خلافت کی اہمیت و افادیت

خلافت کی اہمیت و افادیت

اسلام کی چودہ سو سالہ طویل تاریخ میں  امت مسلمہ بہت سارے سنگین و خطرناک , مہلک وتباہ کن حالات سے دوچار ہوئی ہے۔ چھٹی و ساتویں صدی ہجری تو اس کے لیے نہایت ہی تباہ کن و خطرناک تھی۔حالات اتنے خراب تھے کہ  اس کے فنا و بقاء  کا مسئلہ درپیش تھا ۔ کیونکہ انہیں صدیوں میں  کبھی  مشرقی فتنہ تاتار نے اس کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشس کی تو کبھی مغرب کے  صلیبیوں نے اس کو فنا کے گھاٹ اتارنا چاہا ۔ ایک طرف جہاں تاتاریوں  نے کئی  مسلمان ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ خلافت اسلامیہ کے  مرکز بغداد کو تباہ و برباد کردیا ۔ مسلمان خلیفہ  کو قتل کردیا ۔ وہیں دوسری طرف  صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا۔ اور کئی صلیبی  حکومتوں کو شام میں قائم کردیا۔لیکن اسلام و مسلمانوں نےاس  دور میں  کچھ اپنے باغیور و بہادر و باضمیر علماء و حکمرانوں مثلا سلطان العلماء العز بن عبد السلام , نور الدین زنکی, سلطان صلاح الدین ایوبی, ظاہر بیبرس, قلاوون وغیرہ  کے زیر قیادت ان خطرناک حالات کا پامردی سے مقابلہ کیااور دشمنوں کے مقابلے میں ڈتے رہے اور بالاخر دونوں یعنی علماء و حکمرانو غالب دشمن   طاقتوں کو شکست دینے میں  کامیاب رہے۔ اس طرح  خود بھی زندہ رہے اور اسلام کو بھی زندہ رکھا۔تاریخ میں یہ زمانہ دور وسطى کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دور وسطى کے  مسلمان ان تباہ کن و مہلک فتنوں کو انگیز کر لے گئے کیونکہ ان کے اندر اس وقت اگر چہ  بہت ساری خرابیا ں تھی پھر بھی ان میں ایک امت کا تصور کافی حد تک  باقی تھا کیونکہ اسلام کا نظام خلافت زندہ تھا اور خلیفہ کا وجود تھا۔ اور دنیا کے تمام مسلمانوں کا اس سے  دینی وقلبی  لگاو تھا۔علاوہ ازیں بہت سارے کلمہ حق کہنے والے علماء موجود تھے  جو عوام کے علاوہ حکمرانوں کو راہ راست دکھاتے تھے اور بنا کسی خوف و ڈر کے حق بات کہتے تھے۔ دینی حمیت سے لبریز اور غیرتمند مذکورہ بالا  کچھ مسلمان حکمران بھی تھے جن کو مسلمانوں کی پسپائی و ذلت  بالکل نہیں برداشت تھی ۔ اور جن سے  اسلام کی یہ بد ترین حالت دیکھی نہیں جاتی تھی ۔ لہذا انہوں نے بے انتہا  کوشس و محنت  کی جس کے نتیجہ میں اللہ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی۔اور وہ اپنے ان تاریک دور سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن ادھر آخری تین  صدیوں  ( 19- 21 صدی عیسوی ) میں مسلمانوں پر جو ذلت طاری ہوئی ہے اور جو سیاسی, اقتصادی و سماجی  زوال  آیا ہے وہ ختم ہونے کا نا م نہیں لے رہا ہے ۔بلکہ دن بدن مسلمانوں کی ذلت , رسوائی , کمزوری اور پسپائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روز برز شکست و خواری  ان کا مقدر بن گئی  ہے۔آئے دن بہت سارے ممالک مثلا برما, سوریا, عراق, افغانستان, وسطی افریقہ وغیرہ  میں ان کا قتل عام ہورہا ہے۔ بہت سارے ملکوں  فرانس , بلجیم,سوئزر لینڈ وغیرہ میں اسلامی شعائر پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں ۔ بھارت سمیت کئی جگہ ان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔ ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔چین میں تو ایغور مسلمانوں کے نماز وروزہ پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ تو آخر اس کے وجوہات و اسباب  کیا  ہیں ؟
میری رائے  میں اس کے بہت سارے اسباب و وجوہات ہیں ۔ کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔ لیکن  اس کے بڑے اسباب میں سے:  امت کے تصور کا مٹ جانا , اس کا باہمی تنازعہ, اختلاف و تفرقہ  اور  مختلف ملکوں کا قیام اور ان کی جدا جدا  سرحدیں ہیں ۔ اور ان سب میں سر فہرست 1924 ع میں مصطفى   کمال یہودی کے ذریعہ  خلافت کا خاتمہ ہے۔ کیونکہ اسلام اور مسلمان دشمنوں کو چودہ صدیوں میں جو سب سے بڑی کامیابی ملی ہے وہ خلافت اسلامیہ کا خاتمہ ہے۔اسلام کی تاریخ میں  اس سے بڑی اور کوئی کامیابی  ان کو نہیں  ملی ہے۔یہ ان کی سب سے بڑی سازش اورسب سے بڑی کامیابی ہے جس کا موازنہ کسی اور کامیابی یا سازش سے نہیں کیا جا سکتا ہے اور جس کے سامنے تمام کامیابیاں و فتوحات ہیچ ہیں بلکہ اگر اس کو یعنی خلافت اسلامیہ کے خاتمہ کو ایک پلڑا میں اور دیگر ہر طرح کی کامیابیوں و فتوحات کو ایک پلڑا میں رکھا جائے  تو خلافت کا پلڑا بھاری ہوگا۔ایسا میں اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ خلافت کے خاتمہ کی وجہ سے مسلمانوں  کے اتحاد کا پارہ پارہ ہونا, ان کے شیرازہ کا منتشر ہونا, اور ان میں مزید سیاسی , دینی  خصوصا سیاسی تفرقہ, اختلاف اور تنازعہ ہے جو دن بدن اور گہرا ہوتا جا رہا ہے ۔ اور وہ  زبر دست نقصانات ہیں جو امت نے مختلف میدانوں میں اٹھائے ہیں اور اب بھی اٹھا رہی ہے۔ نیز خلافت کا وہ مرتبہ ومقام اور اہمیت و افادیت ہے جو اس کو شریعت میں حاصل ہے۔
خلافت کی اسی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ہی ہمارے دشمنوں نے خلافت کو نشانہ بنایا ۔ اس کو ختم کردیا ۔اور پھر اس پر خوشی ہی نہیں منائی بلکہ ببانگ دہل یہ اعلان بھی کردیا کہ ہماری آرزو ہے کہ اب کبھی دنیا میں آئندہ خلافت قائم نہ ہو۔افسوس تو اس کا ہے کہ ہمارے دشمن اس بات کو سمجھتے ہیں  لیکن آج کے حکمران و علماء اس کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اور أپنے کو حالات کے سامنے بے بس و عاجز پاکر اس کے احیاء کی کوئی کوشس نہیں کر رہے ہیں۔
بلا شبہ خلافت جس کو امامت عظمی بھی کہا جاتا ہے تمام اسلامی فرائض کا تاج ہے۔خلافت قول کے بجائے فعل کا نام ہے۔خلافت  ہی وہ اہم شے ہے جو دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک بینر تلے بنا کسی فرق و اختلاف کے آپس میں جمع کرتا ہےاور ان میں بنا کسی قومی ووطنی تفریق کے حقیقی و معنوی اتحاد پیدا کرتا ہے۔جو مسلمان ملکوں کو بنا سرحدوں و ویزا کے آپس میں حقیقی طور پر جوڑتا ہےاور ان میں اصلی  اتفاق و اتحاد پیدا کرتا ہے۔جو مسلمانوں کو ذلت , پسپائی و رسوائی سے بچاتا ہے۔جو دین و شریعت کی تنفیذ کرتا ہے۔ جو ہر طرح کی  برائی کو مٹاتا اور ہر قسم کی بھلائی کو فروغ دیتا ہے۔جو یہ یاد دلاتا ہے کہ پوری دنیا کے  مسلمان خواہ وہ کسی بھی ملک یا خطہ کے ہوں  حقیقت میں ایک امت ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔جس کی اطاعت و فرماں برداری نہ صرف پوری دنیا کے مسلمانوں پر بلکہ تمام حکمرانوں پر واجب ہے۔خلافت اسلام کے سیاسی نظام کا اہم جز ہے۔ خلافت اسلامی سلطنت و حکومت کی شان وشوکت , طاقت و قوت ہے جو بیرونی مداخلت سے آزاد ہے اور جس میں خود کفالت ہے۔ جو مسلمانوں کے مفادات و مصالح کا پوری دنیا میں نگہبان و محافظ ہے۔ جو مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد کا رمز ہے۔جو ان کو کسی بھی وقت ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتا ہے۔ جودشمنوں کے لیے خطرہ کی گھنٹی اور باعث رنج و غم ہے۔ جو پوری دنیا کے  مظلوموں و مجبوروں کی آخری  آس و امید ہے۔ جو جہالت, فقرو فاقہ اور مرض کا علاج ہےوغیرہ  ۔ غرضیکہ خلافت شریعت کی نظر میں ایک بہت عظیم فريضہ ہے  جس کو قائم کرنا مسلمانوں خصوصا علماء و حکمرانو پر فرض ہے اور جس کے بے شمار فوائد ہیں۔
خلافت کی اس اہمیت و افادیت کے باوجود  افسوس کرنےو رونے کا مقام ہے کہ یہ امت 92 سال سے بنا خلافت و خلیفہ کے گذر بسر کرہی ہے۔اور  آج کے نہ صرف مسلمان بلکہ علماء بھی اس سے غافل ہیں۔ عوام بیچارے تو خلافت نام سے بھی واقف نہیں ہیں۔اس میں غلطی ان کی نہیں بلکہ ہم علماء حضرات کی ہے جو خلافت و سیاست پر لب کشائی کرنا  شاید خلافت شریعت یا  ناقابل معافی سیاسی جرم تصور کرتے ہیں جبکہ ان کی یہ خاموشی ناقابل معافی جرم اور حق کو چھپانا ہے۔اپنی ذمہ داری سے بھاگنا اور کنارہ کشی اختیار کرنا ہے۔اور ان کی یہ خاموشی میری سمجھ سے باہر ہے۔کیونکہ حقیقی اتفاق و اتحاد کے بغیر مسلمان نہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت بحال کرسکتے ہیں نہ ہی طاقت و قوت حاصل کرسکتے ہیں۔اور حقیقی اتفاق و اتحاد کا تصور بھی خلافت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔
لہذا ہم  علماء پر واجب ہے کہ پہلے اسلام کے اس عظیم فريضہ کو خود سجھین ۔ پھر  مسلمانوں  کو خلافت کی اہمیت و افادیت کے بارے میں بتلائیں ۔ان کو اس کے فوائد سے آگاہ کریں۔ حکمرانوں کو اس کے لیے آمادہ کریں ۔ اس کی مصلحتوں سے ان کو روشناس کرائیں ۔  اس طرح سے ایک بار پھر خلافت کے نظام کو زندہ کرنے کی کوشس کریں کیونکہ اسی میں پوری امت کی بھلائی ہے اور موجودہ ذلت ورسوائی و پسپائی سے باہر نکلنا ہے اور اس کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنا ہے۔
اب سوال یہ ہےکیا امت کے تمام علماء ایک جگہ جمع ہوکر خلافت کے بارے میں کوئی  اہم و فیصلہ کن فیصلہ کر  سکتے ہیں ؟ موجودہ مسلمان حکمرانوں کو خلیفہ کے انتخاب پر آمادہ کر سکتے ہیں اور امت کو موجودہ پستی و ذلت سے نکال سکتے ہیں؟
دیکھنا یہ ہے کہ ابھی امت کو اس کے لیے اور کتنا انتظار کرنا ہوگا۔
                وما علینا الا البلاغ, وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
                      سنیچر 6 رمضان 1437 ھ/11 جون 2016ع 


التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

2 التعليقات:

avatar

اس مضمون کے لیے بہت شکریہ , بارک اللہ فیکم و نفع بکم, موجودہ دور میں اہل حدیث علماء کے لیے یہ موضوع تو شجرہ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے ( شیخ عبد الفتاح ریاض, واٹسپ میسیج بتاریخ 18 جولائی 2020 ع بوقت 7:56 ص )

avatar

بہت عمدہ تحریر ہے ما شاء اللہ ( شیخ نور عالم , مدینہ منورہ, واٹسپ میسیج بتاریخ 17 جولائی 2020 ع بوقت 5:18 م )