موسم گرما۔ یادگاریں اور توقعات

 

بسم الله الرحمن الرحيم

مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                           بتاریخ: 1-8-1435ھ / 30-5-2014ع

 

خطبہ وتحریر:عالی جناب پروفیسر ڈاکٹرعبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس

صدر اعلی: رئاست عامہ برائے امور حرمین شریفین،وامام وخطیب مسجد حرام 

 

 

ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

 متعاون مدرس ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ


موسم گرما۔یادگاریں اور توقعات

پہلا خطبہ:

یقینا ہر طرح کی تعریف اللہ تعالی کے لئے ہے۔ ہم سب اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ اور اسی سے توبہ کرتے ہیں اور ہم ہر طرح کے خیر پر اسی کی تعریف کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالی کی یکے بعد دیگرے تعریف کرتے ہیں اس کے فضل وکرم پر جو بہت زیادہ ہے۔ اور ہم اس کی ہر وقت اور ہمیشہ تعریف کرتے ہیں۔ جس سے ہمارا مقصد قیامت کے دن اس کا ثواب حاصل کرنا ہے۔

اورہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے وہ اکیلاہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے ایسی گواہی جوکہ ہماری زندگیوں کو بابرکت بناتی ہے اور نور سے بھر دیتی ہے اورہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے نبی اور ہمارے قدوہ محمد ﷺ ہیں جوکہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جنھوں نے ہم تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت  اور  شفقت سے  اس بات کی تعلیم دی ہے کہ ہم اپنے وقتوں کو غنیمت سمجھیں۔اور درود وسلامتی ہو آپ پر۔ جنھوں نے ہم مسلمانوں کو شریعت کے اندر آسانی اور گنجائش عطاکی ہے جو ایک جاری چشمہ ہے۔ اور اسی طرح رحمت وسلامتی ہو آپ کے نیک وصالح آل واولاد پر جن کی پاکیزگی کی روشنی پوری دنیا پر چھاگئی اور آپ کے بابرکت اصحاب پر جن کے رگ و پے کے اندر شرافت سرایت کی ہوئی تھی اور تمام تابعین پر اور ان لو گوں پر جو قیامت تک جنت کے شوق میں آپ کی اتباع کرنے والے ہیں۔

اما بعد  اے اللہ کے بندوں: سب سے بہترین اور اچہی نصیحت اللہ تعالی کا تقوی ہے۔ لہذا اللہ سے سفر وحضر، آمد ورفت میں ڈرو، اورجان لو کہ بلا شبہ اللہ تعالی کا تقوی سب سے بہترین توشہ اورسب سے بڑا سامان ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: کہ حج کے لئے توشہ راہ لے لواور سب سے بہترین توشہ اللہ تعالی کا تقوی ہے۔اور حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کہ اللہ سے ڈرو جہاں کہییں بھی رہو، اور گناہ کے بعد نیکی اس کو مٹادیتی ہے، اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ، یہ حدیث ترمذی میں ابو ذر اور معاذ بن جبل سے مروی ہے۔

ایک شاعر کہتاہے: کہ تقوی میں عزت وبزرگی بالکل واضح ہے۔ اور اسی میں قیامت کے دن عزت ہے، پس اللہ کا تقوی کتنا بہترین توشہ ہے۔ اور مشکل کے دن کتنا بہترین ذخیرہ ہے۔

اے مسلمانوں: موسموں کے آنے جانے اور رات ودن کی گردش، اور ان تروتازہ نئے دنوں کے آغاز میں جوکہ بامقصد اور عظیم الشان امیدوں، افکار وخیالات والے ہیں ہمارے لئے گرمی  سے اس کا چہرہ طلوع  ہو رہاہے۔ اور اس کی ہلکی نیز خوشبو دار ہوائیں چلنا شروع ہو گئی  ہیں جب کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے بہت ہی  شدت سے  اس کا انتظار  کر رہے  ہیں اور آنکھیں  اس  کو غنیمت  جاننے  کیے لئے  بے تاب ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ گرمی نے اپنا چادر ہم سب پر پھیلا  دیا ہے اور اپنا سایہ ہم سب پر ڈال دیا ہے۔ اور پوری دنیا میں اپنی خوشبو بکھیردی ہے۔ اور سورج کے ذریعہ  اپنی حرارت وگرمی پھیلادی ہے، اور یہ چیز ہمیں اس سے  نصیحت حاصل کرنے پر ابھارتی ہے اور عبرت لینے پر آمادہ کرتی ہے اور یہ گرمی  ہمیں جہنم کی گرمی کی یاد دلاتی ہے۔ جیسا  کہ  صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی اور کہاکہ اے میرے رب میرا  بعض حصہ بعض کو  نگل  رہا ہے۔ چنانچہ  اللہ تعالی نے اس کو سال میں دو سانس لینے کی اجازت عطا فرمائی ایک سانس سردی کے موسم میں اور ایک سانس گرمی کے موسم میں، لھذا جو سخت ترین گرمی کا احساس کرتے ہو وہ اسی جہنم کی گرمی سے ہے اور جو سخت ترین ٹھنڈک کا احساس کرتے ہوتے وہ بھی جہنم کی ٹھنڈک سے ہے۔

حضرت حسن رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ کا کہنا ہے کہ ہر وہ ٹھنڈ جو کسی چیز کو ہلاک وبرباد کرنے والی ہو  تو وہ جہنم کی سانس سے ہے۔ نینز ہر وہ گرمی جو کسی چیز کو تباہ وبرباد کرنے والی  ہو  وہ بھی جہنم کی اسی سانس سے ہے۔ اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب گرمی کی شدت زیادہ ہو  تو نماز کو ٹھنڈھا کر کے پڑہا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی سانس سے ہے۔ اور اللہ تعالی نے منافقوں کے بارے میں فرمایا: ان لوگوں نے کہا کہ گرمی میں جہاد کے لئے مت نکلو۔ اے نبی آپ کہ  دیجئے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اور بہی زیادہ سخت ہے۔ اگر تم سمجتہے ہو۔(توبہ  ۱۸)  ابن رجب رحمہ اللہ کا کہنا ہے۔ کہ ایسا شخص جو سورج کی گرمی میں زندگی گذار رہا ہو اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ قیامت کے دن اس کی گرمی کو یاد کرے کیونکہ اس دن سورج لوگوں کے سروں سے بہت قریب ہوگا اوراس کی گرمی بھی بہت  زیادہ ہوگی اور جو شخص دنیا میں سورج کی گرمی برداشت نہیں کرسکتا ہے تو اسے ان اعمال سے دور رہنا چاہیے جو جہنم میں داخل ہونے کا سبب ہیں کیونکہ کوئی بھی آدمی نہ اس کا مقابلہ کرسکتاہے اور نہ ہی صبر کر سکتاہے۔

ایک شاعر کا کہنا ہے کہ اپنے نفس کی پیروی میں جہنم کے شعلہ کو بھول گئے۔اور تو دوپہر میں سورج کی سخت  گرمی سے بچتاہے  اوراپنی حفاظت کرتاہے گویا کہ تم نے اپنے کسی قریبی دوست کو دفن  ہی نہیں کیا ہے اورنا ہی کسی کی موت میں موجود رہاہے۔

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک جنازہ میں کچھ  لوگوں کو دیکھا کہ وہ دھوپ سے بھاگ کر سایہ میں چلے گئے اور دھول سے بچ رہے ہیں تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گیے  اور آپ  کی زبان پر یہ  اشعار جاری ہوگئے:

جب کسی کے چہرہ پر سورج کی دھوپ یا گردو غبار پڑتاہے اور وہ غبار آلود ہونے یا گندا ہونے سے ڈرتا ہے اور بھاگ کے کسی سایہ کی پناہ میں آجاتاہ ہے تا کہ اس کی تروتازگی باقی رہے تو وہ ایک دن ناپسندیدگی کے باوجود  قبر میں سوئے گا۔ اے نفس ہلاکت وتباہی  سے  پہلے  مکمل تیاری کرلے کیونکہ تجھے بیکار میں نہیں پیدا کیا گیا ہے۔

اور یہ چیز ہم مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ شرعی اسباب کو اختیار کرکے جہنم میں جانے سے بچیں۔ اور شرعی اسباب جیساکہ علماء نے بیان کیا ہے کل دس ہیں انہیں میں علامہ ابن ابی العز الحنفی بھی شامل ہیں جنہوں نے عقیدہ طحاویۃ کی شرح کی ہے۔ اور یہ دس اسباب جو قرآن وحدیث سے  بسیار تلاش و جستجو کے  بعدنکالے گئے ہیں وہ یہ ہیں ایمان توبہ مغفرت طلب کرنا نیک کام دنیوی مشکلات عذاب قبر زندگی اور موت کے بعد مسلمانوں کی دعائیں اور ان کی مغفرتیں، اور موت کے بعد صدقہ یا حج یا دعاء اور اس جیسی چیزوں کا ثواب جو مردہ کو ہدیہ کیا جاتا ہے۔ اور قیامت کے دن کی ہولنا کیاں اور اس کی شدتیں، سفارش کرنے والوں کی شفارشیں اور اللہ تعالی کی معافی اور رحمت۔

اے مسلمانوں  زندگی کی گونا گوں مصروفیات اور امتحانات کے ختم ہونے  اور ذمہ داریوں ومشغولیات کی تھکاوٹ کے بعد موسم گرما اپنے دامن میں گرمی کی چھٹی اور نفسانی سکون لیکر آگیا ہے۔ جس میں کہ ایک تھکا ماندہ وپریشان انسان آرام فرماتا ہے۔ اور جس کی وسعت وکشادگی میں محنت کرنے والا خوشی اور سکون سے سیراب ہوتاہے۔پس خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس نے اس کونیکی اور طاعت کے کام سے آباد کیا اور خوش بختی ہے اس کے لئے جس نے نیک کام سے اس کو مزین کیا۔ ایک شاعر کے الفاظ میں انکھوں سے آنسو امنڈتے چلے آرہے ہیں اور میں کیوں نہ رووں اس بھلائی اور خیر پر جو مجھ سے فوت ہوگیا۔ اوران بہترین اوقات پر جن کو میں نے ضائع کردیا اور جن کو میں نے غفلت اور لھو ولعب میں گذاردیا۔

اما م ابن الجوزی کا کہنا ہے کہ ہر انسان کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے شرف اور اپنی وقت کے قدر کو پہچانے۔ لھذا وہ اپنا ایک سکنڈ بھی قربت کے علاوہ میں ضائع نہ کرے۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل وگواہی  ہمارے نبی محمد ﷺ کی کامل ترین ہدایت وسیرت ہے کیونکہ آپ کے اوقات ہمارے لئے بہترین مثال ہیں جن کی اقتداء واتباع ہم پر لازم ہے اور آپ کی سیر وتفریح سب سے اچھی دلیل ہے جس کی اتباع ضروری ہے۔ جن کے اندر وسطیت اور اعتدال پسندی ہے بلندی اور کمال ہے آپ کے اوپر میرے  ماں باپ قربان ہوں بلا شبہ آپ بطور حزم ولطف لوگوں میں سب سے زیادہ ظاہر ونمایاں تھے۔ اور بطور شفقت ومحبت لوگوں میں سب سے زیادہ وفادار تھے۔

اے مسلمانوں  اس جھلسا دینے والی گرمی کے موسم اور خوشبودار تعطیل کی آمد پر موسمی معاملات میں سے ایک بہت ہی اہم مسئلہ وجوہری معاملہ سیروسیاحت، تفریح اورلوگوں کی بکثرت نقل و حرکت ہے۔ کیونکہ اس موسم میں عموما لوگ ابلتے ہوئے چشموں والے تروتازہ سایوں کی طرف پناہ لیتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد روٹین سے ہٹ  کر تھکاوٹ واکتاہٹ کو دور کرنا اور اطمینان وسکون حاصل کرنا اور نصیحت وعبرت حاصل لیناہوتاہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:اے نبی آپ کہ دیجئے کہ زمین میں چل پھل کر دیکھو اور غور کرو کہ کیسے اللہ تعالی نے ابتداء پیدائش کی (عنکبوت ۰۲) اور اس سے مراد گھاٹیوں اور وادیوں کے درمیان نصیحت حاصل کرنا، اور عبرت لینا ہے۔ دل کو راحت دینا و آرام پہونچانا ہے۔ مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ چیز تمام شریعتوں میں حلال ہے بشرطیکہ وہ عادت نہ  بن جائے، شیخ الاسلام ابن تیمیۃ ؒ  کا کہناہے کہ جس نے حق پر جائز خوبصورت چیز سے مددلی تویہ نیک اعمال میں سے ہے۔

        ایک عربی شاعر کا کہنا ہے۔گرمی کے ساتھ ہی  زمین کے لئے اس کی روشنی لوٹ آئی تو وہ اس حسین وجمیل نیک سیرت لڑکی کی طرح ہے جس کی خوبصورتی مکمل ہوگئی ہے۔ ہر طرف تروتازہ بہترین ہریالی  وسبزی کے مناظر ہیں جس کسی کی  بھی اس پر نگاہ پڑتی ہے تو وہ اس کا عاشق ہوجاتاہے یہ تمھاری منزل ہے لھذا اس کے اندر سیر وتفریح کرو اور صبح کے وقت مختلف پھولوں اور پانی کا نظارہ کرو۔

      لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں بہت سارے مسلمان سیر و سیاحت کے فقہی احکام سے نا واقف ہیں اور سیر وتفریح کے اسلامی احکام وآداب سے جاہل ہیں۔ بنا بریں بہت سارے لوگ غلط اور خراب مقاصد کے لئے سفر کرتے ہیں، کیونکہ وہ  مبرا سیر وسیاحت اور گرمی میں  سفر کا الٹا مفہوم مراد لیتے ہیں اسی وجہ سے وہ اسلامی اخلاق وعادات اور معاشرہ کی روایات واقدار سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں اسی پر بس نہیں بلکہ  وہ  برائیوں فحاشیوں اور رسوائیوں کی طرف تیزی سے بھاگتے ہیں مال ودولت کی بربادی اس کے علاوہ ہے اور ان برائیوں کا سننا ہی تمھارے لئے کافی ہے

 ایک شاعر کہتا ہے۔

بلندیوں کی راہ میں سنجید گی سے سفر کر اور نصیحت کرنے والے کی بات سن۔اور اخلاق واعمال میں ہر بری عادت اورعمل سے دور رہ۔

نبابریں والدین نامہ نگاروں۔ ذرائع ابلاغ اور مربیوں پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کو پاک بے عیب بابرکت  خوبصورت اسلامی سفر کے احکام وآداب سے واقف کرائیں۔ جس کا تقاضہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں حق، خیر اور جمال کو بٹھا  دیا جائے۔ جس سے وہ اسلام کو اپنی زندگی کا ہر میدان میں منہج بنانے پر فخر کریں۔ خواہ وہ عقیدہ ہویا شریعت یا اخلاق واقدار یا کچھ اور، اور ان کی رہنمائی کریں کہ وہ تعطیل گرما اور سیر وسیاحت کو شرعی اصول وضوابط اور اسلامی احکام کے مطابق گذارنے کو غنیمت سمجھیں،اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے عملی اور مثبت پروگرام تیار کئے جائیں جو زمانہ کے موافق ہوں، جن میں اصالت ہو اور جو احکام الھی کے مطابق ہوں،اور ایسے پروگرام، اسکیمیں اور سر گرمیاں نافذ کی جائیں جو کہ نفس کو مھذب بنانے کے ساتھ ہی  ذہن و احساس کو تیز وحساس بناتی ہوں دماغ وعقل کو روشن کرتی ہوں۔ اور بچوں کی بلندیوں اور شرافت کے دائرہ  میں تربیت کرتی ہوں،ایک شاعر کہتاہے عظیم الشان کام کرنے کی کوشش کرو اور یہ نہ کہو کہ بلندیاں اور اچہے کام نصیب سے ملتا ہے۔ اور کوتاہی وسستی سے دور رہ کر اپنی ذات کو اس مقصد کے طلب میں لگادور جس میں مسابقہ اور طلب ہوتاہے۔

      ہم اللہ تعالی سے سچی بات اور اچھے عمل اور امیدوں وآرزؤں کے برآنے کی توفیق کا سوال کرتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گذر چکے ہیں سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ آسمانی تعلیم کے جٹھلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔

اے اللہ تو ہمارے لئے قرآن میں برکت دے اور اس کی آیتوں اور ذکر سے نفع پہونچا۔ میں اپنی یہ بات کہ رہا ہوں اوراللہ تعالی سے اپنے لئے اور آپ حضرات کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر گناہ سے مغفرت طلب کرتاہوں۔ لھذا اب آپ لوگ بھی اسی سے مغفرت طلب کیجئے اور اسی سے توبہ کیجئے بلا شبہ وہ رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

ہم اللہ کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہیں اور اس کا بہت زیادہ شکریہ ادا کرتے ہیں او رگواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے ایسی گواہی جو عقیدہ پر مبنی ہے اور جس کا ہمیں اقرار ہے۔ اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے غلام اور اس کے رسول ہیں او ر تمام مسلمانوں کے لئے گرمی وسردی سیر وسیاحت اور تفریح میں نمونہ ہیں، آپ ﷺ پر اللہ کا درود وسلام ہو اور آپ کی آل واولاد نینز صحابہ کرام پرجو ہدایت پر  ایک دوسرے کے حلیف تھے اور تابعین پر اور جو بھی یوم قیامت تک ان کی احسان کی ساتھ اتباع کرے اللہ کی رحمت وسلامتی ہو  اما بعد:

اے اللہ کے بندوں: اللہ تعالی سے ڈرو اور خوف کھاؤ اور اپنے اوقات کو اطاعت اور فرماں برداری کے ذریعہ آباد کرو،اور اپنی زندگیوں کو نیک اعمال سے بھردو۔

اے مسلمانوں: جب گرمی کی چھٹی آتی ہے تو وہ اپنے ساتھ بے انتہا خوشی، سر ور اور فرحت لیکر آتی ہے ہر طرف اسی کے نظارے ہوتے ہیں۔ معاشرہ اسی کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ لوگ اس کے انتظامات میں مصروف ہوجاتے ہیں، تو ایسی صورت میں جبکہ ہماری  امت ہر طرف سے مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور طرح طرح کے مصائب کا شکارہے۔ ہمارے اوپر واجب ہوجاتاہے کہ ہم اپنی امت کے انبرے حالات اور مشکلات کو یاد کریں خاص طور سے فلسطین  جو اسراء اور معراج کی سر زمین ہے جو  زخموں سے چورچورہے۔ اور سیریا کو یاد کریں جو جل رہاہے اور تباہ وبرباد ہے اور جہاں  بہت زیادہ خون بہ رہاہے اور جہاں  ایسی  ظلم  و جارحیت  اور عدوان وسرکشی ہے جو ہمارے عقیدہ کے بھائیوں پر ظلم وستم کے پہاڑتوڑ رہاہے،اللہ تعالی سے دعاہے کہ ان کی تکلیفوں کو دور کردے اور ان کے اختلافات کو ختم کردے،اور ان کے بال بچوں کی حفاظت فرمائے اور غیر تمندوں کو ان کی نصرت وحمایت کے لئے فراہم وآمادہ کردے،یقینا میرا رب سننے والا رحمت والا سخاوت والا اور کریم ہے اسی طرح ہمارے وہ بھائی جو آجکل سورج کی جلادینے والی حرارت کانشانہ بنتے ہیں اور اس کی جھلسا دینے والی گرمی کے نیچے کام کرتے ہیں ان کو بھی ہماری نرمی محبت اور شفقت کا حق حاصل ہے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کے ساتھ نرم اور اچھا برتاؤ کریں۔

       اے ہمارے محبوب دوستوں: میں آپ سے ایک محبت کی بات کہ رہاہوں، اور وہ یہ کہ جنہوں نے اس گرمی میں سیر وسیاحت کا منصوبہ بنایا ہے اور جو سیاحتی جگہوں کا رخ اختیار کرنے واے ہیں،اور جن کا مقصد آرام،راحت اورسکون ہے ان سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اسلام کے بہترین نمائندہ،شریعت کے بہترین قائد اور اپنے ملکوں کے اچھے سفیر بنیں،اپنی ذاتوں اور امت کے لئے خیر وسعادت کا باعث بنیں اور اآپ لوگوں کا سفر ہمیشہ عزت وطاعت اور نیکی وفرمان برداری سے پر ہو۔ اور میں آپ سب کو خبر دار کرتاہوں کہ آپ کا سفر خراب مقاصد فسق وفجو ر فحاشی اور کسی بھی طرح کی برائی کے لئے نہ ہو اور آپ لوگوں کے اندر یہ حرص ورغبت ہونی چاہئے کہ ہر وقت اللہ تعالی سے زیادہ سے زیادہ قریب رہیں، اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ آپ فرائض واجبات اور سنتوں کی پابند ی کریں گے۔ اور اچہی عادات وروایات کو بجالائیں گے۔بلا شبہ اس وقت آپ کا سفر وسیاحت بہت ہی شاندار، بہترین اور اچھا ہوگا جس میں روحانیت اور راحت دونوں ہوگی اور جس میں خیر اور ہدایت کی خوشبو ہوگی۔

اسی طرح اس گرمی کی چھٹی میں جن کا ارادہ شادی کرنے اور خوشی منانے کا ہے ان کو بھی  نصیحت کرتاہوں کہ اس موقع پر مکمل طور سے شرعی اصول وضوابط، احکام وقوانین کی پابندی کریں، میا نہ روی اور اعتدال اختیار کریں، فضول خرچی دکھاوا اور ہر طرح کے گناہوں سے دور رہیں، اللہ تعالی تمھارے اندر  برکت عطافرمائے اور تمھارے درمیان اچہی طرح سے میل ملاپ کرادے۔

اب اگلوں اور پچھلوں کے سردار محمد ﷺ پر درود وسلام بھیجو کیونکہ اللہ تعالی نے اس کا حکم قرآ ن مجید میں دیا ہے، فرمایا کہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی پر  رحمت بھجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود بہیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہو۔ایک عربی شاعر کہتا ہے

       اللہ اور اس کے تما م فرشتے مخلوق کو ہدایت کی طرف دعوت دینے والے پر رحمت بھیجتے ہیں،اور نیک آل واولاد پر جو قابل تعریف ہیں اور جن کی تعریف میری روشنائی نے دل کے نور سے تحریر کیا ہے

 

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: