گنور کا دعوتی سفر

<script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4702673796649958"
     crossorigin="anonymous"></script>

                                                     گنور کا دعوتی سفر  

اللہ کے فضل و کرم سے 20/مارچ 2023 ع کو گنور(گ پر ضمہ کے ساتھ )  (Gunnaur)  کے نصف شبی  اجلاس عام  میں شرکت کا موقع ملا ۔ گنور ایک چھوٹا قصبہ ہے جو سنبھل ضلع میں مشہور قصبہ  نرورا  (Narora) , ضلع بلند شہر  ,سے تقریبا دس  کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ نرورا  گنگا ندی  پر واقع ہے اور یہ قصبہ اپنے اٹامک پاور پلانٹ  اور گنگا پر تعمیر چودھری چرن سنگھ  بیراج   کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے ۔گنور  پہنچنے کے بعد سب سے پہلے میری ملاقات جناب  فیض یاب فیضی  حفظہ اللہ سے ہوئی جو وہاں مسجد اہل حدیث دالان والی  اور مدرسہ کے ذمہ دار ہیں اور چند احباب مل کے تمام ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں ۔آپ  نے سب سے پہلے یہ خوشخبری سنائی کہ اس قصبہ میں ستر گھر اہل حدیث ہوئے ہیں ۔ یہ جان کر دلی سکون و اطمینان ہوا اور بے حد خوشی ہوئی  کہ اہل حدیثیت کا روز بروز بول بالا ہورہا ہے اور لوگ اس میں اپنی مرضی سے داخل ہو رہے ہیں ۔

 اجلاس کا وقت بعد نماز عشاء  مقرر  تھا  اور مذکورہ  مسجد میں اجلاس کا انتظام کیا گیا تھا ۔ اس لیے   عشاء کے بعد  لیکن تھوڑی تاخیر سے ساڑھے نو بجے اجلاس کا آغاز ہوا ۔ سامعین کی کافی تعداد تھی ۔ سب سے پہلے مولانا سہیل فضل سنابلی  حفظہ اللہ  نے نماز کی اہمیت و فضیلت پر بہت ہی جامع انداز میں روشنی ڈالی ۔ اس کے چھوڑنے پر سزاؤں کا ذکر کیا ۔ اور مسلمانوں کو نماز پابندی  سے ادا کرنے کی تاکید کی۔ آپ کا خطاب ایک گھنٹہ تک جاری رہا ۔

اس کے بعد مولانا  عبد العظیم بلالی سنابلی  حفظہ اللہ نے خطاب کیا ۔ آپ کا خطاب رمضان کی مناسبت سے اس کی اہمیت و فضیلت اور  بنا کسی عذر شرعی کے اس کے چھوڑنے پر سزا کے بیان پر مشتمل تھا ۔ آپ نے رمضان میں موبائل سے دوری بنائے رکھنے کی تاکید کی ۔ وقت کو ضائع کرنے سے آگاہ کیا اور رمضان سے کما حقہ استفادہ کرنے کی نصیحت کی ۔ آپ نے بھی ایک گھنٹہ خطاب کیا ۔

اس کے بعد راقم نے خطاب کیا ۔ جس میں پہلے  اسلام ایک کامل دین ہے نیز  اسلام ایک عملی دین ہے جس میں عمل کرنا فرض و ضروری ہے  کی وضاحت کی گئی ۔ اس کے بعد قرآن وحدیث نیز علماء کے اقوال کی روشنی میں  رسوم و رواج کے ناجائز  ہونے کو واضح کیا گیا ۔خطاب  کے آخر میں بزرگوں اور جوانوں سے عہد لیا گیا کہ وہ رسوم و رواج پر اپنی زندگی میں عمل نہیں کریں گے ۔

یہ اجلاس ساڑھے بارہ بجے رات میں ختم ہوا ۔ اس کے بعد  علماء و کچھ مقامی افراد نے جناب فیض یاب فیضی کے یہاں رات کا  کھانا تناول کیا۔ میں نے الحمد للہ عشاء بعد فورا ہی آپ کے گھر پر کھانا کھا لیا تھا  اس لیے صرف چائے نوشی کی ۔  جومقامی حضرا ت کھانے  پر موجود تھے ان سب نے تقریروں کی خوب تعریف کی  اور مقررین علماء کرام کے انداز و بیان کو سراہا ۔

 میرے لیے سب سے اہم واقعہ اسی قصبہ کے  جناب نسیم گنوری سے ملاقات تھی جو پہلے بریلوی تھے, فاتحہ, درود, سوئم و چہلم وغیرہ کرتے تھے ۔ ان کے والد گھر کے بغل میں واقع مسجد مجنوں شاہ کے موذن تھے, 2008 ع میں یہ دبئی گئے ۔ وہاں پہلے دیوبندی بنے پھر اللہ کے فضل و کرم سے اہل حدیث ہوئے  اور اب  کافی سرگرم ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ میں جب بریلوی تھا تو بریلوی حضرات  میری کافی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کتنا نورانی چہرہ ہے ۔ چہرہ کتنا چمک رہا ہے ۔ وغیرہ اور اس کے بعد جب میں  دبئی سے اپنے وطن تشریف لایااور رفع یدین شروع کیا اور اہل حدیث مسلک کے مطابق نماز ادا کی ۔ تو وہی دوست و احباب جو پہلے میری تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے  تھے اب انہوں نے میری برائی شروع کردی  اور کہتے کہ یہ تو  مکھیاں بھگا رہا ہے, وہابی ہوگیا ہے , لا مذہب ہوگیا , اہل خبیث میں شامل ہوگیا ہے ,  اس کے چہرہ پر لعنت برس رہی ہے , اس کی شکل سور سے بھی بد تر ہے  اور کتنا خراب چہرہ ہے ۔ وغیرہ,  ان کو میری تقریر کافی پسند آئی ۔ اور ان کے ذریعہ کئی مشائخ سے تعارف ہوا ۔ وہ یہ لوگ ہیں جو اسی میدان میں سرگرم ہیں ۔

میں نے آپ سے گذارش کی ہے کہ آپ اپنے  اہل حدیث ہونے کا پورا واقعہ تفصیل سے لکھ دیجیے  اور اس کے نتیجہ میں کن مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی بیان کردیجیے تاکہ اس کو نشر کیا جا سکے اور حقیقت کا علم لوگوں کو ہوجائے ۔  اصل میں جب کسی کے پاس دلیل و حجت نہیں ہوتی ہے اور وہ لاجواب ہوتا ہے  تو وہ  پھر گالی گلوج کا سہارا لیتا ہے  اور دشنام طرازی پر اتر آتا ہے اور درپے آزار ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالى مسلمانوں کو ہدایت دے ۔ آمین

خیرکھانا تناول کرنے کے بعد تقریبا ڈیڑھ بجے رات میں  ہم لوگ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے اور ڈھائی بجے میں اپنے گھر على گڑھ پہنچ گیا ۔ کار کے ذریعہ  آمد و رفت میں کافی سہولت رہی اور سفر بھی آرام سے بنا کسی پریشانی کے طے ہوا ۔

آخر میں دعا ہے  کہ اللہ تعالى گنور مسجد و مدرسہ کے تمام ذمہ داروں کو ان کے حسن استقبال , ضیافت و اہتمام  پر جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم تمام مسلمانوں کے نیک اعمال کو قبول فرمائے ۔ آمین  


التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: