علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ : شیخ الکل فی الکل و ما ہر علوم و فنون ( دوسری و آخری قسط)

 

   <script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4702673796649958"

     crossorigin="anonymous"></script>

علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ       ( دوسری  قسط)

                  شیخ الکل فی الکل وما ہر علوم و فنون 

ماسٹر مقالہ کے لیے مواد خصوصا دستاویزات کی فراہمی کے لیے پہلے میں نے  شعبان 1421ھ /نومبر 2000ع میں پاکستان کا علمی سفر کیا ۔ وہاں سے واپسی کے کچھ دنوں بعد ذو القعدہ 1421ھ/فروری 2001 ع  میں نے بریطانیہ کا سفر کیا ۔ دونوں ملکوں کا  سفر کرنے سے پہلے آپ سے ملا اور مشورہ کیا ۔آپ پاکستان جانے سے روک رہے تھے کیونکہ اس وقت دونوں ملکوں کی افواج آمنے سامنے تھیں ۔میں نے آپ سے کہ کہ آپ کچھ افراد کے نام تعاون کے لیے لیٹر دیدیجیے  ۔ تو آپ نے میرے  کہنے پر منع کرنے کے باوجود وہاں کی کئی شخصیات کے نام کچھ  خطوط لکھے ۔ اور ان سے میرے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کیے کہا۔ اس کے علاوہ جامعہ میں زیر تعلیم بعض پاکستانی طلباء خصوصا شیخ انس و حفظ الرحمن نے کافی تعاون کیا تھااور ان کے سے بھی میں نے خطوط لیا تھا جن سے مجھے کافی سہولت ہوئی ۔ جزاہم اللہ عنی کل خیر ۔

اسی طرح بریطانیہ سفر کرنے سے پہلے بھی آپ نے وہاں کے کئی افراد کے نام خط لکھا  اور میرے ساتھ تعاون کرنے کے لیے کہا ۔ ان میں سے ایک خط آپ نے میرے سفر سے پہلے شیخ محمد شعیب میر پوری کے نام لکھا تھا جو اس وقت وہاں جمعیت اہل حدیث کے صدر تھے  ۔ اس خط کا فوٹومیرے پاس اب بھی محفوظ ہے:---

 

1423 ھ کی بات ہے کہ جب مقالہ کا ریویو کا دن متعین ہوگیا  تو میں نے اپنا پورا ضخیم مقالہ شروع سے آخر تک ایک بار پھر پڑھا ۔ اور جہاں جہاں مجھے کسی بھی قسم کا کوئی  شک و شبہ تھا  اس کی ایک فہرست بنائی ۔ اور پھر آپ سے ٹائم لے کر ان تمام اشکالات و شبہات کو رفع کیا تاکہ ریویو کے دن کسی قسم کی پریشانی پیش نہ آئے ۔

اسی طرح  1433 ھ میں ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے مناقشہ سے قبل  سوالات خصوصا نحوی  کی ایک فہرست لے کر آپ سے  عزیزیہ میں مسجد عمر بن خطاب کے بغل میں واقع حرم مکی کی  لائبریری میں  ملاقات کی اور اپنے التباس و شکوک و شبہات کو رفع کیا۔

غر ضیکہ جب تک میں مکہ میں رہا آپ سے برابر بوقت ضرورت ملاقات کرتا رہتا تھا ۔ طلباء کی اکثر میٹنگوں میں  آپ ضرور تشریف لاتے تھے ۔ اور کسی نہ کسی موضوع پر آپ خطاب فرماتے تھے اور لوگ بہت شوق سے سنتے تھے ۔آپ جس موضوع پر بولتے تھے اس کا حق ادا کردیتے تھے ۔ آپ کے گھر پر کئی بار طلباء کی اس طرح کی میٹنگوں میں حاضر ہونے کا موقع ملا ۔مزدلفہ میں ایک موقع پر آپ نے طلباء کے اصرار پر راگ کے ساتھ  شعر پڑھ کے سنایا تھا  تب مجھے پتہ چلا کہ آپ شعر بھی ترنم سے پڑھتے ہیں, یہی نہیں بلکہ آپ شعر بھی کہتے تھے لیکن بعد میں آپ نے شعر کہنا بالکل ترک دیا  ۔

جامعہ ام القری کے اہل حدیث طلباء کا ایک معمول یہ تھا کہ وہ ہر جمعہ کے دن بعد نماز باب بلال پر تھوڑی دیر کے لیے باہمی ملاقات کے لیے  جمع ہوتے تھے ۔ علامہ عزیر بھی اکثر و بیشتر اس میں موجود ہوتے تھے ۔

مکہ میں   فیملی کے ساتھ مقیم کچھ  اہل حدیث اساتذہ  وطلباء کا ایک خاص گروپ تھا جو   ڈاکٹر عبد الوہاب, ڈاکٹر اختر جمال, علامہ عزیر , ڈاکٹر وصی اللہ عباس وغیرہ پر مشتمل تھا  ۔   فیملی لانے کے بعد میں بھی اسی گروپ میں شامل ہوگیا ۔ اس گروپ کے افراد   ہر سال عید کے موقع پر باری باری ایک دوسرے کے گھر  جاتے  تھے ۔ اور یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہتا تھا ۔ کبھی کبھار پروگرام بنا کر سارے فیملی والے منی یا مزدلفہ یا کدی میں جمع ہوتے تھے تھے ۔اس طرح سب سے ملاقات و استفادہ کا موقع ملتا تھا۔

آپ نے ماسٹر کا میرا پورا ضخیم رسالہ از اول تا آخر پڑھا تھا  اور اس کی خوب تعریف بھی کی تھی لیکن جب میں نے ان سےگذارش کی  کہ آپ اپنا اس کی بابت  تاثرات قلمبند کردیجیے تو آپ نے  معلوم نہیں  کس وجہ سے ایسا نہیں کیا اور میں نے اس کے لیے آپ پر زیادہ دباؤ ڈالنا مناسب بھی نہیں سمجھا  ۔ در اصل ان کا ایک کویتی دوست یوسف تھا  جس کو یہ مقالہ  بہت زیادہ پسند تھا اور وہ اس کا عاشق تھا ۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ یہ رسالہ زیور طباعت سے آراستہ ہوجائے ۔ اسی بنیاد پر آپ نے پڑھنے کے لیے مجھ سے طلب کیا تھا ۔اور میں نے  آپ کو دیا تھا ۔ آپ کی بھی خواہش تھی کہ یہ مقالہ زیور طباعت سے آراستہ ہو ۔ابھی 29/ ستمبر 2022 ع کو استاد محترم مولانا ابو القاسم فاروقی صاحب  حفظہ اللہ سے موبائل پر گفتگو ہوئی تھی تو آپ نے کہا کہ عزیر شمس کہہ رہے تھے کہ مجھے تعجب ہے کہ عبد المنان نے اسے ابھی تک نہیں چھپوایا ہے ۔میں نے شخصی طور پر کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی ۔اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ  غیب سے اس مقالہ کی  طباعت کا انتظام فرمائے ۔ آمین

آپ طلباء کے لیے منعقد کیے جانے والے پروگرام" نبراس"  میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ و ان کے تجدیدی کارناموں پر محاضرہ دینے کے لیے بدھ و جمعرات  6-7 / فروری 2019 ع کو جامعہ محمدیہ تشریف لائے تھے ۔بدھ کو جب آپ شریعت کالج کے ہال میں لیکچر دینے کے لیے مولانا ارشد مختار کے ساتھ رواں دواں تھے تو اس وقت میں اپنے استاد کے کمرہ میں بیٹھا ہوا تھا ۔ آپ خود اندر آئے اور مچھ سے ملاقات کی اور حال چال پوچھا ۔ اور اسی دن رات میں چہل قدمی کرتے ہوئے آپ سے میدان میں  ملاقات ہوئی تو آپ نے تصنیف و تالیف کی بابت پوچھا تو میں نے جواب دیا کہ یہاں پر کوئی مرکز بحوث نہیں ہے ۔ تو کہنے لگے کہ رات میں  مہمان خانہ میں اس  موضوع پر گفتگو ہوئی تھی  ۔  پھر دوسرے دن آپ کے ساتھ مہمان خانہ میں دوپہر کا کھانا تناول کرنے کا موقع ملا۔

یہ آپ سے ہماری آخری ملاقات تھی  جو فروری 2019 ع میں ہوئی ۔اس کے بعد رو برو آپ سے کوئی ملاقات نہ ہوسکی ۔

جامعہ محمدیہ سے ستمبر 2020ع میں على گڑھ منتقل ہونے کے بعد کئی وجوہات کی بنا پر آپ سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا لیکن جب سوسائٹی کی تشکیل کے بعد مئی 2021 ع سے مجلہ اصلاح و ترقی نکالنا شروع کیا اور اسلامی مدارس نمبر نکالنے کا ارادہ ہوا تو آپ سے بھی واٹسپ کے ذریعہ رابطہ قائم کیا  اور ایک پیغام بھیجا ۔ ساتھ ہی  مجلہ کا دوسرا شمارہ  اور موضوعات کی فہرست بھی بھیجی  ۔ وہ پیغام اور جواب دونوں درج ذیل ہے :-----

میرا پیغام بتاریخ 23/جون 2021 ع :

بسم اللہ, السلام علیکم ور حمۃ اللہ و برکاتہ, میں نے اصلاح و ترقی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی تشکیل دی ہے جس کے تحت  الحمد للہ مختلف کام ہور ہے ہیں ۔ ایک ماہانہ مجلہ بھی نکل رہا ہے ۔ اسی مجلہ کا اسلامی مدارس نمبر نکالنا ہے۔ میں آپ کے پاس موضوعات کی فہرست بھیج رہا ہوں ان میں سے کوئی ایک موضوع اختیار کرنے کی درخواست ہے۔ مجھے امید ہے کہ کسی نہ کسی موضوع پر ضرور تحریر کرں گے۔بہت بہت شکریہ

آپ کا جواب اسی دن میں :

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته   آج آپ کی تحریر ملی اور مجلہ کا دوسرا شمارہ دیکھا۔ اللہ کرے اس کی اشاعت جاری رہے۔ مضامین مفید اور متنوع ہیں۔ ہمیں مذہبی و معاشرتی اصلاح اور تعلیمی و اقتصادی ترقی پر توجہ دینا چاہیے۔ افسوس کہ مدارس میں جو  نصاب پڑھایا جاتا ہے اس سے دور حاضر میں کام کرنے والے افراد پیدا نہیں ہوتے۔ ان کی اصلاح کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔ فراغت کے بعد جدید تعلیم گاہوں میں چند سال گزار کر سیکھنا چاہیے کہ جدید دور کا تقاضا کیا ہے اور ہمارے یہاں جو کوتاہی اور کمی ہے اسے کیسے دور کریں۔ اہل مدارس کو نصیحت بہت ہو چکی ۔ مزید تحریر و تقریر و تجویز کا کوئی فائدہ نہیں ۔ آپ مدارس اور علماء کے بجائے عوام اور جدید تعلیم یافتہ حضرات کو خطاب کریں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔

اس کے بعد اسی دن اور 24 / جون کو  مزید کئی بار  پیغام کا باہمی تبادلہ ہوا  جس میں آپ نے اسلامی مدارس و جامعات  کی تنقید کی اور مجھے مزید مشوروں سے نوازا۔ علاوہ ازیں  میں نے  میں نے آپ سے آن لائن خطاب کرنے کی گذارش کی  ۔ لیکن آپ نے کسی وجہ سے  آخری میسیج کا جواب نہیں دیا ۔ تو میں نے بھی آپ کے اوپر زیادہ دباؤ نہیں ڈالا کیونکہ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کی بات تسلیم نہیں کرتا ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے ۔ اس پر زیادہ  دباؤ  ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی  ہے ۔

 اس کے بعد میں نے 21/ جولائی 2021ع کو آپ کو عید کی مبارکباد دی  تھی جس کا جواب آپ نے اسی دن دیا تھا ۔ اس کے بعد آپ سے پرسنل خط و کتابت نہیں ہوئی ہاں میں میگزین کا نیا شمارہ آپ کو گاہے بگاہے  بھیجتا رہتا تھا ۔

آپ کا علم و فضل و شخصیت

   یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

آپ جامعہ سلفیہ بنارس سے 1976 ع میں فارغ ہوئے تھے ۔ جامعہ اسلامیہ , مدینہ منورہ سے عربی زبان کالج سے عربی میں 1401ھ/1981 ع میں   بی اے کیا تھا ۔ اس کے بعد ام القرى یونیورسٹی مکہ سے " التاثیر العربی فی شعر حالی و تاثیرہ" کے موضوع پر1406 ھ / 1985 میں  ایم اے کیاتھا ۔ اور پھر آپ کا داخلہ مکہ ہی میں  ڈاکٹریٹ میں ہوگیا تھا اور آپ نے اپنا مقالہ مکمل کرکے اس کو ریویو کے لیے پیش کردیا تھا ۔ لیکن 1411ھ/ 1990 ع میں  آپ کے مصری  مشرف  نے کچھ چیزوں کے بدلنے کا مطالبہ کیا ۔ جس کو آپ نے اس بنیاد پر ماننے سے انکار کردیا کہ اگر کوئی تبدیلی کرانی تھی تو پہلے کیوں نہیں کہا۔ اب مقالہ مکمل کرنے کے بعد میں کوئی  تبدیلی نہیں کروں گا ۔ آپ اپنے موقف پر ڈتے رہے ۔ اور مشرف اپنی بات پر اڑا رہا ۔ آپ نے اسے منانے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا ۔ آپ نے کچھ واسطہ وغیرہ بھی لگایا لیکن کامیابی نہیں ملی۔ کیونکہ آپ کے مشرف نے ایک خفیہ رپورٹ لکھ کرکے مدیر الجامعہ کو بھیج دی تھی ۔ اور طالب علم خواہ اس کا مقام و مرتبہ کتنا ہی بلند ہو ایک استاد کی نگاہ میں وہ طالب ہی ہوتا ہے ۔اور اساتذہ ایک استاد کے مقابلے میں کم ہی طالب علم کی حمایت کرتے ہیں ۔خیر یہ معاملہ بہت طول پکڑتا گیا ۔ اور اس میں شیخ کے کئی سال تقریبا 1991سے 1999 ع تک نو سال لگ گئے ۔ اس وقت جامعہ میں اتنی سختی نہیں تھی ۔ خیر جامعہ نے ایکشن لیا اور آپ کا نام طلباء کی لسٹ سے ہٹادیا گیا ۔میں نے آپ سے خود پوچھا تھا  کہ آپ کے مقالہ کا مناقشہ کیوں نہیں ہوا جب آپ نے جواب دیا تو میں نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ کیا آپ نے اس کے لیے واسطہ لگا یا کہ نہیں۔اوپر جو کچھ میں نے ڈاکٹریٹ کی بابت تحریر کیا ہے اسی کی روشنی میں ہے ۔

 اور آپ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے بہت زیادہ پریشان بھی نہیں تھے ۔آپ کہتے تھے کہ کہیں بھی یہ رسالہ پیش کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے لوں گا ۔ لیکن شاید علمی مشغولیت کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے ۔ اور آپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈگری کی کیا ضرورت ہے ۔ اور بلا شبہ آپ ڈگری سے بے نیاز تھے ۔ اوراس کو آپ نے عملا ثابت بھی کردیا اور  آپ جیسا ہر ذو علم شخص ڈگری سے بے نیاز ہوتا ہے ۔

خیر جو بھی ہوا  آپ کے حق میں بہت بہتر ثابت ہوا ۔بلا شبہ اللہ کا ہر فیصلہ اپنے بندہ کے حق ہی میں ہوتا ہے لیکن انسان اسے سمجھ نہیں پاتا ہے ۔ ایک معاملہ جو ایک طویل عرصہ سے لٹکا ہوا تھا وہ ختم ہوا اور آپ کو نفسیاتی سکون و اطمینان میسر ہوا ۔ اس کے بعد آپ نے دلجمعی , سکون و لگن کے ساتھ تا حیات ریسرچ کا کام کیا ۔اور شایدآپ  انڈیا کے حالات اور خصوصا مدارس کے  حالات کی وجہ سے یہاں آنے کی جرات نہیں کرسکے اور انہوں نے وہیں پر رہ کرکے علمی کام کرنے کو ترجیح دی ۔ کیونکہ آپ اسلامی مدارس کے حالات سے بہت زیادہ نالاں تھے اور ان میں زمانہ کے مطابق اصلاح چاہتے تھے ۔اور ان کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ مدارس بند نہ ہوجائیں ۔انہوں نے اپنے23/جون 2021 ع کے  ایک  میسیج میں لکھا: ----

کئی بار مدارس والوں سے گفتگو ہوئی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ شبلی نے بھی ندوہ میں اصلاح کا بیڑا اٹھایا ناکام رہے۔ میں بھی اس موضوع پر لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں سمجھتا۔ طنطاوی صاحب کے بقول ہمیں لکھنے اور بولنے سے زیادہ کام پر توجہ دینا چاہیے۔ فارغین کے اندر احساس ہو تو اصلاح کی وہ  روش اختیار کر سکتے ہیں جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ مدارس والے اپنی چہار دیواریوں میں مگن ہیں انھیں اس کا احساس نہیں کہ تھوڑے عرصے کے بعد  مدارس بصورت موجودہ ختم ہو جائیں گے اور اسلامی تعلیم کے یہ ادارے ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی باقی نہیں رہیں گے جب تک کہ انہیں عصر حاضر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جائے گا۔ اللہ کرے میرے خدشات غلط ثابت ہوں اور اہل مدارس اپنے وجود و بقا کی جنگ جیت جائیں۔

ملازمت

اس کے بعد آپ کی زندگی کا ایک نیا مرحلہ شرع ہوتا ہے ۔ طالب علمی کا دور ختم ہوتا ہے اور سروس کا زمانہ شروع ہوتا ہے ۔ آپ کو ایک مشہور دار نشر " دار عالم الفوائد " مکہ میں بحث و تحقیق , تصنیف و تالیف کی  علمی  ملازمت مل گئی  جو آپ کی  علمی و تحقیقی طبیعت کے بے حد موزوں و مناسب تھا ۔اور یہ مرحلہ آپ کی وفات تک جاری رہتا ہے ۔ بلا شبہ  یہ آپ کی زندگی کا سب سے شاندار و بہترین مرحلہ ہے جس کے دوران آپ نے علم  و تحقیق, تصنیف و تالیف کے میدان میں عظیم علمی کارنامہ انجام دیا ۔ علامہ ابن تیمیہ و ابن قیم کے کتابوں کی تحقیق کی اور اس کو از سرنو زیور طباعت سے آراستہ کرنے کا سامان فراہم کیا ۔آپ کے زیادہ تر علمی کام اسی مرحلہ کی دین ہیں   جو تقریبا 23 سالوں پر محیط ہے ۔ وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔

بلا شبہ آپ کا علمی قدو قامت  بہت  ہی بلند ہے ۔ آپ ایک مایہ ناز مشہور عالمی پیمانہ کے محقق  و مؤلف ہیں ۔  آپ نے علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم کے کتابوں کی خاص طور سے تحقیق کی ہے ۔ آپ کی تالیفات کم ہیں لیکن جو ہیں بہت ہی اہم و شاندار ہیں ۔ آپ کے مقالات کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے ۔ آپ کی علمی بھاری بھرکم شخصیت اور علمی کاموں سے کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔ لیکن میرے خیال میں ایک تھوڑی سی  کمی رہ گئی ۔ اور یہ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ خیال ابھی میرے ذہن میں آیا ہو بلکہ یہ بہت دنوں سے بلکہ مکہ  ہی سے میرے ذہن میں تھا  کہ آپ نے تصنیف الکتب تو کیا لیکن باقاعدہ تصنیف الرجال نہیں کیا ۔ بلا شبہ آپ سے علمی فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بے شمار ہے ۔لیکن اگر  آپ چاہتے تو باقاعدہ تدریس کے ذریعہ طلباء  کی تربیت کرکے ایک ایسی نسل تیار کردیتے جو آپ کے علوم و افکار و نظریات سے بہرہ ور ہوتی اور آپ کے مشعل کو اٹھائے رکھتی ۔ کیونکہ طلباء بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ۔ اگر چہ آپ کو کسی علمی و تعلیمی مدرسہ یا یونیورسٹی میں تدریس کا موقع نہیں ملا لیکن یہ کام آپ کسی ہال یا مسجد یا اپنے گھر میں باقاعدہ طور پر ہفتہ میں دو تین  دنوں کے لیے شام کے اوقات میں صرف  دو گھنٹوں کے لیے انجام دے سکتے تھے ۔ اگر آپ ایسا کرتے تو بہت سارے طلباء آپ سے فائدہ اٹھاتے اور ان کی  تعداد بے شمار ہوتی ۔ ہوسکتا ہے کہ کسی وجہ سے آپ نے ایسا کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ آپ نے مخطوطات کی  تحقیق  کی راہ کیوں اختیار کی اور علامہ ابن تیمیہ و ان کے شاگرد رشید امام ابن قیم کی کتابوںپر فوکس کیوں کیا ؟ اس کے بہت سارے وجوہات و مختلف اسباب  ہو سکتے ہیں جن میں ایک اہم سبب ان  کی  اپنی ذاتی دلچسپی و لگاؤ ہے ۔ وہ پہلے ہی سے مخطوطات کے گرویدہ تھے ۔ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا, ان کا مطالعہ کرنا ان کا ایک بہترین مشغلہ  و شوق تھا ۔پھر علامہ ابن تیمیہ اس امت کے مجدد ہیں اور ان کی مؤلفات بہت ہی بیش قیمتی  ہیں لہذا انہوں نے ان پر فوکس کیا ۔ اس کے علاوہ تجارتی ناحیہ بھی اہم ہے جس کا ہر ناشر و دار نشر خیال رکھتا ہے ۔ کیونکہ اگر دار نشر سے شائع کردہ کتابیں فروخت نہ ہوں تو دار نشر کہاں سے تنخواہ دے گا اور کیسے خرچ چلائے گا ۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ سلفی عرب علامہ ابن تیمیہ و ان کے شاگرد کی کتابوں کے عاشق ہیں ۔ ان کے کتابوں کی مارکیٹ ہے اور وہ بہت جلد مارکیٹ سے فروخت ہوجاتی ہیں ۔ لہذا ان کی کتابوں کی تحقیق کا فیصلہ کیا گیا۔ وغیرہ لیکن بلا شبہ پہلا سبب ہی بنیادی سبب ہے ۔

میں مکمل یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر آپ  مخطوطات کی تحقیق کی راہ کے علاوہ تفسیر , حدیث , فقہ , اصول فقہ یا کوئی بھی علمی میدان اختیار کرتے تو اس میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیتے اور جس طرح آج دنیا ان کو  محقق  کبیر و ماہر معارف ابن تیمیہ کے نام سے جانتی ہے آپ کو مفسر و محدث یا اصولی کے نام سے جانتی ۔

میں نے اپنی زندگی میں  آپ جیسا عالم , عبقری , ذہین و فطین و و سیع معلومات والا  شخص نہیں دیکھا ۔ آپ بجا طور پر  شیخ الکل فی الکل اور ماہر علوم و فنون  تھے, آپ بے پناہ صلاحیتوں کے حامل تھے ۔آپ ایک چلتا پھرتا کمپیوٹر تھے ۔ آپ اپنے اقران میں بہت سارے علماء و فضلاء پر مختلف زبانوں کے جاننے و وسعت معلومات کی وجہ سے فوقیت رکھتے ہیں ,آپ اپنے عصر میں لاثانی و بے نظیر تھے۔ بلاشبہ آپ غضب کے ذہین تھے ۔اور آپ کے پاس تقریبا ہر سوال کا جواب ہوتا تھا۔آپ کی شخصیت ایک علمی شخصیت تھی, اور اسی کے لیے آپ نے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا ۔ اور اسی علمی و تحقیقی دنیا میں مگن رہتے تھے ۔اور سب کا علمی تعاون کرتے تھے ۔

آپ کے علمی تبحر کا اندازہ اس وقت ہوتا تھا جب آپ سے کوئی سوال پوچھا جاتا اور فورا آپ اس کا تشفی بخش جواب  دیتے تھے ۔ آپ حدیث کا مکمل حوالہ دیتے کہ فلاں حدیث فلان فلاں کتاب میں ہے ۔ آپ کو اکثر مشاہیر و علماء کی سن و لادت و سن وفات ازبر تھی اور آپ فورا بتلا دیتے تھے ۔ایک دفعہ میرے گھر پر عزیزیہ میں طلباء کی میٹنگ تھی ۔ ڈاکٹر وصی اللہ حفظہ اللہ خطاب کر رہے تھے ۔ بیچ میں ابو شامہ مقدسی کا ذکر آیا ۔ آپ نے ان کی سن ولادت پوچھی ۔ آپ نے فورا بتلادیا۔ بلا شبہ تواریخ کا ازبر رکھنا  ایک بہت مشکل کام ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا حافظہ غضب کا تھا ۔ و ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء ۔

تواضع آپ کے اندر کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی ۔ اس کی شہادت ہر کوئی دیتا ہے ۔آپ بہت ہی متواضع و منکسر المزاج شخص تھے ۔مرنجان مرنج صفت کے آدمی تھے جو آپ میں بہت زیادہ نمایاں تھی ۔

میں نے اتنی لمبی رفاقت و معیت میں کبھی بھی آپ کو  غصہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نہایت حلیم , صبور و برد بار تھے ۔

میں نے دیگر طلباء کی طرح مواسم میں آپ کو عارضی و موسمی  کام کے لیے بہت زیادہ  پریشان یا دوڑ بھاگ کرتے  ہوتے نہیں دیکھا ۔ ایسی بات نہیں ہے کہ آپ دور طالب علمی میں کام نہیں کرتے تھے ۔ کام ملنے پر آپ ضرور کام کرتے تھے لیکن بہت سارے طلباء کی طرح آپ اسی کے لیے پریشان نہیں رہتے تھے ۔

افسوس کی بات ہے کہ آپ کی نسل میں  فی الحال کوئی آپ کا علمی وارث نہیں ہے کیونکہ آپ کا ایک ہی لڑکا عبد اللہ ہے جو انجینیر ہے اور بچیوں نے اعلى دینی تعلیم نہیں حاصل کی ہے ۔ ان سب نے بھی جدہ انڈین ایمبیسی اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے ۔

بلا شبہ علم و علماء کے قدر دانوں و  اسلامیات میں دلچسپی و شغف رکھنے والے عربوں نے آپ کی قدر کی لیکن مجھے اسلامی ممالک کے قوانین و ریوں پر تعجب و افسوس ہوتا ہے جو اپنے یہاں موجود اعلى  صلاحیتوں  و بہترین ذہانت کی قدر و تکریم نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو وہ حق و مقام  دیتے ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر آپ کسی یورپین یا امریکن  ملک میں ہوتے تو آپ کو بہت پہلے نیشنلٹی مل گئی ہوتی ۔ اور  آپ کو کسی بھی تعلیمی ادارہ  میں  بہترین تنخواہ کے ساتھ تعلیم و تربیت  کے لیے رکھ لیا جاتا۔ لیکن مقیم ملک میں سرکاری طور پر  آپ کی کوئی قدر نہیں ہوئی ۔ آپ کو کسی گورنمنٹ ادارہ یا یونیورسٹی میں  کوئی  سرکاری نوکری نہیں ملی  اور نہ ہی أپ کے ڈاکٹریٹ کے مسئلہ کو صحیح طریقے سے حل کیا گیا۔ اور نہ ہی آپ کی ذہانت سے فائدہ اٹھایا گیا۔ جس نے کہا سچ کہا ہے کہ مسلمان ممالک میں عقول و صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے لیکن ہمارے یہاں صلاحیتوں کو مارا جاتا ہے اور ان کے یہاں پروان چڑھایا جاتا ہے ۔  

آپ کی تدفین  17/ اکتوبر 2022ع کو سوموار کے دن بعد نماز فجر جنۃ المعلاۃ میں ہوئی جس میں ایک کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ آپ کے تمام نیک اعمال کو قبول فرمائے ۔ آپ کی تحقیقات و تصنیفات کو صدقہ جاریہ بنائے ۔ آپ کی خطاؤں کو بخش دے , جنت الفردوس میں جگہ دے اور آپ کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: