قربانی کا فلسفہ اور حکمت


                                    بسم اللہ الرحمن الرحیم
                             قربانی  کا  فلسفہ اور حکمت


  The Philosophy of Sacrifice
 لقظ قربانی قربان سے ماخوذ ہے ۔اور قربان  یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔اور یہ قرب سے مصدر ہے۔جس کا لفظی  معنی ہے قریب ہونا۔نزدیک ہونا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ولا تقربوا الزنی (اسراء /32) یعنی زنا کے قریب بھی مت جانا۔ اور ایک دوسری آیت میں ہے ۔ ولا تقربا ہذہ الشجرۃ( بقرہ/35) یعنی اس درخت کو ہاتھ بھی مت لگانا۔در اصل کسی چیز سے شدت سے روکنے کے لیےاور  سختی سے منع کرنے کے لیے لا تقربہ بولا جاتا ہے۔ جس کا معنى ہے کہ اس کے قریب بھی مت ہونا۔اس کی جمع قرابین ہے۔
اس کی اصطلاحی تعریف ہے: کل ما یتقرب بہ إلى اللہ تعالى من ذبیحۃ و غیرہا ۔ہر وہ چیز جس کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے۔ اسکی قربت  تلاش کی جائے۔ خواہ ہو ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز۔
یہ لفظ قرآن میں وارد ہوا ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:واتل علیہم نبأ ابنى آدم بالحق إذ قربا قربانا (مائدہ/27)
اور فلسفہ قربانی سے مراد وہ الہی حکمتیں ہیں جو اس میں پائی جاتی ہیں۔
قربانی کا تہوار عربی میں عید الاضحی کے نام سے جانا جاتا ہے۔أضحى در أصل یہ جمع ہے ۔ اس کا مفرد أضحاۃ ہے۔عید الاضحى کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانور کو أضحاۃ کہا جاتا ہے۔اور أضحیہ اس جانور کو کہتے ہیں جو قربانی کے دنوں میں اللہ سے قربت حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیے جاتے ہیں۔ اور اس کی جمع أضحیات و أضاحی ہے۔
اب میں قربانی کے فلسفہ کو بیان کرتا ہوں۔
برادران اسلام : قربانی صرف کسی جانور کو ذبح کرنے کا نام نہیں ہے۔ قربانی کسی جانور کو مار کے اس کا خون بہانے کا نام نہیں ہے۔قربانی کسی جانور کو کاٹ کے اس کے گوشت سے لطف اندوز ہونے کا نام نہیں ہے۔ قربانی عید کے دن لذیذ پکوانوں سے شکم سیر ہونے کا نام نہیں ہے۔قربانی لذت کام و دہن کا نام نہیں ہے۔قربانی گوشت کے مختلف عمدہ  ڈش تیار کرواکے اس سے  چٹخارہ  لینے کا نام نہیں ہے۔ قربانی کے دن صرف ایک جانور ذبح کردینا  ایک ظاہری عمل ہے جو بلاشبہ ایک مستطیع مسلمان سے مطلوب ہے۔اور یہ دس ذو الجہ کا سب سے افضل عمل ہے۔ لیکن قربانی ایک عظیم دینی عبادت ہے۔اور جس طرح ہر عبادت کا ایک فلسفہ ہے اسی طرح قربانی کا بھی ایک فلسفہ و حکمت ہے۔اس  کا معنى و مفہوم صرف جانور ذبح کردینے  سے کہیں زیادہ وسیع اور  بلند تر ہے۔ قربانی میں در أصل بہت سارے اہم  دروس و اسباق پوشیدہ ہیں۔اس میں بہت سارےقیمتی  اسرار و رموز  مخفی ہیں ۔ اس کے بہت سارے عظیم أغراض و مقاصد  ہیں۔ جن میں سے چند کا تذکرہ میں یہاں پر کر رہا ہوں۔ 
حصول تقوى:قربانی کی سب سے بڑی حکمت اللہ تعالی کا ہم مسلمانوں کو تقوى کی تعلیم دینا ہے۔ہمارے اندر تقوی و إخلاص  کی صفت پیدا کرنی ہے۔اور ہم سب کو متقی و مخلص بنانا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے: لن ینال اللہ لحومہا و لا دماؤہا و لکن ینالہ التقوى منکم (حج/ 37)۔اور تقوى و إخلاص دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ اور بلاشبہ جو متقی ہوگا وہ مخلص بھی ہوگا۔ اور جس کے اندر اخلاص ہوگا وہ ضرور با ضرور متقی ہوگا۔اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر پائے جائیں۔اور تقوى کی ہماری شریعت میں جو اہمیت و فضیلت, مقام و مرتبہ ہےاس  کو جاننے کے لیے اسی سائٹ پر  آپ میرے مضمون" تقوى کی تعریف اور أہمیت و فضیلت " کا مطالعہ فرمائین۔یہ قربانی کا سب سے بڑا فلسفہ ہے کیونکہ اللہ تعالى نے خود اس کا ذکر کیا ہے۔
اب اگر کسی شخص کے اندر قربانی سے یہ مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو سمجھئے اس کی قربانی صحیح ہے ورنہ اس کی قربانی رائیگاں و ضائع و برباد ہے اس معنی میں کہ قربانی کا جو  أصلی و حقیقی مقصد تھا وہ حاصل نہیں ہوا۔
اتباع ابراہیم:در اصل قربانی کا تعلق اور یادگار  جس نادر,بے مثال, عظیم اور ہمہ جہت  شخصیت سے وابستہ ہے  وہ سیدنا ابراہیم کی شخصیت ہے۔ لہذاقربانی کا ایک عظیم درس آپ کے نقش قدم  کی حقیقی اتباع ہے صرف زبانی یا ظاہری یاد گار منا لینا نہیں ہے۔۔اور آپ کی زندگی کا جو لب لباب ہے وہ اللہ کے ہر حکم کو بلاچوں و چراں تسلیم کرلینا ہے اور اس کے نفع و نقصان کا اندازہ لگائے  بغیر اس  پر فورا عمل کرنے کے لیے تیار ہوجانا ہے۔خوا وہ أپنے لخت جگر کو قربان کرنے کا حکم ہی کیوں نہ ہو۔در حقیقت  ابراہیم کی پوری زندگی ہی اللہ کی اطاعت و فرماں برداری سے عبارت ہے۔ اور اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے ہر چیز کو قربان کردینے کا نام ہے۔اور فی الواقع آپ کی پوری  زندگی قربانی, زہد, تقوی,اخلاص, دعوت الى اللہ, ہجرت, ضیافت , توکل على اللہ, بردباری, عبادت, دعا ,تضرع, خشوع , خضوع ,صبرو ایثار   اور عزم و ہمت کا بہترین نمونہ ہے۔
اور قربانی کا مقصد انہیں  تمام  ابراہیمی صفات کو ایک مسلمان کے اندر پیدا کرنا ہے۔لیکن آج کے زمانہ میں افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ابراہیم کو زبانی  یا ظاہر ی طور پر یاد کر لیتے ہیں۔خطبوں اور گھروں میں ان کا تذکرہ کر لیتے ہیں۔ لیکن  حقیقی طور پر ان صفات کو ہم اپنی زندگی میں اپنانے کے لیے باکل تیار نہیں ہیں اور نہ ہم اس کی کوشس کرتے ہیں۔جس کا مشاہدہ آج کے دور میں ہر کوئی کر رہا ہے۔
جذبہ قربانی:قربانی کا ایک بڑا فلسفہ ہم مسلمانوں کے اندر  قربانی کا جذبہ صادق بیدار کرنا ہے۔ہم مسلمانوں کے اندر اس کی عادت ڈالنی ہے۔اور اس کا عادی بنانا ہےکہ اگر مستقبل میں کبھی بھی اللہ اور  اس کے دین و ایمان کی خاطر مال و دولت. گھر بار وطن و ملک  کو چھوڑنے کی نوبت آتی ہے تو میں أپنا تن من دھن سب کچھ اللہ کی راہ میں  قربان دوں گا۔ اور أپنے دین و ایمان کی حفاظت کروں گا۔جیسا کہ ہمارے پیارے نبی , صحابہ کرام اور ہمارے بہت سارے اسلاف نے کیا ہے۔آج ہم میں کتنے مسلمان ہیں جو اس کے بالکل برعکس ہیں۔
إطاعت الہی اور ترک خواہشات :قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ قربانی یہ عظیم درس ہم کو دیتا ہےکہ ہم اپنی خواہشات کو اللہ کی خواہشات پر قربان کردیں  گے۔ اور ہم ہمیشہ اس عمل کے لیے تیارر ہیں گے۔خواہ اس میں ہمارے لیے کتنا ہی زیادہ نقصان کیوں نہ ہو۔ قربانی کا سب سے بڑا فلسفہ یہی ہے کہ وہ ہمیں أپنے آپ کو اللہ کے حکم کے سامنے سرنڈر اور حوالہ کرنا سکھاتا ہے۔اللہ کے حکم کو فورا بنا کسی چوں چرا کے اور بنا اس کی حکمت کو جانے ہوئے اس کی تعمیل کرنا سکھاتا ہے۔ مثال کے طور  رسم و رواج کو چھوڑ دیں گے گرچہ اس کے چھوڑنے میں ہمارا معاشی نقصان ہی کیوں نہ ہو یا لوگ ہم کو لعنت و ملامت کریں۔ اسی طرح حرام کمانا ترک کر دیں گےاگرجہ ہم کو مفلسی کی زندگی گذارنی پڑے۔
مفادات امت کو ترجیح دینا:قربانی کا ایک بڑا سبق یہ ہے کہ ہم اسلام اور امت کے مفادات و مصلحتوں کو أپنی شخصی و ذاتی مصلحتوں پر ہمیشہ ترجیح دیں گے اور اس میں کسی بھی طرح کی کوئی بھی رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ بطور مثال اگر امت کی مصلحت کا تقاضہ ہے کہ میں اپنے منصب کو چھوڑ دوں یا أگر میں کسی امت کے ادارے یا مرکز کا صدر ہوں اور میرا بیٹا نا اہل ہے تو میں امت کی مصلحت کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے بیٹے کو قطعا أپنا جانشین نہیں بناؤں گا بلکہ کسی قابل شخص کو ذمہ داری دوں گا گرچہ اس سے میرا کوئی رشتہ نہیں ہے۔جیسا کہ خلفاء راشدین اور کچہ ہمارے دیگر اسلاف نے کیا ہے۔
خدمت خلق: قربانی ہم مسلمانوں کو یہ سکھلاتا ہے کہ ہم أپنے مسلمان بھائیوں کی أپنی طاقت بھر   خدمت  کریں اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔اللہ کا فرمان ہے : و أطعموا القانع و المعتر یعنی سائل و غیر سائل دونوں کو کھلاؤ۔ خصوصا غریبوں, مسکینوں, بیواؤں, یتیموں  کا خیال رکھیں گے اور ان کا ہر طرح کا تعاون کریں گے۔خدمت خلق کے بارے میں مزید معلومات کے لیے میری ہی سائٹ پر میرے مضمون " خدمت خلق کا عظیم أجر و ثواب" ملاحظہ فر مائیں۔
أہمیت وقت :قربانی ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ وقت کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اور ہر عبادت وقت سے مربوط ہے۔ لہذا اس عبادت کو اسی وقت میں ادا کرنا ہے۔ وقت نکلنے کے بعد وہ عبادت قابل قبول نہیں ہے۔قربانی کے صرف چار ایام ہیں۔
عبادت الہی کے مختلف طریقے: قربانی کا  ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ اسلام میں  عبادت کی  کئی شکلیں ہیں جن میں ایک شکل جانور ذبح کرکے اللہ کا تقرب حاصل کرنا ہے۔معلوم ہوا کہ عبادت کی جوشکل اللہ نے متعین کردی ہے ہمیں اسی طرح سے اس کی عبادت کرنی ہے ۔ أپنی طرف سے ہم اس میں کسی کمی یا بیشی کے مجاز نہیں ہیں۔
خالص شرعی جہاد : قربانی ہم کو خالص شرعی جہاد کرنا سکھلاتا ہے لیکن یاد رہے کہ جب جہاد شرعی ہو۔اس کے شروط پائئے جاتے ہوں۔ نام نہاد اسلامی جہاد نہ ہو۔کسی پر ظلم نہ ہو۔ القاعدہ اور داعش کا غیر اسلامی جہاد نہ ہو۔
اب میں اللہ رب العالمین سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں حقیقی طور پر قربانی سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور اس کا جو مقصد و روح ہے اس کو ہمارے اندر پیدا فرمائے اور تما م مسلمان بھائیوں کی قربانی قبول فرمائے۔ آمین







التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

1 التعليقات:

avatar

ما شاء اللہ بہت خوب, مضمون کے تقاضوں کو آپ نے مختصر لیکن بھر پور احاطہ کیا ہے ۔ جزاک اللہ ( ڈاکٹر علیم خان فلکی, بانی شوسیو رفارم سوسائیٹی, حیدر آباد, واٹسپ میسیج بتاریخ 22 جولائی 2020 ع بوقت 4:40 م )