مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ

پہلی قسط
      برادران اسلام : اللہ تعالى کا فرمان ہے : ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتى یغیروا ما بانفسہم (                    رعد/11)  یعنی اللہ عز وجل کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا ہے جب تک کوئی قوم خود اپنی حالت نہ بدل لے۔اور ایک دوسری آیت میں ہے:ذلک بأن اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمہا على قوم  حتی یغیروا ما بانفسہم , وأن اللہ سمیع علیم   (انفال/53) ترجمہ: یہ اس لیے کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنی حالت کو  نہیں بدل دیتى, اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
     حضرات  گرامی : سب سے پہلے تو میں یہ وضاحت کردوں کہ اللہ عز وجل نے اوپر کی ان دو آیتوںمیں اپنی ان قوانیں و سنتوں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اس دنیا سے ہے, کیونکہ اس دنیا میں مسلم و غیر مسلم بہت ساری قومیں آباد ہیں جن کا خالق اللہ کے ما سوا کوئی نہیں ہے , اور ان کو بھی اسی دنیا میں ایک مقررہ مدت تک زندگی گذارنی ہے, لہذا اللہ نے اس دنیا کے لیے چند اصول و ضوابط اور قوانیں مقرر کر دیے ہیں  جن کو الہی اور ربانی سنتیں اور قوانین کہا جاتا ہے , اور  جن میں مسلم و غیر مسلم , مشرک و غیر مشرک , موحد و غیر موحد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے , یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالى سب کو روزی دیتا ہے , سب کو پانی , ہوا اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرتا ہے,کیونکہ اس دنیا کی اللہ کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں ہے, جیسا کہ حدیث میں ہے: لو کانت الدنیا  تعدل (تساوی )عند اللہ جناح بعوضۃ ما سقى کافرا منہا  شربۃ ماء یعنی اگر اس دنیا کی قیمت اللہ کی نگاہ میں ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو وہ  کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نا عطا کرتا,( یہ حدیث ترمذی, ابن ما جہ , بیہقی , ابن عدی اور ابو نعیم کی ہے اور صحیح لغیرہ ہے) معلوم ہوا کہ یہ دنیا  اللہ کے نزدیک بہت ہی حقیر اور بے وقعت ہے, لہذا  دنیاوی معاملات میں اللہ نے بندوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے بلکہ چند الہی قوانیں ہیں جن کے مطابق یہ دنیا چل رہی ہے اب اگر کوئی بھی -قوم مسلم یا غیر مسلم -ان الہی قوانیں کو اپناتی ہے, اس پر عمل پیرا ہوتی ہے تو اس کو دنیا میں عروج , سربلندی, عزت , طاقت و قوت, ثروت و دولت حاصل ہوگى , اور اگر کوئی بھی قوم ان الہی سنتوں سے روگردانی کرتی ہے, أن سے منہ موڑتی ہے تو  دنیا بھی اس سے منہ موڑ لے گی اور اس کا  نہایت برا انجام ہوگا۔
       یہ جان لینے کے بعد اب آیئے ان آیات کی روشنی میں ہم اپنی امت کا جائزہ لیتے ہیں ۔
         برادران اسلام : اسلامی تاریخ کا ایک ادنى طالب علم بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ بعثت نبی سے پہلے عربوں کے سیاسی , دینی , اقتصادی,سماجی ,طبی, زراعتی اور تعلیمی وغیرہ حالات کیسے تھے, عرب ہر لحاظ سے دنیا کی ایک گئی گذری ہوئی قوم تھی , ان کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں تھی, وہ دوسروں کے زیر نگیں تھے, آپس میں ہمیشہ لڑتے رہتے تھے,  سودخوری ,شراب نوشى , زنا کاری عام تھی , لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے, عورت کی کوئی حیثیت اور عزت نہیں تھی , خانہ بدوش قوم تھی ,  تہذیب و تمدن سے یکسر تہی دست تھی , یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے, ان کی  تفصیل تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہےجن کا مطالعہ یہ سب جاننے کے لیے کافی ہوگا, بلکہ جلیل القدر صحابی حضرت  جعفر طیار نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے سامنے زمانہ جاہلیت اور اس دور کے عربوں کی جو تصویر کشی کی  تھی صرف اسی کا مطالعہ کر لینا ہی کافی ہوگا, غرضیکہ عرب ہر لحاظ سے عمومی طور بہت ہی بے وقعت, حقیر اور ذلیل تھے۔
       یہ تو تصویر کا ایک رخ ہوا , اب آیئے تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں جو اسلام کے بعد کا ہے۔
    یہی عرب  نبی کی بعثت اور اسلام کی آمد کے ایک عرصے بعد اللہ کے فضل و کرم اور آپ اور آپ کے ساتھیوں کی انتھک محنت اور جدو جہد کے بعد اسلام میں داخل ہوئے, اور اسلامی تعلیمات کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ان کو بسرچشم اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں نافذ کیا, اور ان پر صدق دل سے عمل پیرا ہوئے, یعنی انہوں نے اپنی زندگی اور اپنے حالات کو مکمل طور سے اسلام کے مطابق بدل لیا, اور کلی طور پر اسلام کے سانچے میں ڈھل گئے, خلاصہ کلام یہ کہ حتى یغیروا ما بانفسہم کی سچی تعبیر اور صادق نمونہ  بن گئے۔
     اور جب انھوں نے اپنے آپ کو  آیت کے اس جز کے مطابق ڈھال لیا , اپنی زندگی اور حالات کو بدل لیا, تو اللہ تعالى نے بھى ان کے حالات کو مکمل طور سے بدل دیا, لہذا اب انہیں عرب مسلمانوں نے  ایک مختصر مدت میں زندگی کے ہر میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے , سیاسی , دینی , سماجی , تعلیمی, اخلاقی , جنگی , تجارتی, صنعتی ,زراعتی , تہذیبی اور طبی  وغیرہ غرضیکہ ہر میدان میں انھوں نے بے نظیر اور بے مثال ترقی کی,چند ہی سالوں کے اندر  خلفاء راشدین کے دور میں  انھوں نے اس وقت دنیا کی دو سپر طاقتوں قیصر و کسرى کو شکست فاش دی بلکہ کسرى حکومت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا اور اس کا خاتمہ کردیا, پورے شامی ممالک پر قبضہ کرلیا, مصر اور لیبیا بھی  اسلامی حکومت کے زیر نگیں آگئے,  پھر بنو امیہ اور بنو عباسیہ کے دور میں  پورے شمالی   افریقہ , ایشیا اور یورب کے کے بھی ایک بڑے حصے پر اسلامی پرچم لہرانے لگا,  اور صرف جنگی میدانوں  میں ہی مسلمانوں نے پیش قدمی نہیں کى  بلکہ سماجی , سیاسی , اخلاقی , تہذیبی , تعلیمی وغیرہ ہر میدان میں انھوں نے بلندی کے جھنڈے گاڑے, جن کو جان کر ہر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے, تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے,مسلمانوں نے جوبلند , عظیم الشان  کارنامے انجام دیئے وہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں , ان کو ہم مختصر لفظوں میں اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ عرب قوم محکوم کے بجائے حاکم بن گئی , مغلوب سے غالب ہوگئی, متبع کے بجائے قائد بن گئی ,متعلم کے بجائے پوری دنیا کی ہر میدان میں  معلم بن گئی , کمزور سے طاقتور ہی نہیں  بلکہ دنیا کی سپر پاور بن گئی , اور اس کی تہذیب و تمدن کی روشنی سے پوری دنیا جگمگانے لگی, ذلت و خواری عزت و سرفرازی میں بدل گئی  اور وہ قیادت و سیادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئی ۔
  غرضیکہ انھوں نے اپنے حالات کو مکمل طور سے بدل لیا تو اللہ عز و جل نے بھی ان کے حالات کو بھی مکمل طور سے بدل دیا, چنانچہ وہ " ان اللہ لا یغیر ما بقوم  حتى یغیروا ما بانفسہم " کی عملی تفسیر تھے, اس کی زندہ مثال اور, جیتا جاگتا نمونہ تھے۔
     اسلامی بھائیو اور بہنو: یہ تھی ہمارے اسلاف کی بہترین اور شاندار داستان اوراس کی روشنی میں  پہلی آیت کی عملی اور سچی  تفسیر۔
       ان شاء اللہ اگلی قسط میں قرآنی آیت  " فخلف من بعدہم خلف أضاعو الصلاۃ و اتبعوا الشہوات فسوف یلقون غیا "( مریم /59) کے نمونہ اخلاف  کی داستان اور دوسری آیت کی تفسیر ان کے حالات کی روشنی میں پیش کی جائیگی۔
و ما علینا الا البلاغ

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: