ماہ رمضان اور حصول محبت الہی کے اسباب و ذرائع


بسم الله الرحمن الرحيم

مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ

       بتاریخ:16-9-1436ھ/ 3-7-2015ع

 

    خطبہ وتحریر: ڈاکٹر اسامہ بن عبداللہ خیاط

                     امام وخطیب مسجد حرام

 

         ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

               متعاون مدرس ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ

            

                ماہ رمضان

                         اور

                    حصول محبت  الہی کے اسباب و ذرائع



پہلا خطبہ  :

ہر قسم کی تعریف وثناء اللہ ہی کے لئے ہے جس نے مسلمانوں پر روزہ فرض کرکے احسان کیا , میں اس ذات پاک کی  اس کی عظیم نعمتوں پر اور اس کی بڑی نوازشوں پر ثناء بیان کرتا ہوں , اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بجز اللہ کے کوئی معبود برحق نہیں ہے , وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک ,ہمسر, نظیر  اور مثیل نہیں  ہے  , وہ بادشاہ ہے , نہایت مقدس اور سراسر سلامتی والا ہے,اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سرداراور نبی   محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جو نماز ادا کرنے, زکوۃ دینے , حج کرنے , روزہ رکھنے  اور قیام کرنے والوں میں سب سے افضل و بہتر ہیں , اے اللہ تو اپنے بندہ اور رسول محمد ﷺ پر  , آپ کے پاکیزہ  اور مکرم اہل خانہ پر , آپ کے رہنما پرہیز گار صحابہ پر , تابعین پر , اور ان کی احسان کے ساتھ اتباع کرنے والوں پرتا قیامت رحمت و سلامتی نازل فرما ۔

حمد و صلاۃ کے بعد :

اے بند گان الہی  : اللہ سے ڈریئے, اس سے خوف کھائیے , اور خالص اسی کے لئے عمل کیجیئے , کیونکہ خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے عمل کو اللہ کے لئے خالص کیا  ,  اس کی قربت تلاش کی , اس کا تقوی اختیار کیا ,  اس کی طرف رجوع  کیا اور اللہ پاک کی پسندو  رضا مندی کے مطابق عمل کیا ۔

اللہ کے بندو : بلاشبہ روزہ دار کی وہ  دو خوشیاں جن کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے  جس کو امام بخاری و مسلم  میں سے ہر ایک نے اپنی کتاب صحیح میں اور امام نسائی نے اپنی کتاب سنن میں ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے , وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :  اللہ تعالی فرماتا ہے  کہ روزہ کو چھوڑ کے   ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے  البتہ روزہ  وہ صرف   میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا , راوی نے  اس حدیث کو مکمل ذکر کیا ہے , اورپھر  اس میں بیان کیا ہے : کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سےوہ خوش ہوتا ہے , ایک جب کہ وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسرا جب وہ اپنے رب سے ملاقات کریگا   ۔

 اور بیشک یہ دونوں خوشیاں فريضہ روزہ اور اس کے نفسیاتی اثرات کے  درمیان موجود  مضبوط ارتباط اور تعلق کی  بہت ہی بلیغ تصویر کشی کرتی ہیں,وہ نفسیاتی اثرات جو سعادت کے ان احساسات میں پائے جاتے ہیں  جو ایمان و اجر کی امید سے روزہ رکھنے والوں کے نفسوں اور عقلوں پر چھائےہوتےہیں, اور جو اس خوشی میں ہے جس سے ان کے دل معمور ہوتے ہیں,ان کے اعضاء پر  ہوتے ہیں ,اور جس سے ان کی روحیں اپنے عظیم خالق پروردگار کی طرف محبت,شوق,عبودیت,بندگی,غلامی,تابعداری,عاجزی,اور تقرب  میں بلند ہوتی اور پرواز کرتی ہیں,جس کا مقصد محض اللہ کے روزہ کی بابت بہترین وعدہ کا حصول  نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ اللہ کا اپنے بندوں کے اوپر بکثرت احسان , بہت زیادہ نوازشیں , عام نعمتیں اور اس کی  لگا تار و مسلسل  نعمتوں کا جاری رہنا  بھی ہے , کیونکہ اسی اللہ نے یہ عظیم بابرکت مہینہ عطا کرکے ان کے اوپر  احسان کیا ہے تاکہ اس کے شب و روز اس کی محبت کے اسباب سے پُر ہوں , اس کی محبت  کے راستوں سے آباد ہوں , اسی وجہ سے یہ مہینہ ان تمام اسباب  و عوامل سے بھرا ہوا ہے جو اللہ کی محبت کا باعث ہیں اور اس کا موجب ہیں , اور یہ مہینہ ان کی اکثریت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے, اور ان کے خلاصہ اور لب لباب کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے, اور وہ  اسباب کل دس ہیں جیسا کہ امام ابن قیم نے تحریر کیا ہے  ۔

پہلا سبب :  تدبر اور  غورو فکر کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنا  اور اس کے معانی و مفہوم کو سمجھنا ہے ,  اس کتاب کے تدبر کی طرح جس کو ایک انسان حفظ کرتا ہے,پھر اس کی شرح کرتا  ہے تاکہ  اس سے کتاب والے کی مراد سمجھ سکے ۔

دوسرا سبب: فرائض کے بعد نوافل کے ذریعہ اللہ کی قربت اور نزدیکی تلاش کرنا ہے کیونکہ یہ چیز محبت کے بعد اس کو محبوبیت کےدرجہ تک پہونچاتی ہے ۔

تیسرا سبب  : ہر حالت میں زبان , دل , عمل اور حال کےذریعہ اللہ کے ذکر  پر مداومت او رپابندی کرنی ہے , کیونکہ ذکر میں حصہ کے بقدر ہی اس کا محبت میں حصہ ہوگا ۔

چوتھا سبب :  خواہشات کے غلبہ کے وقت اللہ تعالی کی محبتوں  کو اپنی محبتوں پر ترجیح دینا ہے , اور اس کی محبت کی بلندیوں پر پہونچنا ہے خواہ  وہاں تک پہونچنا   کتنا ہی مشکل ہو ۔

پانچواں سبب: دل کا اللہ کے اسماء  اور اس کی صفات کا مطالعہ کرنا ہے , اور پھر ان کا مشاہدہ کرنا اور ان کی معرفت حاصل کرنا ہے , بعد ازاں دل کا معرفت اور اس کے  تجلیات کےباغیچوں میں سیرکرنا ہے , کیونکہ جس نے بھی اللہ کو اس کے اسماء , صفات اور افعال کے ذریعہ پہچان لیا تو وہ اس سے لا محالہ محبت کریگا ۔

چھٹا سبب: اللہ تعالی کے فضل و احسانات , نوازشات اور اس کی ظاہری و باطنی نعمتوں کا ملاحظہ کرنا ہے , کیونکہ یہ اس کی محبت کی طرف دعوت دیتی ہیں , اور ان چیزوں  کے مشاہدہ  و ملاحظہ کے بقدر ہی محبت بھی اتنی ہی قوی اور مضبوط ہوگی, کیونکہ دل فطری طور پر اپنے احسان کرنے والے سے محبت کرتا ہے ,اوربرائی کرنے والے سے بغض وعناد رکھتا ہے , اور جان لیجئے کہ بندہ کو حاصل ہونے والا ہر احسان صرف اور صرف اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور برائی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ۔

ساتواں سبب : اللہ کے سامنے کلی طور پر دل کی انکساری  اور عاجزی ہے , اور اس معنی کی تعبیر اسماء اور عبارتوں کے علاوہ کسی اور دوسری چیز سے ممکن نہیں ہے ۔

آٹھواں سبب: رات کے تہائی آخری  حصہ میں اللہ تعالی کے نزول کے وقت اس پاک ذات کے ساتھ خلوت نشینی ہے ,تاکہ اس سے سرگوشی کی جائے ,قرآن کی تلاوت کی جائے , اور اس کے سامنے آداب بندگی بجا لاتے ہوئے اور حضور دل کے ساتھ کھڑا ہوا جائے ,پھر استغفار اور توبہ سے اس کا خاتمہ کیا جائے  ۔

نواں سبب: صادقین , پاکباز اور محبت کرنے والوں کی ہم نشینی اور صحبت اختیار کرنا ہے, اور ان کی  باتوں کے  بہترین  ثمرات اور نتائج کو اختیار کرنا ہے جیسا کہ اچھا پھل اختیار کیا جاتا ہے , اور گفتگو کرنے سے پرہیز کیا جائے مگر جبکہ گفتگو کی مصلحت اور فائدہ راجح ہو , اور یہ معلوم ہو کہ اس میں مزید کچھ تمھاری حالت کا بیان ہے  اور دوسرے کے لئے  اس  میں فائدہ ہے۔  

دسواں اور آخری سبب یہ ہے کہ ہر اس ذریعہ اور سبب سے دوری اور  کنارہ کشی اختیار کی جائے جودل اور اللہ کے درمیان رکاوٹ ڈالنے والا ہے   - ابن قیم کی بات ختم ہوئی ۔

اے اللہ کے بندو ! : یہی وہ دوری اور کنارہ کشی ہے جو انسان کو اپنے رب سے محبت کرنے والا بنا تی ہے , جیسا کہ بعض سلف نے کہا ہے کہ اس کو ایسا بندہ بنا تی ہے جو اپنی  خواہشات نفس سے دور رہتا ہے , اپنے رب کے ذکر سے مربوط اور جڑا ہوا ہوتا ہے , اس کے حقوق کو ادا کرنے والا ہوتا ہے , اپنے دل سے اس کی طرف توجہ کرنے والا ہوتا ہے , اس کا دل اللہ کی ہیبت و رعب کے انوار سے روشن ہوتا ہے , اور اس کی محبت کے صاف و شفاف جام سے سیراب ہوتا ہے , اور جبار  اپنے غیب کے پردوں سے  اس کے لئے تجلی فرماتا ہے, لھذا اگر وہ بات کرتا ہے تو اللہ کی بات کرتا ہے , اور اگر بولتا ہے تو اللہ کے بارے میں بولتا ہے , اور اس کے سکنات و حرکات اللہ کے حکم سے ہوتے ہیں , چنانچہ وہ اللہ سے , اللہ کے لئے اور اللہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔

اے بندگان الہی : جان لیجیئے کہ بلاشبہ یہ اسباب و ذرائع جو اللہ کی محبت کا باعث ہیں وہ یقینا اس ماہ رمضان میں ہر بصیرت والے کے لئے ہر لمحہ اور ہر دل کی دھڑکن یا ہر سانس کے ساتھ ظاہر اور بالکل واضح  ہیں , اور جو سارے جہانوں کے پروردگار سے محبت کرنے والوں کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ اس سے بکثرت اپنا حصہ لیں , اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں , اور یہ جان لیں کہ یہی اپنے رب کی طرف سفر کرنے والوں کی علامت اور نشانی ہے جو اس کی طرف رخت سفر باندھ چکے ہیں , اورپھر اس سے ملاقات کے وقت تک اپنے سفر کو جاری رکھتے ہیں ۔

 لھذا اے اللہ کے بندو ! : اللہ سے ڈرو , اور اس قافلہ میں شامل ہوجاؤ جو اپنے رب کی طرف اس کی محبت اور شوق کے بازو پر پرواز کر رہا ہے , اور اس مہینہ میں بھلائیوں کے اندر سبقت کرنے اور آگے بڑھنے کو اس سلسلے میں اپنا سب سے بہتر سامان اور سب سے بڑا معاون اور مدد گار بنالو , کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : سبقت کرنے  والوں کو اس میں سبقت کرنی چاہیئے۔ ( مطففین / ۲۶)

اللہ ہمیں او ر آپ لوگوں کو اپنی کتاب کی ہدایت اور اپنے نبی کی سنت سے فائدہ پہونچائے، میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور میں اپنے لئے,آپ لوگوں کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر گناہ سے اللہ عظمت وجلال والے سے مغفرت طلب کرتا ہوں، بلاشبہ وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

یقینا ہر طرح کی تعریف اللہ تعالی ہی کے لئے ہے, ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں, اسی سے مدد چاہتے ہیں, اسی سے مغفرت طلب کرتے ہيں ,اور ہم اللہ سے اپنی نفسوں کی برائیوں اور اپنی بداعمالیوں سے پناہ مانگتے ہيں، جس کو اللہ ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے, اور جس کو گمراہ کرد ے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے, وہ اکیلا ہے, اس کا کوئی شریک نہیں ہے ,او رمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں, اے  اللہ تو اپنے بندہ اور رسول محمد اور آپ کے اہل و عیال پر اور آپ کے صحابیوں پر رحمت و سلامتی نازل فرما۔

حمد وصلاۃ کے بعد : 

اے بندگان الہی : یاد رکھیئے کہ اللہ کی محبت کا سب سے بڑا سبب اور ذریعہ سنت کی اتباع اور پیروی , اس پر عمل کرنا , رسول اللہ ﷺ کی کامل تابعداری , آپ کی مکمل اقتداء , اور اقوال , اعمال اور اخلاق میں آپﷺ کی سیرت و کردار کی پیروی کرنا ہے , اور اسی اتباع و پیروی کے بقدر ہی محبت بھی کم اور زیادہ ہوتی ہے , کیونکہ یہ محبت اتباع کے ارد گرد گردش کرتی ہے ,جو اس کی قوت اور طاقت سے مضبوط اور زیادہ ہوتی ہے اور اس کی کمزوری و کمی سے کمزور و کم ہوتی ہے , اور یقینا تو  اللہ کی محبت میں کامیاب نہیں ہوگا  جب  تک کہ تو اس کے حبیب محمد ﷺ کی تابعداری  نہ کرے , جیسا کہ فرمان الہی ہے : اے نبی لوگوں سے کہہ دیجیئے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو , تو اللہ تم سے محبت کریگا , اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا , اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ( آل عمران / ۳۱) ۔

 اور یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ شان یہ نہیں ہے کہ تم اللہ سے محبت کرو بلکہ شان تو یہ ہے کہ اللہ تم سے محبت کرے , اور اللہ تم سے اس وقت محبت کرے گا جب تم اس کے حبیب محمد ﷺ کی ظاہری اور باطنی طور پر اتباع کروگے , اس کے خبر کی تصدیق کروگے ,  اس کے حکم کو بجا لاؤگے , اس کے ممنوعات سے بچو گے , اس کی شریعت کے مطابق فیصلہ کروگے , اور نبی کریم ﷺ کے فیصلہ میں اپنی نفس کے اندر کوئی تنگی اور پریشانی محسوس نہیں کروگے , بلکہ اپنے آپ کو اس کے حوالہ کردوگے, اور آپ ﷺ کے فیصلہ پر ہنسی خوشی مکمل شادمانی اور سرور کے ساتھ اپنا سر تسلیم خم کردوگے اس کامل یقین کے ساتھ کہ وہی حق , ہدایت اور درست ہے ۔

اے اللہ کے بندو ! : اور یقینا اس مہینہ کا روزہ اور قیام پیارے نبی محمد مصطفی ﷺ کی اتباع اور تابعداری پر ابھارنے کا سب سے افضل و بہتر سبب اور ذریعہ ہے , وہ اس طرح سے کہ روزہ , قیام اور ماہ رمضان  میں نبی کی مخصوص عبادتوں بلکہ تمام عبادتوں میں آپ کے  کردار او  رسیرت کی پابندی کی جائے , اور اللہ کے دین میں اس شریعت و طریقہ  کی ایجاد سے دور رہا جائے جس کی اجازت اللہ نے نہیں دی ہے اور نا ہی رسول اللہ ﷺ نے اس کو مسنون کیا ہے ۔

چنانچہ اے بندگان الہی اللہ سے خوف کھائیے , اور اس مہینہ کے موقعہ اور مہلت کو بھلائیوں میں سبقت کرنے اور باقی رہنے والی نیکیوں میں آگے بڑھنے کے لئے غنیمت جانئے , وہ نیکیاں جو زمین اور آسمانوں کے پالنہار کی محبت کا سبب ہیں۔

اور یہ ہمیشہ یاد رکھئے کہ اللہ تعالى نے  آپ کو آخری نبی , رسولوں کے امام اور پوری دنیا کے لئے اللہ کی رحمت محمد مصطفى  پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے ,جیسا کہ  اس کا قرآن مجید میں فرمان ہےکہ یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے ایمان والوں تم بھی اس پر درود وسلام بھیجو۔

اے اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر رحمت وسلامتی نازل فرما, اے اللہ تو آپ کے چاروں خلفاء ابوبکر ؓ، عمر ؓ، عثمان ؓ اور علی سے,آپ کی بیویوں  سےجو تمام مومنوں کی مائیں ہیں, ؓ اور آپ کے روشن و با برکت صحابہ کرام سے  اور تابعین سے اور جو بھی قیامت کے دن تک ان کی احسان کے ساتھ اتباع کرنے والے ہیں ان سب سے راضی ہو جا, اور اے سب سے زیادہ کرم و بخشش والے تو ہم سے بھى ان کے ساتھ اپنے عفو , احسان و کرم سے راضی ہو جا۔ اے اللہ!اسلام اور اہل اسلام کو غلبہ وسرفرازی عطا فرما،اے اللہ!اسلام اور اہل اسلام کو غلبہ وسرفرازی عطا فرما،اے اللہ!اسلام اور اہل اسلام کو غلبہ وسرفرازی عطا فرما،اور دین کے حدود کی حمایت فرما ,اے اللہ!اپنے دین،اپنی کتاب،اپنے نبی کی سنت اور اپنے مومن و مجاہد بندوں کی مدد فرما۔

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: