائے تو اس کے لیے ایک ضخیم کتاب درکار ہے , بلا شبہ   اس کے کرتوتوں  کی فہرست بہت لمبی ہے , جن میں خاص طور سے قابل ذکر ہیں  : سیاست میں مذہب کا بہت زیادہ استعمال,  نفرت و کراہیت , تعصب و تشددکو فروغ دینا, لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اپنانا,  نوٹ بندی,  بنا کامل تیاری کے  جی ایس ٹی کا نفاذ,  بنا کسی پلاننگ و تنظیم کے لاک ڈاؤن,  کسانوں کے خلاف تین کالے  قانون بنانا اور پھر ان کو واپس لینا, بے روزگاری, نوکریوں کی شدید قلت,  چندی گڑھ میئر الیکشن میں کیمرہ کے سامنے ووٹوں کی کاؤنٹنگ میں بے ایمانی, اتراکھنڈ میں یوسی سی  کا نفاذ , محاکم پر دباؤ,  قانون ساز اسمبلیوں کے ممبروں کو خریدنا  اور صوبائی حکومتوں کو گرانا,جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال, اور حال ہی میں31/ جنوری کو الیکشن سے کچھ پہلے  جھارکھنڈ کے وزیر اعلى  ہیمنت سورین کو  گرفتار کرنا  , وسط فروری میں  کانگریس کے بینک اکاؤنٹس کو بند کرنا ,21/مارچ کو  دلی کے وزیر اعلى اروند کیجریوال کو گرفتار کرنا , الکٹورل بانڈ کا سب سے بڑا عالمی منظم و قانونی  گھوٹالہ کرنا , مخالف جماعتوں کو کرپشن کے نام پر بدنام کرنا, ان کے نیتاؤں کو جیل میں بند کرنا, ان کو ختم کرنے کی کوشش کرنا   اور دوسری جماعتوں کے کرپٹ  نیتاؤں کو اپنی جماعت میں شامل کرنا  وغیرہ ,  غرضیکہ فہرست بہت لمبی ہے ان سب کو یہاں شمار کرنا ممکن نہیں ہے ۔   

اسی طرح مودی  حکومت نے ووٹوں کے پولرائزیشن کے لیے مسلمانوں کو خاص طور سے نشانہ بنایا ہے, ان کو ہراساں و پریشان کیا ہے اور ان کے خلاف  قصدا تعصبانہ و دشمنانہ کاروائیاں  کی ہیں جن میں  کشمیر کے دفعہ 370 کو ختم کرنا, ججوں پر دباؤ ڈال کے بابری مسجد کا غلط فیصلہ کروانا,  تین طلاق پر غلط قانون بنانا,  گیان واپی اور متھرا مسجد کا مسئلہ اٹھانا اور اسے ہندؤوں کو سونپنے کا مطالبہ کرنا, مولانا آزاد فیلوشپ ختم کرنا , مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ بند کرنا, اوقاف ایکٹ کو ختم کرکے اس  کی ملکیت پر قبضہ  جمانے کی کوشش کرنا,  اور ابھی حال ہی میں  جمعہ 22/مارچ کو یوپی کے ہائی کورٹ کے ذریعہ مدرسہ بورڈ ایکٹ کو غیر قانونی قرار دینا  وغیرہ اس کی  کچھ نمایاں و اہم مثالیں ہیں ۔

اور اگر کسی کو دین و مذہب کا غلط استعمال کرنے , لوگوں کے درمیان تعصب و نفرت پھیلانے , علانیہ طور پر مذہب کی وجہ سے ایک جماعت کو ٹارگٹ کرنے, حکومت گرانے و بنانے , عوام کو گمراہ کرنے , جھوٹے وعدے کرکے لوگو کو سبز باغ دکھانے ,أعداد و شمار میں ہیراپھیری کرنے , جھوٹا پرچار و پرسار کرنے, میڈیا کو قابو میں کرنے  اور کسی مخالف  تحریک و جماعت  کے خلاف نفسیاتی جنگ کرنے کا  بے مثال و لاجواب ہنر و فن سیکھنا ہے تو وہ بی چی پی سے سیکھے ۔ بلا شبہ بی جی پی اس میدان میں ید طولی رکھتی ہے اور دور دور تک اس کا کوئی  مد مقابل نہیں ہے ۔ بلکہ گوبلز بھی اس میدان میں  ان کے سامنے بونا نظر آتا ہے۔اور اس کو ان سب چیزوں کا کافی لمبا تجربہ بھی ہے۔ اور یہ بی جی پی کا سب سے بڑا کارنامہ ہےجس سے ہر کوئی واقف ہے۔

    اور اس امر  میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جب سے یہ پارٹی برسر اقتدار آئی ہے تب سے انڈیا ہر میدان میں پیچھے گیا ہے اور اس کی اقتصادی, سیاسی, سماجی   و ثقافتی حالت بہت خراب ہوئی ہے, نفرت و کراہیت, تشدد و انتہا پسندی  عوام میں بہت زیادہ پھیلی ہے, تعصب و دشمنی کا بول بالا ہوا ہے, بھارت کے تمام بڑے و خود مختار اداروں مثلا سپریم کورٹ, الیکشن کمیشن,  ای ڈی, کیگ, سی بی آئی وغیرہ نے مودی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ اور حکومت کی غلامی کاطوق أپنی گردن میں ڈال لیا ہے۔  ان  کی خود مختاری بری طرح متاثر ہوئی ہے, اب کوئی بھی ادارہ خودمختارو غیر جانبدار نہیں رہ گیا ہے  بلکہ  سب حکومت کے اشارہ پر کام کرتے ہیں , اسی طرح صدر, نائب صدر, راجیہ سبھا کے چیرمین اور تمام صوبوں کے گورنر آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بھی اپنی پارٹی کے وفادار ہوتے ہیں اور بنا کسی ڈرو خوف کے اسی کی مصلحت و مفاد کے لیے کام کرتے ہیں ,  مہنگائی و بے روزگاری نے پرانے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں , میڈیا کو مکمل طور سے خرید کرکے اس کو اپنے قابو میں کر لیا گیا ہے اور وہ زر خرید غلام  بن چکا ہے, اس کا محض ایک کام اپوزیشن کی تنقید کرنا, ان کی شبیہ بگاڑنا , ان سے سوال کرنا اور برسر اقتدار پارٹی کی تعریف کرنا ہے , اس کی برائیوں وخرابیوں پر پردہ ڈالنا ہے اور ان خبروں کا مکمل بائیکاٹ کرنا جن سے اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہو۔

      اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب دنیا کے کسی بھی ملک کے خود مختار  اور عظیم ادارے  مثلا سپریم کورٹ, ریزور بینک, بڑی  تفتیشی ایجنسیاں, ذرائع ابلاغ  اور الیکشن کمیشن وغیرہ   أپنی تشکیل و حقوق  کی بنیاد  ملک کے آئین و دستور  کی وفاداری و  غلامی کا طوق أپنے گردنوں سے نکال کے حکومت وقت کی وفاداری و  غلامی کا طوق أپنی گردنوں میں ڈال لیتی ہیں  تو وہاں کی گورنمنٹ نہ صرف بے لگام ہو جاتی ہے بلکہ جمہورت , آئین   اور دستور نیز عدل و انصاف کا خون ہوجاتا ہے۔عوام پر ظلم ہوتا ہے اور حکومت وقت کے مخالف دین و نظریہ رکھنے والوں کو خاص طور سے ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔اور حکومت صرف ایک طبقہ کے مفاد کی نگراں بن کے رہ جاتی ہے۔

حکومت کے ان  غلط اقدامات  و  نادرست فیصلوں کی وجہ سے انڈیا کی تنزلی ہر میدان میں واضح ہے خواہ وہ ھنگر انڈکس ہو, یا حقوق انسانی کا معاملہ ہو یا پریس کی آزادی کا مسئلہ ہو یا کرپشن کی حالت ہو غرضیکہ اس حکومت نے اپنے د س سالہ دور اقتدار میں انڈیا کو تقریبا  تباہ و برباد کردیا ہےاور  اس کو زبردست  تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے ۔

یقینا موجودہ وزیراعظم بقول تیجسوی و یوگیندر یادو   تاریخ کا سب سے جھوٹا وزیر اعظم ہے, اس کا جھوٹ بولنا بہت ہی واضح ہے, اپنے وعدوں کو پورا نہ کرنے کے باوجود اس کا حکومت میں باقی رہنا میڈیا کی دین ہے , اس ملک کا سب سے بڑا غدار میڈیا ہے اس کے بعد موجودہ حکومت ہے ۔ یہ حکومت صرف جھوٹ اور پرچار پر ٹکی ہوئی ہے , اس نے انڈین  سیاست کو  مذہب سے جوڑ دیا ہے  اور اسی بنیاد پر   پولرائزیشن کرکے  ہندؤں کے ووٹ حاصل کرتی ہے , اسے نہ آئین کا لحاظ ہے نہ سیکولزم کی فکر  ہے,  یہ کھلے عام ہندو راشٹر کی بات کرتی ہےاور پرائم منسٹر پجاری کا کردار ادا کرتا ہے  ۔

مذکورہ بالا سطور سے واضح ہے کہ بلاشبہ آج کل ملک کے سیاسی, مذہبی , اقتصادی , تعلیمی و ثقافتی  حالات  بہت زیادہ خراب ہیں ,  نفرت و کراہیت کا بازار ہر طرف گرم ہے , تعصب و تشدد کی ہوا ہر طرف بہہ رہی ہے , فرقہ پرستی کا زہر بہت زیادہ پھیل چکا ہے , لیکن یہاں یہ کہنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے اور یہ سوفیصد سچ  ہے کہ    ملک کی جو موجودہ  حالت ہے اس کے لیے تنہا بی جی پی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کی سب سے زیادہ ذمہ دار کانگریس ہے کیونکہ کانگریس نے اس ملک پر  54/برس حکومت کی ہے لیکن اس نے کبھی بھی فرقہ واریت کے خلاف اپنے دور حکومت میں جانے انجانے میں سنجیدہ کاروائی نہیں کی,اس  کے خلاف کوئی سخت ایکشن نہیں لیا  اور نہ کوئی ٹھوس قانونی کاروائی کی , جس کی ایک اہم  وجہ اس پارٹی میں آرآریس کے ممبران کا پایا جانا تھا ,  بلا شبہ آر آر ایس نے اپنے منظم پلاننگ کے تحت اس نے زندگی کے ہر شعبہ , و ملک کی   ہر جماعت و پارٹی میں اپنے لوگوں کو داخل کر دیا ہے , اور یہ اس کی سب سے بڑى کامیابی ہے , شاید ایسے ہی افراد کانگریس حکومت میں فرقہ واریت کو کچلنے میں روڑا  بنے رہے جس کا خمیازہ آج کانگریس خود بھگت رہی ہے , اسے اپنے کرموں کا پھل مل رہا ہے اور وہ دس سالوں سے نہ صرف اقتدار سے باہر ہے بلکہ ایک ایسی جماعت کا سامنا کر رہی ہے جو آئین, سیکولرزم  اور پارلیمانی جمہوریت سب کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے ,  اور ساتھ ہی  عوام  بھی اس کے نتائج بھگت رہی ہے, ورنہ اگر کانگریس چاہتی تو جب 30/جنوری 1948 ع  کے دن موہن داس کرم چند گاندھی کو گوڈسے کے ذریعہ قتل کیا گیا تھا تو اسی وقت اس تنظیم کو کرش کردیتی اور اس کا وجود مٹا دیتی , لیکن کانگریس نے ایسا نہیں کیا بلکہ بعد میں اس سے پابندی ختم کردی , اس کو پالا پوسا , بڑھاوا دیا  جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے ۔

یہ ہے ملک کی  موجودہ صورت حال کی ایک مختصر لیکن  خطرناک, درد ناک و خوفناک جھلک  جس کو سوچ کے ایک انصاف پسند شہری ڈرجاتا ہے اور اس کو وطن کا  مستقبل تاریک دکھائی دینے لگتا ہے ۔اور انہیں   حالات کے بیچ لوک سبھا  جنرل الیکشن 2024ع ہو رہا ہے,  بلا شبہ یہ ایک بہت ہی اہم و حساس الیکشن ہے, یہ اپنے تمام سابقہ الیکشن سے اس معنى میں الگ ہےکہ یہ  بقول کھڑگے و کئی دوسرے لیڈران کے  آخری الیکشن ہو سکتا ہے , یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے جو انڈیا کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا اور اس کا رخ متعین کرے گا ۔ فی الحال انڈیا کی جمہوریت اور اس کا مستقبل داؤ پر ہے ۔ 

  اور زیادہ امید یہی ہے  کہ اس بار بھی بی جی پی بازی مار لے جائے گی کیونکہ  انڈین اپوزیشن پارٹیوں   کی وہی حالت ہے جو آج دنیا میں مسلمانوں کی ہے ۔ مسلمان ممالک تمام خطرات کو دیکھتے ہوئے بھی آپسی  اتحاد کے لیے تیار نہیں ہیں , اسی طرح یہاں کی پارٹیاں بھی اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر سیاسی اتفاق و اتحاد کے لیے تیار نہیں ہیں جب کہ ان کا وجود خطرے میں ہے ۔ اگر ان پارٹیوں نے ہوش کے ناخن نہیں لیے تو پھر اس  الیکشن میں بی جی پی کو روکنا ناممکن ہے ۔خوشی کی بات یہ  ہے کہ مخالف جماعتوں نے کئی  اہم صوبوں  مثلا یوپی و بہار میں اتحاد کیا ہے  لیکن کلی اتحاد و اتفاق اب تک نہیں ہوپایا ہے اور نہ اس کی کوئی امید و صورت نظر آرہی ہے ۔ اور اگر بی جی پی اس الیکشن میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اس کو اس کے خطرناک ایجنڈوں کے نافذ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے , اور یہ انڈیا  و اس کے انصاف پسند شہریوں  خصوصا مسلمانوں کے لیے ایک کالا دن ہوگا , وہ انڈین آئین کو تبدیل کر سکتی ہے جیسا کہ اس کے ایک لیڈر اننت کمار ہگڑے نے 10/مارچ کے  اپنے ایک بیان میں کہا ہے  اور  بہت سارے طبقات کو ان کے بنیادی  حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ  اس الیکشن میں بی جی پی کو کامیاب ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ یہ کس کی ذمہ داری ہے اور ہم مسلمانوں کو اس الیکشن میں کرنا ہے ؟ وغیرہ

  بلا شبہ یہ ہرمحب وطن, آئین  کا حامی ,  انصاف پسند و جمہوریت کا علم بردار  انڈین شہری  اور خصوصا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے  کہ وہ اس اہم الیکشن میں بی جی پی کو شکست دینے کی مکمل کوشش کریں اور اس میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں اور اس کے لیے تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لائیں اور اپنے ان  ہندو بھائیوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں  جو بی جی پی کے مخالف ہیں ۔اپنے ووٹ کا خوب سوچ سمجھ کر صحیح استعمال کریں تاکہ ان کا ووٹ ضائع نہ ہو ۔

    اور  میں خصوصی طور پر  اپنے ان تمام مسلمان بھائیوں سے گذارش کرتا ہوں جو بی جی پی یا آر ایس ایس کی مسلم ونگ "مسلم راشٹریہ منچ "سے جانے یا انجانے میں کسی بھی طرح جڑے ہوئے ہیں وہ اس  سے فوری طور پر الگ ہوجائیں ۔کیونکہ یہ بلاشبہ ایک فاشسٹ جماعت ہے ۔ اس کا ایجنڈا و پالیسی مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔اس  کی مسلم دشمنی بالکل  واضح ہے ۔ان سب کے باوجود اس پارٹی یا  مسلم راشٹریہ منچ میں باقی رہنا یا اس کی کسی بھی طرح کی مدد کرنا در اصل اسلام و مسلمان دشمنوں کی مدد کرنا ہے ۔ان کو تقویت پہنچانا ہے ۔ اور اپنے لیے خود سے کنواں کھودنے کے مترادف ہے۔اور مسلمان اس  پارٹی سے کسی بھی طرح کی خوش فہمی میں قطعا نہ رہیں  کیونکہ جب یہ پارٹی خود نچلی ذات کے ہندؤؤں کو ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ان کے ساتھ انصاف کرنے کو راضی نہیں ہے ۔ تو پھر یہ مسلمانوں کے ساتھ کیسے انصاف کرسکتی ہے اور کیسے ان کا حق دے سکتی ہے؟

    ہم تمام مسلمانوں پر اس پارٹی کے کاموں کو دیکھتے ہوئے  دینی, ملی اور وطنی اعتبار سے واجب ہے کہ اس پارٹی کو قطعا ووٹ نہ دیں۔اور اس کو شکست دینے کے لیے بھر پور جد و جہد کریں۔

    ہم یہ عزم کریں کہ ہم اپنے مسلمان و غیر مسلم دوستوں و پڑوسیوں کو بھی اس پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے آمادہ کریں گے ۔اوراس کے لیے  ان کو ہر ممکن طریقہ سے راضی کرنے کی کوشس کریں گے۔

      یہ دینی, ملی اور وطنی تقاضہ ہے  کہ ہر مسلمان اس پارٹی کے خلاف اپنی طاقت بھر  پرچار کے لیے میدان میں آئے۔اس میں حصہ لے ۔ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہ رہے ۔ تھوڑا سا وقت اس اہم کام کے لیے ضرور نکالے۔کوئی یہ نہ کہے کہ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یا سیاست ایک خراب چیز ہے ۔ اچھے لوگ اس سے دور رہتے ہیں ۔ یہ سب  جہالت , نادانی اور نا سمجھی کی باتیں ہیں۔ بلکہ اس کے بر عکس یہ ایک دینی, ملی اور وطنی واجب ہے ۔ اس پر بھی ہم کو اجر و ثواب ملے گا۔کیونکہ اس سے ہمارا مقصد اپنے حقوق کی حفاظت کرنی ہے ۔ اپنے آئین و دستور کو بچانا ہے جو ہمارے حقوق کا ضامن ہے ۔ اگر ہم اپنے حقوق کی حصولیابی و حفاظت کے لیے خود آگے نہیں آئیں گے تو کیا کوئی دوسرا ہمارے حقوق کی جنگ لڑے گا ؟ اور کیا ہم کو ہمارے حقوق بنا کسی محنت کے حاصل ہوجائیں گے؟

      دھیان رکھیے کہ ان سب کے باوجود اگر ہماری آنکھین نہیں کھلتی ہیں ۔اور ہم خواب خرگوش میں مست رہتے ہیں اور میدان میں آکے محنت نہیں کرتے ہیں تو ہمارا مستقبل اور بھی تاریک ہو سکتا ہے اور ہم  خصوصا ہماری آنے والی نسلیں اور زیادہ پریشانیوں میں پڑ سکتی  ہیں۔ اس لیے ہم میں سے ہر شخص اپنی طاقت و گنجائش کے مطابق جو بھی کر سکتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کرے ۔

     آج کل شوسل میڈیا کا دور ہے ۔ ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی  اس میڈیا سے وابستہ ہیں۔ وہ اس کے ذریعہ بھی دوسروں کو اپنی رائے سےنہ صرف  مطلع کر سکتے ہیں بلکہ  ان کو مطمئن کرکے اپنا ہم خیال بھی بنا سکتے ہیں۔اور بی جی پی کے خلاف ایک بیداری مہم بھی چلا سکتے ہیں۔ لہذا اس اہم  میڈیا کا استعمال ضرور کریں اور ان ویڈیوز کو زیادہ سے زیادہ شیر کریں جن میں بی جی پی کی حقیقت صحیح معنی میں اجاگر کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر یہ ویڈیو بھی شیر کر سکتے ہیں: 
https://youtu.be/XHvrKYR_7jc

     اگر یہ حکمت عملی اپنائی جائے تو میرے خیال میں  زیادہ بہتر ہوگا کہ اگر کسی سیٹ پر بی جی پی یا کسی دیگر فرقہ پرست جماعت کو چھوڑ کےکسی بھی پارٹی کا  کوئی مسلم امید وار ہےاور اس کے الیکشن میں کامیاب ہونے کی زیادہ امید ہے تو تمام مسلمان متفق ہو کے اس کو ووٹ دیں۔ ورنہ بی جی پی کو چھوڑ کے جس بھی پارٹی کے امیدوار کے کامیاب ہونے کی زیادہ امید ہے تو اس کو ووٹ دیں تاکہ مسلمانوں کا ووٹ ضائع نہ ہو۔

       اور اگر کسی سیٹ پر تمام پارٹیوں کے سبھی امید وار مسلمان ہیں جیسا کہ ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور ان کا ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے ۔ایسی صورت میں  مسلم ووٹوں کی تقسیم سے بچنے کے لیے کسی ایسی پارٹی کے امیدوار کو سپورٹ کریں جو انتخاب میں کامیاب ہو رہا ہے ۔اور اسی کو اپنا ووٹ دیں تاکہ آپ کا ووٹ ضائع نہ ہو۔

     امید وار کے انتخاب میں بھی اس کے ریکارڈ اور اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے تئیں اس کے رویہ کو پیش نظر رکھیں۔

     ووٹنگ کے دن خود جلد از جلد ووٹ ڈالنے کی کوشس کریں ۔ پھر بی جی پی مخالف تمام لوگوں کو بھی جلد از جلد ووٹ ڈالنے کے لیے آمادہ کریں ۔ اور زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ووٹ ڈلوائیں تاکہ بی جی پی کو شکست فاش ہو۔

      یاد رکھیے کہ ہندوستان کی حفاظت , اس کی جمہوریت نیز آئین و دستور کی حفاظت , فرقہ پرستی سے اس کو بچانا یہ صرف سیکولر پارٹیوں یا غیر مسلم سیکولر و جمہوریت پسندوں کا کام نہیں ہے بلکہ یہ ہر انصاف پسند و حق پرست ہندوستانی  خصوصا مسلمانوں کا کام ہے۔اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم مل جل کر کو شس کریں اور تمام فرقہ پرست طاقتوں  خصوصا بی جی پی کو شکست سے ہمکنار کریںجو  موجودہ وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔ اور بی جی پی کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ یہ تو بہت آسان ہے ۔ کیونکہ ہم صرف مسلمان ہی اس کے مخالف نہیں ہیں ۔ بلکہ ہندوستان کی بہت ساری غیر مسلم  سیاسی پارٹیاں , غیر سیاسی  تنظیمیں, جماعتیں  اور 90 فیصد انصاف و حق  پرست ہندو خود اس کے مخالف ہیں۔یہ تو ہماری خاموشی, سہل پسندی, سستی اور کاہلی اور آر ایس ایس کی انتھک محنتوں و کوشسوں  کا نتیجہ ہے کہ پی جی پی آج حکومت میں ہے ۔

     یاد رکھیے کہ یہ ایک سنہرا موقع ہے جو جلدی جلدی اور بار بار ہاتھ نہیں آتا ہے ۔ لہذا اس کو ضائع نہ کریں اور ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ہم اگر اب بھی بیدار نہیں ہوئے تو بہت دیر ہوجائے گی ۔ وقت نکل جائے گا۔ اس وقت ندامت کا اظہار کرنے اور کف افسوس  ملنے سے حسرت کے علاوہ اور کچھ نہیں ملے گا۔

                                                و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: