اور جب رسوم و رواج کے سارے بندھن ٹوٹ گئے

 

                                               بسم اللہ الرحمن الرحیم

             اور جب رسوم و رواج کے سارے بندھن ٹوٹ گئے

شادی ہر صحیح, تندرست, عاقل و بالغ انسان مرد و عورت کی اشد  فطری ضرورت ہے, یہ نسل انسانی کی بقا کا ذریعہ بھی ہے, اور انسان کا خالق اللہ تعالی ہے ,  چنانچہ  خالق سے بڑھ کر انسان کی فطرت کو کون جانتا ہے , اور اسلام بھی اللہ کا دین ہے  اسی لیے اللہ نے  انسانی فطرت کے تقاضہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسلام میں  شادی کو بہت ہی  آسان بنایا ہے ۔اور   اسلام دین فطرت ہے جو انسان کی فطرت و طبیعت کو مارنے کے بجائے اس کا صحیح حل پیش کرتا ہے, اسلام یہ بالکل نہیں چاہتا ہے کہ اس کا کوئی بھی حکم انسانی طاقت وقوت یا  وسعت اور پہنچ سے باہر ہو , اسی لیےاسلامی قانون سازی میں اس چیز کا از حد  لحاظ رکھا گیا ہے  اور اسی حساب سے ہر چیز کو انسانی عمل کے قابل بنایا گیا ہے, اگر کوئی قانون ایسا ہے جس پر کوئی فرد یا جماعت یا گروہ عمل نہیں کر سکتا ہے تو تقریبا ہر قانون میں استثناء رکھا گیاہے , مثلا زکوۃ غیر نصاب والے پر  فرض نہیں ہے, اسی طرح حج و عمرہ  کی فرضیت سے غیر مستطیع  کو نکال دیا گیا ہے, رمضان کا روزہ نہایت بیمار و بوڑھا شخص پر نہیں ہے, وغیرہ  ,  اور یہی خوبی  اسلام کے افضل, خیر دین و وسطیت کی سب سے بڑی علامت ہے, اسی نقطہ نظر سے اسلام نے شادی کو بھی بہت ہی آسان بنایا ہے کیونکہ یہ ہر انسان کی فطری ضرورت ہے جس کا پورا کیا جانا ضروری ہے ورنہ انسان خود بھٹک جاتا ہے, أپنی جنسی خواہش کی تسکین کے لیے حرام طریقہ اختیار کرتا ہے, اور اس کی وجہ سے   سماج و معاشرہ میں جو  بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں ,   کئی قسم کے بگاڑ  اور طرح طرح کے  فساد پیدا ہوجاتے  ہیں  وہ الگ ہے,  خیر اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسلام میں شادی بہت زیادہ آسان ہے,  مہر و ولیمہ جو شادی کے واجبات میں سے ہیں وہ ہر انسان اسراف و تبذیر سے بچتے ہوئے اور غریبوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے أپنی طاقت کے مطابق کر سکتا ہے شریعت میں  اس کی کوئی تحدید نہیں ہے۔

   اسلام کے اس شاندار انسانیت نواز  قانون پر  ہمارے اسلاف نے عملی طور پر   خوب  عمل کیا ہے۔خود ہمارے پیارے نبی نے أپنی تمام شادیاں انتہائی سادگی سے انجام دی ہیں, علاوہ ازیں آپ نے اپنی بیٹیوں کی شادی بھی انتہائی سادگی سے اسلامی قانون کے مطابق  کیا ہے, تاریخ کے اوراق میں اس طرح کے  سیکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں واقعات موجود ہیں, بلکہ  تاریخ میں شادی کے ایسے واقعات مذکور ہیں جن پر آج کا مسلمان مشکل سے یقین کرے گا, انہیں میں سے ایک واقعہ حضرت سعید بن مسیب کا  بھی ہے جنہوں نے  بادشاہ وقت کے پیشکش کو ٹھکڑا دیا  جس نے أپنے بیٹے و  ولی عہد یعنی کراون پرنس  کے ساتھ  ان کی بیٹی کی شادی کی بات رکھی تھی, بادشاہ کے مطالبہ کے باوجود اپنی بیٹی کی شادی سے انکار کردیا  اور أپنے ایک فقیر شاگرد ابو وداعہ کے ساتھ   انتہائی سادگی سے شادی  کر دی  جو آج کے مسلمانو کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ذرا سوچئے کہ کیا کوئی وقت کے ولی عہد اور مستقبل کے بادشاہ کے ساتھ أپنی بیٹی کے رشتہ سے انکار کرتا ہے۔

لیکن ہائے افسوس بعد کے زمانہ میں جس طرح مسلمان رفتہ رفتہ اسلام سے دور ہوتے گئے انہوں نے شادی کو بھی غیر اسلامی بنادیا , انہوں نے  اس میں بہت سارے  غیر اسلامی رسوم و رواج مثلا بارات, جہیز, مہندی پسائی, منہ دکھائی, نیگ  وغیرہ  داخل کر دئیے جن سے اسلام بری ہے,  أپنی طرف سے بہت سارے فرضی حقوق بطور مثال مادرانہ حق, سالی کا حق, پھوپھی کا حق وغیرہ متعین کر دئیے جن کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے,  دیگر قوموں کی عادات و تقالید کو اپنا لیا اور اس کو فرض سمجھ کے انجام دینے لگے, شادی کو مختلف رسوم و رواج کے بندھن میں جکڑ دیا گیا  جن کو توڑنا بے دینی تصور کیا جاتا ہے اور جن سے سماج و معاشرہ اور لوگو کے طعنہ کے ڈر سے  باہر نکلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے, بلکہ اس پر عمل کرنا دین مانا جاتا ہے, جس سے آج کے دور میں شادی مشکل سے مشکل تر ہوگیا ۔یہی وجہ ہے کہ آج کے  زمانہ  میں مسلمان خواتین کی ایک بڑی تعداد بنا شادی کے أپنے گھروں میں رہنے پر مجبور ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اور یہ مسئلہ صرف بر صغیر کا نہیں ہے بلکہ تمام مسلمان  ممالک میں معمولی اختلاف کے ساتھ  تقریبا یہی حالت ہے , مالدار ممالک میں تو حالات اور زیادہ خراب ہیں, بس فرق اتنا  ہے کہ کہیں دولہا بکتا ہے تو کہیں دولہن فروخت ہوتی ہے۔ہر علاقے کے رسوم و رواج بھی کچھ الگ  اور جدا  ہوتے ہیں ,  لیکن  رسوم و رواج کی نوعیت کچھ بھی ہو اور یہ کتنے بھی  مختلف ہوں ان سے شادی پر غیر معمولی  اثر پڑتا ہے, اور اسلام کی آسان و سہل شادی بہت ہی مشکل ہوجاتی ہے ۔

میں الحمد للہ شروع  ہی سے أپنی زندگی میں کامل اسلام پر عمل کرنے کا حامی رہا ہوں , ہر قسم کے  رسوم و رواج کا سخت مخالف رہا  ہوں, اور یہی میری دعوت بھی ہے, میں نے أپنے طلباء سے بارہا اس کا اظہار کیا ہےاور یہ بات کہی ہے اور اسلام کو أپنی ذاتی زندگی میں نافذ کرنے پر  زور دیا ہے , اور میرا ارادہ رسوم و رواج کے خلاف جنگ چھیڑنے و تحریک چلانے کی ہے, میں نے اپنے  شاگردوں میں اس کا اعلان بھی کیا ہے اور ان شاء اللہ یہ کام جلد شروع ہوگا۔

لہذا  گذشتہ سال نومبر2020 ع میں  جب مجھے اللہ سبحانہ و تعالى نے أپنے بیٹے عزیزم عبد الرحمن مدنی کی شادی کى توفیق عطا فرمائی  تو میں نے أپنے ارادہ  کو عملی جامہ پہنانے کا مکمل ارادہ کیا, اور یہ میرے لیے أپنے کو ثابت کرنے کا ایک موقع بھی تھا تاکہ قول و فعل میں مطابقت ہو سکے, اور دنیا خصوصا أپنے شاگردوں کے سامنے ایک مثال قائم ہوسکے, لہذا میں نے  اسلام کے مطابق محض اللہ کے فضل و کرم سے ایک مثالی اسلامی شادی کی جس میں کسی بھی قسم کا کوئی بھی رسم و رواج نہیں ہوا, چھوٹے  و معمولی  رسم  ورواج مثلا مہندی پسائی وغیرہ سے لیکر بڑے رسم و  رواج  مثلا  بارات و جہیزتک کو سماج کے طعنہ و ملامت گر کے ملامت کی پرواہ کیے ہوئے بغیر  میں نے أپنے پاؤں تلے روند دیا,  دولہا , اس کے والد و دادا کو لے کر کل صرف چھ أفراد تھے جو لڑکی کے گھر گئے تھے,  کسی بھی قسم کا رسم رواج کہیں بھی نہیں انجام دیا گیا, میں نے أپنے اہل خانہ و أعزہ و أقرباء کو کسی طرح کے رسم و رواج کی اجازت نہیں دی اور ان کو سختی سے منع کردیا تھا۔

 اس طرح بفضلہ تعالی خود ساختہ عادات و تقالید کی ساری زنجیریں ٹوٹ گئیں,سماج و معاشرہ کے سارے اصنام زمیں بوس ہوگئےاور  رسوم و رواج کے سارے مضبوط بندھن ٹوٹ گئے۔

  یہاں پر یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ  ایسا کرنے کے لیے میرے سامنے کوئی مجبوری نہیں تھی , اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی  دباؤ تھا,  بلکہ میں آزاد تھا اور لڑکی کے گھر والے میری ہر ڈیمانڈ کو پوری کرنے کے لیے تیار تھے , ان کی خواہش تھی کہ میں بارات لاؤں, جہیز  وصول  کروں بلکہ  وہ أپنی خوشی سے بن مانگے جہیز دے رہے تھے,  اور وہ میری ہر ڈیمانڈ کو پوری کرنے پر قادر تھے , اللہ تعالی نے ان کو نوازا ہے, ان کا مشترک خاندان ہے, اور ان کے یہاں بارات و جہیز معمول رہا ہے, لیکن میں نے صرف اور صرف اللہ کی رضامندی کی خاطر ان تمام غیر اسلامی رسوم و رواج کو چھوڑدیا اور وہ بھی صرف أپنی خواہش  سے, میں نے اس بابت أپنی زبان تک نہیں کھولی,اور نہ ہی چھوٹی و بڑی کسی بھی چیز کا میں نے مطالبہ کیا,  اوریہ بھی   واضح کردوں کہ بر وقت  ایسا  کرنا ہمارے لیےکوئی  آسان  کام نہیں تھا  بلکہ بہت ہی مشکل تھا خصوصا آج کے کورونا وبا کے دور میں جب کہ  میں أپنی سروس سے بھی محروم ہوچکا ہوں اور اس وقت  میری آمدنی نا کے برابر ہے,یہ تو فقط اللہ کا فضل و کرم ہے کہ ناموزوں وغیر مناسب حالات کے باوجود مجھے ثابت قدم رکھا اور ہر امتحان و آزمائش میں کامیاب کیا ورنہ ان حالات میں بڑوں کے پیر بھی ڈگمگاجاتے ہیں خصوصا جب مغریات یعنی لالچ میں ڈالنے والی چیزوں  کی بھر مار ہو۔ معلوم ہوا کہ حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہو اگر انسان پختہ عزم کر لیتا ہے تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔

آخر میں یہ توضیح بھی ضروری ہے کہ  میری اس تحریر کا مقصدأپنی بڑائی بیان کرنا یا أپنی  تعریف  کے پل باندھنا ہر گز نہیں ہے  یا یہ بتلانا نہیں ہے کہ میں اس مبدان میں تنہا مرد مجاہد ہوں , ہر گز نہیں , بلکہ آج کے اس گئے گذرے دور میں بھی مجھ سے بدرجہا بہتر  ہزاروں پابند شریعت مسلمان ہیں جوأپنے بچوں بچیوں کی  اسلامی شادی کرتے ہیں,میرا مقصد  فقط دوسرے مسلمانو  خصوصا  ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے أپنے عزیز شاگردوں کو عمل کرنے کی دعوت دینا ہے اور ان کو یہ بتلانا ہے کہ میں  نے عملی طور پر اپنی تحریک کا آغاز کردیا ہے, اب آپ اس سے جڑ سکتے ہیں , اور ان کو  دین کو أپنی زندگی میں نافذ کرنے پر ابھارنا ہے,اور ہر قسم کے ناسازگار حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کو تیار کرنا ہے, سچ ہے ہمت مرداں مدد خدا,  اللہ تعالی ہم سب کو اسلام کا پابند بنائے اورقول کے بجائے عمل و کردار کا غازی بنائے۔آمین,

 اس تحریر سے اگر  کوئی کسی قسم کا أثر لیتا ہے اور اس  کی زندگی میں  کسی طرح کی کوئی ادنی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی , اللہ تعالی قبول فرمائے , آمین  


التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

2 التعليقات:

avatar

الحمدللہ استاذ محترم آپ نے ایسے رسم رواج کے دور میں بہت اچھا کام ہے اللہ آپ سے دین کا اور کام لے اور ہمارے لیے دعا کریں اللہ ہم سب کو اس طرح سادگی سے شادی کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

avatar

محترم جناب ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق مکی حفظہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

امید کرتا ہوں کہ آپ مع اہل وعیال خیریت سے ہوں گے
الحمدللہ میں بھی مع اہل وعیال خیریت سے ہوں
اس دور میں آپ کا یہ قدم قابل تعریف و مستحسن اقدام ہے اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے اور جزاے خیر سے نوازے آمین یارب العالمین۔