ما لکم کیف تحکمون؟ "کیا بیوی ایک طرح سے لونڈی ہے" اور اس کی بابت دلائل کا علمی جائزہ

 <script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4702673796649958"

     crossorigin="anonymous"></script>

                                                                                                                         ما لکم کیف تحکمون؟

             "کیا بیوی ایک طرح سے  لونڈی ہے" اور اس کی بابت  دلائل کا علمی جائزہ

نوٹ : یہ موضوع مجلہ اصلاح و ترقی کے جولائی 2021 ع جلد ایک شمارہ تین میں شائع ہوا ہے ۔ ص 35-42, آپ اس کا مطالعہ وہاں پر بھی کرسکتے ہیں۔

جمعہ 18 / جون 2021 ع کو فیس  بک پر میں نے ایک مختصر تحریر " مالکم کیف تحکمون "عنوان کے تحت بیوی و باندی میں فرق  بتلانے کے لیے  شیر کی تھی اس وعدہ کے ساتھ  کہ بعد میں  اس موضوع پر ان شاء اللہ تفصیل سے  گفتگو کروںگا۔ بعض نے کہا کہ آپ نے دلائل کا   جواب نہیں دیا ہے صرف حقوق پر گفتگو کی ہے ۔حالانکہ حقوق  سے فرق کا پتہ چلتا ہے ۔حقوق  درجات, مناصب و رینک کی نشاندہی کرتے ہیں  بلکہ ان معاملات میں حقوق ہی   فرق کا معیار و پیمانہ ہیں۔جس کو جتنے زیادہ حقوق حاصل ہوتے ہیں اس کا درجہ و رتبہ اتنا ہی بلند ہوتا ہے۔ اگر حقوق میں فرق نہ ہو تو سب یکساں مقام و مرتبہ میں ہوجائیں گے ۔ لہذا   حسب وعدہ  دلائل  کے تجزیہ و رد کے ساتھ مفصل  تحریر پیش خدمت ہے ۔

یہ مضمون درج ذیل  چارعناصر پر مشتمل ہے:

بیوی و باندی میں فرق                           اسلام میں بیوی کے حقوق

بیوی کو مثل  باندی  قرار دینے کے لیے پیش کردہ  دلائل کا علمی جائزہ و رد

محارم سے شادی حرام ہونے کی وجہ

بیوی و باندی میں فرق:

 بیوی و باندی میں وہی فرق ہے جو آزاد و غلام میں ہے۔آزاد و غلام کے اسلامی احکام و مقام و مرتبہ میں کافی فرق ہے ۔ بیوی  مثل باندی نہیں ہو سکتی ہے اورنہ ہی  باندی مثل  بیوی  ۔بیوی خرید و فروخت نہیں ہوتی ہے جب کہ باندی خرید وفروخت ہوتی ہے ۔بیوی  اپنی رضامندی,  نکاح  و  مہر کے ذریعہ بیوی بنتی ہے جب کہ باندی  بنا  رضامندی ,بنا نکاح   و مہر کے  باندی ہوتی ہے۔ نکاح کے ذریعہ شوہر بیوی کا قوام بنتا ہے وہ مالک و آقا نہیں جو بیوی کو مملوک بنا دے۔ آزادی و غلامی دونو دو متضاد چیزیں ہیں۔ یہ دونو ایک ساتھ قطعا جمع نہیں ہوسکتے ۔جب شریعت میں ایک لونڈی کو بیوی کا درجہ دینے   کے لیے پہلے اس کو  آزاد کرنا پھر اس سے شادی کرنی ضروری ہے ۔ لہذا  یہ بات سمجھ سے پرے ہے کہ ایک آزاد عورت شادی کے مقدس رشتہ میں بندھتے ہی مثل باندی  ہوجائے۔ بیوی کو ایک طرح سے باندی  کہنا در اصل آزاد عورت کی توہین ہے اور یہ اسی طرح ہے جس طرح کسی آزاد انسان کو غلام  یا مانند غلام  یا ایک طرح سے غلام کہا جائے ۔کیا کوئی آزاد انسان اپنے لیے یہ کہلوانا پسند کرے گا؟

اسلام میں بیوی کے حقوق:

 اسلام میں بیوی کے اختیارت انتہائی محدود  بلکہ نا کے برابر ہیں ۔ یہ کہنا سراسرمغالطہ ہے ۔ اسلام نے بیوی کو بہت زیادہ حقوق دئیے  ہیں۔ کافی اختیارات بخشے بھی ہیں نیز بیوی و باندی  دونو کے حقوق میں بہت زیادہ فرق ہے۔ بیوی کو کمائی کا حق حاصل ہے ۔ بیوی کا مال اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا حرام ہے۔  بیوی نکاح کے وقت شرط لگانے کا  شرعا حق رکھتی ہے ۔ بیوی وارث ہوتی ہے ۔بیوی بوقت ضرورت خلع لے سکتی  ہے۔بیوی گھر کی ذمہ داریوں میں شریک ہے ۔ ایک سے زائد بیوی کی صورت میں ان کے درمیان تقسیم میں عدل واجب ہے۔  بیوی کے ساتھ حسن معاشرت واجب ہے ۔ بیوی کو اللہ نے زوج و صاحبہ سے تعبیر کیا ہے  وغیرہ ۔حقوق کی ایک لمبی فہرست ہے  جب کہ  باندی و شبہ  لونڈی کو یہ تمام حقوق بالکل نہیں حاصل ہیں۔

 در اصل  کسی بھی چیز کے بارے میں درست و صحیح اسلامی  نظریہ قائم کرنے کے لیے اس کے متعلق شریعت میں وارد تمام نصوص کا  مطالعہ ایک ساتھ ضروری ہے ۔ ان نصوص کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اگر ہم کسی بھی چیز کا مطالعہ چند نصوص و اقوال اہل علم کی روشنی میں کریں گے تو غلطی کا ہونا ضروری ہے ۔ مقدمہ غلط ہونے کی صورت میں نتیجہ کا غلط ہونا بدیہی چیز  ہے۔

کسی شاعر نے سچ ہی کہا ہے:

                خشت اول چوں نہد معمار کج              تا ثریا می رود دیوار کج

 بیوی کو مثل باندی قرار دینے والی  تحریر میں یہی چوک ہوئی  ہے ۔ دوسرے نصوص کو باکل نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ اسی طرح امہات المؤمنین کے ساتھ نبی کریم کے تعامل کو بھی کنارے لگا دیا  گیا ہے۔ ذرا سوچیں کیا آپ کا تعامل ازواج مطہرات کے ساتھ باندیوں جیسا تھا؟

بیوی سے متعلق بعض نصوص:

آخر میں یہ جاننا ضروری ہے کہ  و لہن مثل الذی علیہن بالمعروف(بقرہ/228)  کا کیا مطلب ہے؟ اس بنیاد پر حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہ کہنا  کہ میں اپنی بیوی کے لیےزیب و  زینت کرتا ہوں جس طرح وہ میرے لیے زینت کرتی ہے کا کیا معنی ہے ؟ و عاشروہن بالمعروف( نساء/19)  کا کیا مفہوم ہے؟ ومن آیاتہ أن خلق لکم من أنفسکم أزواجا   لتسکنوا الیہا و جعل بینکم مودۃ و رحمۃ  (روم/21)کیا ہے؟ ام المؤمنین حضرت عائشہ کی صحیح روایت  : انما النساء شقائق الرجال ( السلسلہ الصحیحہ  )  اور مشہور روایت ابو زرع و ام زرع  والی ( بخاری , مسلم و نسائی )کس چیز پر دال ہے؟  حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت: والمرأة راعية على بيت زوجها وولدِه( بخاری و مسلم) کیا بیوی کی گھر میں مشترکہ ذمہ داری پر دلالت نہیں کرتا ہے؟ کیا ان سب کا یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ بیوی مثل باندی ہے ؟ کیا باندی کے حق میں یہ سب آیا ہے؟

بیوی ہمہ وقت خادمہ بھی نہیں ہے کہ آپ اس کو نوکرانی کی طرح استعمال کرتے رہیں۔ علماء کے صحیح قول کے مطابق خدمت اس پر واجب ہے لیکن وہ خدمت معروف کے ساتھ ہے , عرف کے ساتھ مشروط ہے مطلقا نہیں ہے ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے کئی فتاوى انٹرنٹ پر موجود ہیں ,مثلا حکم عمل المرأۃ, اس کو درج ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔ https://binbaz.org.sa/fatwas/8738/%D8%AD%D9%83%D9%85-%D8%AE%D8%AF%D9%85%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B1%D8%A7%D8%A9-%D9%84%D8%B2%D9%88%D8%AC%D9%87%D8%A7

اسی طرح یہ فتوى بھی درج ذیل رابط پر دیکھا جا سکتا ہے :ہل یجب على المرأۃ خدمۃ زوجھا, الاسلام سوال وجواب, فتوى نمبر119740

https://islamqa.info/ar/answers/119740/%D9%87%D9%84-%D9%8A%D8%AC%D8%A8-%D8%B9%D9%84%D9%89-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%B1%D8%A7%D8%A9-%D8%AE%D8%AF%D9%85%D8%A9-%D8%B2%D9%88%D8%AC%D9%87%D8%A7

اس کے علاوہ اور بھی فتاوى ہیں ,سوال یہ ہے کہ کسی سے بھی  اس کی طاقت سے زیادہ خدمت  لینا حتی کہ غلام اور جانور سے بھی نہیں جائز ہے تو ایک بیوی سے کیسے جائز ہو سکتا ہے۔لہذا ہمہ وقت خادمہ کہنا درست نہیں ہے ۔

در اصل مضمون نگار نے   جو اسلوب, لب و لہجہ ا  و ر طرز تحریراختیار کیا گیا  ہے اس سے نمایاں ہے کہ بیوی محض باندی کی طرح ہے, اس سے زیادہ شوہر کے سامنے  اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔کوئی مانے یا نہ مانے مگر حقیقت یہی ہے اور اسی پر اپنا پورا زور صرف کردیا ہے۔ جب کہ یہ سراسر غلط ہے۔ 

دلائل کا علمی جائزہ و رد:

بیوی کو ایک طرح سے لونڈی ثابت کرنے اور غلط نتیجہ اخذ کرنے  کے لیے جن دلیلوں کا سہارا لیا گیا ہے ان میں سے ایک یہ حدیث ہے ۔  "انما الزواج رق  فلینظر أحدکم الى من یرق عتیقتہ " اور ایک دوسری روایت میں کریمتہ کا لفظ ہے ۔  اس  روایت کے مرفوع و موقوف ہونے کے  بارے میں اختلاف ہے, اس کو بعض نے بطور مرفوع  ضعیف بھی قرار دیا ہے  البتہ جس روایت میں کریمہ کا لفظ ہے وہ ضعیف ہے۔ اور اس کے بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ یہ موقوف ہے جیسا کہ علامہ بیہقی نے کہا ہے۔(دیکھیے:إسلام ویب: النکاح رق ....., الفتوی, تاریخ النشر: الاثنین 16/12/1431 ھ /22/11/2010م , المکتبۃ الشاملۃ الحدیثۃ, أرشیف ملتقى أہل الحدیث-2, فصول الکتاب ,ج 74 , ص 179, أرشیف الاسلام, عنوان الفتوى: رتبۃ حدیث: النکاح رق فلینظر أحدکم أین یضع کریمتہ, الاثنین, 22/11/2010م)

 خود علامہ ابن تیمیہ نے اس کو موقوفا روایت کیا ہے۔علامہ ابن قیم نے  النکاح نوع من الرق  عبارت کو نقل کرنے کے بعد لکھاہے : کما قال بعض السلف( زاد المعاد, تحقیق: شعیب و عبد القادر أرنؤوط, ط3, ج5, بیروت: مؤسسۃ الرسالہ, ص171 )  اس کا مطلب ہے کہ ان دونو کے نزدیک بھی اس روایت کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ہے  ۔

خیر ہم اس کو مرفوع مانیں یا موقوف, ہم اس حدیث یا اثر کا انکار نہیں کرتے ہیں بلکہ بسروچشم اس کو قبول کرتے ہیں لیکن یہاں پر رق یعنی غلامی ہرگز اپنے اصلی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے فقط عورت کی لاچاری , مجبوری و بے بسی کو ظاہر کرنا ہے ۔اور رشتہ استوار کرنے میں سخت احتیاط پر انتباہ ہےکیونکہ اصلی معنی مراد لینے میں شریعت کے دیگر نصوص کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔اور نکاح سے کسی کا غلام یا باندی بن جانا ثابت نہیں ہے اور پھر خطاب اولیاء اور و سرپرستوں سے  ہے کہ بچیوں کی شادیاں دیکھ بھال کر کیا کریں کیونکہ مردوں میں کچھ بہت ہی خراب قسم کے ہوتے ہیں جو عورتوں پر ظلم ڈھاتے ہیں وغیرہ ۔

 اور اگرمذکورہ روایت کو  صرف موقوف مانا جائے   یعنی کسی صحابی کا قول ہے تو اس کو رد کیا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ کسی صحابی کا قول و عمل صرف اسی صورت میں حجت ہے جب وہ شریعت کے مخالف نہ ہو ۔ لہذا اگر کسی بھی صحابی کا قول یا عمل شریعت کے مخالف ہےتو ان کے علم و فضل کا اعتراف کرتے ہوئےاور   مقام و مرتبہ کے کامل احترام کے ساتھ   اس کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اور یہ خود حضرت عبد اللہ بن عباس و عبد اللہ بن عمر سے ثابت ہے ۔ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے حج تمتع کے بارے میں سوال کیا گیاتو فرمایا کہ سنت ہے۔ اس پر کسی نے عرض کیا کہ آپ کے والد محترم یعنی امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب اس سے منع کرتے تھے تو وہ جواب دیتے ہیں: أمر ابی أحق أن یتبع ام أمر رسول اللہ یعنی کیا میرے والد کا حکم اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے یا نبی کریم کا حکم ۔( دیکھیے : جامع الترمذی, باب ما جاء فی التمتع, حدیث نمبر 824, ابن قیم الجوزیۃ:  زاد المعاد فی ہدی خیر العباد, ج2, ط3, بیروت: مؤسسۃ الرسالہ: 1419ھ,ص 181)

اسی کے مشابہ ایک اور واقعہ بھی ہے , کسی نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے ایک مسئلہ دریافت کیا تو آپ نے نبی کریم کا قول ذکر کردیا ۔ اس پر سوال کرنے والے نے حضرت ابو بکر و عمر کا نام لیاتو عبد اللہ بن عباس نے فرمایا: " یوشک أن تنزل علیکم حجارۃ من السماء أقول : قال رسول اللہ و تقولون: قال ابو بکر و عمر) یعنی قریب ہے کہ تمھارے اوپر بطور عذاب آسمان سے پتھروں کی بارش نازل ہوجائے  کیونکہ میں کہتا ہوں کہ پیارے نبی کا یہ فرمان ہے اور تم کہتے ہو کہ حضرت ابو بکر و عمر نے یہ کہا ہے۔ (ابن قیم الجوزیۃ: اعلام الموقعین عن رب العالمین, تحقیق: محمد محی الدین عبد المجید, , ج2, ط2, بیروت: دار الفکر, 1397 ھ, ص 219, زاد المعاد فی ہدی خیر العباد , ص 182, الشیخ عبد الرحمن بن حسن آل الشیخ: فتح المجید شرح کتاب التوحید, مراجعہ و تعلیق: الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز, ط1, مکہ المکرمہ: مکتبہ نزار مصطفى الباز, 14۱۷ ھ, ص 506)۔

معلوم ہوا کہ اگر کسی کا بھی قول کتاب و سنت سے میل نہیں کھاتا ہے ۔ اس کے خلاف ہے تو اس کا چھوڑ دینا واجب ہے ۔ اور اس کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔اور کتاب و سنت میں   کہیں بھی بیوی کے لیے باندی یا مثل باندی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ لہذا ہم بھی بیوی کے لیے یہ الفاظ نہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ اور اگر کسی نے کیا ہے تو وہ اس کی غلطی  ہے اوروہ  ہمارے لیے حجت نہیں ہے۔

لہذا اگر  علامہ ابن مفلح حنبلی , شہاب الدین قرافی ,  امام سرخسی , امام محمد بن عبد اللہ زرکشی , علامہ ابن تیمیہ و ابن قیم  وغیرہم – رحمہم اللہ جمیعا- کے اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بیوی ایک طرح سے  لونڈی ہے تو ان کے عظیم  علم و فضل , بلند مقام و مرتبہ  اور از حددینی خدمات کا احترام کرتے ہوئے  اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ بھی معصوم عن الخطا نہیں ہیں ۔جب ہم ان سے افضل ائمہ کی باتوں کو رد کردیتے ہیں تو ان کی بھی بات کو رد کیا جاسکتا ہے ۔غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے ۔ کوئی بھی  معصوم عن الخطاء  نہیں ہے۔ ہم ان کے مقلد بھی نہیں  ہیں۔ امام دار ہجرت  حضرت امام  مالک کا قول کا فی مشہور ہے کہ ہرایک کی بات قبول بھی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے سوائے اس قبر والے کے۔ اور پھر انہوں نے نبی کریم کے قبر کی طرف اشارہ کیا ۔

دوسری دلیل قوامیت(نساء /34) کی ہے لیکن اس سے بھی دھوکہ نہیں کھانا چائیے کیونکہ اس   کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ بیوی مانند باندی ہے بلکہ قوامیت کا واضح و صاف معنی ہے  دیکھ بھال کرنا, انتظام و نگرانی کرنا اور اس کی طرف سے مدافعت کرنا۔اس میں تشریف کے بجائے تکلیف ہے ۔ اس کی یہ ذمہ داری ہے ۔ یہ ایک قسم کی ترتیب و تنظیم ہے۔ اللہ نے گھر کو چلانے کے لیے اس کو یہ ذمہ داری دی ہے ۔وللرجال علیہن درجۃ   مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ اوپر رکھا گیا ہے تاکہ گھر چلتا رہے ۔دونو ایک ہی مرتبہ میں نہیں ہوسکتے ہیں لیکن  اس میں تسلط و جبر کا معنی ہرگز نہیں ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو مانند لونڈی بنا کے رکھے۔وہ گھر کا سر براہ  اور  منتظم ہے ۔  تو جس طرح  کسی بھی ملک کی رعایا  بیعت کرنے کے باوجود اپنے حاکم و سربراہ کی غلام نہیں ہوتی ہے جبکہ بیعت بھی ایک عقد ہے اور اس کا بلاوجہ توڑنا شریعت میں سخت گناہ ہے  اسی طرح گھر کے لوگ بھی سربراہ کے غلام نہیں ہوتے ہیں۔اطاعت میں غلامی کا معنی کہاں پایا جاتا ہے۔

ألفیا سیدہا لدی الباب(یوسف/25) بھی ایک دلیل ہے لیکن اس  سے بھی نہیں ثابت ہوتا ہے کہ شوہر آقا ہوتا ہے اور بیوی  اس کی باندی, کیونکہ قرآن و حدیث  میں کہیں بھی عزیز کی بیوی کے لیے باندی کا لفظ نہیں آیا ہے ۔اسی آیت میں آگے اہل کا لفظ ہے ۔اور پھر آیت نمبر تیس میں امرأۃ العزیز کا لفظ آیا ہے ۔اور یہ دونو الفاظ : أھل و امرأۃ  بیوی کے لیے استعمال ہوتے ہیں  باندی کے لیے نہیں جب ان کو نسبت کرکے بولا جائے۔ علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس آیت میں سید سے مراد شوہر ہے اور قبطی شوہر کو سید کہتے ہیں ( ابو عبد اللہ محمد القرطبی: الجامع لاحکام القرآن, تحقیق: عبد اللہ بن محسن ترکی,ط 1 ,  ج11, بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ, 1427ھ/2006 ع , ص 320, علامہ ابن کثیر نے بھی سید کی تفسیر شوہر سے کی ہے ) کسی مفسر نے نہیں لکھا ہے کہ یوسف علیہ السلام کو دعوت زنا دینے والی عورت عزیز کی  باندی تھی ۔لہذا اسے دلیل بنانا صحیح نہیں ہے۔

اسی طرح اسیر و قیدی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ باندی یا ایک طرح سے  باندی ہے ۔ جس طرح جیل میں قید تمام لوگ غلام  یا مثل غلام نہیں ہوجاتے ہیں اسی طرح وہ شادی کرکے باندی نہیں بن جاتی ہے بلکہ وہ آزاد ہی رہتی ہے ۔اور یہاں پر قیدی سے مراد حقیقی قید نہیں ہے بلکہ اس کی مجبوری  و  لاچاری کو بیان کرنا ہے ۔ اور پھر اس کے ساتھ حسن سلوک پر ابھارنا ہے ۔

جس طرح کوئی لونڈی چند حقوق کی وجہ سے ملکہ نہیں بن جاتی ہے اسی طرح شوہر کے  صرف ایک درجہ فضیلت کی وجہ سے بیوی اس کی باندی نہیں بن جاتی ہے ۔ اطاعت یا ماتحتی کا مطلب غلامی نہیں ہوتا ہے ۔بلکہ یہ محض ایک تنظیم ہے جو ہم روز مرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں۔

غلام و بیوی کے چند  بنیادی حقوق جیسے غذاء , کپڑا و رہائش   میں مشابہت کو دلیل بنانا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ مشابہت  پائے جانے سے اور وہ بھی چند بنیادی حقوق میں  یہ کہاں لازم آتا ہے کہ بیوی بھی باندی کی طرح ہے ۔اگر  بعض حقوق میں مشابہت کی وجہ سے ہر ایک کا مقام و مرتبہ برابر ہوجائے تو پھر اس دنیا میں بہت سارے میں لوگ برابر ہوجائیں گے ۔ مثلا وزیر اعظم  اور اس کے وزراء, صدر و وزیر اعظم,  ان دونوں کے بہت سارے حقوق  میں مشابہت پائی جاتی ہے , فوجی کمانڈر اور عام فوجی ان دونوں کے بہت سارے حقوق ایک جیسے ہوتے  ہیں ۔ تو کیا چند حقوق میں مشابہت سے دونوں برابر ہوجاتے ہیں؟ ان کا مقام و مرتبہ ایک جیسا ہوجاتا ہے؟

فوجی و پولس, بیوی و بیٹی ان سب کے بنیادی حقوق غذاء رہائش اور لباس برابر ہیں تو کیا سب کا مقام و مرتبہ برابر ہے کیا فوجی پولس بن جائے گا یا پولس فوجی بن جائے گا۔ کیا بیٹی  معاذ اللہ بیوی کے مثل ہوجائے گی۔ غذاء و کپڑا و رہائش یہ پوری دنیا کے انسانو کی بنیادی ضروریات ہیں تو کیا سب مقام و مرتبہ میں برابر ہیں ۔ہلم جرا

در اصل ایک آزاد کو  غلام پر قیاس کرنا ہی غلط ہے۔تحریر میں  آزادی و غلامی کے عظیم فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا  ہے  ۔ دونوں  میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔پھرحاکمیت و اطاعت یا  کسی کے ماتحت ہونے  کا مطلب ہرگز غلامی نہیں ہے ۔

محارم سے شادی کے حرام ہونے کی وجہ:

 ہم سب کا عقیدہ ہے کہ اللہ نے جو بھی حکم دیا ہے اس کی تابعداری و فرماں برداری واجب ہے خواہ اس کی حکمت معلوم ہو یا نہ ہو ۔ اگر حکمت و فلسفہ معلوم ہوجائے تو بہت اچھی بات ہے ورنہ ہم حکمت و فلسفہ معلوم کرنے  کے مکلف نہیں ہیں۔ اس تحریر میں فقہاء نے بعض چیزوں کی جو حکمت بیان کی ہے وہ انتہائی  غیر معقول , غیر منطقی , ضعیف و کمزور ہیں ۔جیسے ماں , بہن , بیٹی وغیرہ  سے شادی حرام ہونے کی وجہ, اسی طرح مسلمان لڑ کی کے غیر مسلم سے شادی حرام ہونے کی وجہ وغیرہ

ماں , بہن , بیٹی سے شادی حرام ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ شادی سے انسان غلام ہوجاتا ہے ۔ قطعا غلام نہیں ہوتا ہے ۔ اور ایک آزاد غلام ہو بھی نہیں سکتا ہے۔بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک انسان جس نے ایک پیٹ سے جنم لیا ہے یا جس نے کسی کو جنم دیا ہے یا جنہوں نے ایک ہی بطن سے جنم پایا ہے وہ کیسے آپسی شادی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ ایک گھٹیا سے گھٹیا انسا ن اس کے بارے میں نہیں سوچ سکتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ حرمت کی وجہ غلامی نہیں  بلکہ خونی  قرابت,  اصل و نسب ہے ۔

علامہ ابن قیم نے بھی  حرمت کی وجہ قرابت کو قرار دیا  ہے  ۔(زاد المعاد, 5/117) اور حدیث و فقہ کی کتابوں میں حرمت کے تین اسباب بتلائے گئے ہیں ۔ نسب, مصاہرت و رضاعت , ان میں کہیں بھی غلامی کا ذکر نہیں ہے ۔

اسی طرح ایک مسلمان کا نکاح غیر مسلم سے اس لیے نہیں حرام ہے کہ وہ اپنے شوہر کی غلام بن جاتی ہے بلکہ اصل وجہ کفر و ایمان ہے ۔اسلام نے قطعی طور پر ایک مسلمان عورت کی شادی کو کافر سے حرام قرار دیا ہے  کیونکہ  اس بات کا بہت قوی امکان ہے کہ عورت اپنے شوہر سے بے انتہاء محبت کی وجہ سے اپنا دین چھوڑ دے ۔ عورتیں جذباتی ہوتی ہیں ۔ وہ رو میں بہہ کرکے کوئی بھی فیصلہ لے  سکتی ہیں۔  آج کے دور میں ہم سب اس کا مشاہدہ کر رہے  ہیں ۔ کتنی مسلمان لڑکیاں غیر مسلموں سے شادی کرکے مرتد ہو رہی ہیں۔

اس کے علاوہ عام طور سے بچے اپنے والد کے دین کو اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے ایک مسلمان عورت کی شادی کو کافر سے حرام قرار دیا گیا ہے ۔ اصل  مسئلہ کفر و ایمان کا ہے  نہ کہ غلامی  کا  ہے ۔

معلوم ہوا کہ ایک بیوی کسی بھی صورت میں ایک لونڈی کی طرح  نہیں ہے ۔ دونوں کے احکام و حقوق میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ ایک آزاد کسی بھی صورت میں غلام نہیں ہوسکتا ہے ۔اور احادیث میں قیدی و غلامی کا مطلب حقیقی نہیں ہے بلکہ مجازی ہے۔

ہذا ما عندی و اللہ اعلم بالصواب , ان اصبت فمن اللہ و ان اخطات فمن نفسی و الشیطان , و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔


التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: