بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالى قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:ألم
تر کیف فعل ربک بعاد, إرم ذات العماد, التی لم یخلق مثلہا فی البلاد, وثمود الذین
جابوا الصخر بالواد, و فرعون ذی الاوتاد, الذین طغوا فی البلاد, فأکثروا فیہا
الفساد, فصب علیہم ربک سوط عذاب, ان ربک لبالمرصاد( سورہ فجر/6-14)
ترجمہ: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کے رب نے ستونوں والے
عاد ارم کے ساتھ کیا معاملہ کیاجن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں
کی گئی تھی۔ اور قوم ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟ اور میخوں
والے فرعون کے ساتھ؟ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور ان میں بہت فساد مچایا تھا۔آخر
آپ کے رب نے ان سب پر عذاب کا کوڑا برسادیا۔یقینا تمھارا رب گھات لگائے ہوئے ہے۔
ایک دوسری آیت میں ہے: وَمَا
أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ (شورى/30)
ترجمہ: تمھارے اوپر جو بھی مصیبت آئی ہے وہ
تمھارے اعمال کا نتیجہ ہے۔وہ بہت سے گناہوں سے در گذر کر دیتا ہے۔
اور ایک حدیث میں ہے:
روى أبو داود (4902) ، والترمذي (2511) ، وابن
ماجه (4211) عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ: ( مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ تَعَالَى لِصَاحِبِهِ
الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِثْلُ الْبَغْيِ
وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ) والحديث صححه الألباني في "صحيح أبي داود"
ترجمہ : حضرت ابو بکرہ سے روایت ہے وہ کہتے
ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : دو گناہ ظلم اور
قطع رحم کے مثل کوئی اور گنأہ اس قابل نہیں ہے کہ اللہ تعالى اس گناہ والے کو
جلدی ہی دنیا میں سزادے اور ساتھ ہی آخرت میں بھی ان کے لیے ذخیرہ کر کے رکھے۔ أبو
داؤد /4902, ترمذی/2511, ابن ماجہ /4211, اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح ابو داؤ
میں صحیح قرار دیا ہے۔
اب اگر ہم آج کی اپنی اس دنیا کا بغور
جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پوری
دنیا بشمول مسلمان دنیا سر سے پیر تک ظلم میں غرق ہے۔دنیا کا کوئی خطہ یا علاقہ
ایسا نہیں ہے جو ظلم و جور سے پاک ہو۔حتى کہ تمام ادیان و مذاہب کے مقدس ترین
مقامات بھی ظلم و ستم سے خالی نہیں ہیں۔ایک طرف جہاں جابر و ظالم حکومتیں اور طاقتور
ممالک کمزور و غریب ممالک پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ان کی ثروت و دولت کو لوٹ رہے ہیں۔ان
کے اوپر اقتصادی و معاشی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف انسانی سماج کے
مالدار و طاقتور أفراد أپنے ہی سماج کے غریب , بیکس , لاچار و مجبور
انسانوں کا صدیوں سے خون چوس رہے ہیں۔اور ان کے اوپر سماجی, سیاسی و معاشی ہر قسم کا ظلم ڈھا رہے ہیں۔ حد
تو یہ ہے کہ لوگ أپنوں , بیگانوں, غیروں,
حیوانوں اور ماحولیات پر بھی ظلم سے
باز نہیں آتے ہیں۔ غرضیکہ ظلم اپنی تمام شکلوں و صورتوں میں
بدرجہ أتم موجود ہے اور پوری دنیا جور و ستم کے سایہ تلے کراہ رہی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ظلم کا یہ سلسلہ
کوئی نیا نہیں ہے۔ بلکہ یہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا حضرت انسان کی تخلیق۔جب اللہ نے
حضرت آدم کو پیدا فرمایا اور ابلیس کو ان
کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اسی وقت ابلیس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے
ظلم کا ارتکاب کیا۔اسی طرح جب انسان نے اللہ کی
حکم عدولی کرتے ہوئے ممنوعہ درخت کا پھل کھالیا تو اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ جس کے
نتیجہ میں اسے جنت سے دنیا میں بھیج دیا گیا۔اور جب اس دنیا میں قابیل نے ہابیل کو
قتل کیا ۔ تو اس نے ظلم کیا۔بعد أزاں ظلم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔جو ہر
زمانہ, ہر قوم اور ہرجگہ ہوتا رہا ہے۔اور
اب تک جاری و ساری ہے۔قوم نوح نے بتوں کی پرستش کر کے أپنے اوپر ظلم کیا۔قوم عاد و
ثمود و شعیب وغیرہ نے رسولوں کی تکذیب کرکے ظلم کیا۔فرعون نے بنو اسرائیل پر بہت
زیادہ ظلم و ستم ڈھائے۔صلیبیوں اور خصوصا تاتاریوں نے پوری دنیا خاص طور سے مسلمانوں کو شدید ترین ظلم کی چکی میں پیسا ۔پہلے یہودیوں
نے نصرانیوں پر جور و ستم کے پہاڑ توڑے پھر نصرانیوں نے یہودیوں سے انتقام کی آگ
میں جلتے ہوئے ان پر بہت زیادہ ظلم
کیا۔اور ان کو دیس بدر کر دیا۔انڈیا میں برہمنوں نے شودروں پر ہزاروں سال تک ظلم
کیا , ان کو انسانیت کے تمام حقوق سے محروم رکھا۔ اسی طرح شنکر آچاریہ نے بد ھ
مذہب کے پیروکاروں پر ظلم ڈھایا۔اور انڈیا میں جنمے بدہ مذہب کو نیست و نابود
کردیا یہاں تک کہ اسے ملک بدر کردیا وغیرہ۔گذشتہ صدی کے اوائل میں سرخ ریچھ یعنی
سوویت یونین نے وسط أیشیائی ممالک میں وہ قہر برپا کیا جس کو الفاظ کا جامہ نہیں
پہنایا جا سکتا ہے۔
یہ ماضی میں ظلم کی بعض داستانیں ہیں لیکن عصر حاضر میں بھی ہو بہو وہی صورت حال ہے۔آج بھی ہر طرف ظلم کا
دور دورہ ہے۔مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک ہر طرف ظلم و ستم کے دلدوز مناظر کی کمی نہیں ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ
آج کی دنیا میں ظلم و ستم کچھ زیادہ ہی ہورہا ہے تو بالکل غلط نہیں ہے۔اور اس امر
میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ آج کی دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم قوم مسلمان ہے جیسا کہ یوشک أن تداعی
علیکم الامم والی حدیث میں آیا ہے۔ یعنی ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تمام قومیں
مسلمانوں پر پل پڑیں گی۔جس کی ایک معمولی جھلک درج ذیل ہے۔
اسرائیل فلسطینیوں پر زائد از ستر سال سے
ہر طرح کے مظالم ڈھا رہا ہے۔پوری دنیا کے مسلمان أپنے کو بیکس و مجبور پار ہے
ہیں۔أمریکہ نے افغانستان و عراق کو تباہ و برباد کردیا۔مسلمان تماشہ دیکھتے رہے ۔لیبیا
و صومال تاخت و تاراج کر دئیے گئے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔برما نے
اراکان کے مسلمانوں پر قیامت برپا کردی۔کوئی مدد کو آگے نہیں آیا۔اور اس وقت دنیا
میں سب سے زیادہ مظلوم چین کے سنکیانگ صوبہ کے ایغور مسلمان ہیں۔روس وبشار اسد نے
شام کو تباہ و برباد کردیا ۔ شامیوں کا قتل عام کیا۔ان پر بم برسائےلیکن
مسلمان صرف دعا سے آگے نہ بڑھ سکے۔کچھ نہ
کرسکے۔وسطی افریقہ میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔صربیوں نے بلقان میں مسلمانوں
کی نسل کشی کی۔ہزارون لاکھوں کو تہ تیغ کیا ۔چیچنیا, فلیبین اور کئی جگہوں پر
مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی لیکن ہم کچھ نہ کر سکے۔ أپنے کو دنیا کاسب سے
بڑا جمہوری ملک کہنے والا انڈیا کشمیر میں ایک عرصہ سے ظلم و ستم کا ننگا کھیل کھیل رہا ہے۔اور اس ملک کے دیگر حصوں میں بھی مسلمان حکومت اور اکثریت کے ظلم و جبر کا شکار
ہیں۔ان کا خون گائے جانور سے بھی زیادہ سستا ہے۔کتنے مسلمانوں کو تحفظ گاؤ کے نام
پر شہید کردیا گیا۔فسادات میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔اور اب مسلمانوں کی نسل کشی
کی تیاری ہو رہی ہے۔اورپوری دنیا میں گذشتہ بیس سالوں کے اندر دو ملین سے زیادہ مسلمان شہید کر دئیے
گئے ہیں ۔
موجودہ دنیا کے بہت سارے علاقوں میں کئی کمزور و
مجبور قومیں مثلا شودر و دلت بھارت میں, بلوچ پاکستان و ایران میں , ریڈ انڈین امریکہ میں, بہاری بنگلہ دیش میں ,أکراد ایران و ٹرکی میں, عرب أہواز ایران میں,سنی مسلمان کامل ایران میں, تتسی روانڈا میں اور بدون امارات, کویت, قطر و سعودیہ وغیرہ میں ظلم میں مبتلا ہیں۔خصوصا آج
کی دنیا میں رہنے والی بہت ساری قومیں مقہور و مظلوم ہیں۔غرضیکہ آج کی
دنیا میں ہر دن ظلم کی ایک نئی داستان رقم کی جارہی ہے۔اور یہ ظلم سیاسی ,
اقتصادی, سماجی, تعلیمی, فوجی و جنسی ہر نوع کا ہے۔
لیکن ان سب سے زیادہ افسوس و تکلیف کی بات
تو یہ ہے کہ مسلمان قوم جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ دیگر مظلوم قوموں کی مدد کرے۔
ظلم کے سامنے ڈٹ جائے ۔ آج وہ خود اتنی عاجز, مجبور و بے بس ہے کہ أپنے اوپر ہونے
والے مظالم کا دفاع نہیں کر سکتی ہے۔اور مجبورا ظلم وستم کا مشقہ تخت بنی ہوئی
ہے۔تو وہ دوسروں سے جور و ستم کیسے دور
کرسکتی ہے۔
اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ خود بھی دوسری
قوموں سے ظلم کے معاملے میں کسی طرح پیچھے نہیں ہے۔ بلکہ کچھ ناحیوں مثلا سماجی و
معاشی وغیرہ میں غیروں سے دو قدم آگے ہے۔
اگر
ایک طرف آج کل کے اکثر مسلمان فرائض کو ادا نہ کرکے اور حرام کاموں کا ارتکاب کرکے
أپنے اوپر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ۔ وہیں دوسری طرف اکثر مسلمان حکومتیں شریعت کو
نافذ نہ کرکے خود ہی اپنے عوام و رعایا پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔آج کل کی دنیا میں کوئی ایسی مسلمان
حکومت نہیں ہے جو غیر مسلم ممالک سے صرف
اسلام و مسلمانوں کی بنیاد پر تعلقات قائم کرتی ہو۔تمام مسلمان حکومتیں صرف أپنی مادی و تجارتی مصالح و منافع کی أسیر و
غلام ہیں,اور یہی آپسی تعلقات قائم کرنے کا بنیادی سبب ہے۔ان کو مسلمانوں پر ہونے
والے مظالم سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے۔اور جو مالدار و أصحاب ثروت افراد نیز
چھوٹے بڑے ادارے ہیں وہ أپنے ماتحت لوگوں خصوصا مزدوروں, ڈرائیوں, نوکرانیوں اور خادموں پر بہت ظلم کرتے ہیں۔ان کے بارے میں
ملکی قوانین کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ آٹھ کے بجائے چودہ گھنٹہ کام لیا جاتا
ہے۔پھر بھی مزدوری کم دی جاتی ہے۔أوور
ٹائم کی مزدوری الگ سے نہیں دی
جاتی ہے۔عموما ان کی رہائشیں بہت ہی زیادہ گندی
اور اوور کراؤڈڈ ہوتی ہیں۔ان کی چار پائیاں ڈبل منزلہ ہوتی ہیں۔ان کو
جانوروں کی طرح رکھا جاتا ہے۔اور ان کے ساتھ معاملہ تو غیر انسانی ہوتا ہے۔اور یہ
حال عموما تمام مالدار افراد و سماجوں کا ہے۔ کوئی اس سے مسنثنى نہیں ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ مسلمانوں کی اکثریت شرک میں مبتلا ہے۔ان کے یہاں
تقریبا ہر جگہ شرک کا بازار گرم ہے جو ظلم کی سب سے بڑی قسم ہے۔بدعات, خرافات ,
توہم پرستی , لوگوں کا حق مار لینا, دھوکہ دہی, رشوت خوری, تملق , چاپلوسی ,حرام کمائی, زنا کاری, شراب
نوشی , ناپ تول میں کمی, عریانیت و فحاشیت وغیرہ اس کے علاوہ ہے۔عورت آج کے مسلمان
معاشرہ میں بے حد مظلوم ہے۔لڑکا و لڑکی کے مابین
تفریق و امتیاز بہت سارے مسلمانوں میں اب بھی موجود ہے۔کسی بھی مسلک سے وابستہ
مسلمانوں کی اکثریت عورتوں کو وراثت میں ان کا حق نہیں دیتی ہے۔اخلاقی بحران
مسلمانوں میں ہر جگہ نمایاں ہے۔برصغیر ہی نہیں بلکہ عام طور سے ہر جگہ کا مسلمان
سماج غیر اسلامی أصول و ضوابط پر رواں دواں ہے۔میرا ماننا ہے کہ ہمارے اسلاف رحمہم
اللہ نے بہت سارے علاقوں میں لوگوں کو مشرف با اسلام تو کیا لیکن بعض وجوہات و اسباب کی بنا پر وہ
سماج و معاشرہ کومکمل اسلامی رنگ میں نہ
رنگ سکے اور اس کو کامل طور سے مسلمان نہ بنا سکے۔جس کا نتیجہ ہے کہ تمام مسالک والے
بشمول اہل حدیث بہت سارے غیر اسلامی رسوم و رواج اور عادات و تقالید میں گرفتار
ہیں۔جن میں سب سے زیادہ نمایاں وراثت اور شادی بیاہ کے رسوم و رواج ہیں۔ہمارے بہت
سارے سماج میں باپ بیٹا پر ظلم کرتا ہے جب وہ اس کی اسلامی تربیت نہیں کرتا ہے
۔اور خاندان و مال و دولت سے متعلق اسلامی احکام پر عمل نہیں کرتا ہے۔اور وہ اپنے
بیٹوں کی کمائی کو أپنی کمائی سمجھتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ وہ کم یا زیادہ کمانے
والے تمام بیٹوں کو ان کی رضامندی کے بغیر ان کے دولت میں برابر کا شریک بنا دیتا
ہے۔یہ سراسر اسلامی احکام کی مخالفت ہے۔اللہ و اس کے رسول کے خلاف بغاوت ہے۔اسی
طرح بیٹا أپنے باپ پر ظلم کرتا ہے جب وہ جائز و شرعی امور میں اس کی نافرمانی کرتا
ہے۔ یا اس کے شرعی حقوق کو ادا نہیں کرتا ہے۔اسی طرح میاں بیوی جب ایک دوسرے کے
شرعی حقوق کو ادا نہیں کرتے ہیں تو آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں۔
اور ان سب سے زیادہ أفسوس ناک اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم میں سے بہت
سارے افراد, شخصیات , جماعتیں, تنظیمیں,حکومتیں اور سلطنتیں ظلم و ستم پر نہ صرف خاموش
رہتی ہیں بلکہ اس کی تایید کرتی ہیں ۔اور اس کے خلاف آواز أٹھانے سے ڈرتی ہیں۔جس
سے ظالم و جابر کو اور شہ ملتی ہے۔اور وہ أپنے ظلم و ستم میں بڑھتا چلاجاتا ہے۔اور
صرف یہی نہیں کہ ظلم پر خاموشی ظلم ہے بلکہ ظلم کو سہہ لینااور اس کے خلاف آواز
نہ اٹھانا یہ ظلم سے بڑھ کر ہے۔مثال کے طور پر جب موجودہ بھارتی حکومت نے کشمیر سے
دفعہ 370 کو ختم کیا اور کئی مہینہ کے لیے کشمیر کو قید خانہ میں تبدیل کردیا تو
ہم بھارتی مسلمان نہ صرف اس پر خاموش رہے بلکہ ہم نے حکومت کے اس جابرانہ و
ظالمانہ اقدام کی حمایت کی۔اسی طرح اکثر مسلمان ممالک نے بنا سوچے سمجھے اس کی حمایت
کی۔اور اس قدم کو جائز ٹہرایا۔اسی طرح ہمارے
اکثر مسلمان حکمراں چین میں مسلمانوں پر ڈھائے جارہے مظالم پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ اس کی کھلی تائیید و
سپورٹ کرتے ہیں۔وغیرہ
خلاصہ کلام یہ ہے کہ غیر مسلموں کے یہاں تو
ظلم ہی ظلم ہے۔اور وہ أپنےعلاوہ دوسری قوموں خصوصا مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں
۔لیکن ہم مسلمان بھی ظلم میں ان سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ ان سے دو قدم آگے ہیں
کیونکہ ہم أپنوں یعنی مسلمانوں اور غیروں یعنی غیر مسلموں سب پے ظلم ڈھارہے ہیں کیونکہ ہم
نے غیر مسلموں کے تئییں اپنی شرعی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا ہے اور نہ کر رہے
ہیں۔اسی ظلم کا نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا بنا کسی تفریق کے کورونا عذاب میں مبتلا ہے۔اور اللہ تعالى ہم کو
اسی دنیا میں اس ظلم کی سزا دے رہا ہےاور اس کے عذاب کا کوڑا سب کے اوپر برس رہا
ہے۔جیسا کہ اوپر حدیث میں گذرا۔
لہذا ہم دنیا والے خاص طور سے مسلمان اگر اس کورونا عذاب سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو
ہمیں انفرادی, اجتماعی اور حکومتی ہر سطح پر ظلم کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ہرطرح کے
گناہوں سے خالص توبہ کرنا ہوگا۔تو امید ہے کہ جلد ہی پوری انسانیت کو اس سے نجات
مل جائے ورنہ صالح و طالح, مسلم و غیر مسلم ہر ایک کو اس کا مزہ چکھنا ہے۔کیا أہل دنیا خصوصا ہم مسلمان اس سے عبرت و
نصیحت حاصل کریں گے؟
یا الہ العالمین تو اس بلا سے جلد از جلد
پوری دنیا کو نجات دے۔اور ہم میں سے جاہلوں و ناسمجھ لوگوں نے جو ظلم کیا ہے اس کی
سزا سب کو نہ دے۔ آمین۔
4 التعليقات:
ماشاءاللہ
بہت عمدہ
اللہ تعالیٰ شیخ محترم کے علم و عمل میں مزید برکت عطا فرماۓ
سلامتی کے ساتھ عمر کو دراز کرے تاکہ امت مسلمہ شیخ مستفید ہوتے رہیں
نیز اللہ تعالی مشفق ومربی استاد کو مع اہل و عیال کے حفظ و امان میں رکھے اور حاسدین کی حسد سے بچاۓ
آمین یارب العالمین
ماشاءالله تبارك الله اطال الله بقاءك مع الصحة والعافية ...الحمدللہ شیخ کا یہ مضمون حالت حاضرہ کی پوری عکاسی ہے اس مضمون کا ہر ہر لفظ صداقت پر مبنی ہے صرف یہی مضمون ہی اصلاح کیلیے کافی ہے اگر اصلاح وتبدیلی کی توفیق نصیب ہوتو۔۔ کاش کہ ظالم وجابر افراد اس مضمون کو عبرت کی آنکھوں سے پڑھیں ۔۔
ماشاء اللہ بہت خوب ... مسلمانو کو ان کا صحیح آئینہ دکھایا (ڈاکٹر شبیر پرے واٹسپ میسیج بتاریخ ۱۹ اپریل ۲۰۲۰ ع)
ماشاءاللہ بہت خوب بڑا اچھا اور عمدہ مضمون ہے ۔ ظلم سے متعلق تمام پہلوؤں پر کماحقہ روشنی ڈالی گئی ہے واقعی میں آج ہرکوئی اپنے سے کمزور پر ظلم کا پہاڑ توڑتے دکھائی دیتا ہے باپ کا بیٹے پر ظلم وتشدد کی بات اور شادی بیاہ کے رسومات کی طرف نشان دہی سو فیصد صحیح ہے (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس امت کو اب بھی سوچنے سمجھنے کی توفیق اور آپ کو جزائے خیر دے آمین یارب ( شيخ اكرام الحق , واٹسپ میسج بتاریخ 9 مئی 2020ع بوقت 8 بجکر 11 منٹ شام )