تملق اور چاپلوسی: ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

 

              تملق اور چاپلوسی:  ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے



تملق اور چاپلوسی ایک ایسی مذموم , گھناونی  اور قابل مذمت برائی ہے کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔یہ چاپلوس کے بد ترین  اخلاقی گراوٹ و روحانی افلاس کی بین و واضح دلیل ہے۔ایک چاپلوس محض أپنی ذاتی منفعت و شخصی مفاد کے لیے أپنے نفس کو دوسروں کے ہاتھ میں فروخت کردیتا ہے, وہ أپنی ضمیر کا سودا کر لیتا ہے۔ أپنی غیرت کا خون کردیتا ہے,  قوم و ملت کے مفاد کو قربان کردیتا ہے ۔اس کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز کو أپنی ذاتی مفاد کے عینک سے دیکھتا ہے,وہ بظاہر أپنی ذات کو چھوڑ کے ہر کسی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوتا  ہے۔ وہ حدیث رسول" واللہ لایؤمن أحدکم حتى یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ( بخاری و مسلم)"  کی سراسر مخالفت کرتے ہوئے أپنے لیے تواعلى منصب و بہترین  عہدہ و تنخواہ پسند کرتا ہے جبکہ دوسرے کے لیے ذلت و خواری کا طالب ہوتا ہے۔ایک چاپلوس کے اندر ان تمام صفات کا یکجا طور پر پایا جانا ضروری ہے ورنہ وہ چاپلوس نہیں بن سکتا ہے اور نہ ہی اس کے اندر صفت چاپلوسی پائی جاسکتی ہے۔

چاپلوسی میں ایک دو نہیں بلکہ سیکڑوں خرابیاں ہیں ۔ چاپلوس خود أپنی عاقبت نہیں خراب کرتا ہے بلکہ دوسرے کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبتا ہے۔ " ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے "  اس کا نعرہ ہوتا ہے , اور اس کا سب سے بہترین مثال بھی وہی ہے,وہ خود أپنے اوپر ہی نہیں بلکہ سماج و معاشرہ پر بھی ظلم کرتا ہے۔  وہ دوسروں  کا آلہ  کار ہوتا ہے۔ان کے ہاتھوں کا کھلونا ہوتا ہے وہ جس طرح چاہتے ہیں اس سے کھیلتے ہیں , اس کے علاوہ وہ جھوٹ بولتا ہے , جھوٹی رپورٹ بناتا ہے۔ اور اس کے بارے میں صاحب معاملہ سے کچھ پوچھتا بھی نہیں ہے بس أپنی رائے قائم کر لینا کافی سمجھتا ہے ۔اور اسی کو حرف آخر سمجھتا ہے۔چاپلوسی کے ذریعہ  ایک اہل, نا أہل اور ناأہل,  أہل بن جاتا ہے, ایک حقدار أپنے حقیقی حق سے محروم جب کہ ایک غیر مستحق نا حق حقدار بن جاتا ہے۔

يقينا چاپلوسی کے ذریعہ دوسروں کا حق مارا جاتا ہے۔کتنے با صلاحیت و قابل  لوگ ہیں جو چاپلوسی کی بھینٹ چڑھ گئے,امت ان کی صلاحیت و قابلیت سے محروم ہوگئی۔چاپلوس سماج میں زہر کی کاشت کرتا ہے۔اگر کسی قوم   میں یہ مذموم صفت عام ہوجاتی ہے تو اس سے اس قوم کی اخلاقی گراوٹ کا پتہ چلتا ہے ,  اس کا مطلب ہے کہ وہ قوم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکی ہے ۔لیکن ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اگر خیر امت کے اکثر  حکمراں و  علماء  اس مذموم صفت میں مبتلا ہوجائیں  جیسا کہ آج کل ہے تو پھر اس امت کی کیا حالت ہوگی اس کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔یہ ایک ناسور ہے جو پوری قوم کو کھوکھلا کر دیتی ہے, یہ ایک ایسی لا علاج بیماری ہے جو سماج کو تباہ و برباد کردیتی ہے, اس کو ترقی سے دور کر دیتی ہے,  قوم کا بیڑا غرق کر دیتی ہے, اس کا جنازہ نکال دیتی ہے, پھر وہ قوم و جماعت کسی کام کے لائق نہیں رہ جاتی ہے۔

میری ناقص رائے میں  عموما چاپلوسی وہی کرتا ہے جو ہر طرح کی قابلیت و صلاحیت سے محروم ہوتا ہے  یا بغض و حسد کا شکار شکار ہوتا ہے , جس کو دوسروں کو ترقی بالکل أچھی نہیں لگتی ہے یا جو شہرت ,منصب  و قربت کا بھوکا ہوتا ہے, اور بھی اسباب ہو سکتے ہیں  کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ أپنی صلاحیت کے بل بوتے ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتا ہے, أپنی خواہشات کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا ہے لہذا وہ ان کے لیے یہ شارٹ  کٹ  راہ اختیار کرتا ہے۔اور عصر حاضر میں امت مسلمہ کے تنزل و  تخلف ,  پچھڑے پن  اور پسماندگی کے اہم اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کیونکہ آج امت میں چاپلوسوں کی کثرت ہے , حق بات کہنے والو کی بے حد کمی ہے۔بہت سارے علماء بھی اس  میدان میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اللہ خیر کرے, ہم سب کو چاپلوسی سے محفوظ رکھے  اور  اسلامی اخلاق و صفات کو أپنانے کی توفیق عطا کرے۔ آمین

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: