دور حاضر کے مسلمان اور مکی زمانہ کا رونا رونا

 

                 دور حاضر کے مسلمان اور مکی زمانہ کا رونا رونا

کیا دور حاضر کے مسلمان خصوصا اقلیتیں انڈیا یا دنیا کے کسی بھی علاقہ میں  مکی زمانہ میں زندگی گذار رہے ہیں اس معنى میں کہ وہ نہایت کمزور , عاجز, بے بس اور لاچار ہیں لہذا ان کے اوپر جہاد کرنا اس زمانہ میں لازم نہیں  ہے جیسا کہ مکی زندگی کے مسلمانوں پر نہیں تھا  بلکہ ان کے اوپر دشمنان اسلام کی مزاحمت نہ  کرنا اور ان کے سامنے سرنگوں رہنا وقت کا تقاضا ہے  ۔ویسے اگر اس معنی کا لحاظ کرتے ہوئے دیکھا جائے تو صرف انڈیا کے مسلما ن یا اقلیتیں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمان مکی زندگی گذار رہے ہیں جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے  ۔کیا یہ حقیقت ہے یا افسانہ ؟ کیا شرعی نقطہ نظر سے ایسا کہنا صحیح ہے  آئیے اس امر کا حقیقت میں جائزہ لیتے ہیں ۔

یہ  کوئی نئی بات نہیں ہے, مسلمانوں میں اس مقولہ  کا رواج ہے اور خود بہت سارے علماء اس قسم کی باتیں کرتے ہیں , میں نے سالوں پہلے جامعہ محمدیہ میں  ایک بڑے عالم کی زبان سے  خود یہ سنا ہے , پڑھا ہے, طلباء نے کلاس روم میں مجھ سے سوال کیا ہے  اور ایک صاحب نے  واٹسپ پراس کی بابت مجھ سے پوچھا بھی ہے ۔  ماہ نومبر 2023 ع  میں چند دنوں پہلے واٹسپ پر عربی میں ایک تحریر میری نظر سےگذری جس میں اسی عہد مکی کا رونا  رویا گیا ہے ۔ نام تحریر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہےاور نہ اس  سے کچھ لینا دینا ہے اس لیے بغیر نا م کے بیان کر رہا ہوں, اصل مقصد اس فکرکا ابطال ہے  اور اس  مقارنہ و موازنہ کو غلط ثابت کرنا ہے   اس لیے یہ مضمون قلمبند کیا جا رہا ہے  ۔اور مزید وضاحت یہ بھی کر دیتا ہوں کہ اس فکر کو غلط و باطل ثابت کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان  دنیا میں ہرجگہ بنا کسی تیاری اور شروط کو پورا کیے ہوئے بغیر  قتال و جہاد شروع کر دیں  جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اس تحریر کا مقصد محض  ایک فکری غلطی کی اصلاح کرنا, حقیت حال سے آگاہ کرنا  اور مسلمانوں کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے اور بہتری لانے پر ابھارنا ہے ۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دور حاضر کا عہد رسالت مکہ  اور آج کے مسلمانوں کا مکی مسلمانوں سے موازنہ کرنا سراسر غلط ہے , لا علمی و جہالت ہے , مقارنہ کرنا کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے ۔ اس کے اسباب و وجوہات میں سے دونوں کے درمیان آسمان و زمین سے زیادہ کا فرق و اختلاف ہے  اور یہ اختلافات و فروق   مندرجہ ذیل ہیں :---

زمانہ: اسلام کی اس وقت ولادت ہوئی تھی ,وہ آغاز اسلام اور   اس کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا, وہ خیر القرون تھا  اور اب چودہ سو سال  کی ایک بہت ہی لمبی مدت گذر چکی ہے  اور آج ہم أسوا القرون میں ہیں ۔

تعداد: اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی, سیرت کی مختلف  روایات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد اس وقت سیکڑوں میں تھی , ہزار تک قطعا نہیں پہنچی تھی ۔ بطور دلیل  سن 5/ بعثت میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی تعدا کو لے لیجیے جو صرف اور صرف 116/ تھی , یہ دونوں ہجرتوں کی تعداد ہے , بعض روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت عمر سن 6/ بعثت کے اخیر میں اسلام لائے تو ان کا نمبر چالیسواں تھا , اس میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کی تعداد شامل نہیں ہے ۔کل ملا کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مکی زندگی میں مسلمانوں کی تعداد پانچ سو سے بھی کم تھی ۔اور وہ صرف مکہ اور اس کے قرب و جوار تک محدود تھی ۔اور یہ خیر السملمین تھے , اسلامی احکام کے مکمل پابند تھے  نیزہر قسم کی برائیوں سے بہت دور تھے۔

آج کے زمانہ میں  مسلمانوں کی تعداد  ما شاء اللہ تبارک اللہ دو ارب ہے اور وہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں  ۔شاید ہی کوئی خطہ یا علاقہ ایسا ہو جہاں مسلمان نہ ہوں  لیکن آج کے مسلمان شر المسلمین ہیں , ان کی غالب اکثریت پوری دنیا میں اسلام پر عمل نہیں کرتی ہے اور ان کے اندر ہر قسم کی چھوٹی بڑی برائیوں کی بھرمار و کثرت ہے ۔ آج کے مسلمان اسلام کو کامل طور پر انفرادی, اجتماعی و سیاسی سطح پر بالکل نہیں نافذ کرتے ہیں ۔  

حکومت: اس وقت زمین پر کوئی مسلمان ملک نہیں تھا  اور نہ کوئی علاقہ ان کے قبضہ میں تھا ,  اس وقت کوئی سلطنت و حکومت نہیں تھی ۔آج 57/ مسلمان ممالک ہیں اور دنیا کا ایک چوتھائی  رقبہ ان کے ماتحت ہے ۔

جہاد و قتال:  حالات کے پیش نظر اس وقت جہاد نہ کرنا یہ اللہ تعالى کا حکم تھا , پھر بھی بعض صحابہ جہاد کے متمنی تھے  جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ دوسری بیعت عقبہ کے بعد عباس بن عبادہ نے نبی کریم سے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے , اگر آپ چاہیں تو کل ہم منى والوں پر اپنی تلواروں سے ٹوٹ پڑیں , تو آپ نے جواب دیا: لم اومر بذلک کہ مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے , لیکن جیسے ہی حالات نے کروٹ لی , مدینہ میں اسلامی  حکومت قائم ہوئی جہاد کی اجازت دے  دی گئی۔

کیا موجودہ دور میں بھی جہاد و قتال اللہ کے حکم سے موقوف ہے , کیا آج بھی جہاد نہ کرنا اللہ کا حکم ہے اگر ایسا ہے تو کوئی بات نہیں ہے , ورنہ کمزوری و عاجزی کا عذر سراسر غلط ہے , اور یہ " عذر گناہ بد تر از گناہ  " ہے کیونکہ ہماری کمزوری و عاجزی خود ہمارے ہاتھوں کی دین ہے , خود ہماری کوتاہیوں و خرابیوں کا نتیجہ ہے , دینی و شرعی واجبات کو نہ ادا کرنے اور اس سے فرار  کا  حتمی و لازمی انجام ہے , یہ نقلی, جھوٹی اور مصنوعی کمزوری ہے حقیقی و طبعی , فطری و اصلی کمزوری نہیں ہے جیسا کہ مکی دور میں تھی ۔  کیونکہ اسلام ہمیں کسی بھی میدان میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے سے نہیں روکتا ہے بلکہ اس کا حکم دیتا ہے ۔ کیا اسلام  ہمیں اتفاق و اتحاد سے منع کرتا ہے؟ کیا اسلام ہمیں سانئس و ٹکنالوجی , صنعت و حرفت, تعلیم و فنون , آلات حرب و ضرب کے تیار کرنے سے منع کرتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ یہ تو ہمارے  ناکارہ و نا اہل مسلمان حکمرانوں کی دین ہے ۔

 و سائل و موارد: اس وقت مسلمانوں کے پاس وسائل و موارد کی بہت قلت تھی, بہت ہی مشکل سے ان کا گذر و بسر ہوتا تھا, پیٹ بھر کھانے کو نہیں ملتا تھا , ام المؤمنین حضرت عائشہ کی روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے کہا کہ اب کجھور سے آسودہ ہوں گے ۔اور حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے وہ کہتے ہیں : ما شبعنا حتى فتحنا خیبر یعنی خیبر کی فتح کے بعد ہم لوگ آسودہ ہوئے ۔ اسلحہ و ساز و سامان بھی ان کے پاس کافروں کے مقابلے میں کم ہوتا تھا۔جن کی نظر غزوات و سرایا پر ہے وہ اس سے بخوبی واقف ہیں ۔ان کو بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں ہے ۔

 اس کے برعکس آج کے  مسلمانوں کے پاس وسائل و مال و دولت کی فراوانی ہے, اللہ تعالى نے ان کو معدنیات سے مالا مال کیا ہے , گیس و پٹرول کا سب سے زیادہ ذخیرہ مسلمان ممالک میں ہے ۔مسلمانوں کی ایک بڑى تعداد کے پاس عیش و عشرت کے سامان کی کوئی کمی نہیں ہے , اسلحہ و ہتھیار بھی ان کے پاس ہیں  لیکن  اکثر بیرونی ممالک سے در آمد شدہ ہیں ان کے خود کے تیار کردہ نہیں ہیں , صنعت و حرفت کی بہت زیادہ کمی ہے, سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ پیچھے ہیں ۔ بیشتر ناکارہ و نا اہل   حکمرانوں کے حالات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس میں ترقی بھی نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔ وغیرہ

با عمل اسلاف: ابتدائی زمانہ کے مسلمان عسرت و غربت کی زندگی کے باوجود  وہ کامل طور سے اپنی زندگی میں  اسلام پر عمل کرنے والے تھے , ان میں تقوى و اخلاص تھا, وہ حرام امور اور برائیوں سے بہت دور رہتے تھے , اسلام ان کی  زندگی کے ہر شعبہ میں رچ بس گیا تھا  ۔یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ اسلام پر عمل نہ کریں ۔بعد میں ہمارے اسلاف نے صنعت و حرفت, سائنس و ٹکنالوجی میں خوب ترقی کی اور اس میدان میں بھی وہ دنیا کی ہر قوم سے آگے نکل گئے ۔آج مغرب کی جدید سائنس و طب کی بنیاد مسلمانوں کے علوم و فنون پر قائم ہے ۔

اس کے برعکس آج کے مسلمانوں کی دینی, سیاسی, تعلیمی, اخلاقی, سائنسی , تجارتی , طبی , معاشی  اور ٹکنالوجیکل حالت بہت ہی خراب  ہے, ان سب کو تفصیل سے بیان کرنے کے لیے ایک کتاب تحریر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور ان سب کا ذکر ہمارے کئی مضامین میں موجود ہے, مثلا:   اسلام کا پیغام  : مسلمانان عالم کے نام , کامل اسلام پر عمل فرض ہے ورنہ ذلت و رسوائی مقدر ہے دو قسط, مسئلہ فلسطین اور غلام کوڑا کرکٹ مسلمان قوم,  مسلمانوں کی تمام مشکلات و پریشانیوں کا حل , ان مضامین  کو گوگل سرچ کرکے آپ ہمارے ویب سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں ۔ یہاں  بہت ہی اختصار کے ساتھ چند چیزوں کا  ذکر کیا جا رہا ہے ۔

دنیا کے غالب مسلمانوں کی دینی حالت انتہائی خراب ہے , ہم نے دین اسلام کو صرف ظاہری عبادات میں محصور کردیا ہے ۔ ہم اسلامی احکام پر عمل نہیں کرتے ہیں  اور برائیوں و محرمات کی بات ہی مت کیجیے, کیونکہ آج کون سی ایسی برائی ہے جو مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی ہے۔بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی غرضیکہ ہر برائی مسلمان سماج و معاشرہ میں موجود ہی نہیں بلکہ جڑ جمائے ہوے ہے۔شرک, بدعت, کبر و غرور, نسل پرستی , بد دیانتی, والدین کی نافرمانی, بخل , ظلم, چوری, ڈکیتی, جھوٹ,شراب نوشی , رشوت, دھوکہ دہی , فریب, غیبت, چغل خوری, ملاوٹ, جوا, زنا, بغض و حسد, کینہ کپٹ, قتل و خونریزی, بے پردگی , عریانیت, سود, حرام کمائی, قرض کو واپس نہ کرنا,  دوسرے کا مال ہڑپ کرلینا, دوسرے کی زمین پر قبضہ کرلینا , حق بات نہ کہنا, جھوٹی گواہی دینا وغیرہ  کا دور دورہ ہے اور یہ فہرست بہت لمبی ہے۔

 آپ خود ہی سوچئے کہ کتنے فیصد مسلمان نماز اداکرتے ہیں ؟ کتنے زکوۃ دیتے ہیں؟ کتنے مالدار طاقت والے مسلمان حج کرتے ہیں؟  عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کا کیسا معاملہ ہے؟ کیا ہم اپنی لڑکیوں کو میراث میں ان کا حصہ دیتے ہیں؟  کیا ہم اپنے بچوں و بچیوں کو ضروری دینی تعلیم دیتے ہیں وغیرہ ۔ نہ جانے اس طرح کے کتنے سوال ہیں۔بلکہ میرے خیال میں پوری دنیا کے  مسلمانوں میں  فساد و بگاڑ کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ان کے اصلاح کے لیے زبر دست و انتھک محنت کی ضرورت ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو ان فساد و برائی کی جڑوں کو اکھاڑنا چاہتا ہے اس کو خود ہی جڑ سے اکھاڑ دیا  جاتا ہے۔

اسی طرح ہمارے مسلمان حکمراں بھی  ان معاملوں میں ہم سے پیچھے نہیں  بلکہ وہ ہم سے دو قدم آگے ہی ہیں۔ ان کے اندر فساد وبگاڑ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مسلمان ممالک کے سربراہ اسلامی شریعت کی تنفیذ نہیں کرتے ہیں۔ حدود کو نافذ نہیں کرتے ہیں۔ ان کے محکموں میں انسانی قوانین پر عمل ہوتا ہے۔اسلامی تعلیم , دعوت و تبلیغ سے انہیں دلچسپی نہیں ہے۔مسلمان ملکوں کی سیاست انتہائی گندی ہے۔اکثر حکمراں سیاسی و مالی فساد میں مبتلا ہیں۔ سرکاری خزانے کو اپنا نجی مال تصور کرتے ہیں۔ ان میں دینی غیرت و حمیت برائے نام  ہے ۔وہ اپنی ذاتی مفادات پر قوم و ملک کی مفادات کو قربان کر دیتے ہیں۔ان کے لیے سب سے اہم چیز اپنی کرسی کی حفاظت ہے۔جہاد کی کوئی تیاری نہیں ہے ۔ خلافت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حقیقی اتفاق و اتحاد کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہے۔مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ غیر اسلامی دنیا میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پے ان کا ردعمل صرف بیان بازی تک محدود رہتا ہے۔اسی وجہ سے میرا ملاحظہ ہے کہ جومحنت, لگن, خلوص اور جذبہ صادق , غیر مسلم حکمرانوں میں اپنی قوموں و ملکوں کے تئیں پایاجاتا ہے وہ عموما مسلمان حکمرانوں میں  دور دور تک نظر نہیں آتا ہے۔وغیرہ

سیاسی و دینی  طور پر ہم بہت زیادہ منقسم ہیں, تاریخ شاہد ہے کہ عصر حاضر جیسا ہر قسم کا اختلاف خصوصا سیاسی و دینی اختلاف مسلمانوں میں اس سے پہلےکبھی نہیں رہا۔ پہلے ہی سے سیاسی طور پرچند ممالک میں منقسم  مسلمان دنیا  عثمانی خلافت کے خاتمہ کے بعد مزید کئی  مسلمان ممالک میں تقسیم ہوگئی  اور اس کا سیاسی اختلاف بہت زیادہ بڑھ گیا۔

آج کے زمانہ کے اکثر علماء کی حالت بھی صحیح نہیں ہے , ان کی  اکثر یت نے اپنی عظیم ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا نہ کرکے اور اس میں بہت زیادہ کوتاہی کرکے  خود ہی أپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہےاور أپنی ذمہ داریوں کو بھلادیا ہے ۔ لہذا آج کے زمانہ میں   آپ کا وجود و عدم  تقریبا دونوں برابر ہے, سماج و معاشرہ پر آپ کی  کوئی  خاص گرفت نہیں ہے, اکثر علماء   نےاپنے اعمال  و افعال کی وجہ سے  اپنا وزن و وقار, مقام و مرتبہ , عزت و عظمت  خود ہی کھودیا ہےکیونکہ  آپ بذات  خود  دوسروں کی طرح دنیا میں کھو گئے ہیں , دنیا کی بہت  ساری بیماریاں: بغض و حسد, کینہ کپٹ , جھوٹ, عہدہ طلبی, لالچ , دغابازی,وعدہ خلافی,  بے وفائی, حرص شہرت و ناموری , چاپلوسی , چغل  خوری ,حرام خوری اور بد اخلاقی  وغیرہ    آپ کے  اندر پیدا ہوچکی ہیں, آج کے دور میں  اکثر علماء کے  اندر حق بات کہنے کی قطعا جرات نہیں ہے, مسلمانوں کے سیاسی مسائل میں آپ کی کوئی رائے نہیں ہے ۔آپ سیاسی اعتبار سےبالکل بے وزن ہیں۔اس میدان میں ذرہ برابر آپ کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔آپ نے دین کو صرف عبادت میں محصور کردیا ہے, امت کی صحیح رہنمائی سے منہ پھیر لیا ہے, قیادت و سیادت کے بجائے  امراء و حکمرانوں کے تابعدار و غلام بن گئے ہیں ,  ان کی پیٹھ تھپتھپانا اور بے جا مدح سرائی کرنا آپ کا شیوہ بن چکا ہے, صرف عوام کو نصیحت کرنا اور ان کے حقوق یاد  دلانا اور حکمرانوں کو کچھ نہ کہنا بلکہ ان کی چاپلوسی کرنا آپ کی عادت ہے, جفا کشی , محنت و مشقت کے بجائے  آرام طلبی   آپ کی  فطرت بن چکی ہے ۔وغیرہ , کیا ایک مومن عالم کا یہی اخلاق ہوتا ہے؟ کیا ایک مسلمان عالم کا سماج اور معاشرہ میں یہی کردار ہوتاہے ؟ کیا اسی لیے آپ کو وارثان انبیاء کا عظیم منصب عطا کیا گیا  ہے ؟

یہ ہے  دور حاضر کے مسلمانوں کی حقیقی تصویر , اور یہ ہے آج کے زمانہ و مکی زمانہ , آج کے مسلمانوں و مکی زمانہ کے مسلمانوں کے درمیان حقیقی مقارنہ و موازنہ, کیا ہمارے درمیان اور مکی  زمانہ کے مسلمانوں کے درمیان باعتبار زمانہ, تعداد,  حکومت, وسائل ,  حکم جہاد, عمل و بے عملی وغیرہ میں  کسی طرح کی کوئی  مشابہت پائی جاتی ہے , بلا شبہ کسی قسم کی کوئی مشابہت ان چیزوں میں  نہیں پائی جاتی ہے ۔اگر کوئی مشابہت ہے تو وہ صرف اور صرف کمزوری میں ہے جیسا کہ دعوى کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر جہاد نہ کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔

لیکن :

حضرات: جو کچھ اوپر کے سطور میں عرض کیا گیا اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آج اگر ہم مکی مسلمانوں  کی طرح کمزور ہیں تو اس کے وجوہات و اسباب   غیر ہیں اور اس زمانہ کے وجوہات و اسباب سے کلی طور پر مختلف ہیں ۔دونوں اقسام کے اسباب و وجوہات میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔

وہ اگر اس وقت کمزور تھے , ان پر جہاد فرض نہیں تھا تو اوپر بیان کردہ وجوہات و اسباب کا مطالعہ بتاتا ہے  کہ  ان کی کمزوری میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا, وہ شریعت کے مکمل پابند تھے , ان کی طرف سے کوئی کوتاہی یا کمی نہیں تھی  بلکہ وہ بالکل طبعی و فطری تھا ۔ ان کی کمزوری کا سبب حقیقی تھا مصنوعی یا نقلی نہیں تھا ۔

اس کے برعکس :

آج اگر ہم کمزور , لاچار, بے بس و مجبور ہیں تو اس کا سبب ہم خود ہیں , اور یہ ہمارے اپنے کرتوتوں و اعمال کا نتیجہ ہے ۔ ہماری اپنی کوتاہیوں و کمیوں کا انجام  ہے, ہم اپنی دینی و دنیاوی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے ہیں ,نہ ہمارے پاس دین ہے اور نہ دنیا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ہماری کمزوری و لاچاری نقلی, جھوٹی اور مصنوعی ہے, طبعی, فطری و اصلی نہیں ہے ۔

آخری بات : چلیے تھوڑی دیر کے لیے  مان لیتے ہیں  کہ  مسلمانان ہند یا دیگر  اقلیتیں حقیقت میں مکی زمانہ میں ہیں تو اس کو ختم کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟  اقلیتوں کو مکی زندگی سے باہر نکالنے کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری مسلمان ممالک کی ہے ۔ اللہ تعالى قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا(نساء/75) معلوم ہوا کہ مظلوم و مقہور مسلمانوں کی مدد کرنا مسلمان ممالک کی ذمہ داری ہے ۔ اور اگر بین الاقوامی معاہدے و  دو طرفہ تعلقات اور اتفاقات  اس میں رکاوٹ ہیں تو کئی اسباب و وجوہات کی بنیاد پر  غیر مسلم ممالک  کو خبردار کرکے   اس کو ختم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ علماء و فقہاء نے صراحت کی ہے ۔

لیکن افسوس تو اسی بات کا ہے کہ آج ہم اس پوزیشن میں قطعا نہیں ہیں کیونکہ   بیشتر  مسلمان ممالک خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے ہیں , وہ اپنی حفاظت کے لیے خود  دوسروں پر منحصر ہیں, تو وہ کیا مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں گے۔ بلا شبہ یہ امت ایک امت ہے لیکن یہ صرف آج کتابوں و تقریروں میں ہے , عملی طور پر نہیں ہے بلکہ آج اس کی وحدت میں مصنوعی سرحدیں حائل ہیں جو ہمارے دشمنوں کی تیار کردہ ہیں ۔آج  تو حالت یہ ہے کہ اگر کسی غیر مسلم ملک کے مظلوم مسلمان کسی مسلمان ملک میں پناہ لینا  چاہتے ہیں تو مسلمان ممالک کا دروازہ ان کے لیے بند ہے ۔ان کی جنگی مدد کرنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ اور بہت ساری باتیں ہیں جن کا ذکر اوپر آچکا ہے ۔   

ان سب کو جان لینے کے بعد :

 پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں  کہ آج کے مسلمان خواہ وہ مسلمان دنیا کے ہوں یا غیر مسلم دنیا کے  مکی زمانہ میں زندگی گذار رہے ہیں یا آج کا زمانہ مکی زمانہ کے مثل ہے اور دور حاضر کے مسلمانوں کی کمزوری مکی زمانہ کے مسلمانوں کی طرح ہے  ۔دونوں کے درمیان مختلف اعتبارات سے  آسمان و زمین کا فرق ہے , آج کے زمانہ کو عہد رسالت سے اور دور حاضر کے  مسلمانوں کو صحابہ کرام سے یا آج کی کمزوری کو مکی زمانہ کی کمزوری سے   تشبیہ دینا دراصل ان کی  توہین کرنا اور ان کی شان میں گستاخی کرنا ہے , یہ ایک گناہ و جرم عظیم ہے اور کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے ۔ ہم ان کے پاؤں کے دھول کے برابر بھی نہیں ہیں,  ہم ان کے مقابلے میں کہیں بھی نہیں ٹہرتے ہیں ۔پھر ہم کس منہ سے کہتے ہیں کہ ہم مکی  زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں  اور کیسے رونا روتے ہیں کہ ہم بہت ہی عاجز, لاچار, بے بس و کمزور ہیں , اور کیسے ہمارے بہت سارے علماء اپنی زبانوں سے یہ بات کہہ پاتے ہیں اور کیسے أپنے اقلام سے اس قسم کی تحریریں لکھ پاتے ہیں ۔ یہ امت کی رہنمائی نہیں اس کو گمراہ کرنا ہے , یہ حکمرانوں کی چاپلوسی اور ان کی خوشآمدہے ,ان  کے  ترک جہاد کےلیے وجہ جواز فراہم کرنا ہے ۔تاکہ یہ امت  اپنی خرابیوں و کو تاہیوں میں پڑی رہے اور اوپر اٹھنے کی کوشش نہ کرے ۔ ہمیشہ اسی طرح سوتی رہے اور کبھی بیدار نہ ہو۔

اس کے بجائے اگر ہمارے علماء عوام سے عمل کرنے کو کہتے , اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنے کی بات کرتے ,  مسلمان ممالک میں اتحاد و اتفاق پیدا کرتے ,  مصنوعی سرحدوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے , صنعت و حرفت, سائنس و ٹکنالوجی میں غیر مسلموں سے آگے نکلنے کے لیے حکمرانوں پر دباؤ ڈالتےوغیرہ تو ہماری حالت یہ نہیں ہوتی  جو آج ہے لیکن بہت ہی افسوس, دکھ , غم و تکلیف کی بات ہے کہ مسلمانوں کا ہر طبقہ بشمول علماء و حکمراں اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہیں ۔

ہم مسلمان, علماء و حکمراں اپنی کمزوری کے لیے  مکی زمانہ کا رونا کب تک روئیں گے ۔کب تک اپنی کمزوری کے لیے عذر لنگ تلاش کرتے رہیں گے , اس سے جلد از جلد باہر نکلنے کی ضرورت ہے  اور ضروری تیاری کرکے اپنی کمزوری کو ختم کرنا ہے نہ کہ اس کے لیے بہانہ تلاش کرنا ہے۔ وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

 


 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: